بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
شروع اللّٰہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے
جاتی گرمیوں میں اکثر شام کے وقت لوگ قریبی پارک کا رخ کرتے ہیں ۔شام کے چار بجے باغ میں خاصی گہما گہمی تھی ۔۔کچھ لوگ جوڑوں میں گھوم رہے تھے 'بچے جھولا جھول رہے تھے۔۔۔پرندوں کی واپسی کا وقت شروع تھا وہ بھی اڑان بھرنے کو تیار تھے۔ میں وہاں بیٹھی پرندوں کی آوازیں 'لوگوں کی آوازیں' میں سب سن رہی تھی ' پھر نا میری نظر اس پہ پڑی وہ ہجوم سے بے پرواہ تھی ' گھاس پہ بیٹھی ' چاکلیٹ کا ریپر کھولے' انگلی پہ چاکلیٹ لگاتی اور اسکو چاٹتی ' بڑی بڑی آنکھیں'پھولے پھولے گال ' پنک فراک پہنے ' دو چھوٹی چھوٹی پونیاں پہنے وہ انگلی کے پوروں سے چاکلیٹ کہا رہی تھی اور مجھے پرندوں کے غول میں ' لوگوں کے ہجوم میں وہ پری فطرت بچی پیاری لگ رہی تھی ۔وہ اتنی پیاری اور معصوم تھی کہ میں نا چا ھتے ہوئے بھی اس میں ڈوب رہی تھی ۔ "ہوتے ہیں نا کچھ لمحات اور منظر جن میں انسان ظاہری اور باطنی طور پہ ڈوب جاتا ہے ' اس سے نکلا بھی نہیں جاتا ' ان لمحات میں الگ ہی بہاؤ ہوتا ہے ' جس میں ہم بہتے ہی چلے جاتے ہیں ۔" وہ کھو ہوئے بس بولی جا رہی تھیں ' پھر دھیرے سے مسکرا دیں ۔ " خیر تو بس میں اسے دیکھی جا رہی تھی ۔ "تم نے بھی تو دیکھا تھا نا اسے نوراں؟۔" وہ گردن موڑ کر نوراں سے بولیں ۔ نوراں جو انکے قریب تھی' انکی عزیز تھی نے گہرا سانس بھرا اور اثبات میں سر ہلا تو انکی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی ۔ نوراں کی حامی انکے لیے بڑی معانی رکھتی تھی ۔"تبھی پتا کیا ہوا ؟ ۔۔۔۔میں نے دیکھا کہ اس نے چاکلیٹ کا ریپر وہی پھینکا اور چاکلیٹ والے ہاتھ اپنے خوبصورت فراک سے صاف کر دیے۔" وہ ہلکا سا ہنسی ۔۔وہ کھوئے ہوئے بول رہیں تھیں جیسے وہ ابھی بھی وہی ہوں اور وہ بچی انکے سامنے بیٹھی ہو۔ " یہ بچے بھی نا۔" اسکا اپنے فراک سے چاکلیٹ صاف کرنا انہے پسند آیا تھا۔ نوراں پہ لازم تھا وہ سب سننا ۔ " پھر اس کی ماں وہاں اگئی۔۔۔۔(نہیں بیٹا ایسے نہیں کرتے) اس نے وہ ریپر اٹھایا۔۔ ٹشو سے اسکے ہاتھ اور منہ صاف کیا اور چل دی۔" وہ بہت پیاری تھی۔۔۔ تھی نا وہ پیاری؟۔" اس عورت نے ایک بار پھر سے نوراں کی گواہی I just ۔نوراں نے پھر سے صرف سر ہلانے پہ اکتفا کیا ۔ وہ اٹھی اور آنکی الماری میں کپڑے ترتیب سے رکھنے لگی ۔۔۔یہ کام وہ پہلے کر چکی ہوتی اگر وہ خاموش ہوتیں ۔ کپڑے رکھ کر وہ مڑی اور اس عورت کی طرف دیکھا جو ابھی بھی کھوئی ہوئی تھی ۔ "اب آپ کھانا کھا لیں ۔۔۔لاوں کھانا؟ ۔۔۔ آپکو بھوک لگی ہوگی ۔۔۔ وقت بھی ہو گیا ہے۔" نوراں کی آواز پہ وہ چونکی ۔ " ہاں بھوک تو لگی ہے ۔۔۔۔۔اور تمھیں اب یاد آرہا ہے کہ کھانے کا وقت ہے۔۔۔۔۔ پہلے باتیں تو کروا لو ۔۔۔۔۔۔ جا و کھانا لاؤ ۔۔جلدی کرو۔" وہ غصے سے بولیں اور نوراں ماتھے پہ بل لائے بغیر وہاں سے چلی گئ اور وہ پھر ایک دفع باغ میں کھو گئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبتوں کا کال دیکھا
محبتوں کا ملال دیکھا۔
ہر چہرہ خوشنما
دقم ہر چہرہ پہ اک سوال دیکھا
صبح کے وقت وہ اٹھی ۔۔۔گھڑی پہ دیکھا صبح کے سات بج رہے تھی ۔" اف میں پھر نماز نہیں پڑھی ۔۔۔ آج بھی رہ گی ۔" وہ بیڈ پہ لیٹی لیٹی سوچ رہی تھی ۔ " تو لو بیٹا جی آج پھر فاطمہ بی ناراض ہوں گی۔" وہ سوچتی ہوئی بولی ۔بستر پہ لیٹے لیٹے اس نے سائیڈ ٹیبل پہ پڑے دودھ کے گلاس کو دیکھا جو ویسے ہی پڑا تھا۔ " اف ۔۔۔ میں یہ بھی نہیں پیا ۔۔۔۔کیا کرتی ہوں میں ۔۔۔کرتی ہی کیا ہوں میں ۔" اب وہ خود کو کوستے ہوئے اور دودھ کو دیکھتے ہوئے برے برے منہ بنا رہی تھی ۔اس نے کروٹ بدلی اور لیٹی رہی سوچتی رہی کہ کیا کرے۔" آئیڈیا۔" وہ کہتے ہوئے اٹھ بیٹھی اور بیڈ سے اتر کر ننگے پاؤں واش روم کے دروازے تک آئی ۔واشروم کے سلیپرز پہنے اور اندر گھس گئی۔ دس منٹ کے بعد وہ فریش ہو کے باہر تھی ۔۔۔۔ جلدی سے یونیفارم لے کر دوبارہ گھس گئ۔ باہر آئی بالوں کی پونی بنائی ۔۔۔نظر ایک دفع پھر گھڑی پہ ڈالی 7:30 ہو گئے تھے۔۔۔جلدی سے اپنے کمرے سے جڑے چھوٹے سے کمرے کی طرف گئی اور بیگ کے کر آئی ۔۔اور تیزی سے کمرے کے دروازے کی طرف بڑھنے لگی تبھی اس کی نظر خالی کلائی پہ پڑی ۔۔۔اس نے گھڑی نہیں پہنی تھی اور نہ پہنتی تو مام اسے سمجھنے میں دیر نا لگاتیں ۔۔۔اور آج وہ کسی بھی قسم کی بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھی اس لیے اپنے بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پہ ہاتھ مارا وہ وہاں نہیں تھی ۔۔۔ٹیبل پہ پڑا دودھ کا گلاس گرا اور ٹوٹ گیا اور وہ سدمے میں آگئی ۔ "یا اللّٰہ نماز نہ پڑھنے کی اتنی بڑی سزا ۔۔۔۔ تو۔۔۔ تو پردہ رکھتا ہے ۔۔۔اب کیا کروں ؟ ۔" وہ روہانسی ہو گئی۔ تبھی دروازہ کھلا۔۔۔۔۔ اور اسکا دل زور سے دھڑکا ۔ "مام اگئیں۔۔۔۔ مر گئے۔" " زینب؟" پکارنے والی آواز پہ اس نے آنکھیں کھول دی اور مڑ کر دیکھا تو ابراہیم خان پیچھے کھڑے تھے ۔ اس نے روہانسی شکل بنا کے انہے دیکھا ۔ اور انہوں نے کمرے کی بکھری حالت اور ٹوٹے گلاس کو دیکھا ۔۔۔ جو انکی لاڈلی بیگم حنا ابراہیم کے لیے نا قابلِ برداشت تھی۔ " بابا وہ خودی گر گے ۔۔۔ میں تو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔۔۔میں تو بس گھڑی ڈھونڈ رہی تھی ۔" ابراہیم خان ٹروزار اور شرٹ پہنے پچاس سال کے خوبصورت مرد تھے۔ انہوں نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اسے بولنے سے روکا ۔ " یہ واقعی خودی ہوا ہو گا مجھے یقین ہے ۔۔۔۔ پریشان نہ ہو آپ میں دیکھ لیتا ہوں اپکی مام کو ۔۔۔ اب نیچھے چلو اور ہدی کو اوپر بھیج دو۔" وہ ٹروزار کی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے بولے۔"اوکے بابا۔"

KAMU SEDANG MEMBACA
خسارہ
Fantasiخسارہ اے ظلمت شب حساب رکھ محبوب کی عیاریوں کا جواب رکھ۔ جب کہا جائے محبت کوئی چبھتا ہوا عذاب رکھ دل کی مسند پہ بیٹھا اک شخص آنکھوں میں ہی بس اسکا خواب رکھ کیسے کہہ دوں اسے ہرجائی اپنی کوتاہی کی بھی کتاب رکھ از قلم فاطمی سعدیہ اسحاق) @fatimayies on...