bölüm numarası (6)

5 1 0
                                    

مارو اسکو!مارتے رہو جب تک کہ یہ اگل نہ دے!

بتا کدھر وہ لڑکی؟

مجھے نہیں پتا!

کیا مطلب تجھے نہیں پتا،تحقیق کے مطابق اغواء تم نے کیا ہے!

اپکی تحقیق غلط بھی تو ہوسکتی ہے۔

بحث کرے گا!مارو اسے!وہ درد سے تڑپ رہا تھا لیکن اس پر رحم نہ کھایا گیا۔کچھ دیر یہ مار پیٹ کا سلسلہ چلتا رہا پھر وہ بھوری وردی والے وہاں سے چلے گئے۔

                           **********

سر کچھ پتا چلا؟

دیکھیں ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن کچھ پتا نہیں لگ رہا،بار بار پوچھ کہ اپ کیا کرلیں گے؟

ہماری بیٹی ہے،فکر تو ہوگی!

بیٹی ہے تو قابو میں رکھنا تھا،جب لڑکیاں پر نکال لیں اور ہوا میں اڑنے لگیں تو ایسے واقعات رونما ہو ہی جاتے۔

کیا بکواس کر رہے ہیں اپ!زونیہ کے نم انکھوں والے باپ نے پولیس والے کا گریبان پکڑ لیا۔

دیکھیں اپکو پولیس پر حملہ کرنے کے جرم میں اندر بھی کیا جاسکتا لہذا گریبان چھوڑ دیں۔

چھوڑدیں نا سعید!فاطمہ شاہ نے اپنے شوہر کو غصہ ضبط کرنے کو کہا۔

                            ********

تم یقیناً ایسے نہیں ہوگے!مجھے لگتا حالات تمھیں یہاں لے کر ائے ہوں گے!

بکواس بند کرو اپنی!

سنو رات کو تھوڑا جلدی اجایا کرو مجھے ڈر لگتا ہے!

میں یہاں تجھے اغواء کرکے لایا ہوں کوئی مذاق نہیں ہے،تیری مرضی پوچھی کس نے!

میں ویسے ہی کہہ رہی تھی!اسکی اواز میں لڑکھڑاہٹ تھی۔

سی!وہ درد کا مارا اٹھ نہ پایا۔

درد زیادہ ہورہا؟

تم سے مطلب؟

ہمم۔۔۔

                            ********

سر!لڑکی کی لوکیشن کافی حد تک ٹریس ہوگئی ہے۔

اچھا کس حد تک؟

وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پولیس کافی حد تک ڈھونڈنے میں کامیاب تھیں۔کافی مشقتوں اور جدوجہد کے۔ بعد زونیہ کے والدین شاہ سعید اور فاطمہ شاہ کا واستہ ذمہدار پولیس سے پڑا تھا۔بیٹیوں کی عزت کی خاطر والدین اکثر خوار ہو ہی جاتے ہیں۔والدین کی اہمیت اولاد والدین بننے تک نہیں سمجھ سکتی!

                          ***********
عجیب و غریب اوازیں ہال میں پہلی ہوئی تھیں۔ہر طرف تاریکی کا عالم تھا۔یک دم ایک موٹا تازہ بھورے رنگ کا چوہا زونیہ کے پاوں کے پاس سے گزر کر چلا گیا۔زونیہ کی چیخیں پورے ہال نے سنی تھیں۔زونیہ گرمی میں سردی سے کانپ رہی تھی۔ڈر کے باعث اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ رہے تھے۔یک دم کسی نے دروازہ زور سے دیوار میں مارا۔اس اواز نے ایک جھٹکے میں پھر سے ہال میں تاریکی پیدا کردی تھی۔

ککک کون؟وہ شخص اسکی اواز پر اسکے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔

شکر ہے تم اگئے!وہ بے ساختہ اس سے لپٹ گئی تھی۔کچھ دیر کیلئے لمحہ ٹھہر گیا تھا۔یک دم اسے دھکا لگا اور اسکی کمر میں درد کی ایک لہر دوڑ گئی۔

اہ!ایک تھپڑ کے اشارے سے وہ ڈر گئی تھی۔اگر وہ گال کو چھو جاتا تو شاید ہواس کھو دیتی۔

کیا ہوا ڈر گئی؟وہ سسک رہی تھی۔

یک تھپڑ سے ڈر گئی۔۔۔وہ بھی وہ تھپڑ جس نے ابھی ان نرم گالوں کو چھوا بھی نہیں؟

تم مجھے کیوں اتنا مارتے ہو۔۔۔اخر میں نے تمھارا بگاڑا کیا ہے؟

تم نے مجھے بگاڑا ہے،میری ذات بگاڑ دی ہے،مجھے اجاڑ دیا ہے۔

میں نے؟؟؟میں نے یہ سب کب کیا؟وہ زاروقطار رو رہی تھی۔

وقت انے پر بتا دوں گا۔وہ اسے منظر سے غائب ہوتا دیکھ رہی تھی۔پھر سے اسی طرح سہمنے لگا تھا دل!

                      ************

دیکھیے!ہم نے اپنی طرف سے بہت کوشش کی کہ وہ اگل دے،لیکن مجرم اپنا جرم اتنی جلدی تو قبول نہیں کرتا نا!

اپ اسے گرفتار کیوں نہیں کرلیتے؟شاہ سعید چلا اٹھے تھے۔

دیکھیے جناب!یہ وقت جذباتی ہونے کا نہیں ہے!ہمیں تحمل مزاجی سے کام لینا ہوگا یا تو پھر اپ خود کرلیں۔اس جواب نے شاہ سعید کو خاموش کرادیا تھا۔وہ بے بس تھے پہلی بار۔اتنی دولت سب بے مول تھا۔

                         ***********

استغفرُللہ!یہ کیا کر رہے ہو؟

اندھی ہو؟

ہوں تو نہیں پر شاید تم نے مجھے سمجھ لیا ہے!ارے میرے سامنے کپڑے تبدیل کرنا بند کرو۔

خاموش!!!میں یہاں سے کہیں اور نہیں جاسکتا۔۔۔اوپر سے تیرے نخرے بھی برداشت کروں۔۔۔اتنی موت پڑھ رہی ہے تو انکھیں مینچ لے۔

وہ تو میں نے مینچی ہوئی ہیں،تم جیسی نہیں ہوں،شرم ہے مجھ میں!

جانتا ہوں!وہ جو کب سے بولنے میں مصروف تھی،اب پلکیں بھی نہیں جھپک پا رہی تھی۔وہ حیران تھی۔یقین نہیں ایا تھا اسے خود کے اعضاء پر ،دراصل کانوں پر،خود کی ذات پر۔جو اس نے سنا تھا کیا وہ سچ تھا؟

ویسے یہ طنز تھا یا سچ میں مجھ میں شرم ہے؟

تو چپ کرنے کا کیا لے گی؟

ایک چائے کا کپ ملے گا؟ویسے میں پیتی نہیں پر میں اب تھک بہت گئی ہوں۔

ہوگئی تیری بکواس؟

ارے ابھی تو میں شروع ہوئی ہوں،پتہ ہے میں اپنے خاندان میں زیادہ بولنے والی عادت کیلئے مشہور ہوں بشرطیکہ میں کسی کہ ساتھ زیادہ اٹیچ ہوجاوں۔وہ خود کی بات پر ہی ٹھٹکی تھی۔کیا وہ اس سے اٹیچ ہوگئی تھی؟وہ خود کی بات ہی سوچنے پر مجبور ہوگئی تھی۔وہ تو اسے مارتا تھا،ظلم و جبر کرتا تھا۔وہ اس سے اٹیچ کیسے ہوگئی۔

                        ***********

یہ لے کھانا!

تھینک یو؟

اوہ واو دال روٹی!

پتا یہ والی دال میری فیورٹ ہے۔وہ مستقل بول رہی تھی۔یک دم کانچ ٹوٹنے کی اواز نے تاریکی پھیلادی ہر سو۔

تو چپ نہیں رہ سکتی؟وہ اسکا منھ بری طرح ہتھیلی سے دبا رہا تھا۔

Has llegado al final de las partes publicadas.

⏰ Última actualización: May 21, 2022 ⏰

¡Añade esta historia a tu biblioteca para recibir notificaciones sobre nuevas partes!

zorla aşk🥀Donde viven las historias. Descúbrelo ahora