باب:۱۹

111 6 4
                                    

بارش کی ہلکی پھوار اسکے چہرے پر پڑی تو وہ جیسے ہوش میں آئ - اسکے دل کے دھڑکن رُک گئی - یہ کیا کر رہی تھی وہ ؟ کیا وہ انھیں معاف کر چُکی تھی ؟ یہ کیسا احساس تھا جو اسے اندر اندر ہی جکڑ رہاتھا - انکے کام کر کے وہ اطمینان کیوں محسوس کر رہی تھی ؟ انکی ہر چیز کو چھو کر وہ انکی لمس کو کیوں محسوس کرنا چاہ رہی ؟ یہ احساس اتنا مسرور کن کیوں تھا ؟ ان سب سوالوں کے جواب اسکی پاس نہیں تھے - اسکی محبت اسے دغا دے رہی تھی - اسے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا - اسکی محبت اسے اندر ہی اندر جکڑ رہی تھی اسے قید کر رہی تھی- یہی محبت ہجر کی راتوں میں تڑپتی رہتی تو سہی تھی کم سے کم اس سے بےوفائ تو نہ کرتی کہ جو شخص اسکا مجرم تھا اس ہی شخص کی طرف یہ محبت ہمکنے لگی تھی - اسے شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا - وہ بارش میں بھیگ رہی تھی لیکن اسکا وجود اس سردی کو برداشت کرنے کے قابل نہیں رہا تھا -

اسکی آنکھوں کے آگے سبھی منظر ایک فلم کی طرح چل رہے تھے - انکے ساتھ بیتا ہر ایک لمحہ اسکے دل پر نقش تھا - انکے بغیر وہ تین سال ایک ایسے انسان کی مانند جی رہی تھی جو سانس تو لیتا ہے لیکن اسکی روح مردہ ہو تی - اور اب انکو محسوس کر کہ اسکا دل پھٹنے کے قریب تھا - اسکا سانس لینا دشوار ہوگیا تھا - ہاتھ پاؤں بے جان ہو رہے تھے - اسکی حالت ایک ایسے انسان کی طرح ہو رہی تھی جسکی روح اسکے جسم سے الگ ہو رہی ہو - سردی سے اسکے ہونٹ نیلے پڑ گئے تھے اور اس سے پہلے وہ لہرا کر زمین بوس ہوتی دو مضبوط بازوؤں نے اسے اپنے حصار میں لے لیے - وہ اتنا شدت بھرا لمس تھا کے اپنے کھوتے ہوۓ حواسوں سے بھی وہ اسے محسوس کر سکتی تھی -

کیا بہت ضروری ہے ؟
خواب پوش آنکھوں میں
آنسوؤں کا بھر جانا ؟
حسرتوں کے ساحل پر
تتلیوں کا مرجانا ؟
حبس کے ساحل پر
خوشبوؤں کا ڈر جانا ؟
دل کے گرم صحرا میں
حشرہی بپا ہونا ؟
درد لا دوا ہونا ؟
کیا بہت ضروری ہے ؟
اب تیرا جُدا ہونا ؟
______________________

انکی میٹنگ تین دن میں ہی ختم ہوگئیں تھیں جس کی وجہ سے انھیں واپس آنا پڑا - وہ مطمئن تھے کہ اب آۓنور کو کوئ اعتراض نہیں ہوگا انکی اکیلے رہنے پر اور وہ ان تین دنوں بریال کو بے حد یاد کر رہے تھے - اب گھر پہنچ کر انھیں سب سے پہلے اسے اپنے بازوؤں میں لے کر پیار کرنا تھا - اپنے گھر میں گاڑی کھڑی کرتے ہی انھیں دلاور نظر آیا جو پیر پٹختا ہوا اندر داخل ہو رہا تھا - طوفانی بارش کے ساتھ خون کو جما دینے والی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی - وہ تعجب سے اسے دیکھتے اپنی سٹک تھامے اسکے پیچھے آے جسے نہ انکی گاڑی کا پتا چلا تھا نہ ہی انکی آہٹ پر وہ متوجہ ہوا تھا -
"دلاور !" انکے پکارنے پر وہ اچھل کر پلٹا جس کے نتیجے میں لاؤنچ میں بچا واحد پیس گر کر زمین بوس ہوگیا -
"سوری صاحب جی - آج بی بی جی نے اتنا کام کروایہ کے میری کمر ہی ٹوٹ گئی ہے -" وہ روہانسا ہو کر بولا -
"کہاں ہے تمہاری بی بی ؟" وہ حیرت سے بولے کہ آج اچانک آۓنور کو صفائ کا دورا کیسے پڑ گیا -
"اندر کمرے میں ہیں بریال بابا کو سُلانے گئیں تھیں - ابھی کچن اپنے سامنے کروائیں گیں - آج تو میں گیا -"
"اچھا تم میرے لیے کافی بنا کر لاؤ -" اسے کہتے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے - پہلے تو اپنا صاف ستھرا کمرہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ یہ دلاور کے بس کی بات نہیں تھی - پھر انکی نظر بیڈ پر سوۓ بریال پر گئی تو بے اختیار اسکی طرف بڑھے اور اسے اپنے سینے سے لگا کر آنکھیں ماند لیں - انھیں اپنے اندر تک سکون سرائیت کرتا محسوس ہوا - اچانک ہوا کے زور پر بالکونی کا پٹ زور سے بند ہوا تو وہ چونکے - بریال کی نیند کے خیال سے اپنی سٹک کے سہارے چلتے ہوۓ بالکونی میں آے تو آۓنور کو سیاہ لباس میں بغیر کسی شال یا سویٹر کے وہ بھی بارش میں بھیگتا پایا - اس سے پہلے وہ اسے مُخاطب کرتے وہ لہرا کر گری لیکن وہ بر وقت اسے بازوؤں میں تھام کر زمین ہر بیٹھ گئے تھے -
آۓنور کی جگہ وارن کو دیکھ کر دل ایک پل کو بند ہوگا - سانس ساکن ہوگئی اور آس پاس کے سارے منظر دھندھلا گئے - نظروں کے سامنے تھا تو بس وہ پُر نور چہرہ - آنکھوں کے گرد گئرے ہلکے ہجر کی راتوں کی کہانی بیان کر رہے تھے - سردی کی شدت سے اسکے گال اور ناک گلابی ہورہے تھے اور چاندنی کی نوزپن ہمیشہ کی طرح انکی توجہ کھینچ رہی تھی -

شبِ ہجر ڈھل جاۓ ✅ Where stories live. Discover now