باب: ۱۱

149 5 0
                                    

یہاں کسی کو بھی حسبِ آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تُو نہ ملا
(ظفر اقبال)

آج کا دن پہلے سے بھی زیادہ افسردگی اور اداسی لے کر آیا تھا - ممی اور پلار بزنس ٹور پر لندن جا رہے تھے اور وارن کو اپنی پڑھائ کی وجہ سے ییہیں رُکنا تھا - ان کے ساتھ ہی وارن نے بھی اپنا سامان باندھ لیا کیونکہ وہ امل کے ہوسٹل میں اسکے ساتھ شِفٹ ہو رہی تھی - وہ سب سامان رکھ کر گاڑی میں بیٹھے - ارادہ پہلے وارن کو ہاسٹل چھوڑنا تھا - ہاسٹل کے گیٹ پر آکر کب کے رُکے آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر اسکے گال بھِگوتے گئے -
"بس بچے ۰۰۰ کچھ ہی عرصے کی بات ہے ۰۰ اور پھر تم چھٹیوں میں اپنی خالہ کے ہاس گاؤں چلی جانا ۰۰ تب تک ہم آجائیں گے واپس ۰۰" پلار اسے اپنے ساتھ لگاتے تسلی دیتے ہوۓ بولے -
"پلار میں مورے ۰۰ " اس سے پہلے وہ کچھ کہتی پلار نے سخت تاثرات سے اسے دیکھا
"بس وارن اس گھر سے ہمارا کوئ تعلق نہیں ہے ۰۰۰ تم چھٹیوں میں اپنی خالہ کے پاس جا رہی ہو ۰۰ اپنا خیال رکھنا ۰۰" اس سے پہلے وہ اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر اللہ حافظ کہتے وارن روتے ہوۓ ہاسٹل کا گیٹ پار کر گئی - ممی سے ملنے کی اسنے زحمت نہیں کی تھی کیونکہ اس سب کی ذمہ دار وہ تھیں -
اپنے روم میں آکر وارن تھوڑی دیر روتی رہی ۔۔۔ اسی دوران اسکے فون کی بیل بجی - آنسو صاف کرتے اسنے بیگ میں سے فون نکالا تو سامنے کا نمبر دیکھ کر اسکا دل ایک پل کو رُک گیا - وہ جانتی تھی کہ اس نمبر سے مادر بزر کال کرتی تھیں لیکن پھر بھی بے قابو ہوتے دل پر اسکا اختیار نہیں تھا ۰۰ اپنی حالت پر خود ہی حیران ہوتے اس نے کال اٹھائ -
"السلامُ علیکم -" آواز کو حتی المکان نارمل رکھتے اس نے سلام کیا - دوسری جانب سے خواب موصول نہیں ہوا جبکہ ایک بھاری آواز آئ جسے وارن بخوبی پہچانتی تھی -
"مادربزر یہ لیں بات کریں -" ایک لمحے کو اس کا دل کٹ کر رہ گیا - کیا وہ اس قابل بھی نہیں تھی کہ وہ اس کے سلام کا جواب ہی دے دیتا - آنکھیں ایک بار پھر تیزی سے نم ہوئیں تھیں -
"السلامُ علیکم ! کیسی ہے میری جان ؟" مادر بزر کی آواز پر آنکھوں میں اٹکے موتی سُرخ گال بھِگو گئے -
"میں ٹھیک ہوں - آپ کیسی ہیں ؟ " وہ آواز نارمل کرتی بولی
"وارن بچے ۰۰۰ تم روئ ہو ؟" مادربزر کی بات ہر اسنے بمشکل اپنے منہ ہر ہاتھ رکھ کر سسکیاں روکیں -
"نہیں ۰۰۰ نہیں تو ۰۰ اچھا یہ بتائیں مورے کیسی ہیں ؟" وہ جانتی تھی انکی طبیعت خراب ہو جاۓ گی اسلئے اپنے آپ پر قابو پاتے بولی
"ہاں وہ ٹھیک ہے ۰۰ میرے پاس ہی بیٹھی ہے لو بات کرو ۔" مادر بزر کچھ مطمئن ہوتیں مورے کو فون پکڑا گئیں -
"السلامُ علیکم! مورے کی جان !" مورے کی نم آواز پر وارن کا ضبط جواب دے گیا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۰۰۰ دوسری طرف مورے مادربزر اور دارب کو باتیں کرتا دیکھ کمرے سے ملحق ٹیرس پر آگئیں -
"مورے ۰۰۰ مجھے آپ کے پاس آنا ہے مورے ۰۰۰" وہ رونے کے دوران بولی -
"وارن جان ۰۰۰ میرا دل گھبرا رہا ہے ۰۰۰ عقیلہ کہاں ہے ۔۔۔ تبریز ٹھیک ہے ؟" مورے پریشانی سے بولیں -
"جی ۰۰ جی وہ لندن گئے ہیں بزنس ٹور پر ۰۰" وہ آنسو صاف کرتی بولی -
"تو تم کہاں ہو ؟" وہ مزید پریشانی سے بولیں اور اپنے ساتھ کھڑے ہوتے دارب کو ایک نظر دیکھا
"میں ہاسٹل میں ہوں ۰۰۰ جب چھٹیاں ہونگی تو خالہ کے پاس گاؤں آجاوں گی ۰۰۰" وہ ساری تفصیل بتاتے بولی اس بات سے انجان کے مورے کے علاوہ بھی کوئ اسے اُن رہا ہے
"کوئ ضرورت نہیں ہے وہاں جانے کی جب اپنی حویلی موجود ہے ۰۰" وہ پیار سے ڈپٹ کر بولیں ۰۰۰
"مجھے ۰۰۰ مجھے اجازت نہیں ہے حویلی آنے مورے ۰۰" وہ بھرائ ہوئ آواز میں بولی تو مورے کا دل کٹ کے رہ گیا -
"اچھا تم پریشان نہ ہو ۰۰۰ویسے تبریز سے مجھے یہ امید نہیں تھی ۰۰۰ کونسے ہاسٹل میں ہو تم ؟" ان کے ہوچھنے ہر وہ ہاسٹل کا نام بتاتی گئی - کچھ دیر بعد مورے نے پھر فون کرنے کا وعدہ کر کے کال کاٹ دی - مورے سے بات کر کیے انکی کمی شدت سے محسوس ہورہی تھے -۰۰۰ اس نے گھڑی ہر وقت دیکھا - امل کے آنے میں ابھی وقت تھا - وارن نے آج چھٹی لی تھی - وہ اٹھی اور وضو کی نیت سے واشروم کی طرف بڑھ گئی -
_____________________________

شبِ ہجر ڈھل جاۓ ✅ Opowieści tętniące życiem. Odkryj je teraz