قسط ١

10 1 0
                                    

دو بیٹیاں اور تو ٹہری کم پڑھی لکھی اب زندگی کا گزارا کیسے کروگی اور ان کو کیسے بیاہ کردو گی . ، تیری تو عقل ماری گئی تھی جو اس دھوکے باز کی میٹھی باتوں میں آگئی ، اب کہاں ڈھونڈ نکالو گی جا جدھر کو جانا ہے جا ، اور ایک بات کان کھول کر سن لے میری زندگی تک میں تجھے.پالونگی مگر میرے جانے کے بعد کون تجھے اور تیری اولاد کو دیکھے گا سہارا دے گا .. ہائے میرے اللہ یہ کیا غضب ہوگیا ر با میرے میں کیا کروں ....
ہردو تین دن میں ایک دفعہ اماں سارا دن اسی طرح سے پیاری اور اسکی بیٹیوں کو لیکر پریشان ہوتی اور ان پر اپنا سارا غصہ اور دل کا بھڑاس نکال کر ، جو منہ کو آیا کہتی جاتی تب کہیں جاکر کلیجے کو ٹھنڈک پہنچتی ، اور تب کہیں جاکر اس دن رات کو چین کی نیند سو پاتی، پیاری کو جیسے سانپ سونگھ جاتا وہ دونوں بچیوں کو لیکر ایک کونے میں ماں کی کڑوی کسیلی باتیں سنتی رہتی مجال ہے جو پلٹا کر جواب دے ، بچیاں تو لوری جان کر سوجاتیں اور وه آنکھوں سے آنسو بہاتی ماں کو تکتی رہتی کہ شائد اماں اب چپ ہو جاتی میرے آنسو دیکھ کر خاموش ہو جاتی ، یہ بات بھی سچ ہے پیاری کی روتی ہوئی پیاری صورت دیکھ کر اماں کو بھی اس پر رحم آجاتا اور وہ چپ ہوجاتیں ۔
گاؤں والے سچ میں بھولے بھالے ہوتے ہیں وہ کبھی بھی کسی بھی اجنبی کی باتوں میں آکر برباد ہو جاتے ہیں اور پھر ساری زندگی صبر سے گزار لیتے ہیں ، مگر زبان سے اف تک نہیں کرتے ، لڑکیاں خوب صورت تو ہوتیں ہی ہیں ساتھ میں خوب صورت دل بھی رکھتی ہیں ، پیاری کی اماں نور بیگم اپنے شوہر کی دو سری بیوی تھی . پہلی بیوی صغیرہ بیگم سے دو لڑکے تھے وہ بیماری کی حالت میں بستر مرگ ہوگئی اس کے بعد انور میاں نے عقد ثانی کرکے نور بیگم کو گھر لے آئے .
******"***********************************
خانگی کمپنی میں ملازمت پیشہ انور میاں بہت ہی سلجھے ہوئے انسان تھے ، دولڑکے بھی باپ کی طرح سمجھ دار اور عقل مند تھے . کبھی سوتیلی ماں کو یہ محسوس ہی ہونے نہیں دیا کہ وه سوتیلے ہیں جبکہ نور بیگم ہی ان سے سوت کا سلوک برتا کرتی تھی مگر دونوں لڑکے باپ کی عزت کا خیال کرتے ہوئے کبھی ماں کی مخالفت میں نہیں جاتے ، نور بیگم ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ، اور وہ کنواری تھی خوب صورت بھی تھیں یہی وجہ تھی کہ انور میاں نور بیگم کےجائز نا جائز سارے مطالبات پورے کردیتے ، ان سے تولید دونوں لڑکیوں کو بھی جی جان سے چاہتے تھے ، حد یہ تھی کہ کبھی کبھار ان ماں بیٹیوں کی لگائی بجھائی سے اپنے دونوں لڑکوں طاہر اور یاسر پر ہاتھ بھی اٹھاتے ۔ لڑکے دل پر پھتر رکھ کر باپ کے ظلم کو سہہ لیتے ، انور میاں جانتے تھے کہ وہ غلط ہیں پھر بھی بیٹوں سے کچھ نہ کہتے
طاہر نے پڑھائی میں خوب محنت کی اور ایک اچھی سی کمپنی میں جاب پر لگ گئے اُدھر یاسر حافظ قران ہو کر اپنا مدرسہ چلانے لگے .پیاری اور لاڈلی دونوں ماں کے لاڈ و پیار میں بگڑنے لگیں ، چھوٹی لڑکی لاڈلی پھر بھی تھوڑی بہت سمجھ دار تھی لیکن پیاری بالکل الھڑاور لاپرواہ اور مغرور سی تھی کسی کا ایک نہ سنتی ماں باپ کے لاڈ پیار نے اسے نکما بنا دیا تھا . انور میاں کو شوگر زیادہ ہوکر فالج ہوگیا اور وہ بستر پر آگئے ، نور بیگم شوہر کی خدمت کرتی لیکن بادل نخواستہ ، اب انور میاں کی کمائی تو ختم ہوگئی تھی ، ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کمپنی نے جو رقم دی وہ لڑکیوں کی شادی بیاه کے لۓ سنبھال رکھی تھی ، دونوں لڑکے گھر کا سارا خرچ دیتے اور ساتھ میں باپ کا علاج بھی کراتے وہ بخوشی سارے اخراجات کو قبول کر لیتے .
*****************************************
کبھی انور میاں کی آنکھوں میں آنسو دیکھتے تو تڑپ کر طاہر اور یاسر رونے لگتے اور کہتے ! ابو ہم آپ کے لئے کچھ نہیں کررہے ہیں ، آپ بس ہمارے حق میں دعا کیجیے اور ہماری آرزو ہے کہ آپ پھر سے ہمارے بیچ صحت و تندرستی سے بیھٹیں ، اور ہمارے سروں پر باپ کا سایہ برقرار رہے بس یہی دعا ہے ہماری دونوں لڑکوں کی باتوں کو سن کر وہ اور زیادہ غم زدہ ہو جاتے ، دونوں کے سروں پر ہاتھ پھیرتے اور دعا دیتے ، پیاری جماعت ہشتم کی طالبہ تھی اور لاڈلی ششم کی ، لاڈلی پڑھائی میں اچھی تھی جبکہ پیاری صرف حاضری اورنقل سے کامیابی کی سیڑھیاں طے کررہی تھی . دل دماغ ہمیشہ سے نت نئے فیشن اور دوسروں کی باتوں میں دلچسپی لیتے رہتے . کبھی کبھار ماں کی مدد کرتی اور کسی دن باپ کی تیمارداری بس اپنی خوب صورتی کے قصیدے دوسروں کی زبانوں سے سن کر عش عش کرتی ہوئی نظروں کو مغرور انداز سے دیکھ کر نظر انداز کرتی پھرتی،اور سونچتی کہ یہ تو میرا حق ہے مجھے نہیں تو اور کسے سب دیکھیں گے ، میری خوبصورتی سب سے جدا بس یہ میری ملکیت ہے ، یہ خیال ہی اسے اور تکبر میں مبتلا کردیتا (باقی آئندہ)

بے وفا محبتWhere stories live. Discover now