موبائل اک بڑا فتنہ۔۔۔

6 1 0
                                    

غلطی۔۔۔
جو اگر مرد کرے تو چلو کوئی بات نہیں۔۔۔ انسان غلطیوں سے سبق حاصل کیا کرتا ہے۔۔۔مگر اگر بات عورت پہ آئے۔۔۔ تو چاہے جس بھی عمر میں ہو بچپن لڑکپن یا جوانی۔۔۔اسے غلطی نہیں کرنی چاہیے۔۔۔اسے غلطی کا کوئی حق نہیں ہے۔۔۔
یہ کہانی اک معصوم سی لڑکی کی ہے
جسے دنیا کی چمک دنیا کی روشنیاں بہت بہایا کرتی تھیں۔۔۔ اسے لگتا کے ہر چیز دنیا کی بہت خوبصورت ہے اور  ہر خوبصورت چیز پر اس کا حق لازم ہے۔۔۔
لیکن وائےرے قسمت۔۔۔
چھوٹے سے گھر کی رہنے والی سادے سے ماں باپ کی وہ اکلوتی ثبوت۔۔۔
جو نہ تو دنیا میں خوبصورتی دیکھتے نہ زارا کے لیے پسند کرتے۔۔۔شاید وہ بھی ہر ماں باپ کی طرح ہر چمکتی چیز کو سونا نہیں جانتے تھے دنیا کی اس خوبصورتی کے پیچھے چھپی بدصورت کو اچھی طرح جانتے تھے۔۔۔
لیکن معصوم زارا انہیں ظالم ماں باپ تصور کرتی ان کی چھوٹی چھوٹی احتیاطوں سے جی بھر کر چڑھتی۔۔۔
ان سے بھولی بھالی ضدیں لگاتی ناک بھوں چراتی لڑکپن کی سرحدوں تک آپہنچی۔۔۔
زارا اسکول کی اسٹار اسٹوڈنٹس میں سے رہی تھی ہمیشہ۔۔۔
خوب دل لگا کر پڑتی موبائل اور سوشل لائو سے دور اک سادی سی زندگی گزارتی جب کالج پاس کیا تو جیسے اک نیا شوق اپنی دوستوں کو دیکھ اس میں سر اٹھانے لگا۔۔۔
یونی میں اس کی دوستیں موبائل استعمال کرتیں سوشل میڈیا گروپس میں چٹ چیٹ کرتیں۔۔۔دنیا کو اک الگ آنکھ سے دیکھتیں۔۔۔کہیں بھی موجود نہ ہو کہ ہر جگہ موجود رہتیں۔۔۔زارا کو بھی کھبی کبار اپنے ساتھ موبائل میں بے تحاشہ چیزیں جگہیں اور خوبصورتی دیکھاتیں جوکہ ہمیشہ سے اس کی کمزوری رہیں تھیں۔۔۔
گھر جا کر اکثر موبائل کی ضد کرتی بابا ماما نے چھوٹا موبائل لے بھی دیا تو اسے کیمرا فون چاہیے کہہ کر رد کر دیا۔۔۔پھر ہر رزلٹ پر ضد کرتی ہر موقع پر تقاضا کرتی لیکن ماما بابا ٹال جاتے۔۔۔اسی میں اس کی یونی کا آخری سال شروع ہوا اور ادر اس کے رشتے آنے لگے ماما بابا نے اسے فون بھی دلا دیا اور منگنی بھی کر دی۔۔۔
اپنی زندگی سے انسان کبھی مطمئن پتا نہیں کیوں نہیں رہتا اک کے بعد اک کی چاہت میں اپنا آج بھی خراب کر دیتا ہے۔۔۔
موبائل ملا تو زندگی میں نئے رنگ سے بھر گئے۔۔۔
دوستوں سے باتیں پکچرز وئلوگس پتا نہیں کیا کیا۔۔۔
اسی میں اس کے امتحانات آئے اور گزر گئے اتنی محنت سے پڑھنے والی لڑکی کو پتا نہیں کیا ہو گیا تھا۔۔۔بس پاس ہو کر بھی مطمئن ہو گئی جو 90% پر بھی آنسو بہاتی۔۔۔
بے زار سی رہتی پڑھائی پر بھی دھیان نہیں نہ شادی کی تیاریوں میں کوئ دلچسپی نا ملنے ملانے میں نہ کسی کام کاج میں۔۔۔
بس دھیان تھا تو صرف موبائل میں۔۔۔
ماما بابا نے پیار سے سمجھایا بھی ڈانٹا بھی پھر موبائل لے لیا۔۔۔وہ ضد کرنے والی جو تھوڑا سا سمجھانے پر مان جاتی تھی بدتمیزی پر آگئی۔۔۔کوئی کام نہ کرنا کھانا نہ کھانا نہ بنانا ،ملنا ملانا نہیں کسی سے جیسے اک الگ ہی زارا تھی وہ۔۔۔
***
شادی کے بعد سب بدل گیا۔۔۔
ذمہ داریا شوہر گھر جسے اس سب میں کافی آگے نکل گئی زندگی۔۔بس جو نہ بدلا وہ زارا کا وہی شکوہ تھا۔۔۔دل میں جلش باکی تھی۔۔۔زندگی کے رنگ نہ دیکھ سکی وہ جو اس کی عمر کی ہر لڑکی اس کی سہیلیاں دیکھتیں۔۔۔مگر جو آللہ کے فیصلے ہوتے ہیں ان سے بھی زیادہ کچھ بہتر ہو سکھتا ہے بھلا کسی کے لیے؟
اسے آج بھی لگتا ماما بابا نے اس سے موبائل لے کر غلط کیا تھا اس کو پکنکس پر نہ بھیج کر زیادتی کی اور دنیاں کی رنگینیوں سے کوسوں دور رکھ کر سادی سی زندگی دے کر انتہا۔۔۔
پھر اک دن اس کی ملاقات فارہ سے ہوئی جو اسکول سے اس کی دوست تھی جس کی زندگی اسے بھرپور لگا کرتی جو اسے دنیاں کی رنگینیاں دیکھاتی چمک دھمک سے اس کا دل للچاتی۔۔۔
ٹوٹی سی حالت میں روکھا سوکھا سا حلیہ بنائے سر اور شانوں پر کھول کر دپٹہ لپیٹے جسے وہ کبھی اولڈ فیشن سمجھتی تھی۔۔۔
ہاتھوں میں چھوٹا سا موبائل اور والٹ پکڑے بازار میں کھڑی تھی۔۔۔
***
زارا: ارے فارہ کیسی ہو؟
کہاں غائب ہو گئی تھی بھئی کوئی خیر خبر ہی نہیں؟
فارہ: ہاں نہیں کہیں نہیں۔۔یہ تمھارے بچنے ہیں؟ہاں شادی ہو گئی تھی تمھاری۔۔۔
وہ جیسے اسے دیکھ کر کچھ چوکی کچھ جھجکی۔۔۔
خوش شکل تو پہلے بھی زارا تھی ہی اب اور نکھری سی نظر آئی۔۔۔
سلیکے سے لپٹا اسکارف اور خوبصورت مگر سادہ سا عبایا ہاتھوں میں بچوں کا ہاتھ تھامیں سایڈ میں ہینڈ بیگ اٹھانے۔۔۔ہمیشہ کی طرح باوقار۔۔۔
زارا: ہاں میری شادی کو پانچ سال ہو گے ہیں الحمدللہ یہ ضمر ہے اور ہی فارض۔۔۔ تمھاری شادی ہو گئی؟
فارہ:امممم ہاں ہوگئی لیکن اب بھائ کے گھر ہوتی ہوں۔۔۔
وو ذرا پھکی سی پڑی۔۔۔
اب کے زارا نے اس کے حال کو تھوڑا غور سے دیکھا۔۔۔مگر ضمر کی آواز کی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔
ضمر: ماما موبائل دے دیں ناں آپ شاپنگ کر رہی ہیں میں گیم کھیل لوں گی؟
زارا نے جیسے موبائل نکالا اور اسے تھمانے ہی لگی کہ فارہ یکدم بول اٹھی۔۔۔
فارہ: نہیں زارا نہیں۔۔۔پچوں کو کبھی موبائل نہ دینا۔۔۔تم تو ان ماں باپ کی اولاد ہو جنہوں نے تمہیں ساری زندگی سنبھال کر رکھا ہے تمھاری لاکھ چاہت پر بھی جو غلط ہے اس کو تم تک نہیں آنے دیا۔۔۔خدارا تم ضمر کو اک دوسری فارہ نہ بنانا۔۔۔میں نے بےحد نقصان اٹھانے ہیں۔۔۔آج بھی سوچتی ہوں کہ کاش ماما بابا مجھے بھی کبھی موبائل جیا فتنہ نہ دیتے تو آج میں بھی سکون کی زندگی گزار رہی ہوتی۔۔۔واقعی چیزیں وقت کے ساتھ ہی میسر آئیں تو اچھا ہوتا ہے وقت سے پہلے اور ضرورت سے زائد کچھ بھی مل جاے تو یہی حال ہوتا ہے جو آج میرا ہے۔۔۔خدارا میری غلطی سے سیکھو اور دور رکھو بچوں کو موبائل سے۔۔۔
چند منٹ کے توقف کے بعد ہلکی آواز میں پھر گویا ہوئی۔۔۔
فارا: زارا میں نے گھر سے بھاگ کر شادی کی تھی ماما بابا کی پسند کے بغیر۔۔۔سوشل میڈیا پر ملی تھی اس سے اور پتا نہیں کیا سے کیا کر دیا۔۔۔اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی خراب کر دی۔۔۔پتا ہے زارا۔۔۔زندگی میں ہم لڑکیوں  کے لیے کبھی بھی undo کا آپشن نہیں ہوتا۔۔۔ہماری اک غلطی ہمارا گناہ بن جاتی ہے۔۔۔نہ شوہر کی نظر میں عزت رہتی ہے نہ گھر میں۔۔۔ پتا ہے اسکول میں پانچویں جماعت کے بعد ہمیں پینسل کی جگہ پیں کیوں دے دیا جاتا ہے؟
تاکہ یہ سمجھایا جاسکے کہ اب غلطیاں مٹانا آسان نہیں ہوگا۔۔۔
زارا چپ چاپ یکٹک فارہ کو دیکھتی رہی۔۔۔
اب اس کی اس بکھری سی حالت پر دھیان دیا جیسے اس کے آس پاس پٹاخے سے بجھ اٹھے تھے۔۔
اس کا غائب ہونا لوگوں کی عجیب عجیب باتیں فارہ کے بارے میں ذومعنی سوال۔۔۔وہ سب اس وجہ سے تھا۔۔۔
یہ سب بول کی فارہ اس کے سامنے سے جا چکی تھی۔۔۔اور واقعی کچھ تھا بھی نہیں اس کے پاس کہنے کو۔۔۔
***
زارا واپس گھر جانے کے بجائے ماما بابا کے گھر کے راستے پر جا رہی تھی نہ جانے کیا کہنا تھا اسے کیا سنا تھا۔۔۔ بس چلتی جا رہی تھی۔۔۔بہتی آنکھوں کے ساتھ۔۔
پھر ماما کی گود میں سر رکھے رو رہی تھی۔۔۔
پھر بابا سر پر ہاتھ پھیرتے پیار سے پچکار رہے تھے۔۔۔
پھر زارا فارہ کی کہانی سنا رہی تھی۔۔۔ماما آنسو آنکھوں میں لیے سن رہی تھیں۔۔۔بابا اٹھ کر باہر چلے گئے تھے۔۔۔
اب ماما ماریہ کے بارے میں بتا رہی تھیں جو اس کی محلے کی سہیلی تھی جس کے پاس وہ آتی جاتی رہتی تھی۔۔۔اس کے بھای نے اسے کسی لڑکے کے ساتھ دیکھا تھا اس کا مہنگا والا فون توڑ دیا تھا اب اس کی شادی اک چار بچوں کے باپ کے ساتھ ہو رہی تھی جس کی بیوی اب اس دنیاں میں نہیں تھی۔۔۔ زارا زار و قطار رو رہی تھی معافی مانگ رہی تھی اپنے رویے کی اپنی بدتمیزی کی عدم دلچسپی کی۔۔۔ اور اپنے رب کا شکر ادا کر رہی تھی۔۔۔
زارا: تیرا شکر ہے یا رب۔۔۔توں نے اس فتنے اور اس کی تباہکاریوں سے مجھے محفوظ رکھا۔۔۔غلط وقت کے غلط فیصلوں میں میری مدد فرمائ بے شک تیرے سوا کوئی میرا مدد گار نہ ہوتا۔۔۔اپنی ناشکری کے لیے اور نافرمانی کے لیے میں نادم ہوں یا رب۔۔۔تو معاف کر دینا مجھے میری توبہ ہے یارب۔۔۔تو مجھے اور میری اولاد کو اپنا فرمانبردار بنا دے اور چن لے ہمیں دنیا میں خیر کمانے والا اور آخرت میں اجر پانے والا۔۔۔آمین یارب العالمین۔۔۔❤️
بےشک جو رب جانتا ہے۔۔۔وہ انسان کی سوچ سے بھی بالاتر ہے۔۔۔
Akanu...!

موبائل اک بڑا فتنہ۔۔۔Dove le storie prendono vita. Scoprilo ora