سکونِ راہ
از قلم؛ چندا خان
رات تاریکی میں ڈوب چکی تھی تارے آسمان پر ٹمٹمارہے تھے٠
سردی کا موسم ابھی مکمل شروع نہیں ہوا تھا مری کے پہاڑوں پر برف جمنی شروع ہوئ تھی۔اس کے کمرے کی لائٹ ابھی تک جل رہی تھی۔
نائٹ سوٹ میں ملبوث بالوں کو ڈھیلے جوڑے میں بڑی نفاست سے باندھے جس میں سے کچھ لٹیں چہرے پر اٹھکھیلیاں کھیلتی اس کے گالوں کو چوم رہیں تھیں۔
اس کے ارد گرد کتابوں کا ہجوم لگا تھا اور وہ اپنے سامنے لیپ ٹاپ کھولے اپنے ایک ہاتھ سے جلدی جلدی لیپ ٹاپ پر کچھ ٹائپ کرتی اور دوسرے ہاتھ میں پکڑے پین سے جلدی جلدی کتاب پر لکھنے لگتی، پھر لیپ ٹاپ میں منہ دئیے بیٹھی رہتی ۔
"بیٹا نور اب تو سوجاو کتنا پڑھوگی؟؟"
دروازہ کھولتے ہوۓ نسیمہ بیگم چائے کا مگ پکڑے کمرے میں داخل ہوئیں۔
"شکریہ امی بہت طلب ہورہی تھی۔"
نسیمہ بیگم اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتی ڈھیروں دعائیں دیتی ہیں۔
بس امی ہوگیا آپ سوجائیں جاکر میں بھی بس لاسٹ کوششن سولو کررہی ہوں.نسیمہ بیگم اس کے روم کے پچھلے دس چکر لگا چکی تھیں اور نور کا ہر بار ایک ہی جواب ہوتا تھا۔ اس بار وہ اسے ٹیڑھی نگاہوں سے گھورتے ہوۓ بولیں.. "اب آخری دفعہ ہے نور اب میں آؤں تو کمرے کی لائٹس بند ہونی چاہیں۔ "
جی امی! اور ساتھ ہی وہ شرارتی سی مسکراہٹ ان کی طرف اچھا لتے ہوئے اپنی کتابوں میں منہ دے کر پڑھنے لگی.اگلے دن اس کا (M.com)کا آخری پیپر تھا تو وہ اسی کی تیاری میں لگی تھی۔
باہر تیز ہوائیں چل رہیں تھیں جس کی وجہ سے اس کی کھڑکی پر لٹکا ڈریم کیچر ہوا میں گیت گا رہا تھا ۔ ماحول میں عجیب تسلسل سا پھیل رہا تھا۔
اچانک وہ اس دھیمی سی دھن پر متوجہ ہوئ اور کھڑکی پر لٹکے ڈریم کیچر کے پاس جاکر دور آسمان پر نظر آتے آدھے چاند کو دیکھنے لگی دیکھتے دیکھتے وہ خوابوں کی دنیا میں گم کسی کو پکارتی ہے۔آنکھوں کے سامنے کچھ دھند ھلاتا ہے ، کوئ یاد آتا ہے۔
××××××××××"اذلان یہ مجھے دے دونا؟"
وہ دونوں اذلان کے کمرے کی(window) کے سامنے کھڑے تھے جہاں اس کا ڈریم کیچر لٹکا ہوا میں گیت گا رہا تھا۔
سامنے کھڑے سمندر کی ہواؤں کے ساتھ ماحول میں سکون سا پیدا ہو رہا تھا۔ سمندر کی لہریں ان کا گیت سن کر ایک دوسرے پر لوٹ پوٹ ہورہیں تھیں۔
"نہیں نور تمہیں معلوم ہے نہ میں اس سے کتنی محبت کرتا ہوں." "مجھ سے بھی زیادہ اذلان؟" (کوی جواب نہیں) اذلان جیسے کسی گہری سوچ سے نکلتا ہے۔ "نور تم جانتی ہو نہ مجھے رات میں جب بھی کوئ(bad dream) آتا ہے، تو میری آنکھ کھلتے ہی میری نظر سیدھا میرے( window ) پے لگے ڈریم کیچر پر جاتی ہے ،میری (window) سے آتی ڈریم کیچر کے گیت کی آواز اور سامنے آسمان پر گھورتا ہوا چاند اور اس کے نیچے سمندر کی لہروں کی آوازیں سن کر میں اپنا ڈریم بھول جاتا ہوں ۔"
YOU ARE READING
سکونِ راہ
SpiritualThis novel based on childhood trauma, spirituality, love, and مری سے کراچی تک کا سفر، اذلان اور نور کی کہانی سے شہری اور نور کی کہانی تک کا سکونِ راہ کا سفر۔ باقی کی جان کاری کے لئیے ناول پڑھیں ، اور اپنا ریویو دینا مت بھولیں شکریہ