نور تیار ہوکے نیچے آئ تو پورے گھر میں سناٹا چھایا تھا کچھ ملازمین کے علاؤہ باقی سب ہال جاچکے تھے۔ نسیمہ بیگم نے پہلے ہی کسی بچی کے ہاتھ نور کو پیغام بھجوادیا تھا کہ وہ ہال جارہی ہیں برابر گلی میں ہی ہے تم خود ہی آجانا۔سب لڑکیاں جا چکی تھیں تو اسے اکیلے ہی جانا پڑا ۔
پیلے رنگ کی ٹیل شورٹ فروک بازوں تک آتی تنگ آستینیں اس کے نیچے دو پائنچوں والا ہرے رنگ کا بنارسی غرارا پیروں میں گولڈن پینسل ہیل اور پیلے رنگ کا چندری کا دوپٹہ دونوں ہاتھوں میں کمر کے پیچھے سے گزار کر اپنے بازوں کے گرد دبوچ رکھا تھا۔ ہلکے سے میک اپ نے اس کی گلابی رنگت کو نکھار دیا تھا۔ دائیں ہاتھ میں سبز، پیلی چوڑیوں کا سیٹ پہنا تھا ۔ بائیں ہاتھ میں روز گولڈ زنجیر نما گھڑی پہنی تھی جس کے ڈائیل پر سنہرے ہیرے جڑے تھے۔ پتلی کلائی کی وجہ سے گھڑی کلائی سے نیچے لڑکھ جاتی تھی۔ بالوں کی بیچ میں سے مانگ نکال کر دونوں سائڈ سے ٹویسٹ کر کے بیچ میں ٹیکا لگایا ہوا تھا۔ لمبے بھورے بال پوری کمر پر بڑی نفاست سے بکھرے تھے ۔کانوں میں گولڈن جھمکے پہن رکھے تھے ۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں چلتی دروازے کی طرف جارہی تھی، تیز ہوا کے جھونکے کی وجہ سے اس کا دوپٹہ پودوں کی ٹہنی میں اٹک گیا وہ اسے نکالنے کی جدو جہد کرنے لگی۔ پیچھے ایک گاڑی میں سے ستائیس اٹھائس سال کا خوبصورت نوجوان نکلا۔ مہندی رنگ کا کرتا شلوار پہنے اور اس پر لائٹ گولڈن شال گردن کے گرد گھما کر ڈالی تھی اسکے چہرے پر اتنی کشش اور رعب تھا کہ کوئ بھی لڑکی اسے ایک بار دیکھلے تو نظر نہ ہٹا سکے ۔ اور اس پر بڑی نفاست سے داڑھی کو بغیر کسی نقش و نگار کے کاشت کیا گیا تھا۔ کانوں میں (airports) لگاۓ بڑے مصروف انداز میں کسی سے کال پر بات کررہا تھا۔ اچانک اس کی نظر نور پر پڑھی وہ اپنے دوپٹہ کو نکا لنے کی جدوجہد میں لگی تھی اب آخر کو اس کا دوپٹہ پھٹ ہی نہ جاۓ یہ سوچتی اپنا دوپٹہ اتارنے ہی لگی تھی کہ، پیچھے سے وہ شخص اس کے پھسے دوپٹہ کو نکال دیتا ہے۔ مگر اس کے ہاتھ میں کانٹا چب جاتا ہے جس کی وجہ سے انگلی میں سے ہلکے خون کے قطرے نظر آنے لگتے ہیں۔ نور کو سمجھ نہیں آتا وہ کیا کرے شکریہ ادا کرے یا ان کی چوٹ کا افسوس کرے وہ آدمی اپنے چہرے پر بغیر تاثر سجاۓ اپنی جیب سے رومال نکال کر خون کے قطرے خاموشی سے صاف کرکے سامنے ہال کے دروازے کی طرف جانے لگتا ہے۔ نور دبی آواز میں "شکریہ " کہتی ہے..
بظاہر اس آدمی کے پاس کوئی دوسری کال آگئ تھی تو اسے نور کی آواز نہیں آئ وہ اسے نظر انداز کرتا سامنے دروازے کی طرف تیزی سے بڑھنے لگا، نور بھی ساتھ ہیں اندر آئ۔سارے فنکشن میں وہ اکیلی ایک کونے میں کھڑی ریی جو بھی آتا اس سے رسمی الفاظ ادا کرتی اور چپ ہو جاتی۔ جہاں آرا اور اس کی کزنز تصویریں لے رہیں تھیں، جہاں آرا نور کو بھی زبردستی اپنے پاس لا کر تصویروں کے لیے فورس کرنے لگی وہ منع کررہی تھی، مگر اس کی ضد پر ہتھیار ڈال دیئے ۔ پکچرز لینے والا شخص نور کی بڑی خالہ کا بیٹا شاہزین تھا۔
YOU ARE READING
سکونِ راہ
SpiritualThis novel based on childhood trauma, spirituality, love, and مری سے کراچی تک کا سفر، اذلان اور نور کی کہانی سے شہری اور نور کی کہانی تک کا سکونِ راہ کا سفر۔ باقی کی جان کاری کے لئیے ناول پڑھیں ، اور اپنا ریویو دینا مت بھولیں شکریہ