اپنے روم کی لائٹ بند کرکے وہ بستر پر سونے لیٹ گئی, مگر وہ جانتی تھی نیند کا تو دور دور تک کوئ اتا پتا نہیں ہونا تھا ۔ "ہونہہ یہی تو ہوتا تھا ہمیشہ اس کی یادوں کے ساتھ وہ تنہاں رہ جاتی تھی "×××××××
پہاڑوں پر جمی برف اب بھی ویسے ہی لدی ہوئ تھی۔ پرندوں کے چہک نے کی آوازیں فضا میں جھوم کر صبح کے منظر کو خوبصورت بنا رہیں تھیں سورج آدھا سر پر آگیا تھا۔
وہ جلدی جلدی اپنی کتابیں بستے میں ڈال رہی تھی سفید رنگ کی پیروں تک آتی لمبی سیدھی قمیص اس کے نیچے سے سفید تنگ پجامہ اپنی نمائش کرنے کی ناکام کوششوں کے ساتھ جھانک رہا تھا لمبی قمیص کی تنگ آستینیں کلایوں کو چھپاۓ ہوۓ تھیں اس کے بھورے لمبے بال کمر سے نیچے کو اپنی ہی دھن میں جھول رہے تھے۔ لال اور سفید رنگ کا چندری کا دوپٹہ اس نے اپنے دائیں کندھے پر ڈال رکھا تھا۔ اس کی گلابی رنگت صبح کے پھول کی طرح کھلی ہوئ تھی چہرہ بغیر کسی نقش و نگار کے ہی بہت دلکش لگ رہا تھا۔ بڑی بڑی آنکھوں میں گھیرا کاجل لگا تھا جس سے اس کی کالے رنگ کی آنکھیں بڑی خوبصورت لگ رہیں تھیں۔
باہر سے نسیمہ بیگم اسے ناشتہ کے لیے آوازیں دے دے کر ہلکان ہوگئیں، مگر اس کی تیاری ختم نہیں ہورہی تھی اور اب نسیمہ بیگم سکندر صاحب سے اس کی شکایت کررہی تھیں ۔سکندر صاحب! "رات بھر آپ کی بیٹی جاگتی رہی تھی پڑھے جارہی پڑھے جارہی دس چکر لگاۓ اس کے کمرے کے تب جاکر سوئ " بس بہت ہوگیا اب آخری پیپر ہو جاۓ اس کا تو کوئ رشتہ تلاش کروں گی اور ہاتھ پیلے کردوں گی میں اس کے اب " "بس امی آپ کو تو میری شادی کی پڑی ہے ۔" زینہ اترتے نور ان کی آواز سن لیتی ہے جس کی وجہ سے وہ غصے میں آگ بگولہ ہوگئ۔ وہ ہمیشہ اسی طرح شادی کے نام پر غصہ کرتی تھی۔ "جب پتہ ہے نہیں کرنی مجھے شادی تو کیوں نام لیتی ہیں آپ بار بار شادی کا امی! “؟ "پتا نہیں ہمارے یہاں لڑکیوں کے جوان ہوتے ہی ان کی شادی کی فکر کیوں لگ جاتی ہے ۔"ویسے بھی ابھی مجھے بہت پڑھنا ہے." "اچھا ابو دعا کیجیے گا۔"ہمیشہ کا رٹا رٹا یا جملہ کہتی وہ بغیر ناشتہ کئیے چلی گئی۔ "ٹھیک ہے بیٹا خیال سے جانا اچھے سے پیپر دینا اللہ حافظ"
اندر نسیمہ بیگم سکندر صاحب سے ہمیشہ کی طرح شکوے شروع کر دیتی ہیں۔"بس ایک ہی ضد پر اڑی ہے آپ کی بیٹی سنتی ہی نہیں." "ارے نسیمہ بیگم جوان بچی ہے ضد تو کرے گی نہ اور آپ کو کیا ضرورت تھی صبح صبح شادی کی بات چھیڑنے کی؟؟" بسس آپ تو ہمیشہ اس کی حمایت میں بولئیے گا میں تو پاگل ہوں نا اپنی بچی کی بھلائی کا سوچتی ہوں۔ کہتی وہ کچن میں چلی گئیں۔
دوپہر کے دو بج رہے تھے نور گھر میں داخل ہوئ۔
" کیسا ہوا بیٹا پیپر؟"نسیمہ بیگم اسے دیکھتے ہی پوچھنے لگیں ۔ وہی عادتن جواب جس کی انہیں توقع تھی "اچھا ہوا" وہ اتنا کہتی اپنے کمرے کی طرف چل پڑی۔ "بیٹا کھانا تو کھالو ناشتہ بھی نہیں کیا تھا تم نے صبح، کیا ابھی تک ماں سے ناراض ہو؟" پیچھے سے نسیمہ بیگم اسے منانے کے انداز میں بولیں۔ "نہیں امی ابھی سونا ہے مجھے بہت نیند آرہی ہے اٹھ کر کھاؤں گی۔ " کہتی وہ سیڑھیاں پھلانگ گئی۔
YOU ARE READING
سکونِ راہ
SpiritualThis novel based on childhood trauma, spirituality, love, and مری سے کراچی تک کا سفر، اذلان اور نور کی کہانی سے شہری اور نور کی کہانی تک کا سکونِ راہ کا سفر۔ باقی کی جان کاری کے لئیے ناول پڑھیں ، اور اپنا ریویو دینا مت بھولیں شکریہ