کچھ دن پہلے کے منظر پر آتے ہیں جب نور کو کڈنیپ کیا گیا تھا۔لڑکے اسے کرسی پر باندھ کر کمرے سے باہر نکلے، ان میں سے ایک فون پر کسی کو کال کرتا ہے سامنے سے بہت دیر کے بعد فون اٹھا لیا جاتا ہے ۔
"ہاں بھائی پہنچ گئے ہم اب بتاؤ لڑکی کا کیا کرنا ہے؟"
سامنے سے کوئ جواب دے رہا تھا "اسے وہیں رکھو میں کل آتا ہوں ۔" اتنا کہہ کر وہ فون بند کردیا گیا۔
لڑکے اس کو وہیں کمرے میں بند کرکے چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد وہ کوشش کرتی ہے چیخنےکی مگر اس کے منہ پر کپڑا بندھا تھا پھر اپنے ہاتھ پیروں کو ہلاکر رسی کھولنے کی کوشش کرتی ہے انہیں جدوجہد میں وہ کرسی سمیت نیچے زمین بوس ہوجاتی ہے ۔
صبح کی روشنی روشن دار سے چھینتی ہوئی اس کے چہرے پر پڑی جس سے اسکی نیند کی ڈور ٹوٹ گئ باہر سے پرندوں کے چہکنے کی آواز اس کے کانوں میں سنائ دے رہی تھی جس سے اسے صبح ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ بھوک سے برا حال تھا وہ زمین پر پڑی تھی ۔ زمین پر ہی کھسکتی کھسکتی وہ دروازہ تک گئ مگر دروازہ بند تھا بہت دیر تک وہ اپنے دونوں بندھے ہوئے ہاتھ دروازے پہ مارتی رہی مگر کچھ فرق نہیں پڑھا آخر میں پھر ہلکان ہوکر وہ پیچھے ہوگئی ۔ دو دن ایسے ہی گزر گئے نا وہ لڑکے دوبارہ آئے نا ہی کوئی اور ذی روح آئی ۔۔۔۔ اچانک ہی بھاری مردانہ آوازیں اسے سنائ دی ۔ وہی تینوں لڑکے تھے شاید اس سماعتوں نے ان آوازوں کو پہچانا تھا۔ پھر دروازہ باہر کی طرف کھلا اور سامنے کھڑے وہ لوگ نظر آئے۔ ایک آدمی اسے بازوؤں سے پکڑ کر کرسی سمیت اٹھاتا ہوا کہتا ہے،اچھا تو آپ بھاگنے کی کوشش کررہیں تھیں ۔ وہ منہ سے بولنے کی کوشش کرتی ہے وہ کہتا ہے اچھا کھول رہا ہوں پھر وہ اس کا منہ کھول دیتا ہے ۔ وہ بولتی ہے پانی پانی پھر وہ لڑکا اس کے منہ کو پانی کی بوتل لگا تا ہے وہ کڈ کڈ کرکے سارا پانی ایک سانس میں پی جاتی ہے پھر وہ لڑکا اس کے ہاتھ کھولتا ہے بولتا ہے کھانا لایا ہوں کھالو جلدی وہ کھانے کی پلیٹ اس کے سامنے کرتا ہے وہ فوراً کھانے لگتی ہے۔ پیٹ میں کچھ گیا تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت واپس آئ اور اس نے فارن سوال کیا "مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟ کس نے کہا تھا مجھے یہاں لانے کو؟" وہ لڑکا اس کے چہرے پر ہاتھ لگاتے ہوئے بولتا ہے اتنی بھی کیا جلدی ہے پتا چل جائے گا سب ،"" ویسے تم ہو بڑی حسین"" صحیح مال ہاتھ آیا ہے وہ اپنا منہ پھیرتی ہے اور چیخنے کی کوشش کرتی ہے وہ لڑکا دوبارہ اس کا منہ باندہ دیتا ہے۔
پھر دوبارہ کسی کو فون کرتا ہے ؛ بھائی ہم نے اسے کھانا کھلا دیا ہے اور دوبارہ باندھ دیا ہے اسے ۔
ویسے بھائی مال تو بڑا ٹایٹ ہے پیچھے سے بھاری آواز آتی ہے "اوہ لڑکے زبان سنبھال کر بات کرو!" اچھا اچھا بھائ اتنا بھڑک کیوں رہے ہیں آپ؟؟ تم لوگ چلے جاؤ وہاں سے اب دوبارہ کبھی مت آنا میں خود دیکھ لوں گا اب اور پیسے وہیں مل جائیں گے تم لوگوں کو کہہ کر فون رکھ دیا گیا۔
اگلے دو دن تک نور وہیں کمرے میں بھوکی پیاسی بند تھی۔
صبح کے 11 بج رہے تھے جب دروازہ کھلا وہ دروازہ کی آواز سے بیدار ہوکرآنکھ کھولتی ہے آنکھوں کے سامنے دھندلا سا وجود اسے نظر آتا ہے آہستہ آہستہ وہ وجود اس کے سامنے آتا جاتا ہے اور ساتھ ہی بھاری آواز اس کے کانوں میں سنائ دیتی ہے ۔
“ اور نور بی بی کیسا لگا آپ کو اتنے دن یہاں رہ کر"
وہ آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھتی ہے اور پورا چہرا اس کا غصہ سے لال ہوجاتا ہے وہ غصہ میں کرسی کو ہلاتی ہے
مقناطیس سے مسکراہٹ کے ساتھ دوبارہ بولتا ہے۔ "کیسا لگ رہا ہے اب آپ کو نور بی بی ایسے اپنے وجود کے ساتھ یہاں بیٹھی ہو اب کیا کروگی؟ اب کرکے دکھاو مجھے اگنور وہ اس کا منہ کھول دیتا ہے وہ کہتی ہے شازین تم ،م نے مجھے کڈنیپ کروایا وہ بھی ان سب باتوں کی وجہ سے وہ کہتا ہے ہاں میں تم سے نکاح کروں گا پھر دیکھتا ہوں تم کیسے مجھ سے دور جاتی ہو ۔" "کبھی نہیں میں کبھی نہیں کروں گی چھوڑدو مجھے جانے دو پلیز " "میں تو عزت سے کرنا چاہتا تھا تم سے شادی مگر تم نے مجھ سے ایک دن بھی صحیح سے بات نہیں کی اور تمہاری امی نے بھی صاف میری امی کے منہ پر انکار کردیا ۔" وہ کہتی ہے کیا؟ کب؟ مجھے نہیں معلوم انہوں نے مجھ سے تو کوئی بات نہیں کی ۔" "مجھے نہیں معلوم میں تم سے نکاح کروں گا ۔" وہ غصے کے ساتھ اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولتا ہے۔ مگر وہ منت کرتے ہوئے کہتی ہے۔ "دیکھوشاہزین مجھے گھر بھیج دو تم میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی پلیز ایسے مت کرو میرے ساتھ امی ابو پریشان ہورہے ہوں گے پلیز مجھے جانے دو ۔"
"اب تو تم مجھ سے نکاح کرکے ہی جاؤ گی ورنہ میں بہت برا کروں گا تمہارے ساتھ کسی کو منہ نہیں دکھا سکوگی" وہ دانت پیستے ہوئے بولتا ہے
پھر اس کے سامنے گھٹنے کے بل بیٹھتا ہے ۔۔ چلو شاباش کھانا کھاؤ اب، میں نکاح کی تیاری کروں گا پھر ۔۔۔۔۔ کس رنگ کا سوٹ چاہیے تمہیں بتاو مجھے ویسے لال رنگ اٹھےگا تم پر وہی لوں گا تمہیں بہت اچھی دلہن بناؤں گا، میں خود اپنے ہاتھوں سے ." وہ اس کے چہرے کواپنے قریب کرتا ہے نور فوراً اپنا چہرہ پیچھے کرتی ہے وہ ہنستا ہوا کھڑا ہوتا ہے اور بولتا ہے۔ "تمہیں معلوم ہے تمہاری اسی ادا نے مجھے تمہارے قریب کیا ہے" اچھا اب میں چلتا ہوں کہہ کر وہ دروازہ بند کرکے چلا جاتا ہے۔
شازین رات کے بارہ بجے اپنے گھر پہنچتا ہے جبھی رابعہ بیگم اس سے بولتی ہیں کہاں غائب تھے تم سارا دن امی یہیں تھا دوستوں میں وہ کہتی ہیں سچ بتاو مجھے اور یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے دکھاؤ مجھے؟ رابعہ بیگم شازین کے ہاتھ سے کالے رنگ کا شاپر چھین کر کھولتی ہیں اس میں ایک لال رنگ کا باکس تھا باکس کو کھولتی ہیں تو سامنے سونے کا خوبصورت سیٹ نمودار ہوتا ہے وہ کہتی ہیں شازین یہ کیا ہے کس کے لیے لیا ہے تم نے یہ؟؟ وہ امی میرا نہیں ہے میرے دوست کاہے رابعہ بیگم کہتی ہیں جھوٹ مت بولو بتاؤ مجھے کیا چل رہا ہے تمہارے دماغ میں؟ کہیں یہ نور کے بھاگ نے میں تمہارا تو کوئی ہاتھ نہیں؟؟ ارے امی کیا ہوگیا ایسا کچھ نہیں ہے، نہیں مجھے یقین نہیں آرہا شازین مجھے سچ بتا دو کیا چکر چلایا ہے تم نے؟؟نہیں بتا رہے نا اب میں تمہیں گھر سے باہر نہیں نکلنے دوں گی چلو تم اندر میرے ساتھ وہ اس کا ہاتھ پکڑتی ہیں اور کھینچتی ہوئ کمرے میں لے جاتی ہے ۔ امی کیا کررہی ہیں آپ کچھ نہیں کررہا میں وہ دروازہ بند کرکے چلی جاتی ہیں۔ اس کے کمرے میں ضرورت کی اشیاء رکھواتی ہیں اور اسے تنبیہ کرتی ہیں کہ وہ گھر سے تو کیا اس کمرے سے بھی باہر نہیں جاۓ گا۔ اتفاق سے انہوں نے اس کا موبائل نہیں لیا تھا تو اس نے ان لڑکوں کو فون کرکے کہہ دیا کہ میں اگلے کچھ دن میں وہاں کا چکر نہیں لگا پاؤں گا تم لوگ جاؤ ادھر لڑکی کو دیکھو کچھ کھلاؤ پلاؤ میں تم لوگوں کو اور پیسے دے دوں گا ۔ آج صرف ایک لڑکا اکیلے ہئ جاتا ہے اور اس کو کپڑے دیتا ہے اور کھانے پینے کی چیزیں رکھ کراس کے ہاتھ پیر کھول دیتا ہے اور کمرے کو باہر سے بند کرکے چلا جاتا ہے۔ کچھ دن اسی طرح گزر جاتے ہیں ۔
YOU ARE READING
سکونِ راہ
SpiritualThis novel based on childhood trauma, spirituality, love, and مری سے کراچی تک کا سفر، اذلان اور نور کی کہانی سے شہری اور نور کی کہانی تک کا سکونِ راہ کا سفر۔ باقی کی جان کاری کے لئیے ناول پڑھیں ، اور اپنا ریویو دینا مت بھولیں شکریہ