Part 2

1.4K 82 20
                                    

بسم الله الرحمن الرحيم

عجیب سی بیچینی تھی، کچھ تھا جو واضح نہ تھا۔ کوئی الجھن تھی جو سلھج نہیں رہی تھی۔ وہ شخص اس سے بہت دور تھا۔ قدم اٹھا کے اس کے پاس جانا چاہا لیکن جیسے جسم میں جان ہی نہیں تھی۔ نا جانے وہ کون تھا، زاروقطار رویا جا رہا تھا۔ "یا اللّٰہ میری آزمائشوں کو ختم کر دے۔" یہ وہ جملہ تھا جو مسلسل اس کی زبان پر تھا۔ کعبے کے سامنے سجدے میں گرا ہوا تھا اور کسی بچے کی طرح رو رہا تھا۔ اتنے لوگ تھے اس پاس لیکن اتنی دور سے بھی وہ اس کی آواز با آسانی سن پا رہی تھی۔ وہ اس کے پاس جانا چاہتی تھی، اس سے اس کی پریشانی کی وجہ پوچھنا چاہتی تھی لیکن مجبور تھی۔ اس شخص کی پیٹھ اس کے سامنے تھی جس کی وجہ سے وہ اس کا چہرہ بھی نہیں دیکھ پا رہی تھی۔

بیڈ پے بیچینی کی حالت میں لیٹی کروٹیں بدل رہی تھی۔ پیشانی پے پسینے کی کچھ بوندیں تھی۔ سانس اوپر نیچے ہو رہی تھی۔ اچانک آنکھ کھل گئی اور وہ اٹھ کے بیٹھ گئی۔ گہری سانسیں لیے وہ اپنے آپ کو پُرسکون کر رہی تھی۔
" کون تھا وہ؟ " اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ کمرے میں اس کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ سائیڈ ٹیبل پے پڑا ہوا پانی کا گلاس اٹھا کر اس نے پانی پیا اور پھر سے لیٹ گئی۔ نیند تو جیسے کہیں غائب ہی ہو گئی تھی۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسی شخص کے بارے میں سوچے جا رہی تھی۔ کون تھا وہ؟ ، کیا رشتہ تھا اس کا اس شخص کے ساتھ؟ ، اس کی پریشانی اسے تکلیف کیوں دے رہی تھی؟۔ ایک کے بعد ایک سوال اس کے ذہن میں آرہا تھا لیکن جواب ایک بھی نہ تھا۔

نیند اُسے تب آنا شروع ہوئی جب فجر کی اَذان اس کے کانوں میں پڑی۔ اکثر ہم بھی ایسے ہی کرتے ہیں ساری ساری رات جاگ کر صبح فجر کے وقت سوتے ہیں۔ نیند کی شدت بہت زیادہ تھی لیکن پِھر بھی وہ ہمت کر کے اٹھ گئی، یہ سوچ کر اٹھ گئی کے یہ مشقت وقتی ہے لیکن اِس کا صلہ ابدی ہوگا۔
کبھی لذت کے لیے گناہ نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ لذت ختم ہو جاتی اور گناہ باقی رہتا ہے۔ اور کبھی مشقت کی وجہ سے نیکی نہیں چھوڑنی چاہیے کیوں کہ مشقت ختم ہو جاتی ہے اور نیکی باقی رہتی ہے۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

" تمہاری بات ہوئی رئیسہ سے؟ " سالار نے لیپ ٹاپ پے کچھ ٹائپ کرتے ہوئے بولا۔
" ہاں، آج ہوئی تھی۔ " امامہ نے کتاب بند کر کے سالار کو جواب دیا جو وہ پڑھ رہی تھی۔
" کیا کہہ رہی تھی ؟ "
" کہہ تو رہی تھی کے ہشام تھوڑا مصروف ہے لیکن وہ پوری پوری کوشش کرے گی آنے کی۔ "
" اور عنایہ؟ "
" ہاں عنایہ تو آئے گی۔ "
امامہ سے بات کرنے کے بعد سالار پِھر سے اپنے کام کی طرف متوجہ ہوگیا تھا لیکن پِھر سے رک گیا جب اس نے امامہ کو یوں ہی خالی بیٹھے ہوئے دیکھا۔
" کیا ہوا ؟ " سالار جیسے پریشان سا ہوا تھا اسے یوں دیکھ کر۔
" سالار کتنا وقت ہو گیا نا سب کو اکھٹا دیکھے ہوئے۔" امامہ نے اپنی پریشانی کی وجہ اسے بتائی۔
" ہاں، واقعی میں۔ " کافی وقت ہو گیا تھا سالار اور امامہ کو اپنے سارے بچوں کو ساتھ دیکھے ہوئے۔ آخری بار سب رئیسہ کی شادی کی دعوت پر اکھٹے ہوئے تھے۔
" اِس لیے میں چاہتی ہوں کے جبریل کی شادی پر سب اکٹھے ہوں۔ " سالار اسے پریشان دیکھ ہی نہیں سکتا تھا۔ امامہ کی ہر پریشانی وہ دور کر دیتا تھا اگر حالت اس کے بس میں ہوتے تو۔ ابھی بھی حَل سالار نے ہی دیا تھا۔
" تم پریشان مت ہو میں جبریل سے کہوں گا کہ وہ خود رئیسہ سے بات کرے۔ " سالار کی اِس بات پر امامہ نے جیسے امید بھری نگاہوں سے اسے دیکھا۔ بدلے میں سالار مسکرا دیا۔
امامہ اٹھ کہ سالار کے قریب ہوئی اور اس کے کندھے پے اپنا سَر رکھ دیا۔ سالار نے بھی اپنے سَر کو امامہ کے سَر پر ٹکا دیا اور پِھر سے کام کرنے لگا۔ چند لمحے دونوں یوں ہی بیٹھے رہے پِھر کچھ دیر بعد امامہ پِھر سے بولی۔
" سالار "
" ھمم ؟ "
" تمہیں نہیں لگتا کہ اب حمین کی بھی شادی ہو جانی چاہیے۔" سالار کے کی بورڈ پر چلتے ہوئے ہاتھوں کو جیسے امامہ کے الفاظ نے لگام دی تھی۔ سالار نے سَر اٹھا کر اسے دیکھا۔
" یہ بات تم سے حمین نے کہی ہے؟ " سالار نے امامہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس سے سوال کیا۔ امامہ بھی اس کی آنکھوں میں ہی دیکھ رہی تھی۔
" نہیں تو۔ "
" پِھر ٹھیک ہے۔ " سالار کی نظریں پِھر سے لیپ ٹاپ پر تھیں۔ لیکن امامہ جیسے الحجھ سی گئی تھی۔
" تم نے ایسا کیوں کہا ؟ "
" کیا کہا میں نے؟ " سوال کی بدلے سوال آیا تھا۔
" یہی کے حمین نے اپنی شادی کی بات خود مجھ سے کی ہے۔ " سالار امامہ کی اِس بات پر مسکرایا۔
سالار نے اپنے ہاتھ کے سہارے سے نہایت نرمی کے ساتھ امامہ کا سَر پِھر سے اپنے کندھے کے ساتھ لگایا۔
"اس دن بھی ناشتہ کرتے ہوئے حمین نے اسی ٹاپک کو چھیڑا تھا نا اس لیے مجھے لگا اس نے پھر تم سے بات کی۔ " امامہ ہنس پڑی۔
" تمہیں کیا لگتا ہے؟ اسے کوئی پسند ہوگا؟ " امامہ نے سالار سے پوچھا۔
" مجھے نہیں لگتا۔" بدلے میں جواب منفی آیا تھا۔
" ایسا کیوں؟ "
" کیوں کے اگر ایسا کچھ ہوتا تو وہ ہمیں ضرور بتاتا۔" ایک اعتماد تھا ، ایک بھروسہ ، اپنی تربیت پر۔
" میں حمین سے پوچھوں؟ " امامہ کو تسلی نہیں ہوئی تھی۔
" ہاں پوچھ لو ، کر لو اپنی تسلی لیکن دیکھنا وہ بھی تمہیں یہی کہے گا جو میں نے تمہیں کہا۔ "
امامہ بھی حمین کی ماں تھی لیکن سالار اسے زیادہ اچھے سے جانتا تھا۔ بچپن میں بھی وہ سپیلنگ بی کمپٹیشن جان بوجھ کر ہارا تھا یہ بات صرف سالار ہی سمجھ سکا تھا وہ بھی حمین کے بغیر بتائے۔ واقعی ہی میں ان باپ بیٹے کی جوڑی کو ان دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔

𝐐𝐢𝐬𝐬𝐚-𝐞-𝐒𝐢𝐤𝐚𝐧𝐝𝐚𝐫 (Urdu)Where stories live. Discover now