Part 3

934 75 23
                                    

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

"ممی آپ لوگ واپس چلے جائیں گے JB کی شادی کے بعد؟" حمین نے امامہ سے پوچھا۔
"ہاں۔" امامہ نے جواب دیا۔
"آپ یہاں میرے ساتھ رہ لیے گا نا۔" حمین نے جیسے اسے منانے کی ایک ناکام کوشش کی۔
"اس طرح تمہارے بابا اکیلے ہو جائیں گے۔" امامہ نہیں مانی۔
"فکر مت کرو ہم بھی نیویورک میں ہیں، تم بھی نیویارک میں ہو۔" امامہ نے وضاحت دی۔
"لکین آپ کے اپارٹمنٹ سے میرا پینٹ ہاؤس کتنا دور ہے۔" ایک منت تھی اس کے لہجے میں۔
"اگر سالار کے کام کا مسئلہ نہ ہوتا تو ہم دونوں یہیں تمہارے پاس رک جاتے۔"
"ممی بابا سے کہیں کہ اب بس کریں، آۓ مین (I mean) کہ اب ریٹائر ہو جائیں۔" دونوں ماں بیٹے کھلی فضا میں بیٹھے، ہاتھ میں چائے کا کپ لیے کچھ ڈسکس کر رہے تھے۔
"ہاں مجھے کہا تو تھا اس نے، ہو سکتا ہے کہچھ ٹائم تک لے لے۔"
حمین نہیں چہتا تھا کہ سالار اور امامہ کہیں اور جائیں۔ سالار کے کام کی مجبوری تھی نہیں تو وہ سالار کو بھی اپنے پینٹ ہاؤس میں رکنے کا مشورہ دیتا۔ امامہ کو رکنے کے لیے بولا تو اس نے بھی منا کر دیا یہ کہہ کر کہ سالار اکیلا ہو جائے گا۔ وہ اکیلے رہنے سے اتنا گھبراتا نہیں تھا لیکن کچھ وقت سے سالار اور امامہ اس کے پاس ہی تھے تو حمین کو جیسے عادت سی ہوگئی تھی اس لیے وہ تھوڑا اداس سا ہو گیا تھا یہ سوچ کہ اس کا گھر پھر سے ویران ہو جائے گا۔
ایک خاموشی کا وقفہ آیا پھر کچھ دیر بعد امامہ بولی۔
"جبریل نہیں آیا ابھی تک؟" امامہ نے حمین سے پوچھا۔
"نہیں! وہ ایک سرجری کر کے سیدھا اپنے اپارٹمنٹ میں چلا گیا۔ کہہ رہا تھا تھوڑا ریسٹ کر کے پھر آؤں گا۔" حمین نے جواب دیا۔
حمین نے اپنی رسٹ واچ پر ایک نظر دوڑائی، کپ سامنے پڑی ہوئی ٹیبل پر رکھا، اور فورن سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"کہاں جا رہے ہو؟" امامہ نے پوچھا۔
"ممی میں نے ایک آن لائن میٹنگ اٹینڈ کرنی ہے۔ تو مجھے اجازت دیں ذرا۔" آخری جملہ اس نے اپنی ہمیشہ کی طرح شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
"ٹھیک ہے جاؤ۔" امامہ بھی نرمی سے مسکرا کر بولی۔
امامہ کا بولنا تھا اور حمین اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
وقت کا چکر کسے کے لیے نہیں رکتا۔ وقت بدلتا ہے، حالات بدلتے ہیں، انسان بدلتے ہیں۔ کبھی بھی کچھ بھی ایک جیسا نہیں رہتا۔ وقت اچھا ہو یا برا گزر ہی جاتا ہے۔ ایک وقت تھا جب سالار اور امامہ اپنے سارے بچوں کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ اور اب، جب اتنا وقت گزر گیا تھا تب کہیں شاذونادر ہی سب اکھٹے ہوتے تھے۔ سب اپنی اپنی زندگی میں مصروف تھے۔ کوئی پروفیشنل لائف میں تو کوئی پرسنل لائف میں۔

*****

وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنا لونگ کوٹ سیٹ کر رہی تھی کہ اتنے میں اسے اپنے موبائل کی رنگ ٹون سنائی دی۔ وہ چند قدم چل کے اپنے سیل فون کے پاس آئی جو کہ بیڈ پے پڑا تھا۔ پھر جھک کر اس نے فون اٹھایا اور کان کے ساتھ لگا لیا۔
"ہیلو!" اس نے کالر ایڈی دیکھے بغیر فون اٹینڈ کر لیا۔
"ریڈی ہو؟" سامنے سے سوال آیا۔
"آل موسٹ(Almost)"
"گڈ! کم فاسٹ۔ آۓ ایم ویٹنگ آؤٹ سائیڈ"
(Good! Come fast. I am waiting outside.")
"اوکے(ok)" یہ کہہ کر اس نے کال کٹ کر دی۔

𝐐𝐢𝐬𝐬𝐚-𝐞-𝐒𝐢𝐤𝐚𝐧𝐝𝐚𝐫 (Urdu)Where stories live. Discover now