Part 4

408 48 15
                                    


بسم الله الرحمن الرحيم

سالار کال پے کسی سے بات کر رہا تھا جب جبریل اس کے کمرے میں داخل ہوا۔ سالار کا منہ دیوار کی طرف تھا جس کی وجہ سے وہ جبریل کو اندر آتے ہوئے نہ دیکھ سکا۔ جبریل چند قدم چل کے اندر داخل ہوا پھر سالار کو فون پے بات کرتا دیکھ وہ کمرے کے بیچ میں ہی کھڑا ہو گیا۔

کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد سالار نے کال کٹ کر دی۔ جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو جبریل کمرے کے وسط میں کھڑا تھا۔ سالار اسے اچانک سامنے پاکر چونکا۔
"ارے!! تم کب آۓ؟؟" سالار نے اپنا فون سائیڈ ٹیبل پے رکھتے ہوئے جبریل سے پوچھا۔

"بس ابھی کچھ دیر پہلے ہی آیا ہوں۔" سالار اور جبریل دونوں اب آمنے سامنے کھڑے تھے۔
سالار نے کچھ لمحے جبریل کا چہرہ دیکھا پھر پوچھا۔
"کیا ہوا کچھ کہنا چاہتے ہو؟؟" سالار نے اندازہ لگایا جیسے جبریل کو کچھ کہنا ہے۔
"جی وہ کچھ بات کرنی تھی آپ سے۔"
"ہاں بولو!!"
"بابا میں شادی کے بعد پاکستان شفٹ ہونا چاہتا ہوں پرمنینٹلی۔"
جبریل کی اس بات نے سالار کو آنکھیں سمیٹنے پر مجبور کر دیا۔
"مجھے پورا یقین ہے کہ یہ بات تم سے عائشہ نے تو ہرگز نہیں کہی ہو گی۔" وہ سالار سکندر ہی کیا جس کے اندازے غلط نکل آئیں۔
جبریل سر جھکا کر ہسنے لگا پھر جب سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے کھڑا سالار مسکرا رہا تھا۔
"کریکٹ (correct) !!"
"ٹھیک ہے ہو جاؤ شفٹ لیکن کوئی خاص وجہ ہے اس کی؟؟ آۓ مین (I mean) اچھی خاصی پوسٹ پے ہو تم۔"
"جی بابا (I know) پر میں اپنی قابلیت، اپنا ٹائم، اپنی اینرجی، سب کچھ اپنے ملک کو دینا چاہتا ہوں، اپنے ملک کے لیے صرف کرنا چاہتا ہوں۔"
سالار کو جیسے فخر سا ہوا تھا اپنی تربیت پر۔
"ٹھیک ہے جیسا تمہیں ٹھیک لگے۔" جبریل نے اپنے سر کو ہلکی سی جنبش دی۔
"لیکن تم وہاں رہو گے کہاں؟؟" پاکستان میں صرف ایک گھر تھا اور وہ بھی حمین کا تھا، یہ وہی گھر تھا جہاں پے کسی زمانے میں سکندر عثمان اپنے بچوں کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ اور ان کی وفات کے بعد حمین نے وہ گھر خرید لیا تھا۔ وہ گھر حمین کا تھا سالار کا نہیں، اور جبریل خدار باپ کی خدار اولاد تھا، اس میں اتنی خداری تھی کہ وہ اپنے بھائی کے گھر میں رہنے کے بجائے ایک رینٹ کے فلیٹ میں رہنا پسند کرے گا۔ اور یہ بات سالار اچھے سے جانتا تھا تبھی اس نے یہ سوال بھی کیا۔
"ایک گھر لینے کا پلین ہے میرا لیکن فلحال ایک فلیٹ لے لوں گا رینٹ پے۔" سالار کو اب سارے سوالوں کے جواب مل چلے تھے۔
"آۓ سی ( I see )" سالار نے گہرا سانس لیتے ہوئے بولا۔
"میں جاؤں اب؟؟" جبریل نے سالار سے اجازت چاہی۔
"ہاں جاؤ!!" سالار نے مسکرا کر بولا۔
جبریل بھی جوابً مسکرایا ، پھر واپس باہر جانے کے لیے اپنا رخ دروازے کی طرف پھیر لیا۔ چند قدم چلنے کے بعد سالار نے اسے پیچھے سے آواز لگائی۔
اس نے گردن گھما کر دیکھا تو سالار وہیں کھڑا تھا۔
"جی بابا!!" سالار کی پکار کو جواب ملا۔
" آۓ ایم پراوڈ آف یو (I am proud of you ) "
سالار کے چہرے پے ایک فخریہ مسکراہٹ تھی۔
سالار کے الفاظ جبریل کے لبوں پر مسکراہٹ لے آۓ۔
"تھینک یو (thank you )" جبریل نے مسکراتے چہرے کے ساتھ اپنی گردن سیدھی کی اور پھر سے باہر کی طرف قدم بڑھانے لگا۔
سالار وہیں کھڑا اس کی پشت کو آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہوئے دیکھتا رہا۔

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Jul 02 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

𝐐𝐢𝐬𝐬𝐚-𝐞-𝐒𝐢𝐤𝐚𝐧𝐝𝐚𝐫 (Urdu)Where stories live. Discover now