03

4 0 0
                                    

ایک بار پھر فرنچ میں اپنے باپ سے مصروف گفتگو ہو گیا تھا۔

حیدر ! اب یہ یہیں رہے گی۔"

کیوں؟ حیدر نے قدرے حیرانی سے پوچھا تھا۔ "چائے لے لیں۔ " سارہ نے

گفتگو میں مداخلت کی تھی۔ اس نے ایک رسمی تے شکریہ کے ساتھ کپ پکڑ لیا وہ

دوبارہ چائے پینے میں مصروف ہو گئی تھی۔

"عامر چکی ہے اور یہ اکیلی کیسے رہ سکتی ہے۔ " اس بار حیدر نے سارہ کو دیکھا۔

ان کی ڈیتھ کب ہوئی؟ ایک بار پھر اس نے باپ سے پوچھا تھا۔

پانچ دن پہلے ۔ " حیدر نے باپ کو گہری نظروں سے دیکھا تھا وہ اس سے نظر چرا

گئے۔ اس نے مزید کوئی سوال کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

سارہ فرنچ میں ہونے والی ساری گفتگو سے بے نیاز چائے پیتی رہی۔ ایسا نہیں تھا

کہ وہ گفتگو اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ جتنی روانی نے وہ دونوں فرینچ بول رہے تھے

وہ اتنی روانی سے فرنچ نہیں بول سکتی تھی لیکن بہر حال وہ فرش نہ صرف بول لیتی تھی

بلکہ اسے اچھی طرح لکھ پڑھ بھی لیتی تھی۔ بچپن میں اس نے ماں کو تنہائی میں بیٹھے یہی

زبان بولتے دیکھا تھا۔ اس نے جاننے کی کوشش کی تھی کہ وہ کون سی زبان بولتی ہیں

تب وہ اس زبان کا نام نہیں جانتی تھی اور ہر دفعہ پوچھنے پر امی گم سم ہو جاتی تھیں مگر پھر

بعض دفعہ وہ خود ہی خود کلامی میں مگن ہو تیں اور اس کا اشتیاق بڑھتا ہی جاتا پھر وہ جان

گئی تھی کہ امی فرنچ بولتی ہیں اور اسے شاک لگا تھا۔

یہ زبان امی کو کیسے آتی ہے اور اگر یہ زبان آتی ہے تو پھر اور کیا کیا آتا ہے ؟"

ان سوالوں نے اس کے تجس کو اور بڑھا دیا تھا اور ہر سوال کا جواب امی کی طرف سے ایک خاموشی کی صورت میں ملتا تھا۔ پھر جب اس نے کالج میں داخلہ لیا تو کسی

شعوری کوشش کے بغیر ہی اس نے آپشنل سجیکٹس میں فرینچ لے لی تھی۔ وہ امی کے
اسرار کو جاننا چاہتی تھی۔ وہ خود سے کیا بات کرتی ہیں؟ کیا کہتی ہیں ؟ کیا سوچتی ہیں۔ بہت آہستہ آہستہ وہ اس قابل : دکئی تھی کہ امی کی باتوں کو ، ان کے جملوں کے مفہوم کو سمجھ سکے اور جب وہ ایسا کرنے کے قابل ہوئی تو وہ چکر آگئی تھی۔ جب بات سمجھ میں نہیں آتی تھی جب لگتا تھا کہ زبان جاننے کے بعد وہ بات سمجھ جائے گی جب زبان جاننے لگی تھی تو اسے یوں لگنے لگا تھا جیسے وہ کبھی امن کی باتوں کو سمجھ نہیں پائے گی۔ ان کی باتوں میں کہیں بھی ان کا ماضی نہیں جھلکتا تھا۔ کہیں بھی کوئی نام نہیں آتا تھا سوائے ایک نام کے " اللہ " ان کی باتیں اسے ولی کی باتیں لگاتی تھیں نہ درویش کی مگر وہ انسان کی باتیں بھی نہیں تھیں۔ کیونکہ انسان کی باتوں میں شکوہ آتا تھا ان کی باتوں میں شکوہ نہیں ہوتا تھا۔

Meri Zaat Zarra-e-Benishan By Umera Ahmed  (Urdu)Where stories live. Discover now