وہ ہونٹوں سے سیٹی بجاتا بجاتت اپنے فلیٹ سے نکلا
دورازے کو تالا لگاتے ہوئے اُس نے سوچا
آج آخری دن ہے
آج دن کو کسی وقت بھی اُسکی بیوی وآپس آ رہی تھی اور پھر
وہ ناشتہ کرنے باہر نہیں جایا کرے گا
ویسے تو وہ پچھلے کچھ دنوں سے ریسٹورانٹ پر ناشتہ کر کے وہیں سے آفس جاتا تھا لیکن
آج چھٹی کا دن تھا، ناشتہ کر کے اُسے وآپس آنا تھا
اُس نے سخت سردی سے بچنے کے لئے ٹراؤزرز اور ٹی شرٹ کے اوپر ہی چیسٹر پہن لیا تھا
دروازے کو لاک لگا کر اُس نے چابی ہوا میں اچھالی
بلندی کی طرف جاتی ہوئی شے زمین کی طرف وآپس آنے سے پہلے
ایک لمحے کو ہوا میں رکتی ہے ، اُسی معلق لمحے میں
کمزور بلب کی ٹمٹماتی روشنی میں سرنگ کی طرح دکھنے والے کوریڈور میں پڑی ایک پوٹلی نما شے میں حرکت ہوئی
چابی نیچے گر گئی
اُس نے سرسراتی گٹھڑی سے نظریں ہٹائے بغیر چابی فرش سے اٹھائی اور
اُس کے پاس چلا گیا
یہ ایک سِن رسیدہ عور ت تھی
سردی سسے ٹھٹھری بھوک سے دہری ہوئی اور پکڑے جانے کے ڈر سے سہمی ہوئی
اُس کے پاس ایک شاپنگ بیگ میں ڈرائی فروٹ کے چھوٹے چھوٹے چند پیکٹ تھے
لیکن اُس کے پوپلے منہ اور پچکے ہوئے جبڑے کی ساخت سے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ وہ ڈرائی فروٹ تو کیا شاید سینڈوچ بھی چبانے سے قاصر ہے۔
اس کے بال کچھڑی تھے لیکن ان کی وضع قطع اور انداز بتا رہا تھا کہ ماضی قریب میں وہ گھنی اور خوبصورت زلفوں کی مالک رہی ہو گیشاید یہ عورت ہوم لیس تھی اور ٹریفک سگنل پر چھوٹی موٹی اشیاء بیچ کر گزارا کرتی تھی
ایسے لوگوں کو کبھی شیلٹر میں جگہ ملتی ہے کبھی نہیں
کبھی کچھ بک جاتا ہے کبھی نہیں بھی بکتا
لیکن اس سردی میں پوری رات باہر بھوکے پیٹ۔۔۔۔
اُس سے بات کا آغاز کرنے سے بھی پہلے ہی اُس کے دل نے سرگوشی کی ارے نہیں آج کسی بھی وقت بیوی وآپس آ رہی ہے وہ کہاں مانے گی
پچھلی بار جب ایک نو عمر بچے کو سیڑھیوں کے پاس زخمی حالت میں پا کر وہ کچھ دیر کے لئے گھر لے آیا تھا
تو بیوی نے طوفان کھڑا کر دیا تھا
کیسے چیخ چیخ کر گھر سر پر اٹھا لیا تھا کوئی مجھے بتائے گا کہ یہ ہسپتال، ہے یتیم خانہ یا ویلفیئر سینٹر
شادی سے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ اپنے گھر نہیں ایک سب وے میں ایک میٹرو سٹیشن پر لے کے جا رہا ہوں
وہ تو خیر جس کی وہ مدد کرنا چاہتا تھا وہ ایک بے کس کم عمر لڑکا تھا اگر کوئی عورت ہوتی تو قانون کے مطابق
بیوی اُس کے خلاف یہ کیس بھی کر وا سکتی تھی کہ وہ اُس کا آدھا حق کسی اور عورت کو دے رہا ہے۔کچھ گھنٹوں کے لئے تو فلیٹ میں لے جا سکتا ہوں ،
اس کے سینے میں کسی کی لاغر سی سہمی ہوئ احتجاجی صدا بلند ہوئ
ناشتہ کروا کے کافی پلا کے کہیں بھیج دوں گا وہ زیر لب بڑبڑایا جیسے اس کمزور آواز کی تائید کرنا چاہ رہا ہو
لیکن اگر بیوی جلدی آگئ تو
یا کوئ دوست ادھر آنکلا تو کیا ہو گا، آج ویسے بھی چھٹی کا دن ہے
اور اگر میں ناشتہ لینے گیا اور یہ عورت میرے فلیٹ میں مر گئ تو۔۔۔
یا جانے سے ہی انکار کر دیا تو
ایسے لوگوں کو جب نرم بستر، گرم کمرا اور کھانا ملتا ہے تو۔کہیں جانے کا نام ہی نہیں لیتے۔۔۔ نہیں نہیں
اُس کی انکھوں کے سامنے اپنے دونوں قریبی دوستوں کے طنزیہ انداز میں ہنستے ہوئے چہرے گھومنے لگے۔۔۔۔
کیوں رے احمق کیوں ایسی حرکتیں کرنے سے باز نہیں آتا۔۔۔
بھابھی گھر سے جاتی ہیں تو پیچھے کوئ نہ کوئ گل کھلایا ہوتا ہے تو نے
بیوی تو بیوی دوست یار بھی بس ایسے ہی ہیں اُس نے جھنجھلا کر سوچا
کسی کو اس طرح کی باتوں میں الجھنا ، بل شٹ سے زیادہ نہیں لگتا
اور کوئی اس سب کو نان سینس کہتا ہے۔۔۔
نہ جانے کیوں اسے اپنی ماں یاد آگئ اگر وہ زندہ ہوتی توبالکل بھی اعتراض نہ کرتی
لیکن ماں خود بھی تو اسی طرح بیمار اور کمزور تھی اور وہ ان دنوں بیوی کی طبیعت اکثر خراب رہنے کی وجہ سے ماں کو اپنے ساتھ نہ رکھ سکا تھا۔۔۔۔۔
وہ قیرب جا کر نیچے جھکا تو عورت کے پھٹے ہوئے بوسیدہ کمبل سے جھانکتے چہرے پر دھنسی آنکھوں کو بالکل سر پر لگے بلب کی روشنی میں دیکھ کر سکتے میں آ گیا
اس عورت کی تیز بلوری آنکھوں میں اس کے ماضی کے وقار اور متانت کا عکس ابھی بھی جھلک رہا تھا شاید اسی لئے اس نے کسی کا دروازہ نہ کھٹکھٹایا تھا۔
اُسے دیکھتے ہی عورت کی آنکھیں پہلے خوف سے سکڑیں اور پھر ان میں امید کا ایک دیا سا روشن ہو گیا۔
ویسی ہی موہوم سی چمک جیسی کبھی کبھی اپنے پرانے گھر کے کونے والے کمرے میں وہ اپنی ماں کو
چائے کا گرم کپ پکڑانے جاتا تھا تو اس کی آنکھوں میں آ جایا کرتی تھی۔
وہ وآپس سیدھا ہوا ایک ثانیے کو کچھ سوچا اور پھر
اپنی سوچ کو ناقابل عمل جان کر جیب سے ایک چھوٹا نوٹ نکال کر اُس عورت کے پاس بیٹھ گیا
اُس نے اُس کا ہاتھ پکڑا یخ بستہ انگلیاں برف کی سلاخوں کی طرح اُس نے سینے میں اتر گئیں۔
ایک لمحے کو اس نے اس عورت کو گرم کمرے میں نرم گداز کمبل میں دبکے ہوئے دیکھا جس کے سامنے وہ تازہ کھانا اور گرما گرم کافی کا مگ رکھ رہا تھا لیکن اگلے ہی لمحے اس نے اپنا سر جھٹک دیا-
KAMU SEDANG MEMBACA
ھوم لیس ۔ Homeless
Cerita Pendekکیا زمانے کی رفتار سے قدم ملانے کے لیئے اپنی اقدار کو روندنا ضروری ہے، یا دوڑ ہی اتنی اندھا دھند ہے کہ قدریں خود بخود پاؤں تلے آ جاتی ہیں۔