تحریر مریم صدیقی
دل اور دماغ کی جاری اس جنگ میں وہ کشمکش کا شکار تهی کہ آخر وہ کس کی سنے کس کو چنے، دماغ اسے دلائل دیتا کہ تم سے بهی محبت کے نام پر دل لگی کی جارہی ہے، ہوش کے ناخن لو اور ان ماں باپ کی کی قدر کرو جو تم پر بهروسہ کئے ہوئے ہیں، لیکن دل محبوب کے تابع تها، عقل سے مات کیسے کها جاتا....
ایک سال کا عرصہ گزر گیا دعا دل اور دماغ کی جنگ میں گهری رہی، جب بهی شازل سے شادی کی بات کرتی وہ ٹال مٹول سے کام لیتا اور خفگی کا اظہار کرتا، دعا الجھ رہی تهی کہ محبت کرنے والے تو ساتھ رہنے کی دعائیں مانگتے ہیں، کیا کیا جتن نہیں کرتے ساتھ رہنے کے لئے، نکاح جیسے خوبصورت پاک شفاف بندهن میں بندهنے کے لئے لیکن شازل شادی کے نام پر چڑ کیوں جاتا تها، کیوں وہ نکاح جیسے پاکیزہ بندهن سے بهاگ رہا تها، دعا یہ سوال صرف سوچ کر ہی رہ جاتی.
بالآخر اس نے شازل سے آخری مرتبہ بات کرنے کا فیصلہ کیا، یا تو وہ رشتہ لے کر اس کے گهر آئے یا وہ اسے چهوڑدے، حسبِ توقع شازل ہتهے سے اکهڑ گیا، شازل کا آپے سے باہر ہونا دعا کی سمجھ سے باہر تها، اس نے شازل سے اس رویے کی وجہ جاننی چاہی، اسکے بہت اصرار پر جو وجہ شازل نے بیان کی وہ سن کر وہ زمین پر ڈهیتی چلی گئی، اسکے بهروسے، اعتماد، محبت کی عمارت زمین بوس ہوچکی تهی، اسے لگا کہ اس نے کچھ غلط سنا ہے، شازل اسکا شازل ایسا کیسے کہہ سکتا ہے...
وہ ایسا نہیں کرسکتا، وہ تو مجھ سے محبت کرتا ہے،
دماغ نے ایک بهر پور قہقہہ لگایا دعا کی اس خوش فہمی پر، دل غم و غصے کا شکار بهی تها اور نادم بھی، دعا کو اسی نے ان حالات تک پہنچایا تها، دعا زمین پر بیٹهی اپنی محبت کا ماتم کر رہی تهی اور شازل کے الفاظ اسکے ذہن کے پردے پر گونج رہے تهے.
" دعا میں تم سے شادی نہیں کرسکتا، کیونکہ میں پہلے ہی شادی شدہ ہوں، میری بیوی مجھ سے بہت محبت کرتی ہے اور میں بهی اس سے میں ایک بہت اچهی شادی شدہ زندگی گزار رہا ہوں جسے میں تمہاری وجہ سے برباد نہیں کرسکتا، تم چاہو تو مجھ سے اسی طرح بات کرتی رہو، چاہو تو نہیں کرو تم جیسی بہت مل جاتی ہیں." لیکن شازل تم تو مجھ سے محبت کرتے ہو ناں، تم ایسا کیسے کرسکتے ہو میرے ساتھ، تم مجهے دهوکہ نہیں دے سکتے، تم یہ سب مجھ سے ناراضگی میں کہہ رہے ہو ناں. دیکهو ایسے مت کہو میں تم سے سچی محبت کرتی ہوں، تم نے مجھ سے وعدہ کیا تها کہ تم شادی کروگے مجھ سے.
دعا کی باتیں سن کر شازل کو ایک بار پهر غصے نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس نے محبت کا چولا اتار پهینکا، اور دعا کی کردار کشی کرنے لگا، شازل کے الفاظ تیر بن کر اسکے دل پر لگے، اس نے فون بند کردیا، اس کم ظرف انسان سے اسے اب کوئی توقع نہیں تھی، جس نے محبت کے نام پر اسے ٹهگا تها، غلطی اسکی بهی تهی، وہ بهی اللہ کی مقرر کردہ حدود سے آگے بڑهی تهی، شازل کی میٹهی باتوں اور جهوٹے عہدو پیماں میں وہ یہ بهول چکی تهی کہ نامحرم محبتیں ایسے ہی انجام کو پہنچا کرتی ہیں. وہ نادم تهی اپنی اس بهول کے لئے. شازل کے الفاظ جونہی اسے یاد آتے انکهوں سے اشک جاری ہوجاتے، اسکے تو جذبے سچے تهے، اس محبت نے اسے نا قابلِ تلافئ نقصان پہنچایا تها.
شازل کی بے وفائی کا دکھ دعا کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ رہا تها، شازل نےاسکے انمول جذبات کی ناقدری کی تهی، شادی شدہ ہوکر اس نے دعا کے ساتھ محبت کا ڈهونگ رچایا، دعا اپنے عمل پر بهی نادم تهی، والدین کی اکلوتی اور لاڈلی اولاد ہونے کے باوجود اسے ماں باپ کی طرف سے بہترین تربیت ملی تهی اسکی والدہ نیک طبیعت سادہ خاتونِ خانہ تهیں انہوں نے دعا کی تربیت بہترین خطوط پر کی تهی، پهر کیسے وہ غلط راہ پر چل پڑی، کیونکر اس نے وہ راستہ چنا جو اسے صرف تباہی کی طرف دهکیل رہا تها ، وہ اتنی کمزور کیسے ہوگئی کہ شازل جیسے مرد کی باتوں میں آگئی، ان سوچوں نے بری طرح دعا کو جکڑ لیا تها، اس وقت اسکے پاس اپنے عمل کے لئے فقط ندامت تهی، اس نے رو رو کر گڑگڑا کر اللہ سے معافی مانگی، ہمت مجتمع کرکے ساری داستان اپنی والدہ کے سامنے حاضر ہوئی، اسکی حالت دیکھ کر اسکی والدہ رقیہ بیگم کو رنج ہوا نظر شناس خاتون تهیں جان گئیں کہ بیٹی سے کوئی غلطی ہوگئی ہے جس پر وہ نادم ہے. گناہ پر ندامت ہونے پر تو اللہ بهی معاف کردیتا ہے. جان سے پیاری بیٹی کی حالت دیکھ کر ماں کو بهی رونا آگیا، بیٹی کے آنسو پونچھ کر اسے پاس بٹهالیا اور دریافت کیا بتاؤ تو کیا سبق سیکها؟ بیٹی نے ندامت سے سر جهکا لیا، شفیق ماں کی جانب دیکهنے کی ہمت نہ ہوتی تهی. والدہ نے ہاتهوں میں چہرہ تهام کر اپنا سوال دہرایا.
دعا خود پر قابو نہ رکھ سکی اور زار و قطار رونے لگی، یہ سوچ کر ہی شرم سے پانی پانی ہورہی تهی کہ اتنی محبتیں ٹهکرا کر آخر وہ کونسی محبت کی تلاش میں تهی... کیا کوئی محبت والدین کی محبت سے بهی زیادہ مخلص اور پاکیزہ ہوسکتی ہے؟ اس نے چهلکتی آنکهوں سے ماں کی جانب دیکها، اور سر جهکا کر گویا ہوئی.
میرے موبائل پر ایک دن ایک انجان نمبر سے کال آئی، عموماً میں ایسی کالز نہیں لیتی لیکن اس دن پڑهائی کے دوران بنا نمبر دیکهے میں نے کال اٹهالی، دوسری جانب سے غیر شناسا مردانہ آواز فون کے اسپیکر پر ابهری میں نے کال کاٹ دی، لیکن اسکے بعد متواتر کالز آتی رہیں، میں نے ایک بهی نہیں وصول ک، چند دن بعد شاعری اور اسلامی پیغامات وصول ہونا شروع ہوئے، جن کا متن پڑھ کر میں خود بخود انکی جانب کھینچتی چلی گئی. پهر مجهے روز ان میسیجز کا انتظار رہنے لگا، دل میں تجسس نے جنم لیا کہ جو باتیں اتنی اچهی کرتا ہے وہ خود کیسا ہوگا، غیر محسوس طریقے سے میں اس انجان نمبر سے آنے والے پیغامات کی عادی ہوتی چلی گئی، کچھ عمدہ تحریریں پڑھ کر میں جوابی پیغام بهی بهیجنے لگی، چند ایک بار کے بعد حال چال تک بات آگئی، پهر بات بڑهتی گئی اور میں اس سے محبت کرنے لگی. یہ کہہ کر دعا خاموش ہوگئی، والدہ کی جانب دیکها تو وہ اسے پوری توجہ سے سن رہیں تهیں، اس نے الف سے یے تک کی ساری کہانی انکے گوش گزار کردی.
انہوں نے دعا کے جهکے سر کو دیکها اور گویا ہوئیں، اللہ نے نیکی اور بدی دو راستے بنائے اور اختیار انسان کے ہاتھ میں دے دیا یہ مطلع کرکے کہ نیکی کا راستہ اختیار کروگے تو صلے میں جنت ملےگی اور بدی کا اختیار کروگے تو ٹهکانہ جہنم ہوگا. بدی کا راستہ روز اول سے آسان ترین راستہ رہا ہے گناہ میں لذت بهی رکهی ہے، اور نیکی کا دشوار ترین، آزمائشات سے بهرپور کیونکہ یہی امتحان مقصود تها کہ کون دشوار راستے کی کٹهنائیوں سے گزر کر اس تک آتا ہے.
اللہ کو تمہارا بهی امتحان مقصود تها کہ کیا تم ایک نامحرم کی محبت میں گرفتار ہوکر ان حدود سے آگے بڑھ جاؤ گی یا اللہ کی حدود میں رہ کر اللہ کے احکامات کی عامل بن کر اللہ کو پالوگی بس یاد رکهو جو اسکو پالیتا وہ سب کچھ پالیتا ہے. تم سے ایک بهول ہوگئی جسے سدهارنے کا راستہ بهی ہے، مجهے خوشی ہے کہ تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہے، اللہ سے معافی مانگو جب تک وہ تمہیں معاف نہ کردے.
مجهے کیسے علم ہوگا کہ اللہ نے مجهے معاف کردیا ہے؟ دعا نے استفسار کیا.
جب تمہارا دل مطمئن ہوجائے سمجھ لینا اس نے تمہاری توبہ قبول کرلی لیکن توبہ کی ایک شرط یہ بهی کہ وہ گناہ دوبارہ سرزد نہ ہو. اس بار انکی آواز میں تنبیہ تهی. دعا سر جهکا کر رہ گئی.
اس نے رو رو کر اللہ کے حضور اپنے گناہ کی معافی مانگی، اور یہ عہد کیا کہ وہ آئندہ کبهی بهی اس گناہ عظیم میں ملوث نہیں ہوگی جس نے اس سے اسکی روح کا سکون تک چهین لیا ہے.
چند دن گزرے تهے دعا قدرے پرسکون ہوگئی تهی اسکی نسبت اسکے والد کے دوست صارم احمد کے ساتھ طے ہوچکی تهی، اپنے غم سے وہ کافی سنبهل چکی تهی اسکی والدہ رقیہ بیگم وقتاً فوقتاً اسے سمجهاتی رہتیں. وہ پہلے سے زیادہ وقت دعا کے ساتھ گزارنے لگیں تهیں. وہ بهی اب شازل کی یادوں سے باہر آجانا چاہتی تهی، پڑهائی کی طرف مکمل توجہ مبذول کرکے وہ ہر ایک یاد اپنے دل سے نکال دینا چاہتی تهی.
دو دن پہلے صارم کے گهر والے آکر شادی کی تاریخ رکھ کر گئے تهے دو ہفتے بعد وہ دعا سفیان سے دعا صارم بننے والی تهی، وہ اس نئے رشتے کے قائم ہونے پر اپبے جذبات سمجهنے سے قاصر تهی، اسکے جذبات سرد ہوچکے تهے، کزنز کی چهیڑ چهاڑ دوستوں کے ہنسی مذاق حتی کہ صارم کے نام پر بهی دل میں کوئی جذبات نہ ابهرتے، اسکا اعتبار مرد ذات پر سے ختم ہوچکا تها، اسکے مطابق ہر مرد کے لئے عورت فقط ایک کهلونا یا محض دل بہلانے کی کوئی شے ہوتی ہے. شادی کی تاریخ طے ہوجانے پر بهی اسکی خاموشی قائم رہی. وہ یہ شادی صرف اپنے والدین کی رضا و خوشی کے لئے کر رہی تهی.
شام کو جب وہ لان میں رقیہ بیگم کے ساتھ بیٹهی چائے پی رہی تهی اسے اپنے کمرے میں سے فون کی رنگ ٹون کی آواز آئی، وہ اٹھ کر کمرے میں آئی فون دیکها تو شازل کے نمبر سے کال آرہی تهی، دعا اسکا نمبر دیکھ کر سر سے پیر تک کانپ گئی، کال کاٹ کر فون آف کرکے بیڈ پر اچهال دیا، شازل کی کال... اٹک اٹک کر جملہ مکمل کیا، اب کیوں کال کر رہا تها وہ اب جب کہ دو ہفتے بعد اسکی شادی ہے اب جب کہ وہ کسی اور کی شریکِ حیات بننے والی ہے وہ کیوں اسے کال کرہا تها... وہ بے بسی سے لب کچلنے لگی... یااللہ ابهی تک میری آزمائش ختم نہیں ہوئی، اس کی آنکهوں سے آنسو بہنا شروع ہوگئے، سارے زخم ایک بار پهر سے تازہ ہوگئے، ایک بار پهر شازل کی یادوں نے اس پر حملہ کردیا، کیامیں ابهی تک شازل کی یادوں کو دل سے نکال نہیں پائی، کیا ابهی بهی میرے دل میں اسکے لئے کچھ ہے؟ وہ خود سے گویا ہوئی... اور کیا میں صارم کو اپنے دل میں جگہ دے پاؤں گی کیا میں اسکے حصے کی محبت اسے دے پاؤں گی، لاتعداد سوالات ذہن میں گردش کر رہے تهے اور ایک بهی جواب ایسا نہ تها جس سے وہ خود کو مطمئن کر پاتی. انہیں سوچوں میں غرق جانے کب نیند کی دیوی اس پر مہربان ہوگئی اور اسے اپنی آغوش میں لے لیا.
رات کے کسی پہر آنکھ کهلی وقت دیکها تو رات کے بارہ بج رہے تهے، وہ حیرانی سے گهڑی کو دیکهتی رہی کہ وہ اتنی دیر کیسے سوگئی، اٹھ کر فریش ہوئی باہر آئی تو دیکها امی نماز میں مشغول ہیں. انہوں نے سلام پهیر کر دعا کو دیکها، دعا فوراً کچن کی جانب بڑھ گئی تاکہ فی الوقت وہ اسکی روئی ہوئی آنکهوں کو دیکھ کر سوال نہ پوچهیں وہ تو ماں تهیں آنکهیں دیکھ کر جان لیتیں تهیں کہ سونے سے لال ہیں یا رونے سے.
وہ کهانا گرم کر رہی تهی کہ وہ بهی اسکے پیچهے پیچهے چلی آئیں. میں اٹهانے آئی تهی تمہیں کهانے کے وقت لیکن تم بہت گہری نیند میں تهیں تو نہیں اٹھایا، دعا خاموشی سے انکی باتیں سن رہی. کل تیار رہنا شام کو زرینہ باجی آئیں گی انکے ساتھ بازار جانا ہے تمہاری شادی کی خریداری کرنے. وہ خاموشی سے سر جهکائے سنتی رہی. رقیہ بیگم اپنی بات مکمل کر کے اپنے کمرے میں سونے چلی گئیں. لیکن شادی کے نام پر دعا کی بهوک مرگئی. اس نے کهانا ایسے ہی رکھ کر چائے بنائی اور ٹیرس پر آگئی. اسے ٹیرس سے ہمیشہ رات کو آسمان کا منظر بہت خوبصورت لگتا تها، وہ اور امبر اسکی کزن اور بہترین دوست اکثر رات کو یہاں بیٹھ کر اس منظر سے لطف اندوز ہوتے تهے لیکن آج اسے یہ منظر بهی اداس لگا، نہ جانے کیوں آج اسے لگا کہ چاند بهی میلوں دور اس سے اپنی تنہائی کا شکوہ کر رہا ہے. نہ جانے کیوں بس آنکهوں سے آنسو بہے جارہے تهے. اسے آنے والا وقت خوفزدہ کر رہا تها.
اسی سوچ میں گم اس نے ہاتھ میں پکڑا موبائل آن کیا جو آتے ہوئے وہ بیڈ پر سے اٹھا لائی تهی. آن ہوتے ہی شازل کے میسجز موصول ہونا شروع ہوئے، پچاس کے قریب میسج تهے، جن میں ایک ہی بات لکهی تهی کہ مجهے تم سے بات کرنی ہے، میری ایک بار بات سن لو میں تم سے معافی مانگنا چاہتا ہوں.
کیوں شازل حیدر مجھ جیسی تو بہت مل جاتی ہیں ناں تو کیوں آئے ہو اب واپس میری زندگی برباد کرنے، یہ سوچ کر اسکے لبوں پر ایک اداس سی مسکراہٹ پهیل گئی، میری زندگی کا سکون چهین کر تم معافی کے خواستگار ہو. ابهی وہ سوچوں میں گم تهی کہ موبائل پر بیپ ہوئی دیکها تو شازل کالنگ لکها آرہا تها، کسی انجانے جذبے کے تحت اس نے کال ریسیو کرلی، فون کے اسپیکر پر بےقرار سی شازل کی آواز ابهری، دعا مجهے معاف کردو اس دن میں پریشان تها تم پر غصہ نکل گیا، میرا مقصد تمہیں ہرٹ کرنا نہیں تها، میں حقیقتاً تم سے محبت کرتا ہوں، میں وعدہ کرتا ہوں جیسا تم کہوگی ویسا ہی ہوگا.
ایک اور جهوٹا وعدہ، دعا کو اسوقت شازل سے بے حد نفرت محسوس ہوئی. اگلے ہفتے میری شادی ہے دعا نے بڑے اطمینان سے شازل کی سماعتوں پر دهماکا کیا، لیکن شازل حیدر نے بهی کچی گولیاں نہیں کهیلی تهیں، چند لمحوں میں خود کو کمپوز کر کے دعا سے مخاطب ہوا، مجهے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، تم شادی کسی سے بهی کرو تم مجھ سے اور میں تم سے محبت کرتا ہوں یہ حقیقت کوئی نہیں جهٹلاسکتا، تم بیوی کسی کی بهی بنو محبت میری ہی رہوگی. تو مجهے اس شادی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، کیونکہ رہوگی تو تم میری ہی. میرا تم سے روح کا رشتہ ہے.
شٹ اپ جسٹ شٹ اپ دعا چٹخ کر بولی، ہمت کیسے ہوئی تمہاری میرے بارے میں یہ سب بولنے کی، کچھ نہیں لگتی میں تمہاری سنا تم نے کچھ نہیں تمہاری سوچ اتنی گهٹیا ہوگی میں یہ کبهی سوچ بهی نہیں سکتی تهی گهن آرہی ہے مجهے خود سے کہ میں نے کبهی تم جیسے شخص سے محبت کی تهی دعا کی آواز رندھ گئی.
اب کی بار شازل کی براشت جواب دے گئی، اس نے دعا سے بهی زیادہ بلند آواز میں چیخ کر کہا اب میں بهی دیکهتا ہوں تمہاری شادی کیسے ہوتی ہے یہ شادی نہ تڑوائی تو میرا نام بهی شازل حیدر نہیں، میں تمہارے ہونے والے شوہر کو تمہاری اور میری حقیقت سے آگاہ کردوں گا، پهر دیکهتا ہوں ایسا کونسا مرد ہے جو تم جیسی عورت سے شادی کرے گا. یہ کہہ کر فون بند کردیا.
دعا کے ہاتھ سے فون چهوٹ کر گر گیا، وہ چہرہ ہاتهوں میں چهپا کر رودی، بے وفائی کے دکھ کے ساتھ ساتھ بدنامی کے خوف سے اسے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی. رات بهر ٹیرس پر زمین پر بیٹهے بیٹهےتهک چکی تهی، بیڈ پر لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی، نیم غنودگی میں چند لوگوں کے بولنے کی آوازوں پر وہ نیند سے جاگی، آنکهوں کو مسل کر خود کو جگایا، غور کرنے پر پتہ چلا آوازیں کمرے کے باہر سے آرہی تهیں، وقت دیکها تو صبح کے دس بج رہے تهے، اسوقت گھر میں کون آیا ہے؟
وہ کمرے سے باہر آئی تو پهپهو، تائی ، ماموں اور خالہ بمع فیملی گهر میں موجود تهے، گهر میں ہر طرف چہل پہل تهی، ہر طرف سامان بکهرا پڑا تها، اس نے امی کی جانب دیکها جیسے پوچھنا چاہ ریی ہو یہ سب کیا ہے؟ اتنے میں امبر اور شہزا اسکے دونوں ہاتھ پکڑ کر صوفے پر لے آئیں اور امبر نے بنا دیر کئے اسکے ہاتهوں پر مہندی سے بیل بوٹے بنانے شروع کردئیے، یہ سب اتنی اچانک ہوا کہ وہ کچھ نہ سمجھ سکی، جب سمجھ آیا تو امبر کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چهڑانے لگی، امبر نے گرفت ڈهیلی نہیں کی، ارے بهئی دلہن بهی کوئی بغیر مہندی کے دلہن لگتی ہے، سب نے امبر کی تائید کی اور ایک ساتھ مل کر نعرہ لگایا بلکل نہیں، بلکل نہیں.
کونسی دلہن کس کی دلہن دعا نے سوال داغا، ارے بهائی صارم بهائی کی دلہن، موصوف آج ہی آپ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، آج ظہر کی نماز کے بعد آپ مسز صارم احمد بن جائیں گی، امبر کی بات پر دعا کو جهٹکا لگا، لیکن نکاح آج کیوں؟ وہ تو اگلے ہفتے تها ناں؟ ہاں تها تو لیکن صارم بهائی اتنا انتظار نہیں کرپا رہے ، پیچهے بیٹهے عفان نے جواب دیا، عفان کی بات پر ایک زبردست قہقہہ پڑا. دعا جهینپ کر خاموش ہو گئی، امبر نے اسکے ہاتھ و پیر مہندی سے سجادئیے. وہ سارا وقت امی سے بات کرنے کا موقع تلاشتی رہی لیکن رقیہ بیگم نہایت مصروف تهیں.
دو بجے تک وہ غسل کرکے تیار ہوچکی تهی، نکاح کے لئے ڈیپ ریڈ کلر کا سوٹ اور میچنگ جیولری اسکے سسرال سے آئی تهی، جس میں وہ بہت کهل رہی تهی، ہر دیکهنے والا تعریف کر رہا تها، وہ نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تهی، سب ہی تعریف کر رہے تهے، لیکن اسکا دل ڈر رہا تها کہ ابهی صارم آئیں گے اور سب کے سامنے اسے دهتکار کر چلے جائیں گے، ساری خوشیاں یوں ہی دهری کی دهری رہ جائیں گی کیونکہ مرد کبهی بهی ایسی عورت کو قبول نہیں کرتے جس کا ماضی داغدار ہو. انہیں سوچوں میں گم تهی کہ اسے سر پر تایا جان کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا، امبر نے اسکا دوپٹہ آگے کرکے گھونگھٹ نکال دیا، سامنے بابا جان کا شفیق چہرہ دکهائی دیا، جن کی آنکهوں میں آنسو تیر رہے تهے اور لبوں پر مسکراہٹ تهی، کوئی اس باپ سے ہوچهے کہ وہ کس دل سے اپنی ناز و پلی بیٹی کسی کے سپرد کرتا ہے، کلیجہ کٹ رہا ہوتا ہے جب بیٹی رخصت ہوتی ہے. کچھ ایسا ہی حال اسوقت سفیان صاحب کا تها. مولوی صاحب نے نکاح شروع کیا.
چند ہی لمحوں میں وہ دعا سفیان سے دعا صارم بن گئی تهی، لمحوں کا کهیل تھا اسکے حقوق اسکے بابا کے پاس سے اسکے شوہر کے پاس جاچکے تهے.
نکاح کے بعد سب باہر چلے گئے، وہ پیچهے ہو کر آرام سے بیڈ پر بیٹھ گئی اسوقت وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تهی، لیکن سوچیں تهیں کہ پیچها ہی نہیں چهوڑ رہی تهیں، آنکهیں بند کئے وہ کچھ دیر منظر سے غائب ہوجانا چاہتی تهی، دروازے پر دستک سے سوچوں کا تسلسل ٹوٹا، اس نے نظریں اٹها کر دیکها تو پلکیں جهپکنا ہی بهول گئی، حیرت و بے یقینی کی کیفیت میں وہ اندر آنے والے شخص کو گهورنے میں مصروف تهی کہ اسے دعا کو خود ہی مخاطب کرنا پڑا.
میں صارم احمد شاید آپ جانتی ہوں مجهے، اس نے دعا کے سامنے ہاتھ لہرایا، دعا نے اپنی بے اختیاری پر خود کو کوسا، جی کہہ کر نظریں جهکالیں. کیسے مزاج ہیں؟ صارم نے دریافت کیا.
جی ٹهیک ہوں دعا نے آہستگی سے جواب دیا
مجهے معلوم ہے کہ آپ کو اس بات سے اب تک لاعلم رکها گیا ہے کہ یہ نکاح اتنی جلدی کیوں منعقد ہوا؟ دعا نے اثبات میں سر ہلایا.
اس سے پہلے کہ میں آپکو وجہ بتاؤں میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں، اب کہ وہ بیڈ کے پاس رکهی کرسی پر بیٹھ گیا، دعا نے سوالیہ نظروں سے صارم کو دیکها.
دعا آپ اب میری بیوی ہیں، ہم نکاح جیسے مضبوط بندهن میں بندھ چکے ہیں. میں امید کرتا ہوں آپ میرے ساتھ تعاون کریں گی، میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا کوئی ایسی بات ہے جو ایک شوہر ہونے کی حیثیت سے میرے علم میں ہونی چاہئیے. صارم کے سوال پر دعا کے ماتھے پر پسینہ آگیا، وہ جانتی تهی کہ اسے ایک عورت ہونے کے جرم میں کٹهہرے میں کهڑا ہونا پڑیگا، لیکن یہ وقت اتنی جلدی آجائیگا یہ اسکے علم میں نہیں تها.
جاری ہے...
YOU ARE READING
آہ...!! یہ محبت
Romanceنامحرم محبتوں میں سکون تلاشنے والوں کے نام ایک چهوٹا سا پیغام