پارٹ 2

48 1 0
                                    

🎀عشق کے قیدی👉 ظفر جی

قسط نمبر 2:-

کافی دیر بعد جا کر طوفان تھما-
میں نے اخبار چہرے سے ھٹایا تو دھول مٹی بیٹھ چکی تھی اور میں برامدے کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا-
میرے حواس آہستہ آہستہ بحال ہونے لگے .... آنکھیں ملتے ہوئے میں نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائ ....
میرے چہار سو دنیا ہی بدل چکی تھی .... یوں لگ رہا تھا کہ آندھی مجھے اڑا کر کسی اور ہی دیس لے آئ ہے ....  پھر محسوس ہوا کہ  مکاں  تو وہی ہے .... شاید  زماں بدل چُکا ہے !!!
" برکت علی اسلامیہ ھال"  میں نے عمارت کے ماتھے پر کنُدہ عبارت پڑھنے کی کوشش کی-
عمارت کا بانکپن بھی بدل چکا تھا ....  اس کی شان و شوکت رونق بحال ہو چکی تھی .... اک عجب سی چہل پہل کا احساس ہو رہا تھا .... فضاء میں مولویانہ عطر پھلیل کی خوشبو پھیلی ہوئ تھی  ....
پھر مجھے سفید اجلے لباس ، سیاہ ریشِ دراز اور دیدہ زیب شملوں میں ملبوس کچھ  نورانی پیکر نظر آئے .... شستہ اردو میں ہونے والی غیر مبہم گفتگو سنائ دینے لگی .... دبی دبی ہنسی کی خوش کن آواز .... اسلام علیکم .... سبحان اللہ .... ماشاءاللہ  .... کی صدائیں ... !!!
میں آہستہ آہستہ کپڑے جھاڑتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا .... اور برامدے کی دیوار سے چپک کر کھڑا ہو گیا-
اچانک ایک نوجوان مولوی ، جس نے انگریزی کوٹ ، اور جناح کیپ پہن رکھی تھی میری طرف دوڑا چلا آیا-
"آپ ادھر ہیں ؟ ....  ہم پچھواڑے میں تلاش کر رہے ہیں !!! "
میں نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن چُپ رہا-
" یوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر مت دیکھئے .... چاند پُوری - روزنامہ افلاک لاہور ... !!! " انہوں نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا-
" چاند پوری ....؟؟؟؟؟ " میں نے بمشکل کہا-
." سب بتا دونگا .... میرے ساتھ تشریف لائیے ....  اخباری نمائندگان اس طرف کھڑے ہیں !!! "
" یہ سب کیا ہے ؟ ہم کہاں ہیں ؟؟؟"
" بس تھوڑا ریورس گئیر لگایا ہے .... اور کچھ نہیں !! " وہ مجھے کھینچتے ہوئے بولے-
" ریورس گیئر ؟؟؟؟"
"سمّے ساٹُو" سے گزر کے تھوڑا پیچھے آ گئے ہیں یار .... شانت رہو  !!! "
" سمّے ساٹُو ؟ کون سا سمّے ساٹوُ  ؟؟ "
"ایک سوئ جتنا سوراخ .... جو تاریخ سے آرپار ہے"
" مجھے کچھ سمجھ نئیں آ رہا !!!  ....  یہاں ہو کیا رہا ہے ؟؟"
" آل پاکستان علماء کنوینشن  13 جولائ  .... 1952ء .... تاریخ کا دھارا بدلنے کےلئے .... "
" انیس سو باون   ؟؟ "
" اچھا تم یہیں رکو .... میں ابھی آیا ... سمّے ساٹو سے گزر کر مجھے زور کی بھوک لگتی ہے "
چاند پوری مجھے ایک جگہ کھڑا کر کے جانے کہاں نکل گئے- میں ایک بار پھر سرکتا ہوا دیوار کے قریب ہو لیا  .... ایک عجب سا خوف مجھے دامن گیر تھا-
یہاں کچھ اور لوگ بھی کھڑے تھے - ایک ادھیڑ عمر بزرگ  گلے میں کوئ لالٹین نماء چیز لٹکائے میرے قریب آئے-
" مرتضی میکش .... روزنامہ آزاد  ....  آپ کا تعارف ؟؟ " انہوں نے مصافحے کےلئے ہاتھ بڑھایا-
" ظف فر .... ظفر .... " میں نے بمشکل کہا-
" آپ اتنے جُزبجز کیوں ہیں ؟ .... کس روزنامچے سے ہیں ؟؟"
" روزنامچہ ؟  .... ہاں .... روز .... نامہ .... اسلام " میں نے جیب سے ٹوپی نکال کر سر پر اوڑھ لی-
"روزنامہ اسلام  ؟؟ .... کہاں سے چھپتا ہے  ؟؟ "
" میرا خیال ہے .... کراچی سے ... " میں نے قدرے بے اعتمادی  سے کہا-
" سرکولیشن کیا ہے میاں  ؟؟" وہ چشمے سے جھانکتے ہوئے بولے-
"یہ .... لالٹین  کیوں لٹکا رکھّی  ہے گلے میں ؟ " میں نے موضوع بدلنے کی کوشش کی-
بزرگ نے پہلے مجھے حیرت سے گھورا پھر زور کا قہقہہ لگایا :
" لالٹین  نہیں برخوردار ....  کیمرہ ہے ...  کوڈک براؤنی سکس ٹوئنٹی  .... بالکل نیا ہے ....فورٹی سکس ماڈل  !!! "
" فورٹی سکس ماڈل ..... اچھا ہے " میں نے ہونٹ سیٹی کے انداز میں سکیڑے اور ساتھ ہی  بے خیالی میں جیب میں رکھے موبائل کو ٹٹولنے لگا-
اتنے میں چاند پوری آ گئے- ان کے ہاتھ میں دو عدد سموسے تھے-
"ایک ابھی کھا لیجئے .... دوسرا کنوینشن کے بعد .... سمّے ساٹو کی بھوک تھم جائے گی !! "
"مجھے بھوک نہیں .... مجھے .... واپس جانا ہے .... میرا تھیسس ... !! "
" ہم واپس جائیں گے .... لیکن فیلڈ ورک کے بعد  ... !!! "
"نہ کریں .... میرا مستقبل تباہ ہو جائے گا .... "
" آہستہ بولو .... لوگ کھڑے ہیں  !! دیکھو ایک دم شانت رہو .... سمے ساٹو کے اُس پار صرف تین منٹس گزریں گے .... اور اِدھر تین سال !!! "
"لیکن ہم یہاں آئے کس لئے ہیں ؟؟ "
"تحریکِ ختمِ نبوّت کا مطالعہ کرنے کےلئے .... بچشمِ خود !!!"
اتنی دیر میں کچھ مزید لوگ  صحن میں داخل ہونے لگے-
" میرے ساتھ آ جائیے .... علمائے کرام کی تشریف آوری شروع ہو چکی "
ہم دونوں کنوینشن ھال کے آہنی گیٹ کی طرف بڑھے ....
" وہ رہے ابوالحسنات  .... اس کنوینشن کے میزبان  !!! " انہوں نے ایک عمر رسیدہ بزرگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا-
" ابوالحسنات ؟؟ .... " میں زیرِلب بڑبڑایا-
" ابولحسنات سیّد محمد احمد قادری .... مسجد وزیرخان لاہور کے خطیب ہیں .... ان کے ساتھ  اونچے شملے والا جو خوبصورت نوجوان کھڑا ہے .... پہچانا ؟؟ "
" نہیں ..... !!! "
" شونے بٹا صفر نالج ہے تمہارا ... مولانا عبدالستار نیازی ہیں بھئ .... ممبر پنجاب اسمبلی !!! "
"  اوہ .... ہاں .... مجھے یاد آگیا " میں نے کہا-
کچھ ہی دیر میں ، میں واقعی شانت ہو گیا اور ماحول آشناء ہونے لگا- مجھے یہ سب کچھ اب بھلا محسوس ہو رہا تھا-
اسی دوران علماء و مشائخ کی آمد شروع ہو گئ- چاند پوری برابر تعارف کراتے جا رہے تھے-
سب سے پہلے جمیعت علمائے پاکستان کے مولانا عبدالحامد بدایونی ، مولانا غلام محمد ترنّم ، اور حافظ خادم حسین تشریف لائے- اس کے بعد جمیعتِ اہلحدیث کے مولانا محمد اسمعیل اور مولانا عطاءاللہ حنیف کی آمد ہوئ- سفید تہمد پہنے جمیعتِ علمائے اسلام کے 62 سالہ بزرگ مولانا احمد علی لاہوری عصاء ٹیکتے ہوئے تانگے سے اترے اور میزبانوں سے بغلگیر ہوئے- ان کے ہمراہ قاضی احسان احمد شجاع آبادی تھے- اس کے بعد جماعت اسلامی کے سروقد میاں طفیل محمد ، جناب امین احسن اصلاحی اور نصراللہ خان عزیز تشریف لائے- جناح کیپ اور شیروانی میں ملبوس ایک کلین شیو نوجوان کی آمد ہوئ تو چاند پوری نے بتایا کہ  سیّد مظفّرعلی شمسی ہیں .... مجلس تحفّظ حقوقِ شیعہ پاکستان کے صدر-
اس کے بعد مجلس احرار کے لال حسین اختر اور مولانا محمد علی جالندھری تشریف لائے-
پھر یکایک شور اٹھا....."بابو جی آگئے.... بابو جی آگئے"
ابوالحسنات اور عبدالستار نیازی استقبال کو دوڑے .... مجمع میں ایک جوش اور ولولہ پیدا ہونے لگا ....
ایک صوفی بزرگ کی آمد ہوئ ... کِھلتا ہوا گورا رنگ ، کانوں کی لووں تک آتی ہوئی گھنگھریالی زلفیں ، سلیقے سے بنی ہوئی سفید داڑھی ، چشمے سے جھانکتی ذہین ، چمکدار اور خوبصورت آنکھیں -
"یہ بابو جی کون ہیں ؟؟ "
" پیر مہرعلی شاہ صاحب کے فرزندِ ارجمند .... سبحان اللہ !!! صوفی باپ نے جس مشن کا بیڑا اٹھایا تھا اب بابو جی اس کے پتوار درست کرنے آئے ہیں .... صاحبزادہ غلام محی الدین گولڑوی  !!! "
اس دوران ہال کا مرکزی دروازہ کھل گیا- اور اکابرین اندر تشریف لے جانے لگے-
چاند پوری میرا ہاتھ پکڑ کر ہال کی طرف کھینچتے ہوئے بولے:
" دیکھو اس نظارے کو .... مدتوں بعد امّت ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو رہی ہے ..... ملّت کی کشتی کو ایک بار پھر طوفانِ قادیانیّت کا سامنا ہے  .... ایک نئ جدّوجہد کا آغاز ہو رہا ہے ..... جانگداز قربانیوں ....  دارو رسن ..... اور استقامت کی ایک نئ تاریخ رقم ہونے والی ہے ..... اور ہم اس تاریخ کے عینی شاھد بننے چلے ہیں  !!!! "

(جاری ھے)....

عشق کے قیدی حيث تعيش القصص. اكتشف الآن