پارٹ 3

42 0 0
                                    

🎀عشق کے قیدی👉

قسط نمبر 3:-

کچھ ہی دیر میں ہال کچھا کھچ بھر چکا تھا-
چاندپوری مجھے ایک کونے میں دھکیل کر ایک بار پھر کہیں گم ہو چکے تھے-
" اختر علی خان ... روزنامہ زمیندار .... کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں ؟؟ " ایک نوجوان میرے سر پر آن کھڑا ہوا-
" جج .... جی جی .... ضرور .... " میں اپنی کرسی پر بیٹھا بیٹھا سکڑ گیا-
" نوازش  ... کس روزنامچے سے ہیں آپ .... ؟؟ " انہوں نے بیٹھتے ہی پوچھا-
" جی میں  وہ ... دراصل .... چچ ... چاند پوری ... " میں ہکلایا-
" چاند پوری ؟؟ ماشاءاللہ کہاں سے چھُپتا ہے ؟؟ "
"ہر پانچ منٹ بعد چُھپ جاتا ہے .... وہ رہے .... وہ تیسری قطار میں ... وہ جن کے ہاتھ میں سموسہ ہے .... میں ان کے ساتھ ہوں !!!"
"اچھا ... اچھا .... ماشاءاللہ !!!" وہ چشمہ درست کرتے ہوئے بولے-
میں کچھ دیر کن اکھیوں سے ان صاحب کو ٹٹولتا رہا پھر ہمت جمع کر کے بولا:
"روزنامہ زمیندار وہی ہے ناں .... جسے  مولانا ظفر علی خان چلاتے ہیں  ؟؟ "
"جی وہ میرے والدِ محترم ہیں .... ضعف پیری غالب ہو چکا .... اب میں چلا رہا ہوں اخبار "
میں چونک کر ظفرُالملّت وَالدِین کے سپوت کو حیرت و عقیدت سے دیکھنے لگا ...
اسی دوران  ہال میں ایک انتہائ رعب دار شخصیّت داخل ہوئ- مولانا اختر علی خان احتراماً اٹھ کھڑے ہوئے- میں بھی دیکھا دیکھی کھڑا ہو گیا-
" امیرِ شریعت  آئے ہیں  !!! " انہوں نے سرگوشی کی-
" اوہ .... سبحان اللہ " میرے مونہہ سے نکلا-
امیرِ شریعت کا ذکر میں نے کئ کتابوں میں پڑھا تھا .... اور علماء کی تقریروں میں بھی سنا تھا .... آج چشم تخیّل سے پہلی بار زیارت نصیب ہو رہی تھی ....  چہرہ پربہار ، زلفِ خمدار ، نگاہوں میں عشقِ رسول ﷺ  کا خمار  ، بڑھاپے کے باوجود شخصیّت میں ایک عزم .... ایک وقار ... !!!
لوگ احتراماً کھڑے ہونے لگے-
" ساتھ کون حضرات ہیں ؟ " میں نے پوچھا-
" ماسٹر تاج الدین  .... شیخ حسام الدین ....  اور صاحبزادہ فیض الحسن صاحب "
امیر شریعت حضرت عطاءاللہ شاہ بخاری کو اسٹیج کے سامنے پہلی قطار کی کرسیوں میں جگہ دی گئ- وہ بیٹھنے لگے تو ایک بزرگ نے ان کے کان میں آکر کچھ سرگوشی کی-
شاہ صاحب دوبارہ اٹھے اور اپنے دائیں جانب تشریف فرماء بابو جی رح کے پاؤں کی طرف دونوں ہاتھ بڑھا دیے- بابوجی نے دونوں ہاتھ تھام لئے اور گلے سے لگا لیا- امیرِ شریعت نے پیر صاحب کا ماتھا چوما اور شعر پڑھا :
کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء
گستاخ  اکھیاں  کتھے جا لڑیاں
کچھ دیر بعد ایک خوش الحان قاری نے تلاوت کلام پاک سے ماحول کو مشکبار کیا- پھر مولانا عبدالستار نیازی صاحب اسٹیج پر تشریف لائے ... جیب سے ایک پرچی نکالی .... اور پرسوز آواز میں نعت شریف کے پھول بکھیرنے لگے  :

یا  مصطفی  ،  خیرالوری  ،  تیرے  جیہا   کوئ  نہیں
کینوں  کہواں  تیرے  جیہا  ، تیرے  جیہا   کوئ  نہیں
تیرے جیہا سوہنا نبی ، لبھّاں تے تاں جے ہووے کوئ
مینوں   تاں  ہے   ایناں  پتا ،  تیرے  جیہا  کوئ  نہیں

اس کے بعد صاحبزادہ گولڑہ شریف اسٹیج پر تشریف لائے اور فرمایا:
"یہاں ہر مسلک کے علمائے کرام موجود ہیں ---- کچھ سے موافقت رہی ہے ---- کچھ سے اختلاف رہا ہے ---- اور کچھ سے سخت کشیدگی ---- میں سب کو معاف کرتا ہوں اور سب سے معافی کا طالب ہوں ----- راولپنڈی کے عالم دین مولانا غلام اللہ خان سے ہماری مخاصمت کسی سے ڈھکی چھپّی نہیں ---- ان کے اور ہمارے بیچ بے شمار اختلاف ہیں لیکن حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ختم نبوّت کے صدقے میں مولانا غلام اللہ خان کے جوتے بھی اٹھانے کو تیار ہوں ----"

عشق کے قیدی Où les histoires vivent. Découvrez maintenant