1

1.6K 87 88
                                    

" حیات ! حیات ! خدا کے لیے دروازہ کھولو ! تم جانتی ہو میں تم سے کتنا پیار کرتی ہوں . ہاں ! میں مانتی ہوں کہ یہ حقیقت جان کر تمہیں بہت دکھ ہوا ہے لیکن تم اِس حقیقت کو تردید نہیں کر سکتی کہ ماما بابا اور میں نے تم سے ہمیشہ بہت پیار کیا ہے . ہم تمہارے تھے اور

تمہارے ہی رہیں گے . ہاں ! میں مانتی ہوں کہ یہ ایک تکلیفدح حقیقت بن کر سامنے آئی ہے کہ ہمارا خون کا رشتہ نہیں ، لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ تم سے میرا خون سے زیادہ روح کا رشتہ ہے . تم میری جان ہو ! پلیز میرے لیے دروازہ کھولو . ایک حقیقت کی خاطر دوسری

حقیقت کو مت جھٹلاؤ . پلیز مجھ سے منه مت مورو . "

پاکِیزَہ چلاتے ہوئے حیات کا دروازہ کھَٹکھَٹا رہی تھی کے اچانک دروازہ کھلا .

سامنے حیات کھڑی تھی جس کی آنکھیں نم تھیں جن میں بے شمار شکوے اور سوالات دِکھ رہے تھے . اسکا حلیہ بگڑا ہوا تھا ، رَو رَو کر آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور سیاح گھنی زلفیں بکھری ہوئی اسکے منه پر آ رہی تھیں .پاکِیزَہ بھی آنکھوں میں آنسو لیے ہوئے تھی مگر

اسکو دیکھ کر ہلکا سا مسکرائی . ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اسکے دِل میں ایک سکون پیدا ہوا ہو . اسکے دِل میں جو حیات کو کھو دینے کا ڈر تھا وہ کم ہو گیا ہو ." وہ نہ میرے تھے اور نہ میرے ہیں ! " حیات نے دھیمے سے بولا اور جو آنسو اس نے آنکھوں میں قید کر رکھے

تھے وہ بہہ گئے . اسکو اِس حال میں دیکھ کر پاکِیزَہ جھپک کر حیات کے گلے لگ گئی . پاکِیزَہ حیات کا درد جانتی تھی کیوں کے وہ خود بھی اسی درد میں مبتلا تھی بس فرق یہ تھا کہ وہ حیات کی طرح ضرورت سے زیادہ حساس نہ تھی .

تقریبا دو تِین منٹ کے لیے پاکِیزَہ اسکے گلے لگی رہی اسکو یہ یقین دلانے کے لیے کے وہ اسکی تھی اور اسکی ہی رہیگی . " حیات ! یہ حقیقت کوئی نہیں بَدَل سکتا کہ میں تمہاری بہن ہوں . خون کی نہ سہی پر روح کی . " پاکِیزَہ نے حیات کے چہرے سے آنسو صاف کرتے

ہوئے کہا.

" حقیقت تو وہ بھی نہیں بَدَل سکتی تھی کہ وہ میرے ہیں ، پر بَدَل گئی ! مجھے کسی حقیقت پر یقین نہیں . " حیات نے اک سخت لہجے میں جواب دیا .

" وہ تمہارے تھے حیات اور تم ایک حقیقت کی وجہ سے دوسری حقیقت جھٹلا نہیں سکتی . میں مانتی ہوں کے ان کو تمہیں پہلے بتا دینا چاہیا تھا کے انہوں نے تمہیں گود لیا ہے لیکن انہوں نے ہمیشہ تمہیں مجھ سے زیادہ چاہا ہے . تم انکی محبت پر شک نہیں کر سکتی ! "

پاکِیزَہ نے حیات کو دھیمے لہجے میں سمجھانے کی کوشش کی .

" میں شک نہ کروں ؟ تم چاہتی ہو کہ میں ان کو معاف کردوں ! نہیں کروں گی میں ان کو معاف ، کبھی نہیں ! وہ نہ مجھ سے محبت کرتے تھے اور نہ کرتے ہیں . چلے گئے وہ ! چلے گئے ! کیا یہ تھی محبت ! مجھے بے شمار سوالات اور شکوؤں کے ساتھ چھور کر چلے گئے !

ZINDAGI KA SAFAR♡Where stories live. Discover now