قسط نمبر 2۔
حبیبی مجنون
تحریر: عائشہ ریاض/عریشہ ریاض۔Happy reading!💕
اُمی کو کمرے میں خونخوار تاثرات کے ساتھ داخل ہوتا دیکھ کر وہ جو اپنے ازل والے حلیے ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں آرام سے بیٹھی ہوئی تھی جو شکن زدہ ہورہا تھا شاید رات میں پہنا تھا۔ کنگھی کرنے کی زحمت بھی شاید نہ کی گئی تھی تب ہی بال بھی بکھرے ہوئے تھے۔ اُمی کو اسکا یہ حلیہ مذید تیش دلا گیا۔
"یہ کیا مزاق تھا امتہ اللّٰہ؟!" اُمی نے اس کی کچھ دیر پہلے کی حرکت کے بارے میں سخت لہجے میں دریافت کیا۔
"اُمی میں اس شادی کے لئے قطعاً رضامند نہیں ہوں..." امتہ اللہ نے منہ بسورتے ہوئے کہا اور وہ جو اُمی کا شدید ردعمل اکسپیکٹ کر رہی تھی اُمی کے چہرے پر اترتی تھکن دیکھ کر ایک لمحہ بھر کو ٹھٹھکی۔
"امتہ اللہ کیا بچپنا ہے یہ۔ تمہیں زرا سا بھی احساس ہے ہم سب کس قدر پریشان ہیں۔ تم اپنی ضد چھوڑ کیوں نہیں دیتی آخر؟"
انکے انداز پر امتہ اللہ نے صدمے سے انھیں دیکھا۔
"اور میں جو پریشان ہوں اُمی اسکا احساس ہے آپکو؟"
آنسو بے ساختہ سنہری آنکھوں سے پھسلے تھے۔ وہ جو غصے میں اندر آئی تھیں اسکے آنسو دیکھ کر سارا غصہ ہوا میں تحلیل ہوگیا۔ بے ساختہ آگے بڑھ کر اسکے صبیح گالوں سے آنسو صاف کیے۔
"بنتی۔ میں بھی کیا کروں آخر؟! نا تم سمجھ رہی ہو نا تمہارے بابا۔ پھر کیسے اس مسئلے کا حل نکلے گا؟ کسی کو تو سمجھنا پڑے گا نا امتہ اللہ!!" دھیمی آواز میں سمجھانا چاہا۔
"اُمی مجھے سمجھانے کی بجائے اگر آپ بابا کو سمجھا لیں۔ تو شاید کوئی حل نکل بھی آئے۔" روہانسی آواز گونجی۔ وہ اب کہ اُمی کی گود میں سر رکھے لیٹی تھی۔
"تمہیں کیا لگتا ہے امتہ اللہ میں نے کوشش نہیں کی ہوگی؟ اور میں کر بھی کیا سکتی ہوں۔ جانتی ہو نا اپنے بابا کو؟ وہ سمجھتے ہوتے تو مسئلہ ہی کیا تھا!!
شاید کسی اور وقت وہ سن بھی لیتے اب حالات بھی اجازت نہیں دے رہے بنتی۔ انہوں نے کسی سے قرض لیا تھا وہ چکتا کرنے کے لئے وہ تمھاری شادی کروا رہے ہیں۔ سٹور سے بھی کچھ خاص منافع نہیں مل رہا۔ اب ایسے میں تمہیں لگتا ہے ہم انکی ضد کو توڑ پائیں گے؟" امی کی آواز اسے بے ساختہ افسردہ کر گئی۔ بات تو سچ ہی تھی۔"ہمارا گزربسر پہلے بھی تو کم و بیش ایسے ہی حالات میں ہو رہا تھا نا۔ پہلے بھی کر لیا تھا بابا نے مینیج۔ اب بھی کر لیں۔ میری شادی کا بھوت کیوں سوار ہے ان کے سر پہ۔" امتہ اللہ کی ہٹ دھرمی ہنوز تھی۔ وہ کسی طور شادی کے لیے تیار نہیں تھی۔
"اس ضد کا کوئی فائدہ نہیں ہے امتہ اللہ۔ ہوگا وہی جو بابا چاہتے ہیں کیوں تم فضول میں اپنا اور میرا بھی خون جلاتی ہو؟" اسے پچکارا۔ وہ آنکھوں میں شکوہ لیے اُمی کی گود سے سر اٹھا گئی۔ اُمی کا دل بے ساختہ افسردہ ہوا۔

YOU ARE READING
Habibi Majnoon
Romanceیہ کہانی ایک یمنی لڑکے 'جبرائیل حداد' کی ہے جسکا تعلق نیو یارک سے ہے۔ جسے مسکرانا اور مسکرانے پر مجبور کرنا پسند ہے۔ زندگی اسکی مسکراہٹوں کو قائم رہنے دیتی ہے یا نہیں یہ اس کہانی میں پڑھیے!