تجھ سے ہی یاری❤

320 15 19
                                    

پہلا باب۔۔۔


"دعوا مبارزه کن"
(لڑاٸ جھگڑے)

"سر آج پھر نیہا اور علی کا جھگڑا ہو گیا۔"کسی اسٹوڈینٹ نے عجلت میں سر رضوان کو اطلاع دی۔
وہ جو آرام سے اپنے آفس میں بیھٹے اسٹاف سے میٹنگ میں مصروف تھے۔۔ایک دم بولے۔
"اُف ۔۔۔اللہ سمجھاۓ ان دونوں کو۔پوری یونيورسٹی سر پر اٹھا کر رکھ دیتے ہیں۔۔"اور ہاتھ میں پکڑا چاۓ کا کپ برق رفتاری سے ٹیبل پر رکھا اور اس اسٹوڈینٹ کی کی گٸ جگہ کی نشاندگی کی جانب بڑھے۔
❌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔❌

یونيورسٹی کے لان میں سرکس کا سا سماں تھا۔۔۔اور تمام اسٹودینٹ بپھڑے ہوۓ شیر اور شیرنی کی لڑائی سے لطف اندوز ہورہے تھے۔
"منہ دیکھو اور پھر بات کرو۔۔۔"نیہا نے زور سے کہا تھا۔اس کی دوستیں اس کے بازو دونوں اطراف سے پکڑے ہوۓ تھیں۔
"دیکھا ہے جناب۔تم سے تو حد درجہ بہتر ہے۔"علی نے بھی اپنے دوست عبدلباسط کے بازٶں میں تڑپ کر وار لٹایا۔
نیہا کہاں چپ رہنے والی تھی۔۔فوراً سے بولی"انہوں۔۔۔یہ منہ اور مسور کی دال۔"
پوری یونيورسٹی ان کے جھگڑوں سے واقف تھی۔۔اس لمحے بھی جس کو ان کے جھگڑے کی خبر ملی تھی وہ دوڑا چلا آیا تھا۔اور ان دونوں کے گرد ایک مجمع اکٹھا ہو گیا تھا۔۔۔طنزیہ جملے ایک دوسرے کو اچھالنا تو روز کا معمول تھا۔۔۔لیکن ہفتے میں ایک زوردار لڑاٸ ہونا بھی جیسے ضروری تھی۔۔یہ لڑائی بھی پانی پت کی لڑائی ثابت ہونے والی تھی اگر سر رضوان درمیان میں نہ آجاتے۔۔۔
"just stop it"
"نیہا اور علی آپ لوگ اب بچے نہیں ہیں جو اس طرح لڑ رہے ہیں۔۔اب آپ یونيورسٹی لیول پر آ چکے ہیں۔۔"سر رضوان نے انہیں گھورتے ہوۓ کہا۔وہ خاصے برہم لگ رہے تھے۔۔
سر کو دیکتھے ہی سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔۔عبدلباسط،جو علی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے کھڑا تھا۔۔جو علی کو روکنے کے لیے اسے دونوں ہاتھوں سے پکڑے کھڑا تھا وہ بھی علی کو چھوڑ کر مودب ہو گیا۔۔نیہا اور علی بھی اب سر جھکھاۓ کھڑے تھے۔۔سر رضوان خاصہ دوستانہ انداز رکھتے تھے۔۔لیکن ان کا رعب ودبدبہ بھی قابلِ دید تھا۔۔
"سر۔۔۔وہ۔۔۔یہ علی نے شروع کی تھی۔"نیہا نے منمناتے ہوۓ اپنی صفاٸ پیش کرنا ضروری خیال کیا۔۔۔
"وہ۔۔"علی کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ سر رضوان بول اٹھے۔"شٹ اپ۔۔"
دونوں نے سر جھکا لیا۔احترام لازم تھا۔۔۔سو،خاموش ہو جانا پڑا۔۔لیکن دونوں کی آنکھوں نے ایک دوسرے پر واضع کر دیا کہ لڑائی یہی ختم نہيں ہوئی تھی۔۔۔
❌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔❌

رحمان صاحب کا لیڈر کا بزنس تھا۔ان کے دو ہی بیٹےتھے۔بڑا بیٹا عاصم، جو اب خیر سے پولیس افسر تھا۔اور اس کی شادی ہو چکی تھی۔۔۔یاسمین بھابھی بہت اچھی نیچر کی تھیں۔۔۔سب سے انکی جلدی بن جاتی تھی۔۔۔اور دوسرا بیٹا علی،جوابھی یونيورسٹی سے انگلش ادب میں ماسٹرز کر رہا تھااور کافی شریر واقع ہوا تھا۔گھر بھر کے ناک میں دم کر رکھا تھا۔رحمان صاحب اکثر کہتے تھےکہ یہ اتنا بڑا ہو گیا ہے پھر بھی پورے گھر میں بندروں کی طرح اچھلتا پھرتا ہے۔"
عبدلباسط یوشع،علی رحمان کا بچپن کا دوست تھا۔دونوں ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔دونوں کی دوستی ایسی تھی جیسے دوجسم ایک جان۔عبدلباسط کے والدین کا دوسال پہلے انتقال ہو چکا تھا۔وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھاتو ان کے قریب بھی بہت تھا۔ان کا جانا عبدلباسط کے لیے کسی بہت بڑے صدمے سے کم نہ تھا۔ایسے کڑے وقت میں علی نے ہی اس کا ساتھ دیاتھا۔وہ جو جینے کی امید کھو بیٹھا تھا،اسے جینا سکھایاتھا۔اس وقت کے بعد سے ان کی دوستی اور گہری ہوتی چلی گٸ تھی۔
❌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔❌

تجھ سے ہی یاری ازقلم ستارہ احمدWhere stories live. Discover now