دوستی محبت ہے

874 29 11
                                    

”جنت۔۔۔جنت بیٹا اُٹھ جاٶ نا جانے وہ کون سا دن ہو گا جب یہ لڑکی میرے اٹھاۓ بغیر اُٹھ جاۓ گی“ رقیہ بیگم کمرے کی کھڑکیوں پر سے پردے ہٹاۓ ہوۓ اپنی بیٹی سے مخاطب ہوٸیں۔
”امی جان! آپ کو تو معلوم ہے نا کہ اگر میں اُٹھ جاٶں تو بھی آپ کے آنے کا ویٹ کرتی ہوں تا کہ میں صبح صبح آپ کا یہ حسین چہرہ دیکھ سکوں“ جنت نے منہ پر سے بلینکٹ ہٹاتے ہوۓ کہا۔
”بس صبح ہوٸ نہیں اور اِس میڈم کے ڈرامے شروع ہو گۓ-صحیح کہتی ہیں تمہاری دوستیں کہ تم ہو ہی ڈرامہ کوٸین“ رقیہ بیگم نے اپنی ہنسی دباتے ہوۓ کہا۔
”امی جان آپ ان نکمیوں کی باتوں میں مت آٸیں وہ تو ہیں ہی ایسی جب دیکھو مجھ معصوم کے پیچھے پڑی رہتی ہیں“ جنت نے منہ بسورتے ہوۓ کہا۔
”اچھا تو آج اپنی سہیلیوں کی براٸ کرنے کا ارادہ ہے“ رقیہ بیگم کو اس معصوم سی صورت پر بے حد پیار آیا۔
”استغفراللّٰہ! امی جان میں کیوں اُن کی براٸیاں کر کے ان کے گناہ دھوٶں“ جنت مصنوعی غصہ دکھاتے ہوۓ بولی۔
”سب جانتے ہیں کہ کیسے تم دوستوں کی جانیں ایک دوسرے میں بستی ہیں اور کتنا پیار کرتی ہو تم اپنی دوستوں سے تو میرے سامنے یہ ڈرامے بازیاں بند کرو“ رقیہ بیگم بیڈ سے اٹھتے ہوۓ بولیں۔ ”وہ تو ہے امی جان“ جنت قہقہ لگاتے ہوۓ بولی۔
”چلو اب کالج کے لیے ریڈی ہو جاٶ اس سے پہلے کے تمہیں دیر ہو جاۓ ورنہ پورا گھر تم نے سر پے اٹھایا ہوتا ہے“ رقیہ بیگم نے کمرے سے جاتے ہوۓ جنت سے کہا۔
”چلو بیٹا جنت اس سے پہلے حور میڈم نازل ہو جاٸیں“ جنت خود سے کہتی ہے کہ اتنے میں موباٸل پر میسج ٹون بجتی ہے جسے پڑھ کر وہ زیرِلب مسکراتی ہوٸ بڑبڑاتی ہے۔۔
"Think of the devil...And devil is here"
************************************
فرحان صاحب کے دو ہی بچے تھے ارتضٰی اور جنت..انھیں اپنے دونوں بچے بہت عزیز تھے لیکن جنت میں ان کی جان بستی تھی۔
”ارے یہ ہمارے دونوں بچے ابھی تک ناشتے پر  کیوں نہیں آۓ“ فرحان صاحب اخبار پڑھتے ہوۓ رقیہ بیگم سے مخاطب ہوتے ہیں۔
”بس آتے ہی ہوں گے آپ کو تو پتہ ہے نہ جب تک میں نا جاٶں جنت اٹھتی نہیں ہے اور ارتضٰی صبح صبح جوگنگ کے لیے جاتا ہے بس آتا ہی ہو گا“
رقیہ بیگم نے تفصیلً فرحان صاحب کو بتایا۔
”اَلسَلامُ عَلَيْكُم ایوری ون!“ گھر کے داخلی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوۓ ایک وجیع شخصیت کا مالک لڑکا جو کے ٹریک سوٹ میں بھی بہت ہینڈسم لگ رہا ہوتا ہے، سلام کرتا ہے۔ جسے فرحان صاحب اور رقیہ بیگم بہت پیار سے دیکھتے ہیں اور دیکھتے بھی کیوں نا وہ ان کا اکلوتا بیٹا ارتضٰی فرحان خان ہوتا ہے۔
”وَعَلَيْكُم السَّلَام آ جاٶ ارتضٰی ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے“
”جی بابا بس فریش ہو کر آتا ہوں“
”ایک تو یہ لڑکی بھی نا پتہ نہیں کیا کرتی رہتی ہے لیٹ ہو جاۓ گی تو وایلا مچا دے گی“ رقیہ بیگم نے جنت کو آواز دیتے ہوۓ کہا۔
”آ جاتی ہے امی ابھی تو اس کے کالج جانے میں ٹاٸم ہے“ ارتضٰی اپنی اکلوتی بہن کی ساٸڈ لیتے ہوۓ کہتا ہے۔
”یہ تم دونوں باپ بیٹے نے اسے سر پر چڑھا رکھا ہے“ رقیہ بیگم نے مصنوعی غصے سے کہا۔
”اچھا تو یہاں میری براٸیاں ہو رہی ہیں“ گرین کلر کی قمیض پر کالے رنگ کی کڑھاٸ اور کالے رنگ کے ٹراوزر کے ساتھ کالے رنگ کا ڈوپٹہ لیے جنت بہت خوبصورت لگ رہی ہوتی ہے وہ سیڑھیاں اترتے ہوۓ سب کو سلام کرتی ہوٸ اپنے بابا کے ساتھ کرسی پر بیٹھتے ہوۓ کہتی ہے۔
اللّٰہ معافی دے ہم کیوں ایک چڑیل کی براٸیاں کریں گے ہمیں اپنی جان بہت پیاری ہے“ ارتضٰی جنت کو تنگ کرتے ہوۓ بولا۔
”بابا جانی آپ دیکھ رہے ہیں نا بھیا کو ہر وقت مجھے تنگ کرتے رہتے ہیں“ جنت چڑتے ہوۓ بولی۔
”ارتضٰی کیوں ہماری بیٹی کو ہروقت تنگ کرتے ہو کبھی کبھار تنگ کیا کرو یار“ فرحان صاحب اپنی ہنسی دباتے ہوۓ بولے۔
”بابا جانی آپ بھی....“ جنت روہانسی ہوٸ۔
اچھا بس بہت ہو گیا ہنسی مذاق جلدی سے ناشتہ کرو ورنہ لیٹ ہو جاٶ گی“ رقیہ بیگم نے امن کا اعلان کرتے ہوۓ کہا ورنہ تو جنت اور ارتضٰی کی نوک جھونک چلتی رہتی ایسا ہی تو کھٹا میٹھا رشتہ ہوتا ہے بہن بھاٸ کا۔۔
”اچھا امی بابا میں چلتا ہوں آج میری ہسپتال میں میٹنگ ہے تو شاید دیر ہو جاۓ“ ارتضٰی جوس پیتے ہوۓ بولا۔
”اللّٰہ حافظ چڑیل“ ارتضٰی جاتے ہوۓ بھی جنت کو چھڑنا نہیں بھولا تھا۔
”اللّٰہ نگہبان چڑیل کے ڈاکڑ بھاٸ“ جنت بھی مسکراتے ہوۓ بولی اور اسی وقت اس کے میسج کی ٹون بجتی ہے۔
اوکے امی بابا! وین اور حور دونوں آ گۓ ہیں میں چلتی ہوں“ "Jannat loves uh both"
”اللّٰہ میرے بچوں کو ہمیشہ یونہی خوش رکھے آمین“ رقیہ بیگم دونوں کی خوشیوں کے لیے دعا کرتی ہیں جس پر فرحان صاحب دل سے آمین کہتے ہیں۔

پر انہیں کون بتاۓ کہ یہ خوشیاں صرف چند دن کی ہی مہمان ہیں...!

************************************
یار حور یہ ہمارا باقی کا ٹولا کہاں ہے کہیں نظر نہیں آ رہا“ جنت کالج میں داخل ہوتے ہوۓ حور سے کہتی ہے۔
”ہوگا یہی کہیں تمہیں توپتہ ہے نا کہ جب تک وہ کوٸ کارنامہ سرانجام نادے دیں انہیں سکون نہیں ملتا“ حور مسکراتے ہوۓ کہنے لگی۔
ا”Not again یار اگر آج بھی انہوں نے کوٸ کارنامہ سرانجام دیا تو میں نہیں بچانے والی مس ہٹلر سے ان دونوں کو“ جنت سر پے ہاتھ مارتے ہوۓ کہتی ہے۔
”آٶ دیکھتے ہیں ان نمونیوں کو“ حور آگے بڑھتے ہوٸ بولی۔
”نو نو حور----بقول ان کے وہ معصومیت کی پتلیاں ہیں“ جنت اک ادا سے کہتی ہے اور وہ دونوں ہاتھ پے ہاتھ مار کر ہنسنے لگتی ہیں۔
************************************
”اوۓ..! تم دونوں یہاں اتنے سکون سے کیوں بیٹھی ہو جہاں تک مجھے لگتا ہے یہ سکون کا لفظ تو تم لوگوں کی ڈکشنری میں ہے ہی نہیں“ حور جنت کو آنکھ مارتے ہوۓ بولی۔
”کوٸ شرم ہوتی ہے کوٸ حیا ہوتی ہے۔نا سلام نا دعا آ گٸیں ہماری کھچاٸ کرنے“دعا چِڑ کرکہتی ہے۔
”بلکل اور ہم بہت معصوم ہیں ہم کچھ نہیں کرتے“ حیا بھی معصومیت سے بھرا چہرہ بنا کر کہتی ہے۔
”بس بس بقول میری امی جان کے ہم جیسے دو چار اور ہو جاٸیں تو دنیا کہاں کی کہاں پہنچ جاۓ“ جنت کی اس بات پرچاروں کے قہقہے ہوا میں بلند ہوۓ....

جنت،حور،دعااور حیا یہ چاروں بہترین دوست ہوتی ہیں۔ ان کی دوستی کے چرچے پورے کالج اور ان کے خاندانوں میں مشہور ہوتے ہیں جنت اور حور ایک دوسرے کو بچپن سے جانتی ہیں لیکن حیا اوردعا انہیں کالج کے پہلے دن ملتی ہیں اور اب چاروں ایسی ہیں جیسے صدیوں سےدوست رہی ہوں اگر انہیں چار جسم اور ایک جان کہا جاۓ تو غلط نہ ہو گا۔

************************************
میجر آر۔کے تمہیں ایک نہایت اہم مشن پر بھیجا جا رہا ہے جس میں تمہاری مدد کیپٹن اے۔بی کریں گے۔ ہم ڈیپارٹمنٹ کو تم دونوں پر بہت بھروسا ہے اور یقین ہے کہ تم لوگ انشااللّٰہ اس مشن میں ضرور کامیاب ہو گے..
”یس سر“ دونوں یک زبان ہوکر بولے اور ایک نۓ عہد کے ساتھ کمرے سے نکل گۓ ۔

انہیں کیا معلوم کے زندگی آگے ان کے کتنے امتحانات لینے والی ہے...!
************************************
Here is the first episode of "Mann Mauji Rahein"❤
Apni raaye zror dejye ga apki raaye hamary lye bht ehm hy..
Khush rhyye r khushyan banty rhyye kia pta apki kisii ko di huii khushi ALLAH ko bht pasand a jaye..
Jazakillah❤

مَن موجی راہیںWhere stories live. Discover now