"بابا آپ زیادہ بات مت کریں آپ کی طبعیت مزید خراب ہو جاۓ گی آپ ٹھیک ہو جاٸیں پھر میں آپ ماما اور گڑیا ہم چاروں خوب باتیں کریں گے۔" ہسپتال کے کشادہ کمرے میں ایک نوجوان لڑکے کی آواز گونجی جو دکھنے میں 16 17 سال کا لگ رہا تھا۔ اس کمرے میں اس لڑکے اور ہسپتال کے بیڈ پر مشینوں میں جکڑے وجود کے علاوہ اس وقت کمرے میں تین اور نفوس موجود تھے
"نہیں میری جان اگر میں آج چپ ہوگیا تو شاید تم لوگوں کا مستقبل داٶ پر لگ جاۓ " آواز پھر گونجی"زمان...میرے دوست! تم آرام کرو ایک دفعہ تم گھر واپس آجاٶ پھر تم جو کہناچاہو تسلی سے کہنا۔ میرے یار کی پریشانی میری پریشانی ہے۔" کمرے میں ایک اور مردانہ آواز گونجی۔
بات کرنے کے انداز سے وہ زمان صاحب کا دوست معلوم ہوتا تھا۔"رحمان تم جانتے ہو نہ اگر میرا شفقت بھرا سایہ میری بچی پر سے ہٹ گیا تو تو وہ لوگ نہ جانے میرے بعد میرے لخت جگر کے ساتھ کیا کریں گے وہ تو معصوم ہے ابھی اسے تو پتہ بھی نہیں کہ کیسے کیسے درندہ صفت لوگ اس معاشرے میں موجود ہیں "
زمان صاحب بول رہے تھے اور کمرے میں موجود ہر نفس کی دل کی دھڑکنیں بے ترتیب تھیں کیونکہ ڈاکٹر نے انہیں بات کرنے سے منع کیا تھا۔
"فاطمہ میں جانتا ہوں تم بہت بہادر ہوں اور میرے دونوں بچوں کی پرورش بہت اچھے طریقے سے کرو گی۔ مگر میری صالحہ کا بہت خیال رکھنا فاطمہ۔ اس پر ایک انچ بھی مت آنے دینا۔۔ میں جانتا ہوں تم میرے ہر فیصلے کو خوشی سے قبول کرتی ہوں۔ اور یہ بھی جانتا ہوں کے ایک ماں ہونے کے ناطے تم ان دونوں کا بہت خیال رکھو گی۔ مجھے تم پر پورا بھروسہ ہے ۔"بابا آپ زیادہ بات مت کریں ڈاکٹر انکل نے کہا ہے نہ کہ اگر آپ نے زیادہ بات کی تو وہ انجکشن لگا دیں گے اور بابا آپ کو پتہ ہے انجکشن سے بہت پین ہوتا ہے اور میں آپ کو پین میں نہیں دیکھ سکتی۔"
زمان صاحب نے اپنی 13 سالہ پھول سی بچی کے بعد کرنے پر اس تکلیف میں بھی پیار بھری نظروں سے اس دیکھا۔
"رحمان میں چاہتا ہوں کے تم میری بیٹی کو اپنی بیٹی بنالو میں چاہتا ہوں کہ تم میری صالحہ کا نکاح اپنے بیٹے سے کروا دو"
زمان صاحب نے دو پل کے لیے اپنی بیٹی کا ہاتھ تھاما اور رحمان صاحب کو دیکھ کر پھر متوجہ ہوئے۔
"میں جانتا ہوں کہ اس وقت میں بہت خود غرض ہو کر سوچ رہا ہوں پر میرے یار تم تو ہر حالات سے واقف اور تم سے زیادہ مجھے کسی پر بھروسہ نہیں اسے میری آخری خواہش سمجھ لو"
"کیسی غیروں والی باتیں کر رہے ہو زمان ہمارا بچپن ساتھ گزرا ہے ہم بڑے ساتھ ہوئے ہیں اور تم تو میرے دوست نہیں بھائی ہو۔ صالحہ میری بیٹی ہے اسے میں اپنی بیٹی بنا کر رکھوں گا۔ تم ٹھیک ہو جاؤ پھر ہم نکاح بھی کروا دیں گے"
رحمان صاحب نے اپنے دوست زمان کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا
"نہیں نکاح آج ہی ہوگا ابھی اور اسی وقت میری نظروں کے سامنے"
"ٹھیک ہے میں نکاح خواں اور اپنے بیٹے کو بلواتا ہوں"
"صالحہ!! بابا کی جان"
زمان صاحب نے اپنی بیٹی کو پکارا جو کب سے انہیں دیکھ رہی تھی جیسے اسے لگ رہا تھا وہ پلک جھپکے گی تو اس کے بابا شاید غائب ہوجاٸیں زمان صاحب مسکرائے اور پھر کہا
"صالحہ آپ جانتی ہوں نا بابا بھائی سے زیادہ آپ سے پیار کرتے ہیں۔ اور آپ کے بابا کبھی آپ کے لئے غلط فیصلہ نہیں کریں گے۔ آپ تو بابا کا پرآؤڈ ہونا تو کبھی بابا کو غلط مت سمجھنا ۔
"Yes Baba!! I m your proud and see bhaiyya baba loves me more. Don't be jealous.."
صالحہ آنکھیں مٹکاتے ہوئے بولی وہ واقعی بہت معصوم تھی جو اس وقت بھی سب کے چہرے پر مسکراہٹ لے آئی تھی۔
لیکن کہتے ہیں نا وقت نہیں رکتا کسی کے لیے بھی نہیں... وہ تو بس چلنا جانتا ہے پلٹ کر بھی نہیں دیکھتا کہ وقت کے مارے ہوئے لوگ کس حال میں ہیں اب۔۔
نکاح ہوگیا زمان صاحب سب کو تنہا چھوڑ کر کبھی بھی واپس نہ آنے کے لیے جا چکے تھے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لیے۔
کھڑکی سے آنے والے تیز ہوا کے جھونکے نے اس ماضی کے دریچوں میں کھوئی ہوئی لڑکی کو واپس حال میں لایا۔۔۔
"بابا آپ کی صالحہ بڑی ہو گئی ہے اور اب تو بابا میں کسی چیز کے لئے ضد بھی نہیں کرتی .. آپ واپس آجائیں نہ بابا۔ جس کے سہارے آپ مجھے چھوڑ کر گئے تھے اور جس کے نام کیا تھا آپ نے مجھے اسے تو شاید معلوم ہی نہیں کہ کوی صالحہ بھی ہے۔ بابا لوٹ آئیں نا۔"
"Your proud missing her proud baba"
ESTÁS LEYENDO
مَن موجی راہیں
Ficción Generalیہ کہانی ہے دوستی جیسے مخلص رشتوں کی--یہ کہانی ہے دوستوں کے لیے جان پر کھیلنے کی--یہ کہانی ہے محبت کی--یہ کہانی ہے اَن کہی چاہتوں کی--یہ کہانی ہے وطن کا قرض اتارنے کے لیے جان قربان کرنے کی--