"ارے یار! آج تو بہت لیٹ ہو گیا مجھے مس ہٹلر سے کوئی بھی بچا نہیں پائے گا وہ پہلے ہی ہمارے گینگ سے بہت تنگ ہیں۔۔
اور یہ حور میڈم کو بھی آج ہی چھٹی کرنی تھی یہاں سے فری ہو جاؤں تو اِس کی خبر لیتی ہوں۔کوئی ایسے بن بتائے چھٹی کرتا ہے کیا؟؟؟"
اس کی ایسی خبر لوں گی کہ چھٹی کرنے سے پہلے سو دفعہ مجھے یاد کرے گی اور آئندہ نیند میں بھی چل کر کالج آیا کرے گی۔۔۔
"اُف اللہ جی! لگ گئی۔" جنت اپنے آپ ہی سے گفت و شنید میں مصروف تھی اُسے آس پاس کا کوئی ہوش نہ تھا۔ہوش تو تب آیا جب کسی سے دھماکے دار ٹکر ہوئی اور اُس کا پورا وجود لرز کر رہ گیا۔
اِس بات پر اُس کے ہوش گم ہو گئے پھر اُس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ،نہ یہ پرواہ کی کہ مقابل اُس کے بارے میں کیا سوچے گا۔بولنا شروع ہوئی تو بس بولتی ہی گئی۔آخر پہ یہ کہہ کر خاموش ہوئی کہ:
"اللہ نے یہ آنکھیں تمہیں استعمال کے لیے دے رکھی ہیں نہ کے سجاوٹ کے لئے تو برائے مہربانی آئندہ اِن کا استعمال کر لینا۔"
اونچا لمبا قد،بال سلیقے سے سجائے ہوئے،بلیو جینز کے اوپر کالے رنگ کی شرٹ پہنے جس کے بازو کہنیوں تک فولڈ تھے،چہرے پہ سنجیدگی کا تاثر لیے بلا شبہ وہ ایک وجیہ پرسنلٹی کا مالک تھا۔
"اگر آپ کو اللہ نے یہ آنکھیں استعمال کے لیے دی ہیں تو آپ ان کا اچھے سے استعمال کر لیں۔"وہ بھی اپنے نام کا ایک ہی تھا کسی کا حساب نہ رکھنے والا!
"خیر آج میں آپ کو معاف کر رہا ہوں آئندہ دیکھ کر چلیے گا۔"
یہ کہہ کر وہ رکا نہیں۔
************************************
بدتمیز،اکڑو،منہ پھٹ،ضدی کہیں کا۔سمجھتا کیا ہے خود کو،مانا کہ ضرورت سے زیادہ ہینڈسم ہے مگر معافی مانگنے کے بجائے مجھے یہ کہہ کر چلا گیا کہ میں اپنی آنکھوں کا استعمال کروں۔
جنت غصے سے آگ بگولا ہوتی ہوئی دعا اور حیا کے پاس آ کر بیٹھتی ہے جو پچھلے پندرہ منٹ سے اُس کی صلواتیں سن رہی تھیں۔
"خدا جب حسن دیتا ہے تو نزاکت آ ہی جاتی ہے۔"حیا نے بات کی پہل کی،وہ حیا ہی کیا جو چپ بیٹھ جائے۔
"او حسن۔۔۔حُسن تو جیسے اُس مسٹر کھڑوس کے چہرے سے ٹپک رہا تھا جاؤ تم دونوں بھی لے آؤ۔"جنت کو تو جیسے حیا کی بات نے پھر سے آگ بگولا کر دیا تھا۔
افف۔۔!بس بھی کرو تم دونوں۔اتنا بھی حسین نہیں وہ کہ ہم اُسے ڈسکس کرتے رہیں۔آج حور نہیں آئی تو کالج کتنا ویران لگ رہا ہے،ہے نہ؟؟؟،دعا نے اُن دونوں سے پوچھا۔
"اس حور کی بچی کو تو ہم بتاتے ہیں صرف یہ دو کلاسز لے لیں پھر چلتے ہیں حور کی طرف۔" حیا مصنوئی غصّہ دکھاتے ہوئے بولتی ہے۔
کیا!!!!!حور کی بچی بھی ہے اور اس نے ہمیں شادی پہ بھی نہیں بلایا ،اور نہ ہمیں یہ بتایا کہ ہم خالہ بن گئی ہیں۔۔۔جنت نے بھرپور ڈرامائی انداز میں کہا۔یہ کہہ کر وہ خود بھی ہنسنے لگ گئی اور اس میں دعا اور حیا کے قہقے بھی شامل ہو گئے۔
بس،بس،بس اب اپنے یہ ڈرامے بند کرو اور چلو کلاس کی طرف۔اس سے پہلے کہ مس ہمیں پھر سے سزا دیں۔
پھر حور کی طرف بھی جانا ہے۔
************************************
"ارے یار ریان کہاں رہ گئے تھے میں کب سے تمہارا انتظار کر رہا تھا،ابراہیم نے بےچینی سے کہا۔اور جہاں تک مجھے یاد ہے ریان خان کو انتظار کرنا اور کروانا پسند نہیں۔"
"ہاں یار!میں بس آ ہی رہا تھا کہ راستے میں پہلے ایک چڑیل سے ٹکر ہو گئی اور پھر ٹریفک۔۔۔
اُفف توبہ!تم تو جانتے ہو لاہور کی ٹریفک کو۔ایک بار ٹریفک جام ہو جائے تو دو گھنٹے آرام سے گزر جاتے ہیں۔تم شکر کرو میں زیادہ وقت لیے بغیر تمہارے پاس پہنچ گیا ہوں۔"
اچھا یہ باتیں چھوڑو۔۔یہ بتاؤ کام کہاں تک پہنچا؟؟؟؟؟
************************************
کالج سے جیسے ہی چھٹی ہوئی جنت نے وین کی طرف دوڑ لگا دی۔وہ تو جیسے چھٹی کے ہی انتظار میں تھی۔وین میں تو بیٹھ گئی لیکن یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔اچانک سے ہی کالے بادل آ گئے۔اور بارش شروع ہو گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے بارش اتنی تیز ہو گئی ایسا لگ رہا تھا جیسے بارش اسی انتظار میں تھی کہ جنت وین میں بیٹھے اور وہ آئے۔اتنے دنوں کی گرمی کا زور جو ٹوٹا تو ہر طرف ندیاں بہتی نظر آنے لگی۔جنت پریشان ہو گئی کہ اب وہ حور کے گھر کیسے جائے گی۔
جیسے تیسے وہ گھر پہنچی۔اور امی سے اپنا فون پکڑ کر یہ جا وہ جا امی آوازیں دیتی رہ گئیں مگر وہ جنت ہی کیا جو سن لے۔
کمرے میں جاتے ہی جنت نے حور کا نمبر ڈائل کیا۔بیل جاتی رہی لیکن دوسری طرف تو اس حور نے فون نہ اٹھانے کا پکّا ارادہ کر کے رکھا تھا جنت پریشان ہو گئی کیونکہ آج سے پہلے حور یوں بن بتائے کالج سے غیر حاضر نہیں ہوئی تھی۔اور آج تو کال بھی ریسیو نہیں کر رہی تھی۔فلحال تو جنت کچھ نہیں کر سکتی تھی کیونکہ باہر موسم کچھ اور ہی کہانی کہہ رہا تھا۔
جنت نے بھی پکا ارادہ کر لیا تھا کہ وہ صبح ہوتے ہی حور کے گھر جائے گی۔اُس نے دعا اور حیا کو بھی اپنے اس پلان کے بارے میں آگاہ کر دیا۔
اب یہ رات کیسے گزرنی تھی یہ جنت کو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔وہ اس انتظار میں تھی کہ جلد ہی صبح ہو اور وہ اپنی جان سے پیاری دوست کے پاس جائے۔اور اس سے وجہ پوچھے کہ آخر بات کیا ہے وہ کالج سے کیوں غیر حاضر تھی۔اور اُس کی کال بھی ریسیو نہیں کر رہی تھی۔یہ سب باتیں جنت کو بہت پریشان کر رہی تھیں۔اور وہ اِن سب کی وجہ جاننا چاہتی تھی۔
************************************
اگلی صبح جنت کو کالج سے چھٹی تھی اور اس کے پلان کے مطابق آج اسے دعا اور حیا کو حور کے گھر جانا تھا۔رقیہ بیگم کے جگانے کے بعد وہ تیارہونے چلی گٸ اور اپنی تیاری کو آخری ٹچ دیتے وہ خود کو آٸینے میں دیکھنے لگی...
پاٶں تک آتی بلیک کلر کی فراک کے نیچے بلیک کلر کا چوڑی دار پاجامہ اور ہم رنگ ڈوپٹہ لیے ہلکی سی پنک لپسٹک لگاۓ بلاشبہ وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔
"واہ جنت تم تو بلیک بیوٹی لگ رہی ہو" جنت اپنے منہ میاں مٹھو بن کر نیچے چلی دی
"جہاں تک مجھے یاد ہے کہ آج تمہارے کالج کی چھٹی ہے تو یہ سورج کہاں سے نکل گیا آج جو جنت میڈم ہمیں صبح صبح اپنے حسین چہرے کی زیارت نصیب فرما رہی ہیں" ارتضٰی اپنی عادت سے مجبور جنت کو تنگ کیے بغیر نہیں رہ سکا۔
"بھاٸ مجھے آپ کی گاڑی چاہیے" جنت نے ارتضٰی کی باتوں کو اگنور کرتے ہوۓ کہا۔
"نہیں...بلکل نہیں...قطع نہیں.." ارتضٰی بولا
"ہاااا...کیوں بھاٸ؟" ارتضٰی کے یوں دو ٹوک انکار پر اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
"تمہیں گاڑی دینے کا مطلب ہے گاڑی کا خانہ خراب کرنا اور میں اپنی اکلوتی پیاری سی گاڑی پر کوٸ ظلم برداشت نہیں کروں گا" ارتضٰی نے اس کے چہرے کے بگڑتے تیوروں کو خوب انجواۓ کر کے اپنی ہنسی دباتے ہوۓ کہا..
"کیا زمانہ آگیا ہے اکلوتی بہن سے زیادہ اکلوتی گاڑی عزیز ہو گٸ ہے اب آپ کو" جنت کو سچ میں دکھ ہوا
"کہاں جانا ہے تم نے عزیز اکلوتی بہن" ارتضٰی نے ناشتہ کرتے ہوۓ پوچھا
"حور کے گھر جانا ہے ہم دوستوں نے اس کی طبعیت صاف کرنے" جنت چہرے پر شیطانی مسکراہٹ لیے بولی
"چچ چچ بیچاری حور ترس آ رہا ہے اس پر اب مجھے" ارتضٰی نے حور کی حالت کو امیجن کرتے ہوۓ کہا..
"بس کر دو تم دونوں اب ناشتہ بھی سکون سے نہیں کرنے دیتے" رقیہ بیگم اس جنگ میں اپنا حصہ ڈالتے ہوۓ بولیں۔
"امی آپ کے صاحبزادے ہی بات کو طول دے رہے ہیں" وہ جنت ہی کیا جو اپنی غلطی مان لے..
"شکریہ بھاٸ گاڑی کی چابی دینے کے لیے" جنت گاڑی کی چابی پکڑتے ہوۓ باہر کی طرف چلی گٸ
"جنت میری گاڑی کو کچھ نہیں ہونا چاہیے" ارتضٰی ہار مانتےہوۓ بولا۔
************************************
تم حجاب لیتی ہو... یار یہ اولڈ فیشن ہے... سوساٸٹی کے ساتھ موو کرو...یا تو یہ حجاب وغیرہ چھوڑ دو یا پھر ہمیں...میں تو دوست ہوں نا تم لوگوں کی جان سے پیاری دوست...ہمیں اپنی امیج زیادہ عزیز ہے تمہارا ساتھ ہماری ریپو بگاڑتا ہے..جاٶ..تمہاری اور ہماری دوستی ختم..
اس کا ماتھا پسینے سے شرابور ہوتا ہے...وہ اپنی آنکھیں کھولتی ہے اس کی نیلی آنکھیں آنسوٶں سے تر ہوتی ہیں.."یا اللّٰہ کیا میں بہت بری ہوں کہ لوگ مجھے چھوڑ جاتے ہیں پہلے بابا پھر امی اور پھر وہ لوگ... کیوں..." وہ کٸ دفعہ خود سے یہ سوال کرتی ہے پر جواب اسے کبھی نہیں مل پاتا..وہ گھٹنوں کے بل زمین پے بیٹھی بے آواز رو رہی تھی کہ اس کے فون پے میسج ٹون بجی وہ اپنا چہرہ صاف کرتے فون کی جانب بڑھی..
"اگلے پندرہ منٹ میں تیار رہنا اور کوٸ بہانا نہیں چلے گا مس دعا"
میسج پڑھ کے اس کے چہرے پے مسکراہٹ رینگی
"نہیں دعا اللّٰہ نے تمہے بہت خوبصورت تحفے سے نوازا ہے اس نے تمہے اکیلا نہیں چھوڑا اور بیشک اس کے فیصلے کمال ہوتے ہیں" چہرے پر مسکراہٹ سجاۓ اپنے دل میں سوچتے وہ اپنے کپڑے لیے واشروم کی طرف بڑھ گٸ
************************************
Here is the second episode..
Apna feedback zror dejye ga hummy intezar rhy ga..
Duaon m yd rkhyye ga❤
Keep supporting
CZYTASZ
مَن موجی راہیں
General Fictionیہ کہانی ہے دوستی جیسے مخلص رشتوں کی--یہ کہانی ہے دوستوں کے لیے جان پر کھیلنے کی--یہ کہانی ہے محبت کی--یہ کہانی ہے اَن کہی چاہتوں کی--یہ کہانی ہے وطن کا قرض اتارنے کے لیے جان قربان کرنے کی--