دوسری قسط

282 25 21
                                    

"بات تو اچھی ہے لیکن میرے دل میں اور ہی بات تھی" عبداللہ صاحب کی بجائے جواب فاطمہ  بیگم کی طرف سے آیا تھا، خدیجہ بیگم سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھے گئ،
"بات یہ ہے آپا کے مجھے اپنی ذوالعرش کے لئے اذان بہت پسند ہے، ہمارا عارفین تو لاکھوں میں ایک ہے اس میں کوئ شک نہیں اپنا ہی بچا ہے بس آپ کو دل کی بات بتانا ضروری تھی" خدیجہ بیگم جو ان کے ہاں کی منتظر تھی اذان کا نام سن کر تھوڑی مایوس ہوئ. ان کا چہرہ دیکھ کر فاطمہ بیگم نے پھر کہا، "آپ کو برا لگا ہو تو معذرت آپا" ان کی بات پر خدیجہ بیگم نے اپنے آپ کرمو سمبھال کر مسکرا دیا، " ارے نہیں فاطمہ ذوالعرش آپ کی بیٹی ہے ماں ک حق تو بنتا ہے کہ وہ اپنی پسند ظاہر کرے، اذان بھی میرے بیٹے جیسا ہے مجھے برا نہیں لگا" ان کی بات پر فاطمہ بیگم کو مسکرا کر خاموش ہوئ ان دونوں کے درمیان عبداللہ صاحب جو اب تک خاموش تھے خدیجہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے بولے، " میری بات مانو تو عارفین کے لئے سحر کے بارے میں سوچ سکتی ہو، ماشاءاللہ سے بہت ہی سلجھی ہوئ لڑکی ہے تم نے تو بچپن سے دیکھا ہوا ہے اسے" عبداللہ صاحب کی بات پر خدیجہ بیگم فوراً بولی، "ارے ہاں ہماری سحر بیٹی بھی تو ہے میرے ذہن میں یہ بات نہیں آئ، اللّٰہ کے فضل سے بیٹا بہت ہی اچھا ہے میری بات کا انکار نہیں کریگا اور انکار کی وجہ بھی نہیں بنتی سحر تو ہے ہی پیاری"
" تو پھر طے رہا ذوالعرش کا رشتہ اذان سے اور عارفین کا سحر سے طے کر دیتے ہیں" ان کی بات پر مسکراتے ہوئے دونوں نے اثبات میں سر ہلا دیا.
                    ...….....…..............

کمرے میں نیم تاریک اندھیرا تھا لیکن اس کمرے کے اندھیرے سے زیادہ وہ اپنے دل میں موجود روشنی کے بوجھ جانے سے بے چین تھا وہ کھڑی کے پاس اپنی سوچوں میں گم کھڑا مسلسل باہر دیکھ رہا تھا. آج گھر کے بڑوں کی کہی گئی بات نے اسے پریشان کر دیا تھا. سحر اچھی لڑکی تھی لیکن کبھی عارفین نے اسے اس نظر سے نہیں دیکھا تھا اس کی خاص وجہ تو یہی تھی کہ اس نے کبھی ذوالعرش کے علاوہ کسی کو سوچا ہی نہیں تھا. وہ نہیں جانتا تھا کہ ذوالعرش بھی اسے پسند کرتی ہے یہ نہیں لیکن اس کے دل میں بس اسی کا خیال ہمیشہ سے تھا.
"یہ کیسی کشمکش ہے ایک طرف میرے دل کی آرزو اور دوسری طرف تیری رضا" اس کی آنکھوں میں ذوالعرش کا چہرہ نمایاں ہوا.. اس نے اپنی آنکھیں بند کردیں.
اس کے لبوں پر اب کوئ بات نہ آئ بس خاموش فضا کو اب وہ آنکھ بند کرکے محسوس کررہا تھا.
                  .............................

وہ چلتا ہوا ذوالعرش کے کمرے تک آیا. مسکراتے ہوئے دروازے پر دستک دیں وہ جو اندر اپنے ابا کے فیصلے کے بارے میں سوچ رہی تھی دستک پر بری طرح چوکی. "ہاں آجاؤ" اس نے بنا پلٹے ہی زور سے پکارا. اس کی آواز پر دروازہ پرے ڈھکیل کر اندر آتا ہوا وہ اذان تھا.
"ذوالعرش" اس نے پکارا تو ذوالعرش اس کی آواز سن کر فوراً پلٹی. روز اس کا سامنا ہوتا تھا لیکن ابا کے فیصلے کے بعد اس کا سامنا کرنا اس کے لئے مشکل ہورہا تھا. وہ بنا کچھ کہے بس اسے دیکھے جارہا تھا اس کی ان نظروں کو اپنے اوپر پاتے ہوئے ذوالعرش نے نظریں نیچے کرلیں اور اٹھ کھڑی ہوئ.
" میں بس ایک بات کہنے آیا تھا" وہ مسکراتے ہوئے اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا. ذوالعرش کو اس کا اس طرح بے تکلف ہونا نا جانے کیوں اچھا نہیں لگا. شاید ابا کے فیصلے کی بات اب تک ذہن میں گردش کررہی تھی اس لئے اس نے اپنے آپ کو تسلی دیں.
"تایا ابو کے فیصلے سے میں بہت خوش ہوں ذوالعرش اس کی وجہ بس یہی ہے کہ میں تمھیں پسند کرتا ہوں اور نکاح بھی کرنا چاہتا تھا تو دیکھو اللّٰہ نے میری آرزو پوری کردی اور تمھیں میری زندگی میں شامل کردیا" اس کی آخری بات پر ذوالعرش نے اس کی جانب دیکھا جس کے لبوں کے ساتھ آنکھیں بھی مسکرا رہی تھی اذان کے چہرے کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ واقعی بہت خوش ہے.
"اور تم دیکھنا ہم ساتھ ساتھ بہت خوش رہے گے یہ میرا وعدہ ہے تم سے" اس کی بات پر ذوالعرش کے چہرے پر مسکراہٹ آئ لیکن دل کی کیفیت وہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ وہ خوش ہے یا نا خوش.
اپنی بار کہہ کر اذان کمرے سے چلا گیا ذوالعرش پھر بیڈ پر بیٹھ گئ." کتنی عجیب بات ہے اذان نے اپنی پسند کا اقرار کیا لیکن مجھ سے ایک دفعہ بھی نہیں پوچھا میں خوش ہوں یا نہیں." اس کے دل میں کسی کا خیال تھا بھی یا نہیں اس نے کبھی اپنی آگے کی زندگی کے بارے میں نہیں سوچا تھا
"اور عارفین" اس کے لبوں پر اس کا نام آتے ہی ذوالعرش چونکی،

ناعم القلبWhere stories live. Discover now