وہ ساکت چہرہ لئے وہی بیٹھی ہوئ تھی. اس کے ہونٹوں سے بہتا خون اب بھی اسی طرح بہہ رہا تھا لیکن اسے کسی چیز کا اب حوش نہیں رہا. زندگی کا یہ پہلا تھپڑ اس کے دل میں درد پیدا کررہا تھا. جب اس کے ذہن میں عبداللہ اور فاطمہ کا خیال آیا تو اس کے بے جان جسم میں حرکت ہوئ اذان نے کہی ساری بات امی ابا سے کہہ دی تو وہ کیا کریگی ایک قیامت ہی برپا ہوجاے گی اس خیال سے اس نے اپنے بہتے آنسو پوچھے اپنے کپڑوں کو سنبھالتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئ اور دوڑتی ہوئی کمرے سے باہر آئ. باہر اب بھی سب مہمان موجود تھے ذوالعرش کے کلاس فیلو دوسرے جانب ہونے کی وجہ سے اسے باہر آتے ہوئے دیکھ نہیں پائے.اس کی آنکھوں میں پھر سے آنسوؤں کا سلسلہ شروع ہوگیا اب اسے جلد از جلد گھر پہنچنا تھا خوف دل پر اپنا قبضہ جما رہ تھا وہ دوڑتی ہوئی باہر آئ جہاں ڈرائیور گاڑی لئے اس کے انتظار میں کھڑا رہنے والا تھا. لیکن اس وقت کار وہاں موجود نہیں تھی یہ دیکھ ذوالعرش کے پسینے چھٹ گئے،
"یہ ڈرائیور..." اس کی آواز رونگ کی وجہ سے روندھ گئ تھی. یہاں وہاں نظریں گھما کر دیکھا کہی کار نہیں تھی. اس کی ہمت اب جواب دے رہی تھی وہ اسی روڑ پر بیٹھ گئ. ہاتھوں سے اپنا چہرا چھپائے زارو قطار روئے جارہی تھی. اس سنسان سڑک پر کوئ نہیں تھا جو اسے دیکھ سکے اس کی مدد ہی کردیں.
" اللّٰہ تعالیٰ پلیز" اس نے رونے کے دوران اللّٰہ کو پکارا. زندگی میں پہلی بار وہ اس طرح اللّٰہ سے مخاطب ہوئ تھی. وہ رحمٰن تو ہر بندے کی آواز سنتا ہے پھر ذوالعرش کی کسیی نا سنتا اللّٰہ نے اس کے لئے مددگار کی صورت میں ایک بندہ بھیج دیا.
ذوالعرش کی تھوڑی دوری پر ایک کار آکر روکی. اس نے دروازہ تیزی سے کھولا بلیک پینٹ گرے شرٹ بازوں تک آستین فولڈ کی ہوئ ڈھیلی ڈھالی ٹائ وہ دوڑتا ہوا ذوالعرش کے پاس آیا.
"عرشوں تم ٹھیک ہو؟" اس نے پریشانی میں اس کی جانب دیکھا جو اس وقت راستے پر اکیلی بیٹھی رو رہی تھی. اس نے اپنے ہاتھوں سے اس کا چہرہ خود کی طرف کیا. ذوالعرش نے آنسوں سے بھرے آنکھیں عارفین کے چہرے پر جمائ تو پھر اس کی بچی ہوئی ہمت اب ختم ہوگئ. وہ فوراً اس سے لپٹ گئی اور بچوں کی طرح رونے لگی وہ فکر سے اس کے سر کو تھپک رہا تھا.
" کیا ہوا تمہیں عرشوں پلیز بتاؤ مجھے، تم اس وقت اس حالت میں کچھ تو کہوں تمھیں کیا ہوا ہے...یہاں دیکھو میری طرف" اس نے خود سے الگ کرکے اس کا چہرا اپنی طرف کیا،
"تم ٹھیک ہو؟ ایک لفظ ہی کہہ دو عرشوں کے مجھے تسلی ہوجائے اس طرح نہیں دیکھ سکتا میں تمھیں پلیز" وہ اس کے چہرے پر بکھرے بال صحیح کرنے لگا، "نہیں تم بالکل ٹھیک نہیں ہو چلو میرے ساتھ گھر" اس نے کہتے ہوئے اسے اپنے ساتھ کھڑا کیا اور ساتھ کار میں بیٹھایا، ذوالعرش خاموشی سے بس اسے دیکھ رہی تھی. کار میں اسے بیٹھا کر۔ عارفین ڈرائیونگ سیٹ پر آکر بیٹھا. پانی کی بوتل ذوالعرش کے ہونٹوں سے لگا کر اسے پلانے لگا. جلدی سے جیب سے رومال نکال کر اس کے ہونٹوں کے نیچے لگ خون صاف کرتے ہوئے عارفین بار بار اس کے چہرے پر دیکھ رہا تھا جس کے چہرے پر ڈر پریشانی ہر چیز تھی۔ عارفین نے کار سٹارٹ کردیں پورے رستے میں دونوں کے درمیان خاموشی تھی اسے ذوالعرش کی حالت سمجھ نہیں آرہی تھی لیکن وہ اس وقت اس سے اب اور کچھ پوچھنا نہیں چاہتا تھا. کار گھر کے باہر رکی.
...............................
عارفین اسکا ہاتھ پکڑ کر گھر کے اندر لے آیا. ذوالعرش کو اپنے وجود کا بوجھ ہی اس قدر لگ رہا تھا اس کا بس چلت وہ اسی قدموں سے واپس چلی جاتی اس کی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وہ سب کا سامنا کرے. عارفین نے دروازہ کھولا تو ہال میں عبداللہ صاحب فاطمہ بیگم ایک صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے. ان کے قریب ہی سحر کھڑی تھی جو پریشانی سے ذوالعرش کی اس حالت کو دیکھ رہی تھی. جب وہ تھوڑا اندر آئے تو فاطمہ بیگم اٹھ کر اس کے پاس آئ اور زوردار طمانچہ اس کے گالوں پر دھر دیا یہ دوسرے تھپڑ نے اسے بکھیر کر رکھ دیا. وہ لڑکھڑاتے ہوئے گرنے لگی لیکن عارفین نے اسے سمبھال لیا۔
" کیا کرکے آئ ہو؟ ذرا تو خوف کر لیتی اللّٰہ کا، اپنے والدین کا سر شرم سے نیچا کردیا تونے ذوالعرش، اذان نے رشتہ توڑ دیا ہے تجھ سے اب یہ بھی دن دیکھانے باقی تھے" فاطمہ بیگم روتے ہوئے اس سے کہے جارہی تھی عارفین نے بیچ میں ان سے کچھ کہنا چاہا تو انھوں نے روک دیا،
"نہیں عارفین تم کچھ مت کہو" وہ پھر سے ذوالعرش کی جانب پلٹی بولنے کے لئے لب کھولے ہی تھے کہ عبداللہ صاحب کی آواز پر روک گئے،
" بس کرو فاطمہ، سحر ذوالعرش کو اس کے کمرے میں لے کر جاؤ"عبداللہ صاحب کی بات پر سحر نے آگے بڑھ کر ذوالعرش کا ہاتھ تھاما، اور کمرے میں لیں گئ چلتے چلتے اس کے ذہن میں بس اپنے باپ کی خاموشی تھی، ان کے دل میں کیا کچھ نہیں ہوگا میں نے دکھ دیا ان کو شرمندہ کیا لیکن انھوں ایک لفظ ب ھی نہیں کہا مجھ سے کیوں آخر کیوں غصے سے ڈانٹ دیتے تھپڑ مار لیتے ان کی خاموشی سے اپنی نظر میں میں اور بھی گر گئ ابا سوچتے ہوئے سحر کے ساتھ اپنے کمرے آئ. سحر نے اسے بیڈ پر بیٹھا کر فرسٹ ایڈ بوکس لائ اور اس کے چہرے پر لگا خون صاف کرنے لگی وہ بس خاموشی سے اٹھنے لگی تو ذوالعرش نے اس کا ہاتھ پکڑا تو واپس اس کے ساتھ بیٹھ گئ. آنسو پھر اس کے رخسار پر بہنے لگے. سحر کیا تمھیں بھی لگتا ہے کہ میں ایسا کچھ کام کرکی آئ ہوں جس سے...." اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی سحر نے کہا،
"میں نہیں جانتی ذوالعرش کہ اذان کے اس رویے کی وجہ کیا ہے، وہ بہت غصے میں گھر آیا اور تایا اور تایا امی کے سامنے رشتے سے انکار کردیا، اور بنا کہے گھر سے چلا گیا میں نے بہت فون کئے لیکن وہ جواب نہیں دیں رہا، وہ میرا بھائ ہے ذوالعرش مجھے اس کی فکر ہے تم سے رشتے کا انکار کرتے ہوئے سب نے اس کا غصہ دیکھا لیکن بولتے وقت اس کی زبان کا لڑکھڑانا میں نے دیکھا تھا، تم میری بہن ہو اور میں یہی کہوں گی کہ مجھے پوری بات بتاؤ" سحر کے کہنے پر ذوالعرش نے سب بات بتائ اور اس کے گلے لگ کر رونے لگی، سحر اس کے سر کو تھپک نے لگی.
"چپ ہو جاؤ ذوالعرش انشاء اللہ سب ٹھیک ہوجاے گا" اس نے اسے تسلی دیں، " اب اٹھو اور کپڑیں بدل لو اور یہ کیوں ہوا یہ سوچنے سے بہتر ہے اس کی کیا وجہ ہے یہ ضرور سوچنا ذوالعرش اللّٰہ کی مصلحت کو جاننے کی کوشش کرو" جاتے جاتے سحر آخری بات پر اس کے آنسو تھمے.
جب سوچنا شروع کیا تو ناجانے کتنے گناہ سامنے آئے جسے ہم معمولی اور چھوٹی بات سوچ کر چھوڑ دیتے ہیں اس کا انجام کتنا بڑا ہوسکتا ہے یہ جاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کیں تھی میں نے اس نے اپنی سوچوں میں گناہوں کے علاوہ کچھ اور نہیں پایا، " اللّٰہ تعالیٰ مجھے معاف کر دو" ایک آنسو لڑھک کر گال پر آیا اس کی پوری رات اسی طرح گزرنے والی تھی.
.............................
سحر تہجد کی نماز ادا کرکے ذوالعرش کے کمرے میں چلی آئ اسے یقین تھ کہ وہ جاگ رہی ہوگی. اسے اسی طرح کے پاس بیٹھے دیکھ وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئ.
"تم ساری رات روتی رہی ہونا؟"
"جو بیٹی والدین کے آنکھوں میں آنسو کی وجہ بنے اس کے دل کو سکون نہیں ملتا سحر" وہ کہہ کر اس کے جانب موڑی، " میں کیا کروں سحر مجھے بہت تکلیف ہورہی ہے، گھبراہٹ محسوس ہورہی ہے، میرے دل میں ایک بے چینی نے گھر کرلیا ہے میں نہیں بتا سکتی، لیکن جب سوچتی ہوں کہ اس سے بھی کہی گنا تکلیف تو امی ابا کو ہورہی ہوگی، میں ساری رات اس کمرے میں ٹہلتی رہی ہوں پر قرار نہیں آرہا پلیز سحر مجھے بتاؤ میں کیا کروں" ذوالعرش پھر رونے لگی، سحر نے اس کے بے بس چہرے کو دیکھا اسے اذان کی فون کول یاد آئ جو اس نے دیر رات کو کیا تھا.
" تم کہاں ہو اذان گھر آؤ جلدی" سحر نے۔ فکر سے کہا،
" اب گھر آکر کیا کروں سحر جسے دل نے خاص مقام دیا تھا وہ تو اس قابل ہی نہیں تھی، میں اس کی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتا، ویسے بھی میں بزنس کے لیے باہر تو جاتا ہی ہوں اب وہی رہا کروگا اور تمھارا اور عارفین کے نکاح کے بعد وہاں شفٹ ہوجاوگا" اذان نے دو ٹوک انداز میں کہا،
"لیکن اذان سنو ذوالعرش نے..."
" نہیں سحر اب اور نہیں تم اس بارے میں مجھ سے بات نا کرو تو بہتر ہے" اس نے بنا سحر کی بات سنے ٹھک سے فون بند کردیا.اب وہ ذوالعرش کے سامنے موجود تھی.
" جانتی ہو سحر میرے دل کی کیفیت اتنی حاوی ہورہی ہے مجھ پر کہ میرے دل میں موت کا خیال آرہا ہے" ذوالعرش کی بات پر سحر سا چہرہ ساکت ہوگیا،
"میں جانتی ہوں موت کی خواہش کرنا بہت بڑا گناہ ہے، لیکن دل بہت گھبراہٹ ہورہی ہے مجھ سے نہیں برداشت ہو رہی، دل کر رہا بس کہی بھاگ جاؤ، کچھ ایسا ہو کہ یہ وقت سے دور ہوجاو موت کا خی بار بار آرہا ہے سحر...."
" ذوالعرش..."عارفین نے چینخنے والے انداز میں کہا، ذوالعرش کے منہ سے موت کی بات سن کر اس کا ذہن بھک سے اڑ گیا، اس کی آواز پر دونوں پلٹے،
سحر نے ایک نظر اسے دیکھ کر اٹھ کر کمرے سے باہر آگئ.
"کیا کہا تم نے ابھی ہاں" وہ دھاڑا تھا ذوالعرش کو اپنی کہی بات پر پچھتاوا ہوا،
" تم کیا سمجھتی ہو تمھاری موت ہمیں سکون دی گی ایک مشکل وقت میں اتنی کمزور پڑ گئ تم، بولنے سے پہلے سوچ تو لیتی ذوالعرش کہ تم سے وابستہ لوگوں کا کیا ہوگا"
" خود سے وابستہ لوگوں کو تکلیف کے علاوہ کیا دیا ہے میں نے، عارفین" اب وہ اس کے ہاتھ پکڑ کر اس ے کہہ رہی تھی،
" امی ابا کے دک سے ناراضگی دور تو ہوجاے گی ںا میں نے انھیں شرندہ کیا میں اپنی ہی نظروں میں گر گئ ہوں." وہ پھر رونے لگی،
" دل میں محبت، نفرت، ناراضگی ہر جذبہ اللّٰہ ڈالتا ہے ذوالعرش.. جب تک اس کی چاہ نا ہو ہم چاہ بھی نہیں سکتے، تم اس سے معافی مانگوں وہ سب دلوں ک مالک ہے کی ناراضگی بھی وہی دور کریگا" اس نے آنسو پوچھتے ہوئے اس سے کہا، دور کہی فجر کی اذان ہونے لگی، عارفین نے سکت بیٹھی ذوالعرش کے سر پر دوپٹہ رکھا،
"فجر کا وقت ایک آغاز ہے نئے وقت کا نئ امید کا حضرتِ انسان کے لئے، چاہے جو مصیبت آئے زندگی میں اندھیرا چھا جائیں یہ وقت ختم ضرور ہوتا ہے، اندھیرا جب منہ موڈ کر چل دیتا ہے تو فجر کا وقت سورج کے ساتھ ایک نئ امید زندگی میں لاتا ہے. یک پیغام ہے بندوں کے لئے لوٹ آئے اپنے پروردگار کے پاس" عارفین نے کہتے ہوئے مسکرایا اور اٹھ کر فجر کی نماز کو چلا گیا لیکن ذوالعرش کے سماعتوں میں اب بھی اسی کی کہی گئ بات گنج رہی تھی. ذوالعرش اٹھ کر الماری کے پاس آئ اپنے کپڑے نکال کر واش میں چلی گئ.وضو کرکے مصلہ بچھایا اور رب کے حضور حاضر ہوئ. بے پنا آنسوں اس کی آنکھوں سے نکلے کتنی نعمتوں سے وہ نوازی گئ تھی لیکن اس نے کبھی قدر نہیں کیں. سجدے میں جاکر رونے لگی.یوں بھی رب کے آگے جھک کر رونگ میں جو سکون ہے اس کا کوئ بدل نہیں...
سر کے ساتھ دل جھکے سجدے کی یہ کیفیت ہو،
بے شک سجدے تیرے آگے ہو روح میں ٹھنڈک ہو،
دل ہمارا روشن ہوجاے...جو تیری ایک نظر کرم ہو..
...........................
آج اس واقعات کو ایک ہفتہ ہوگیا تھا سب کا مزاج اس کے ساتھ پہلے جیسا ہی تھا. سب سے زیادہ شرمندگی اسے جب ہوئ جب دوسرے ہی دن عبداللہ صاحب نے اسے بیٹی کہہ کے پکارا وہ ہمیشہ اس طرح ہی کہتے لیکن اس کے دل کی کیفیت ہی کچھ اور تھی.اذان اب بہت کم گھر میں رہتا تھا اس دن کے بعد سے اس کا سامنا نہیں ہوا تھا.سحر نے اسے بتایا کہ اس کی ایک کلیگ نے اسے پروپوز بھی کیا تھا جسے اس نے تم سے بدگمان ہونے کے بعد ہاں کہہ دیا.ماحول اور گھر دونوں میں خاموشی پھیلی تھی.لیکن اب سب ایک دوسرے سے کم ہی مخاطب ہوتے تھے.
وہ جھٹکے سے اپنے بستر سے اٹھی. اس کا پورا جسم پسینے سے بھیگا ہوا تھا وہ خواب کچھ عجیب تھا ہاتھ میں کلہاڑی وی بھی پانی کے بچاؤ سے یہ خواب اسے کچھ دنوں سے آرہا تھا لیکن مطلب اسے آج سمجھا.
بعض دفعہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہے ہم کیا کر رہے ہے، کوئ مشکل کے وقت کیسے اپنا بچاؤ کریں گے، دنیاوی چیزوں کو اپنے اندر آنے نہیں دیں گے. لیکن جب دنیاوی خوبصورتی سے ہمارا سامنا ہوت ہے تو ہم اسی کے ساتھ بہہ جاتے ہیں اور اپنے آپ کو دھوکے میں رکھتے ہے کہ ہم نے اپنا بچاؤ کیا ہوا ہے اس کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے پانی کے بہاؤ کو کلہاڑی سے روکنا، اپنے آپ کو دھوکے میں رکھ کر اسی پانی کے بہاؤ میں بہہ جانا.....
اس نے اپنے ذہن میں اپنے عملوں کو یاد کیا تو جانا کہ اس نے بھی اپنے آپ کو کھو دیا تھا لیکن اللّٰہ جسے تھامے وہ سمبھل ہی جاتا ہے. اس نے مسکرا کر آسمان کھ جانب دیکھا اور اٹھ کر کمرے سے باہر آگئ.
...............................