aik ayat aik khani#3

4 1 0
                                    

آنکھیں کھلنے پر سب سے پہلی آواز جو اس کے کان میں پڑی وہ دور سے آتی آذان کی تھی... اس نے سر ہلا کے حواس میں آنے کی کوشش کی... ہر طرف پراسراریت چھائی ہوئی تھی...دائیں طرف لگے چوکور نما روشن دان کی سلاخوں سے آنے والی چاند کی روشنی صرف اتنی تھی کہ اسے محسوس ہو پایا کہ وہ کسی بند اور تاریک کوٹھڑی میں موجود ہے... باہر سناٹے میں جھنگروں کی آواز واحد آواز تھی جو وہ سن پا رہا تھا...زمین پہ ہاتھ رکھے اٹھنے کی کوشش کی... درد کی ایک لہر پورے وجود میں دوڑ گئی... کراہنے لگا اور ساتھ ہی دوبارہ زمین پہ چت لیٹ گیا... سر گھما کر اردگرد دیکھنے کی کوشش کی... سامنے دیوار پہ کچھ لکھا تھا... بےڈھنگے انداز میں... کچھ گڈ مڈ الفاظ... ان الفاظ کو پڑھنے کی کوشش فی الحال ترک کر کے وہ سر زمین پہ ٹکا کے چھت کو دیکھنے لگا... پنکھے کی جگہ لوہے کی ہک اور اس کے ساتھ ٹنگی رسی نظر آئی...
_________________

کنویں کی گہرائی میں رسی کے ساتھ لٹکا ڈول نظر آیا تو اس بچے کی جان میں جان آئی... یقینا وہ ڈول پانی کے لیے کنویں میں ڈالا گیا تھا... جانے کتنے وقت سے وہ کنویں کی اس گہرائی میں گھٹا ٹوپ اندھیرے کو ٹٹول رہا تھا... کہ ڈول کی صورت میں باہر نکلنے کی امید کی ایک کرن نظر آئی... اوپر کنارے پہ کھڑے پانی کے انتظار میں کھڑے سقے نے جب نیچے دیکھا تو ایک بچہ نظر آیا... وہ حیران ہوا اور چلا اٹھا... مبارک ہو یہاں تو ایک لڑکا ہے... ڈول کے ساتھ بندھی رسی کے ذریعے بچے کو باہر نکالا... جب بچہ باہر نکلا تو اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر ہکا بکا چہرے لیے وہ لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے... مگر دل ہی دل میں خوش بھی ہوئے کہ اس بچے کو بیچ کر کافی مال کما لیں گے.. اسی لیے باقی قافلے والوں سے نظر بچا کر اس کو چھپا لیا اور اونٹوں پہ سوار وہ قافلہ مصر کی طرف چل پڑا...
__________________

افسردہ انداز میں چلتے ہوئے وہ سارے بھائی اپنے باپ کے پاس آئے اور جھوٹے غمزدہ انداز میں بولے...
ابا جان، ہم دوڑ کا مقابلہ کرنے میں لگ گئے تھے اور یوسفؑ کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اتنے میں بھیڑیا آ کر اُسے کھا گیا آپ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے چاہے ہم سچے ہی ہوں"
(یوسف:17)
یہ کہنے کے ساتھ ہی انہوں نے یوسفؑ کی قمیض اپنے باپ کے سامنے پھیلا دی... جو خون سے بھری ہوئی تھی... وہ یہ قمیض بکری کو ذبح کر کے اس کے خون سے رنگ لائے تھے... اور یوسف کو کنویں میں پھینک آئے تھے...
__________________

ٹھوکروں لاتوں اور جوتوں سے مار مار کر جب ان کا دل بھر گیا تو باہر میز پر آ کر بیٹھ گئے... اردلی مستعدی سے چائے کے کپ ان کے سامنے سجانے لگا... اندر کوٹھری سے مسلسل کراہنے کی آوازیں آ رہی تھی.... مگر ان کے کانوں میں گویا سیسہ پگھلا کے ڈالا جا چکا تھا کہ انہیں کچھ بھی سنائی نہ دے رہا تھا... یا پھر دلوں کی جگہ پتھر نصب تھے کہ جو کربناک چیخوں پہ بھی دہلتے نہیں تھے...
چائے کی چسکیاں لیتے باتوں میں مصرف تھے کہ اردلی آیا اور افسر کے کان میں سرگوشی کی... افسر نے سر ہلایا... اور اردلی واپس چلا گیا... کافی وقت گزرنے کے بعد وہ اپنی کرسی سے اٹھا اور ڈھیر سارے موڑ مڑتا مرکزی دفتر میں جا بیٹھا... سر کے اشارے سے اردلی کو حکم دیا جسے وہ فورا سمجھ گیا... چند لمحوں بعد ایک درمیانی عمر کی عورت ہانپتی اندر داخل ہوئی اور افسر کی کرسی کے سامنے رکھی کرسی پہ جا بیٹھی....
صاحب یہ میرا بیٹا... کانپتی آواز کے ساتھ بغیر کسی تمہید کے اس نے تصویر آگے بڑھائی... ہلکی ہلکی داڑھی رکھے نوعمر سا لڑکا اس تصویر میں نظر آ رہا تھا... افسر چونکا...
صاحب میرا بیٹا تین ہفتوں سے مل نہیں رہا... جگہ جگہ ماری پھر رہی ہوں... پھر کسی نے بتایا کہ بڑے دفتر جاو... شاید وہاں سے اتا پتا مل جائے... بڑی دور سے آئی ہوں... پتا نہیں زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا... کدھر گیا میرا بچہ... آخری بات پہ اس کا گلا رندھ گیا اور چادر کو ہونٹوں پہ رکھ کر اس نے اپنی سسکی روکنے کی کوشش کی...
بی بی یہ تصویر ادھر رکھ جاو... جیسے ہی پتا چلا اطلاع کر دیں گے... کرسی سے ٹیک لگاتے وہ نخوت سے بولا...
صاحب میرا ایک ہی بچہ ہے... اکلوتا... اسے ضرور ڈھونڈ دیں... عورت نے پھر فریاد کی...
او بی بی.. جو ایک دفعہ گیا... وہ پھر مشکل سے ہی لوٹتا ہے... افسر نے جھوٹ موٹ کا خون لگی قمیض بھی پیش نہ کی ... اٹھ کے اندر بھول بھلیوں میں گم ہو گیا... عورت نے ناسمجھی کے انداز میں سوالیہ نظروں سے اس کی پشت کو دیکھا... اور زاروقطار رو پڑی...
_________________
یعقوب علیہ السلام نے غمزدہ ہو کر بیٹوں کو دیکھا اور پھر قمیض کو دیکھنے لگے...ان کا جھوٹ فورا ان پر آشکار ہو چکا تھا... کیونکہ اگر بھیڑیا کھاتا تو قمیض کو جابجا پھٹا ہونا چاہیے تھا جبکہ وہ بالکل سالم حالت میں موجود تھی... ان کے تمام تر خدشات کے باوجود بھی جو ان کے بیٹوں نے یوسف کے ساتھ جو کرنا تھا... کر چکے تھے.... وہ بےچین ہو کر پکار اٹھے...
بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک بڑے کام کو آسان بنا دیا، اچھا، صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا، جو بات تم بنا رہے ہو اس پر اللہ ہی سے مدد مانگی جا سکتی ہے"
(یوسف:18)
___________________

Kamu telah mencapai bab terakhir yang dipublikasikan.

⏰ Terakhir diperbarui: Oct 07, 2019 ⏰

Tambahkan cerita ini ke Perpustakaan untuk mendapatkan notifikasi saat ada bab baru!

ایک آیت ایک کہانیTempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang