﷽
اسلام علیکم...🔔
🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥اُمید ہے آپ خیرت سے ہونگیں🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥
.
.
.
.
.
.
.................................................................
دروازے پر دستک ہوئی ۔۔۔۔۔
مایا کچھ کہتے کہتے رک گئی۔۔۔۔۔
"آ جائیں۔"
علیزہ کے بولنے پر فوزیہ باجی اندر آئیں۔وہ ان لوگوں سے ناشتے کے وقت مل چکی تھیں۔
"مایا ۔دانیہ یہاں پہنچنے والی ہے اور اسے گھر کا نہیں پتہ تو میں اسکو بیکڑی کے پاس تک لینے جا رہی ہوں۔"
فوزیہ باجی نے دانیہ کو بیکڑی تک کا رستہ سمجھا دیا تھا۔
"میں بھی آ جاؤں ؟فوزیہ باجی مجھے منٹس لینی ہے۔"
رانیہ فورا ًسے بولی۔اسکے ذہن میں منٹس ہی چل رہی تھی اور مایا منٹس کے ذکر پر چڑ گئی ۔
"اٌف! تمہیں ان کے علاوہ اور کوئی چیز سوجی ہے کبھی؟"
مایاکے طنز پر رانیہ نے معصومیت سے کندھے اٌچکا دیے۔
"میں لے آؤں گیں۔تم کیوں تکلف کر رہی ہو۔"
فوزیہ باجی مایا کے چڑھ جانے پر ہنس کر بولیں ۔
"نہیں میں بھی چلتی ہوں۔"
رانیہ اسرار کرتی بولی۔
"ویسے دانیہ کون ہے؟"
رانیہ کے دماغ میں باہر جانا چل رہا تھا کہ اس کے دماغ میں یہ سوال ہی نہ آیا جو علیزہ نے ذرا تپتیشی انداز میں پوچھا۔
"فوزیہ باجی کی چھوٹی بہن ہے۔"
مایا نے عام سے انداز میں جواب دیا ۔ مگر وہ دونوں پہلے ایک دوسرے کو پھر ان دونوں کو خیرت سے دیکھنے لگیں۔
"آپ کی بہن؟"
رانیہ نے فوزیہ باجی کو خیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا کیوں کہ انہوں نے کبھی نہیں سنا تھا کہ فوزیہ باجی کی کوئی بہن بھی ہے۔ البتہ انہیں یہ پتہ تھا کہ ان کے بھائی ہیں۔
"جی،میری بہن۔چھوٹی بہن ہے۔"
وہ ان کی خیرت کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولیں۔
"اللہ آپ کو پوچھے کہ آپکی بہن ہے اور آپ نے کبھی ہم سے ذکر بھی نہیں کیا۔"
وہ دونوں شکوہ کرتی بولیں۔
"اب دونوں ڈرامے کرنے نہ شروع ہو جانا۔"
مایا نے انہیں سختی سے تنبیہ کیا کیوں کہ وہ انھیں جانتی تھی کہ چھوٹی سی بات کو بھی اگر موقع ملے تو کتنا بڑھا دیتی ہیں۔
مایا کے کہنے پر وہ دونوں منہ بنا کر بیٹھ گئی تو مایا اور فوزیہ ہنس دیں۔
"آؤ چلیں۔"
فوزیہ باجی بولیں تو رانیہ اٹھ کھڑی ہوئی اور ان کے ساتھ چلی گئی۔
انکے جانے کے بعد وہ دونوں لاؤنچ میں آ گئیں۔ کچھ دیر بعد وہ واپس آئیں تو رانیہ دانیہ سے مل کر کافی خوش لگ رہی تھی ۔
مایا اس سے اپنائیت سے ملی مگر پھر بھی دانیہ کی جھجھک سب پر صاف ظاہر تھی۔اس کے بعد علیزہ بھی اس سے ویسے ہے اپنائیت سے ملی ۔
"اسلام علیکم۔"
ان دونوں نے سلام کیا تو اس نے ہلکی سی ہی آوازمیں جواب دیا۔
"وعلیکم اسلام۔"
دانیہ نے کشمیری طرز کا ابایا پہنا ہوا تھا جو اس پر جچ بھی رہا تھا۔
"کیسی ہیں آپ؟"
مایا نے خوشگوار لہجے میں اس سے پوچھا تو دانیہ کی جھجھک ذرا کم ہوئی۔مایا کو یہ پہلے سے معلوم تھا کہ دانیہ ذرا شرمیلی ہے مگر اتنی ہوگی۔۔۔اسے اندازہ نہ تھا۔
"الحمداللہ! آپ کیسی ہیں؟"
وہ بھی مایا کے لہجے میں ہی مگر ذرا شرمیلے انداز میں بولی۔
"الحمدللہ! "
ان دونوں نے بھی مختصرا ًجواب دیا۔
"دانیہ! اب آپ ابایا اُتار دیں۔"
اسنے ابایا اتارا تو اسنے جامنی رنگ کی شلوارقمیز کے ساتھ اسی کے ساتھ کے جامنی ڈوپٹے کا حجاب کیا ہوا تھا جو اس پر جچ بھی رہا تھا۔وہ سفید و سرخ خوبصورت رنگت کی حامل مناسب سے قد کی ایک کم عمر ی مہذب لڑکی تھی،وہ بھی فوزیہ جیسی ہی تھی۔۔مایا کو وہ بہت خوبصورت لگی تھی۔وہ دکھنے میں بھی نازک اور حیاءدار بھی تھی جیسا اسکا ذکر فوزیہ نے کیا تھا۔لگتا نہیں تھا کہ دو بچوں کی ماں ہے۔ہے تو وہ مایا ہی کی عمر کی تھی مگر ان کے ہاں شادیاں چھوٹی عمر میں ہی کر دی جاتی تھی ۔یہ سوچ کر ہی مایا کا سر چکڑانے لگا اور اسنے پیشانی پر آیا پسینہ صاف کیا۔ اس نے اس سوچ کو جھٹکا اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئ ۔
فوزیہ باجی میں ان کے لیے کچھ لے کر آتی ہوں۔""
مایا کو یاد آیا کے فوزیہ باجی نے اسی کی اسرار پر دانیہ کو بلایا تھا اور وہ مہمان نوازی کرنے کر بجائے آرا م سے بیٹھی ہےَ۔
"نہیں اسکی ضرورت نہیں ہے۔"
اسنے فورا منا کر دیا جو مایا کو اچھا نہ لگا۔
"کیسے نہیں ہے؟ دانیہ آپی، آپ انکی مہمان ہیں اورمیزبانی کروانا آپکا حق ہے۔"
علیزہ دانیہ کو آنکھ دباتی بولی۔
"مجھے دانیہ ہی کہیے۔"
وہ ہلکا سا بولی تو مایا کے لبوں پر فتح خانہ مسکراہٹ آئی۔
"آپ بھی پھر ہمیں مایا اور علیزہ ہی کہیں۔"
"نہیں۔"
اسکی زبان سے بےساختی نکلا۔
"مجھے اچھا لگے گا،دانیہ۔"
رانیہ بولی ۔ تو اس بار وہ منع نہ کر پائی اور سر اثبات میں ہلا دیا۔
مایا کچن کی طرف جانے لگی تو فوزیہ کھڑی ہوئیں۔
"مایا تم اپنے مہمان کے پاس بیٹھوں میں جاتی ہوں۔"
وہ مایا کو آنکھ دبا کر بولیں کیونکہ دانیہ کی گھبراہٹ سے اچھی طرح واقف تھیں۔ مایا سمجھ گئی اور جواب میں اسنے خود بھی آنکھ دبائی۔
"کیوں نہیں۔"
وہ کہتی دانیہ کے ساتھ بیٹھ گئی ۔تو فوزیہ کے جانے کے بعد علیزہ اور رانیہ بھی قریب آ کر بیٹھ گئیں۔
"اب تو دانیہ آپ ہمارے قبضے میں ہیں۔"
رانیہ اس کو ڈرانے کے انداز میں بولی۔
"تم دونوں کچھ الٹا سیدھا نہیں کرو گی۔"
وہ کچھ اور کہتی مایا نے ان دونوں کو وہیں تنبیہہ کر دی۔
"ہم تو بس تھوڑی سی جان پہچان کر نے والے تھے ۔"
علیزہ معصومیت سے بولی۔
""دانیہ تم نے ان کے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں دینا۔اگر دیا تو تمہیں پتہ بھی نہ چلے گا کب یہ تمہارے بچوں کے مستقبل پر پہنچی ہوں گیں۔"
وہ ان دونوں کو دیکھتی دانیہ کو تنبیہہ کرتی بولی۔
دانیہ اسکی بات پر ہنس دی۔
"دانیہ آپکے بچے کدھر ہیں؟"
رانیہ نے بچوں کا سن کر بچوں کا سوال کیا۔
"انھوں نے آتے ہوئے کامران بھائی کو دیکھا تو انہی کے پاس رک گئے تھے۔"
دانیہ بولی ۔
"میں انہیں ابھی لے کر آئی ۔ان کے ساتھ بھی ذرا بنا لوں ۔ویسے بھی بچوں کو میں اچھی لگتی ہوں۔"
علیزہ اٹھتی بولی تو مایا فورا سے بولی۔
"نہیں ۔خبردار جو تم یہاں سے اٹھی۔وہ تو تمہارا سامنا کرنے سے بھی اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔جب دل کیا منہ اٹھائے کسی کے ساتھ بھی شروع ہو جاتی ہو۔"
"یار مینے کیا کیا؟"
وہ معصومانہ شکل بنا کر بولی تو دانیہ مسکرہ دی ۔ظاہر سی بات تھی مایا کامران بھائی کی بات کر رہی تھی اور دانیہ کو فوزیہ نے علیزہ کی ان چلبلی سی حرکات کا پہلے سے بتایا ہوا تھا بس دیکھنے کا آج اتفاق ہوا تھا۔۔
مایا نے اسکے اسطرح سےمعصوم بن جانے پر بھویں اچکائی تو اسنے ہار مان ہی لی۔
"اچھا اچھا ۔ٹھیک ہے۔پر مینے تو صرف حال پوچھا تھا۔"
اسکا کہنے کا مطلب تھا کہ میری نیت صرف حال پوچھنے کی تھی باقی باتیں تو پتہ نہیں کہاں سے ذہن میں آجاتی ہیں اور پھر زبان پر۔
"صرف حال؟تم نے انکا نہ ماضی چھوڑنا تھا نہ مستقبل اگر وہ خود نہ بھاگتے۔"
مایا نے اسکے جملے کو اسکی اصل شکل دی۔
"بہن کم بولا کرو۔کہیں تمہیں نوبل پرائز نہ مل جائے اور تم روتی رہوکہ میں تو بولتی نہیں ہوں۔"
رانیہ نے اس پر طنزکیا تو اسنے ناک سکیڑ کر روخ دوسری طرف کر لیا۔
دانیہ اس بار ان کی باتوں پر کھل کر ہنسی او ر اسے خیرت بھی ہوئی تھی۔
"آپکو پتہ ہے دانیہ کافی عرصے پہلے کی بات ہے ۔اسنے ان سے پوچھا کہ کیا شادی سے پہلے انکی کوئی گڑفرینڈ تھی؟"
یار وہ اتنے ہینڈسم ہیں ۔مجھے لگا جب کراچی رہتے تھے اس وقت تو ضرور ہو گی۔ویسے بھی لڑکی چاہے جیسی بھی ہو۔اسکے بوائے فریڈ کے مواقع کم ہوتے ہیں جب کہ لڑکا چاہے جتنا شریف کیوں نہ ہو۔اسکے 80٪تک کے مواقع تو ضرور ہی ہوتے ہیں۔"
علیزہ ناک چڑھا کر بولی اور دانیہ سمیت ان تینوں نے اسے افسوس سے دیکھا۔
"ہاں! تم اپنے بھائی کا بتا رہی ہو نا؟"
رانیہ نے ہوا کا روح واپس اسکی طرف کر دیا۔
"اللہ نہ کرے۔اسکی تو میں نے زبردستی شادی طے کروادی ہے۔"
اسنے ان دونوں ہی کو بڑی طرح سے جھٹکا دیا تھا۔
"کیا واقع میں؟"
مایا کو یقین نہ آیا۔
"یار ایک دن ہم کسی مال میں تھے تو ہمیں ایک لڑکی ملی تھی ۔اسنے اچانک سے عمر بھائی کو دیکھا تو اسکی تو خوشی کی انتہا ختم ہی نہیں ہو رہی تھی اور تو اور وہ لفٹ مانگتی جارہی تھی اور وہ بے حیاء بہن کےسامنے لفٹ کرواتا جا رہا تھا۔"
حقیقتا ایسا کچھ نہ تھا بلکہ وہ بےچاڑا تو اس لڑکی سے یونی میں بھی بھاگتا پھرتا ہے۔
"نہیں ۔مجھے نہیں لگتا کہ ایسا کچھ ہوگا۔تم ہو بھی الٹے دماغ کی ۔کبھی سیدھی بات تو تمہیں سمجھ میں نہیں آئی۔"
رانیہ علیزہ کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی اور علیزہ اسے آنکھیں سکیڑتی دیکھ رہی تھی۔ابھی اسنے بھی کچھ بولنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ مایا بول اٹھی۔
"وہ ہے کون؟''
"بس ہے کوئی ۔تم لوگ اسے نہیں جانتے ۔"
فوزیہ باجی بھی آ گئیں۔۔۔۔۔
""کیا بات ہو رہی ہے؟
فوزیہ باجی نے مایا کے ساتھ بیٹھتے پوچھا ۔
"عمر بھائی کا رشتہ کروا دیا ہے۔"
رانیہ نے عام سے انداز میں جواب دیا۔
"ہاں مجھے کامران نے بتایا تھا۔تم تینوں کو مبارک ہو۔"
رانیہ اور مایا کو سمجھ نہ آئی کہ ہم تینوں کو کیوں؟
"ماما ! ماما! سویرا مجھے تنگ کر رہی ہے۔"
وہ دونوں دانیہ کی طرف بھاگتے ہوئے آئے۔
"کیا ہوا؟"
مایا دانیہ کے ساتھ بیٹھی تھی۔وہ خمزہ کی طرف جھک کر بولی۔
"آپ کون ہیں؟"
خمزہ مایا کو پھر دانیہ کو دیکھتا بولا۔وہ دونوں بچے مایا کو حالی حا لی نظروں سے دیکھنے لگے تو مایا کو ان پر بےحد پیار آیا۔
"میں آپکی خالہ ہوں۔"
مایا انہی کے انداز میں بولی تو سویرا کھلکھلا اٹھی۔
"نہیں میری خالہ فوزیہ خالہ ہی ہیں۔"
خمزہ اسکی بات کا عتراض کرتا بولا۔
اسکے انداز پر ان سب کا قہقہہ کمرے میں گونجا۔
"میں بھی ہوں۔"
مایا اسکے ننھے ہاتھ پکڑتی بولی تو اس نے دانیہ کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
"ماما یہ ہماری خالہ ہیں؟"
"جی یہ آپکی خالہ ہیں۔"
دانیہ کے کہنے کے فورا بعد اسنے مایا کے گال چوم لیے۔
"خالہ جان۔"
وہ مایا کو پیار سے بولا تو مایا کو یقین نہ آیا کہ یہ وہی خمزہ ہے جو ابھی اس کے پاس کھڑا ہونا بھی نہیں چاہ رہا تھا کیوں کہ وہ اسکی کچھ نہیں لگتی تھی۔
"ادھر آؤ۔ میں بھی تمہاری خالہ ہوں۔"
وہ رانیہ کے کہنے پر رانیہ کی گود میں جا بیٹھا تو وہ چاروں ہنس دی ۔
"ماما آج آپ نے بابا سے بات نہیں کروائی۔"
سویرہ دانیہ کے پاس بیٹھتے اسکو یاد کرواتی بولی۔
"بعد میں کر لیں گیں بات۔"
دانیہ مختصر سا جملہ بول کر خاموش ہو گئی۔
بابا سے روز بات کرتی ہے میری گندی بچی؟''''
فوزیہ باجی نے اسے پیار کرتے پوچھا۔
"جی۔وہ روز کال کرتے ہیں آج نہیں کی۔"
سویرہ اداسی سے بولی اور ایسا کرتے اسکے پھولے گال اور پھول گئے
"کوئ بات نہیں ۔آج آپ انہیں کال کر لینا ۔ ابھی آپ جوس پیو۔"
وہ اسے جوس کا گلاس تھماتی بولیں تو اس نے دونوں ہاتھوں سے اسے مضبوطی سے پکڑ لیا۔
ویسے دانیہ آپکی شادی اتنی چھوٹی عمر میں ہو گئی تھی۔کیا آپ کو اس پر اعتراض نہیں ہوا تھا؟۔فوزیہ باجی" "نے بتایا تھا کہ آپکی فیملی میں لڑکیوں کی جلدی شادی کر دی جاتی ہے۔
علیزہ ہی ایسا سوال پوچھ سکتی تھی ۔
"تب تو یہ اتنے غصے میں تھی میں تمہیں کیا بتاؤں۔"
فوزیہ باجی مسکرا تی ہوئی بولیں۔
"جی تھا مگر جیسے جیسے شادی کے دن قریب آتے گئے میں نے اسکو اللہ کا حکم مان کر تسلیم کر لیا تھا۔"
دانیہ نے مدھم سا مسراتے ہوئے جواب دیا۔
" تب آپکے شوہر کیسے تھے ؟''
پھر سے سوال علیزہ ہی کی طرف سے کیا گیا تھا۔
"یہ کیا پوچھ لیا تم نے علیزہ۔پہلے دن ہی اسنے ہمیں فجر کے وقت کال کر کے ڈرا دیا تھا۔ پوچھا تو بولی کہ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔"
فوزیہ باجی ہنستی ہوئی بولی اور دانیہ شرمندگی سے کندھے اچکاتی ہاتھ مسلنے لگی۔
"کیا آپ کے شوہر ڈراؤنے ہیں؟"
علیزہ کے دماغ میں جیسے ہی اگلا سوال آیا اسنے بغیر دیر کئے پوچھ لیا۔
نہیں ۔ محسن تو سیدھا سادھاہے۔ جب میں دانیہ کے کال کر کے بھلانے پر دوپہر میں اسکے پاس آئی تو میرے آنے سے پہلے وہ خود کتنے جتن کر چکا تھا یہ پوچھنے کےلیے کہ آخر اسے ہوا کیا ہے۔"
مایا جن نظروں سے دانیہ کو دیکھ کر مسکرائی تھی دانیہ کا چہرہ سرخ پڑنے لگا اور وہ اپنے چہرے کو چھپانے کےلیے جھکا گئی۔
"اور جب میں نے اسے اسکا مسلہ بتایا کہ اسے فضول میں ڈر بہت لگا ہے تو وہاں اس وقت اسکے دیور بھی تھے ۔یہ سنتے ہی وہ ہنسنے لگے اور اکثر ہی اپنی بھابھی کو اس بات پر تنگ کرنے لگتے ہیں۔"
"مطلب انکے شوہر کافی اچھے اور سویٹ ہیں۔"
رانیہ بات کے اختتام پر پہنچ گئی کہ اسے پہلے علیزہ کے دماغ میں کچھ الٹا سیدھا پوچھنے کے لیے آتا۔
"ہاں تم کہہ سکتی ہو۔"
"فوزیہ باجی آپ کہہ رہی تھیں کہ کوئی مسلہ چل رہا ہے۔"
مایا یاد آنے پر بولی۔
"وہ مسلہ ؟ وہ تو اس آدمی کے بارے میں تھا۔ دانیہ اسکاکیا نام تھا؟"
فوزیہ باجی کو اسکا نام یاد نہیں تھا۔
"آید۔"
دانیہ نے اسکا نام مدھم لہجے میں لیا ۔
"ہاں آید۔ مجھے اسکا نام یادنہیں رہا تھا ۔"
مایا فوزیہ باجی کا یہ جملہ نہ سن پائی ۔تھی کیوں کہ اسکا سانس آید کا نام سنتے ہی خلق میں اٹک گیا تھا۔
YOU ARE READING
Matwast Taluk
Spiritual1.Yeh kahani eik larke ki hai jo tanhai k marz main mubtala hai jisne kabhi muhabat ko karib se nahi dekha jis ne kabhi muhabt main Milne wale sakoon ko mehsos nahi kiya yeh kahani us larki ki hai jo nadani main kisi nadan k ehsasat se khel gayi thi...