قسط (۱۰)

690 27 13
                                    

شایان اور آزان ساتھ ہی تھے جیسے ہی شایان نے اسے بتایا کے پرمیشن مل گئی ہے۔ آزان اُس سے گلے ملتے ہوئے گاڑی کی چابی اٹھاتا باہر نکل گیا۔ وہ پورا دن حیام سے نہیں ملا تھا اور حیام نے اسکو کہا بھی تھا کہ اسکی طبیت خراب ہے اور اسے شک ہے کہ وہ ایکسپیکٹ کر رہی ہے لیکن آزان تو بلاوجہ کے گلٹ میں بھول ہی گیا تھا اور اب جب وہ گھر جانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا تو وہ حیام کے پاس ہی جانا چاہتا تھا۔ آزان جب اپنے اپارٹمنٹ میں پہنچا جو کہ ایک پوش علاقے میں تھا وہ ایک چھوٹا اپارٹمنٹ تھا جو کہ نہایت قیمتی فرنیچر سے سجایا ہوا تھا۔جب حیام اسکو کہیں بھی نظر نہیں آئی تھی جب وہ پورا گھر چیک کرتا ہوا بیڈروم میں گیا تو ٹھٹک گیا اسکی ٹانگیں بیڈ سے نیچے لٹک رہی تھی اور باقی اوندھے منہ وہ بیڈ پر تھی۔ آزان بھاگتا ہوا اسکے پاس گیا اور اسکو سیدھا کر کے اسکو پکارنے لگا۔

حیام میری جان اٹھو پلیز۔ آزان کی آواز میں فکرمندی تھی جس نے کچھ دیر کیلئے آزان کو وہ گلٹ بھلا دیا تھا جس نے اتنے گھنٹوں سے اسکو گھیرا ہوا تھا۔ جب حیام اسکی پکار سے بھی نا اٹھی تو آزان اسکو اپنے بازؤں میں اٹھاتا ہوا گھر سے باہر بھاگا۔ آزان کو وہاں پر آتا دیکھ گارڈ نے اسکے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ آزان نے حیام کو گاڑی میں ڈالا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور گاڑی زن سے لے گیا۔ ہسپتال پہنچ کر اسنے حیام کو سٹریچر پر ڈالا تو اسکے کے ہاتھ کانپ رہا تھے اسکا گلٹ اسکو دوبارہ گھیر رہا تھا۔ ایک عورت جسکو اسکے بھائی نے برباد کردیا اور دوسری وہ عورت جو اس کی وجہ سے ہسپتال میں ہے۔ وہ اپنے آپکو اس وقت بہت ہارا ہوا بہت کمزور انسان سمجھ رہا تھا۔ حیام کو ایک روم میں شفٹ کیا گیا تھا اور اسکا چیک اپ ہو رہا تھا۔ آزان اس روم کے باہر تیز تیز چکر کاٹ رہا تھا اسکی حالت بدترین ہو رہی تھی اسکے اعصاب مفلوج ہو رہی تھے۔ اگر حیام کو کچھ کو گیا تو؟ اسکے آگے کی سوچ بھی اسے ہولا رہی تھی آزان حیدر شاہ کی بیوی اسکی غفلت کی وجہ سے اگر کسی طوفان کی زد میں آگئی تو؟ آزان انہی سوچوں میں تھا جب ڈاکٹر نکل کر اپنے کیبن میں چلی گئی۔ نرس آئی اور اسکو مخاطب کیا۔

مسٹر شاہ آپکو ڈاکٹر فلزہ اپنے کیبن میں بولا رہی ہیں۔ یہاں سے سٹریٹ پھر لیفٹ پر دوسرا کمرہ ہے۔ آزان اسکی بات سن کر اثبات میں سر ہلاتا ہوا ڈاکٹر کے کیبن کی طرف بڑھ گیا۔ ڈاکٹر کے کیبن میں داخل ہونے سے پہلے اسنے خود میں بہت ہمت جمع کی تھی اور پھر دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔ فلزہ اسکو دیکھ کر پیشہ ورانہ انداز میں مسکرائی اور بولی۔

بیٹھیئے مسٹر شاہ۔ آزان ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ اسکی چہرے کے ثاثرات اسکے اندر کا حال بیان کر رہے تھے فلزہ اسکو دیکھ کر بولی۔

حصولِ جانانWhere stories live. Discover now