Adhoora main mukamal Tum Episode No. 3

219 2 0
                                    

Adhoora main mukamal Tum Complete Online Urdu Novel

ادھورا میں مکمل تُم

رائٹر: سائرہ غفار


آج کئی دن بعد وہ آفس سے لیٹ نکلا تھا اور سگنل پہ اسے وہ نظرا ٓگئی تھی۔ اس نے سب سے پہلے اپنی گھڑی چیک کی اور ٹائم نوٹ کرلیا۔سوا سات یعنی وہ روز اسی وقت یہاں سے گزرتی ہے۔
وہ اسے دیکھتا رہا آج بھی وہ اس دن کی طرح چادر سے خود کو لپیٹے ہوئے تھی اور اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھی۔ اسے ہلکی سی اس کی ناک کی جھلک نظر آئی جو سرخ ہورہی تھی۔ اس نے اپنی آنکھیں رگڑ کرصاف کی تو اسے اندازہ ہوا کہ اس دن کی طرح وہ آج بھی رو رہی ہے۔سگنل کھلا تو وہ سگنل کراس کر کے سامنے روڈ پہ گاڑی پارک کر کے سڑک کراس کرتا دوسری جانب پہنچ گیا۔ اسے دور ایک ذیلی سڑک سے ملحق گلی میں اس کی چادر کی جھلک نظرا ٓئی وہ دوڑتا ہانپتا کانپتا وہاں تک پہنچا تو وہ کہیں بھی دکھائی نہیں دی۔ وہ ہانپتا ہوا ایک فٹ پاتھ پہ بیٹھ کر اپنی سانسیں درست کرہی رہاتھا کہ اسے سمان کی آواز سنائی دی:"فیروز؟"

اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو فیروز اپنی بائیک پہ سامنے موجود تھا:"یہاں کیا کررہے ہو؟""کک......کچھ نہیں بس ایسے ہی۔"وہ اس کو ٹالتا ہوا اس کی بائیک پہ بیٹھ کر گاڑی تک آیا اور رات کو ملنے کا پروگرام بنا کر وہاں سے رخصت ہوگیا۔
......................................................
"قنوت اسے ڈرپ لگادو۔اور صاعقہ کو بھی بلا لاؤ اس کو اسٹچز بھی لگیں گے۔"ڈاکٹر امبر نے مریضہ کا زخم چیک کرتے ہوئے ہدایات جاری کیں اور پھر زخم صاف کرنے لگیں۔وہ ایک چالیس بیالیس سالہ عورت تھی جس کا ایکسیڈنٹ ہوگیاتھا اوراس کی ٹانگ پر چوٹیں لگیں تھیں۔ابھی اس کا کافی خون بہہ گیاتھا۔ قنوت اس کی حالت دیکھ کر رونے لگ گئی۔"قنوت فار گاڈ سیک ایسا مت کرو۔نرس ہو تم اپنی ڈیوٹی کرو۔"ڈاکٹر امبر نے اسے ڈانٹا لیکن قنوت مسلسل روئے جارہی تھی۔
"صاعقہ......زوئنہ کو بھی بلا لاؤ۔اور قنوت چلی جاؤ میرے سامنے سے تمہارا روز روز کا یہ ناٹک اب میں برداشت نہیں کرسکتی۔ جاؤ یہاں سے۔" صاعقہ کو سامنے سے آتا دیکھ کر ڈاکٹر امبر نے اس سے کہا۔
ڈاکٹر امبر کا بلڈ پریشر قنوت کو دیکھ کر ہائی ہونے لگتا تھا۔ اور جس دن ایمرجنسی وارڈ میں وہ قنوت کو دیکھ لیتی تھیں اس دن تو ان کا پارہ سارا دن ہی ہائی رہتا تھا کیونکہ وہ کسی زخمی انسان کو دیکھ کر خود پہ قابو نہیں رکھ پاتی تھی اور رونا شروع کردیتی تھی۔وہ کام کم کرتی تھی اور روتی زیادہ تھی۔اس کی اس عادت کے باوجود وہ اس پرائیوٹ ہاسپٹل میں اب تک ٹکی ہوئی تھی کیونکہ وہ بی ایس نرسنگ تھی اور کوالیدفائیڈ اور ٹرینڈ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ پھرتیلی اور ایکٹو بھی تھی۔ وہ کسی کا زخم اور خون برداشت نہیں کرپاتی تھی۔ جب بھی کسی کی مرہم پٹی کرتی تو روتے روتے کرتی۔ کام وہ بخوبی اور ایمانداری کے ساتھ کرتی تھی۔ بس روتی بہت تھی۔اور اس ایک عادت کی وجہ سے اکثر ڈاکٹرز اس سے چڑتے تھے بلکہ خار کھاتے تھے۔اس دن ڈاکٹر امبر نے ایڈمن میں جا کر ایک درخواست جمع کروائی کہ اگر قنوت کی ڈیوٹی اس کے ساتھ آئندہ لگائی گئی تو وہ ڈیوٹی نہیں کرے گی۔قنوت کو ایڈمن والوں نے بلوا کر سمجھایا اس نے معافی مانگی اور ڈاکٹر امبر سے بھی معافی کی درخواست کی۔ یوں ڈاکٹر امبر نے اس کی جان چھوڑی۔

......................................................
"قنوت یار ایسا کب تک چلے گا آخر؟""یہ سب میرے کنٹرول میں نہیں ہوتا ہے میں کیا کرسکتی ہوں زوئنہ۔""دیکھو قنوت ہم سب نرسسز ہیں اور ہمیں بہت جلدی جلدی کام نمٹانے ہوتے ہیں ورنہ خدانخوانستہ مریض کو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ تم سمجھ رہی ہوناں؟ رونے دھونے میں وقت برباد کرو گی تو ایس انہ ہو کسی دن ہاتھ ملتی رہ جاؤ۔"زوئنہ اور صاعقہ آج اسے بیٹھ کر مسلسل سمجھائے جارہی تھیں۔"میں سب سمجھ رہی ہوں اور میں سب جانتی بھی ہوں لیکن یہ سب میرے اختیار میں نہیں ہے۔ میری مٹی کی تاثیر ہی ایسی ہے میں کیا کروں مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا۔کسی کا زخم میں برداشت نہیں کرپاتی۔"قنوت نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیاتھا۔"پتہ ہے صاعقہ بیڈ نمبرچار والے انکل ہیں ناں جن کے بازو پہ ٹانکے لگے ہیں۔ جب وہ آئے تھے توان کو دیکھ کر قنوت رو پڑی تھی اور وہ انکل خود کو سنبھالنے کی بجائے قنوت کو سمجھا رہے تھے چپ کروانے کی کوشش کررہے تھے۔ نہ میری بچی روتے نہیں ہی نہ نہ......"زوئنہ نے انکل کی نقل اتاری تو تینوں کو ہی ہنسی آگئی۔"سچ میں قنوت آئٹم ہوتم بھی۔"صاعقہ نے کہا تو وہ مسکرادی۔اسی وقت کچھ لوگ دو لڑکوں کو زخمی حالت میں لے کر ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوئے۔

......................................................
آج فیروز بخت نے آفس سے چھٹی کر لی تھی۔ وہ کئی روز سے دکان نہیں جاپایاتھا تو اس کا ارادہ آج سارا دن سمان احمد کے ساتھ گزارنے کا تھا۔سمان نے پہلے اسے دیکھ کر برا سا منہ بنایا۔ پھر وہ کئی ایک ڈیلز کے متعلق پراپرٹیز کے متعلق بات کرتے رہے۔ پھر ایک کال آنے پر وہ دونوں سمان کی بائیک پہ ایک پراپرٹی دیکھنے نکل پڑے۔بائیک چلاتے ہوئے سمان احمد مسلسل موبائل فون استعمال کررہاتھا۔ اور ایک دم اس کا بیلنس بگڑا اور وہ دونوں تیز رفتار بائیک سمیت روڈ پہ کئی گز تک گھسٹتے ہوئے گر پڑے۔ سمان اور فیروز دونوں کی چیخیں نکل پڑی تھیں۔ ان کے اردگرد گاڑیوں بائیکوں رکشوں والے رک گئے تھے۔ ٹریفک جام ہوگیاتھا۔ اور ان دونوں کو ایمبولینس میں ڈال کر ہاسپٹل پہنچا یاگیا۔

............................................................

فیروز بخت کو کچھ ہوش آیا تو اسے میل نرس وہیل چیئر پہ لاد کر کوریڈور سے تیزی سے گزرتا ہوا ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہورہاتھا۔ فیروز بخت نے اپنا جائزہ لیا تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ ٹھیک ٹھاک ہے زیادہ چوٹیں نہیں آئیں بس اس کے دونوں گھٹنے چھل گئے تھے۔ اور داہنے پاؤں میں ایک زخم اسے نظر آرہاتھا۔ اسے تکلیف ہورہی تھی لیکن اتنی نہیں تھی کہ وہ برداشت نہ کرسکے۔اس نے سمان کی تلاش میں اردگرد نظریں دوڑائیں۔نرس نے اسے بیڈ پہ شفٹ کر کے اس کے زخم صاف کرنا شروع کردئیے۔ اس کے حلق میں کانٹے اگے ہوئے تھے اس نے بمشکل نحیف سی آواز نکال کر نرس سے کہا:"مم......میرا دوست؟"نرس نے منہ پہ انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور اس کے سامنے سے ہٹ کر سامنے والا بیڈ دکھایا جہاں سمان احمد بے ہوش پڑا تھا۔ اور اس کے اوپر دو میل نرس جھکے ہوئے اس کے زخم صاف کررہے تھے۔ وہ لیٹنے لگا تو اس کی نظر سمان کے ساتھ کھڑی اسی لڑکی پہ پڑی جو وہاں کھڑی روئے جارہی تھی:"میرا بھائی......میرا بھائی پلیز باسط بھائی میرے بھائی کو کچھ نہیں ہونا چاہئے۔"اس کے ساتھ ایک اور لڑکی نرس کے ڈریس میں کھڑی تھی اور اسے چپ کروانے کی کوشش کررہی تھی۔فیروز بخت کو حیرت انگیز خوشی محسوس ہوئی۔ وہ لڑکی یہاں نرس تھی اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ سمان کی بہن ہے۔اس نے جیسے اپنے ذہن میں فرحت کا احساس پاتے ہی دل تک اترتا سکون محسوس کیا۔

......................................................
وہ دو لڑکے جو ایمرجنسی میں لائے گئے تھے ان میں سے ایک قنوت کا بھائی تھا۔ وہ اسے دیکھ کر مسلسل روئے جارہی تھی۔ سمان کو کافی گہری چوٹیں لگی تھیں۔ جبکہ اس کے دوست فیروز بخت کو زیادہ چوٹ نہیں لگی تھی۔ قنوت مسلسل رو رہی تھی۔ سمان احمد کو ابھی تک ہوش نہیں آیاتھا۔ جبکہ دوسرا لڑکا مکمل ہوش میں تھا۔سب قنوت کو سمجھا رہے تھے کہ اس کا بھائی ٹھیک ہو جائے گالیکن وہ روئے جارہی تھی۔جائے حادثہ پہ کسی نے پولیس کو فون کر کے ایکسیڈنٹ کی اطلاع دی تھی۔ اسی لئے وہاں جب پولیس آئی تو وہ ضروری کاروائی کر کے پوچھ گچھ کر کے چلی گئی۔

......................................................

Adhoora Main Mukamal Tum By Saira GhaffarWhere stories live. Discover now