Adhoora main mukamal Tum Online Complete Urdu Novel
ادھورا میں مکمل تُم
رائٹر:سائرہ غفار
آدھی رات کا وقت تھا۔ وہ دوا کھا کر سویاتھا اس لئے اسے دروازے کی دھڑ دھڑا کر پیٹنے کی آواز سنائی نہیں دی۔ نورہ اور روحی نیند سے جاگ کر اس کے کمرے میں آگئیں تھیں۔اور اسے اٹھایا تھا۔
ایک بار پھر کسی نے زور سے دروازہ دھڑدھڑایا۔وہ حیرا ن ہوا۔ اس نے گھڑی کی طرف دیکھا جو تین بجارہی تھی۔
اس نے امی اور نورہ کو تسلی دی۔ اور اوپر سے جھانک کر دیکھا۔اور تعجب انگیز لہجے میں کہا:"پولیس۔"
"پولیس؟پولیس ہمارے گھر کیوں آئی ہے؟"روحی نے حیرانگی سے پوچھا۔
"میں دیکھتا ہوں آپ پریشان نہ ہوں۔"فیروز دروازے کی طرف بڑھا۔روحی اور نورہ ایک دوسرے سے لگ کر کھڑی ہوگئی تھیں۔ وہ دونوں لاؤنج کے دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہوئی تھیں۔فیروز نے جیسے ہی دروازی کھولا۔ ایک پولیس والے نے کرخت آواز میں پوچھا:"اوئے تیرا ہی نام فیروز بخت ہے؟""جج......جی ہاں۔"اس کے منہ سے جی کا لفظ نکلتے ہی پولیس والے نے اسے گریبان سے پکڑ کر باہر گھسیٹا:"چل اوئے۔""لل......لیکن آپ مجھے کہاں لے کر جارہے ہیں؟"اس نے احتجاج کرنے کی کوشش کی۔نورہ اور روحی کی چیخیں نکل گئیں۔ وہ دونوں بھاگ کر دروازے پر آئیں۔ لیکن پولیس والے نے فیروز کو گھسیٹ کر وین میں بٹھایا اور وہاں سے چل پڑے۔اردگرد کے کئی گھروں میں روشنی ہوئی کچھ لوگ شور کی آوازیں سن کر باہر نکل آئے اور روتی ہوئی روحی اور نورہ سے فیروز اور پولیس کے متعلق استفسار کرنے لگے۔ روحی اور نورہ نے روتے روتے ان کو بتایا کہ پولیس والے بے گناہ فیروز کو پکڑ کر لے گئے ہیں۔ اب لوگ افسوس کا اظہار کر کے اپنے اپنے گھروں میں دبکے چلے گئے کیونکہ کوئی بھی پولیس کے پنگے میں ٹانگ اڑا کر خوامخواہ پھنسنا نہیں چاہتا تھا۔وہ رات روحی اور نورہ نے رو رو کر کانٹوں پہ گزاری۔
......................................................
پولیس والے اسے کالر سے تقریباً گھسیٹتے ہوئے پولیس اسٹیشن لائے اور لا کر اسے لاک اپ میں بند کردیا۔وہ سارا رستہ اپنا قصور پوچھتا رہا مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز بھلا کون سنتا ہے؟لاک اپ میں اسے بند کیا گیا تو وہ سلاخوں کے ساتھ کھڑے ہوکر زور زور سے چلانے لگا:"یہ ہے تم لوگوں کا قانون؟ ایسا ہوتا ہے قانون؟ کسی کو بھی اس کے گھر سے اٹھا کر لے آؤ گے اور لاک اپ میں بند کردو گے؟ جاہل پولیس والے ہو بالکل تم لوگ۔""ابے چپ سالے......"ایک پولیس والے نے اپنی توند کو بیلٹ کی مدد سے اوپر کرتے ہوئے سلاخوں پہ ڈنڈا مارا:"جب سے آیا ہے تب سے ٹیں ٹیں کیے جارہاہے۔ دماغ چاٹ گیا ہے۔""مجھے میرا جرم بتادو میں چپ ہوجاؤں گا۔"فیروز کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں ......کچھ غصے کی وجہ سے ......کچھ ناانصافی کی وجہ سے......"کیا نام ہے تیرا؟"پولیس والے کو اس پہ رحم آگیا تھا۔"فیروز بخت۔"پولیس والا اپنی توند سنبھالتا ایف آئی آر رجسٹر میں سے اس کے نام کی ایف آئی آر دیکھنے لگا۔پھر اس نے رجسٹر بند کر کے کہا:"بیٹا تو لمبا اندر جائے گا کیونکہ تو نے اپنے دوست کو جان سے مارنے کی کوشش کی ہے۔ اٹیمپٹ ٹو مرڈر کی ایف آئی آر ہے تیرے پہ۔""آپ مذاق کررہے ہیں ناں؟"وہ حقیقتاً پریشان ہوا تھا۔"کیا ٹائم ہو اہے؟"پولیس والے نے گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔"چار بج رہے ہیں ......"اس کی آواز لرزی تھی۔"تو بیٹا اس ٹائم میں مذاق نہیں کرتا۔ سمجھ آئی۔ تمہارے دوست سمان احمد نے تمہارے خلاف ایف آئی آر کٹوائی ہے کہ تم نے جان بوجھ کر اس کا ایکسیڈنٹ کروایا ہے اور اسے مارنے کی کوشش کی ہے۔"پولیس والے نے تفصیل بتاکر کرسی سنبھال لی۔"لیکن بائیک تو وہی چلا رہاتھا۔ یہ زخم دیکھیں میرے......میں بھی تو زخمی ہوا ہوں اور میں کیوں کروں گا ایسی کوئی بھی کوشش؟ وہ دوست ہے میرا......"اس کا لہجہ بھیگ رہاتھا......لفظ ساتھ نہیں دے رہے......آواز بھی گلے میں پھنس رہی تھی۔"ابھی میں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ صبح بات کریں گے۔"پولیس والے نے نرمی سے کہا۔فیروز بخت سلاخوں کے ساتھ ٹھنڈے فرش پہ گرنے کے سے انداز میں بیٹھتا چلاگیا۔اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہتی چلی جارہی تھیں۔اسے دیکھ کر کون کہہ سکتا تھا کہ وہ بخت آور ہے......آج وہ اُس رشتے سے ہارا تھا جسے وہ ہمیشہ مقدم رکھتا آیاتھا۔
......................................................
اگلی صبح تایا شاد اور مجاہد اس کو دیکھنے کے لئے آئے۔ وہ ایک وکیل کو بھی ساتھ لائے تھے۔ فیروز بخت کو ضمانت پہ رہاکردیا گیا تھا۔وہ جیسے ٹوٹ سا گیاتھا۔ روحی او ر نورہ کے ساتھ گھر میں ھدیٰ بھی موجود تھی اور ننھی اُسوہ ماموں کو دیکھ کر بھاگ کر ا سکی گود میں آگئی۔خاموشی صرف اس کمرے میں ہی نہیں بلکہ ان سب کے اندر بھی گھری ہوئی تھی۔ ہر کوئی بات شروع کرنے سے ڈر رہاتھا۔ایسے میں تایا شاد گویا ہوئے:"بیٹا پریشان مت ہونا۔ وکیل صاحب کو سب کچھ سچ سچ بتا دیا ہے تم نے۔ انہوں نے کہا ہے کہ کیس بالکل کمزور ہے۔ اس کیس میں بالکل بھی جان نہیں ہے۔ سمان احمد تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ پائے گا۔"فیروز نے سر جھکا کر اثبات میں ہلایا۔ اس کی آنکھ سے ایک آنسو نکلا جسے اس نے کمال مہارت سے صاف کرلیا۔''جی تایا ابو۔"اسی وقت روحی کے فون کی گھنٹی بجی۔فہیم کا فون تھا۔ روحی نے فون کان سے لگایا۔"السلام اعلیکم......""وعلیکم السلام......کیا یہ سچ ہے کہ آپ کے بیٹے کو رات کو پولیس اٹھا کر لے گئی تھی؟"سخت لہجے میں کیا گیا سوال ان کا دل چیر گیا تھا۔"جی یہ سچ ہے۔"روحی کی آواز اتنی دھیمی تھی کہ وہ خود بھی بمشکل سن پارہی تھیں۔"اس نے اپنے دوست کو مارنے کی کوشش کیوں کی تھی؟"سوال داغا گیا۔"اس نے ایسا کچھ نہیں کیا......"صفائی پیش کرنا بے سود تھا لیکن بہرحال دینی تو تھی ناں ......سو روحی نے کوشش کی۔"واہ پولیس پاگل ہے؟ہے ناں؟""میرا بیٹا بے قصور ہے بھائی صاحب......"آنکھوں پہ باندھا گیا بند ٹوٹ گیا۔"آپ کے بیٹے سے زیادہ بے قصور میرا بیٹا ہے اس لئے اس رشتے کو آپ ختم سمجھیں۔""بھا......ئی......صاحب......یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟"روحی حیران ہوئیں۔"بالکل ٹھیک سنا آپ نے ......میرے بیٹے سمیر کو آپ معاف رکھیں۔ ہم نے آپ لوگوں کو شریف سمجھا تھا۔ لیکن آپ لوگ ......خیر اللہ حافظ۔"فہیم نے فون بند کردیاتھا۔ روحی فون کو ٹُکر ٹُکر دیکھ رہی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ روئے......چیخے...... افسوس کرے......ماتم کرے......کیا کرے......ناسمجھی میں اس نے فون پہ غصہ نکالا اور فون کو زور سے زمین پہ دے مارا۔اور ہاتھ سر میں دئیے رونے لگی۔فیروز بخت ماں کے پاس بیٹھا اور اس کو اپنے سینے سے لگالیا۔"انہوں نے رشتہ ختم کردیا فیروز......میری بچی کا رشتہ ختم ہوگیا......"وہ روتے روتے کہتی جارہی تھیں۔فیروز ضبط کرنے کی کوشش میں ہلکان ہوئے جارہاتھا۔تایا شاد جانے کو اٹھ کھڑے ہوئے تو مجاہد کے ساتھ ھدیٰ بھی اٹھ کھڑی ہوئی اور اس نے اُسوہ کو گود میں لے لیا۔"آج یہیں رک جاؤ ھدیٰ......"روحی کو اپنی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ھدیٰ کے قدم زنجیر ہوئے...... سب نے چونک کر روحی کو دیکھا تھا۔"آج کچھ رشتے مر گئے ہیں توسوچ رہی ہوں کہ کچھ مرے رشتے زندہ بھی کرنے چاہئیں۔""امی......"ھدیٰ دوڑ کر روحی کے گلے لگ گئی۔"میں ابو کو چھوڑ کر آتا ہوں۔"مجاہد تایا شاد کے ساتھ باہر نکل گیا۔اس دن ان سب نے مل کر بخت آدم کو بہت یاد کیا۔ پرانی باتیں ......گلے شکوے......شکایات......رنجشیں ......سب آنسوؤں سے دھل گئیں۔یہ اس خاندان کی ری یونین تھی یعنی نیا جنم۔
......................................................فیروز نے شام کے وقت سمان احمد کو فون کیا لیکن اس نے فون ریسیو نہیں کیا۔ تین چار بار کال کر کے جب فیروز تھک گیا تو سمان احمد کی کال آگئی۔ اس نے جھٹ سے فون ریسیو کیا۔"کمینے......میں نے کبھی نہیں سوچا تھا تھا کہ تم میرے ساتھ ایسا کرو گے۔"فیروز نے دانت پیستے ہوئے کہا۔"سوچا تو میں نے بھی کبھی نہیں تھا کہ میں تمہارے ساتھ ایسا کچھ کروں گا۔ لیکن خیر اب تو کر چکاہوں ناں ......اب یقین کرلو۔" سمان احمد مزے سے بولا۔"میں تمہین چھوڑوں گا نہیں۔""فی الحال تو میں تمہیں نہیں چھوڑنے والا۔لیکن چاہوتو چھوڑ بھی سکتا ہوں۔""مطلب؟"فیروزنے ناسمجھی سے پوچھا۔"مطلب یہ میرے دوست کہ میرے کاروبار میں کچھ حصہ تمہارا بھی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم اس سے دستبردار ہوجاؤ۔ ویسے بھی میں تمہیں اس سے زیادہ ہی دے چکا ہوں۔ اور محنت تو ساری میں ہی کرتا ہوں تم تو کچھ کرتے بھی نہیں ہو سوائے کمیشن کھانے کے......بھکڑ کہیں کے......"سمان کا دل تو گالی دینے کو چاہا تھا لیکن اس نے کنٹرول کیا لیکن فیروز نے بالکل کنٹرول نہیں کیا۔ اس کے منہ میں جو گالی آئی اس نے دل کھول کر سمان کو دی۔"ہو گیا؟"سمان نے اس کے چپ ہوتے ہی پوچھا۔"ہوا تو نہیں لیکن ابھی جو بھی کچھ میں کروں گا وہ تیرے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوگا۔تجھے کسی بے وقوف سے پنگا لینا چاہئے تھا۔ یہ جو تو نے مجھ پہ کیس ٹھوکا ہے ناں اس کا جواب اب میں تجھے کورٹ میں دوں گا۔""مطلب تو کورٹ تک جانا چاہتا ہے؟""بالکل میں کورٹ تک جاؤں گا اور تو دیکھ میں یہ کیس تجھ پہ واپس نہ پلٹ دوں تو میرا نام بدل دینا۔""چل پھر ٹھیک ہے میں تیرے لئے نیا نام سوچتا ہوں تب تک۔اللہ حافظ۔"سمان نے فون بند کیا تو فیروز ے غصے سے موبائل کو بیڈ پہ دے مارا۔اسے شدید غصہ آرہاتھالیکن وہ یہ جانتا تھا کہ یہ وقت غصے میں گنوانے کا نہیں بلکہ ہوش و حواس سے کام لینے کا ہے۔وہ کمرے سے نکلا اور مجاہد کو ساتھ لئے باہر روانہ ہوگیا۔
......................................................اہل علم حضرات قلمی چوری سے پرہیز کریں۔ کاپی پیسٹ کی اجازت نہیں ہے۔
YOU ARE READING
Adhoora Main Mukamal Tum By Saira Ghaffar
RomanceAdhoora Main Mukamal Tum By Saira Ghaffar A love story A romantic Story Urdu Complete Novel