Adhoora main Mukamal Tum Online Complete Urdu Novel
ادھورا میں مکمل تُم
رائٹر: سائرہ غفار
فیروز بخت اپنے نام کی طرح بختاور ثابت ہوا۔ ویسے بھی وہ جس بھی کام میں ہاتھ ڈالتا تھا اسے ترقی ضرور ملتی تھی۔سمان احمد کے ساتھ ایک مہینے کے اندر اندر ہی اسٹیٹ ایجنسی کا سیٹ اپ ہوجانے کے بعد انہوں نے پارٹ ٹائم کام کرتے ہوئے ہی دو بہترین ڈیلز کروائیں اور تگڑا کمیشن کمایا اور آدھا آدھا بانٹ لیا۔
چند ماہ کے اندر اندر ان کی رئیل اسٹیٹ کے بزنس میں ایک پہچان بن گئی اور ان کی اسٹیٹ ایجنسی پہ لوگ اعتماد کرنے لگے۔
سمان احمد نے اپنی نوکری چھوڑ دی تھی اور اب وہ فل ٹائم اسٹیٹ ایجنسی کا کام کررہاتھا جبکہ فیروز ملازمت چھوڑنے کے حق میں نہیں تھا۔ اس کا خیال تھا کہ پارٹ ٹائم ہم اس اسٹیٹ ایجنسی سے اچھا خاصا کما رہے ہیں پھر ہمیں اچھی خاصی لگی بندھی جاب چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن سمان احمد نے ا سکی ایک نہ مانی اور اپنی نوکری چھوڑ کر فل ٹائم دکان سنبھالنے لگا۔ زیادہ کام کرنے سے زیادہ منافع ہونے لگا۔ سمان کو محسوس ہونے لگا تھا کہ فیروز کسی کام کا نہیں ہے اور میں ا سکو خوامخواہ کمیشن میں حصہ دے رہاہوں۔ میں ساری محنت خود کرتا ہوں اور اسے کمیشن سے حصہ دیتا ہوں جو اسے اب کھٹک رہاتھا۔ وہ اب فیروز سے کتراتا تھا اور اس سے خار بھی کھانے لگاتھا۔ خوامخواہ وہ فیروز کی ڈیلز میں خامیاں نکالتا اور اسے زچ کرنے کی کوشش کرتا تھا۔فیروز بخت اسے کام کا دباؤ سمجھ کر اگنور کررہاتھا ویسے بھی وہ ملازمت پیشہ شخص تھا اس میں پریشر برداشت کرنے کی صلاحیت موجود تھی اور حالات اچھے ہوں یا برے ان سے نمٹنا وہ خوب اچھی طرح سے جانتا تھا۔
......................................................
"تمہاری بہن خیر سے بڑی ہوگئی ہے اس کے رشتے کے لئے کہیں ہاتھ پاؤں مارو بھئی کب رخصت کرو گے اس کو گھر سے؟" جویرہ نے اپنے میاں سمان احمدسے کہا۔"بڑی ہوگئی ہے؟مجھے تو نہیں لگتی اتنی بڑی......"سمان نے بے پروائی سے ناک سے مکھی اڑائی۔"جب بالوں میں چاندی چمکنے لگے گی تب ہاتھ ملتے رہ جاؤ گے۔ خاندان میں نظریں دوڑاؤ اور اپنی مصروفیات کم کرو تھوڑا ٹائم گھر کو دو تو کچھ پتہ چلے تمہیں۔"جویرہ کا غصہ آسمان کو چھو رہاتھا۔"ارے بھئی دیکھ لیں گے ناں ابھی تنگ مت کرو۔"سمان احمد کیلکولیٹر میں گھسا رہا۔"ہونہہ آپ کبھی نہیں سدھریں گے۔"جویرہ غصے میں پیر پٹختی کمرے سے واک آؤٹ کرگئی اور سمان نے سکھ کا سانس لیا۔
......................................................
نورہ، ھدیٰ اور فیروز بخت تین بہن بھائی تھے۔ ان کے والد بخت آدم ایک ریٹائرڈ آرمی آفیسر تھے۔ وہ بہت خوش مزاج اور زندہ دل انسان تھے۔ ان کی والدہ روحی ایک گھریلو خاتون تھیں۔نورہ کے لئے پہلا رشتہ اس کے تایاشادآدم اور تائی زہرہ شاد لے کر آئیں، ان کا بیٹا مجاہد شادمہران یونی ورسٹی کا طالب علم تھا۔نورہ اس وقت ماسٹرز کر رہی تھی۔ ھدیٰ ان دنوں گریجویشن کے پیپر دے کر فارغ ہوئی تھی اور فیروز بخت نے یونی ورسٹی میں نیا نیا قدم رکھاتھا۔جب گھر میں نورہ کے رشتے کے سلسلے میں بات چیت شروع ہوئی تو ھدیٰ کے چہرے کی ہنسی ایک دم سے غائب ہوگئی۔ اس نے کبھی کسی سے کہا نہیں تھا لیکن وہ مجاہد کو پسند کرتی تھی۔ اور اسے لگتا تھا کہ مجاہد بھی اسے پسند کرتا ہے۔تایا نے نورہ اور مجاہد کی منگنی کی تاریخ طے کردی۔مجاہد کے امتحان چل رہے تھے اور اس کے واپس آنے کے دو دن بعد ہی منگنی کا دن مقرر کرلیا گیاتھا۔ منگنی والے دن جب نورہ کو اس کے سامنے دلہن کے روپ میں لایا گیا تو وہ حیران و پریشان رہ گیا۔ اس نے اپنے والدین سے کہا تھا کہ اسے چچا کے گھر میں شادی کرنی ہے۔ وضاحت کرنا تو وہ بھول ہی گیاتھا کہ اسے نورہ سے نہیں بلکہ ھدیٰ سے شادی کرنی ہے۔ اس نے اسی وقت سب کے سامنے دو ٹوک لہجے میں ھدیٰ کا ہاتھ مانگ لیا۔ ہر کوئی پریشان تھا کہ مجاہد نے سب کے سامنے ان کی ناک کٹوادی ہے۔بخت آدم نے اپنے بھائی کے سامنے ہاتھ جوڑے اور کہا کہ یہ رشتہ نہیں ہوسکتا میں ایک بیٹی کی خوشیوں کو گرہن لگا کر دوسری کا گھر نہیں بنا سکتا۔ میں یہ نہیں کرسکتا کہ جو رشتہ ایک بیٹی کے لئے توڑا ہو وہ دوسری سے جوڑ دوں۔ اسی لمحے ھدیٰ بول پڑی کہ وہ بھی مجاہد کو پسند کرتی ہے۔ گھر بھر میں ایک بھونچال امڈ آیا۔بخت آدم نے بیٹی کے گال پہ تھپڑوں کی بارش کردی۔ فیروز بخت نے بڑی مشکل سے ان کو سنبھالا تھا۔اس دن ان کو ہارٹ اٹیک ہوا جو جان لیوا ثابت ہوا۔روحی نے ھدیٰ کو دھکے دے کر گھر سے باہر نکال دیا کہ تمہاری وجہ سے میں بیوہ ہوگئی۔ مجاہد،شاد آدم،فیروزبخت اور ھدیٰ کو ساتھ لے کر قریبی نکاح خوان کے پاس پہنچا اور نکاح پڑھوا کر ھدیٰ کو اپنے ساتھ گھر لے آیا۔شاد کے دل میں مجاہد کے اس تمام رویے سے ایک گرہ سی لگ گئی تھی۔ لیکن وہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا اس لئے وہ کچھ نہیں کہہ پائے۔ لیکن تائی نے برداشت نہیں کیا انہوں نے مجاہد کو کہہ دیا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر اس گھر سے چلے جاؤ میں ھدیٰ کو اپنے گھر میں برداشت نہیں کر پارہی ہوں۔مجاہد ھدیٰ کو لے کر ایک کرائے کے گھر میں شفٹ ہوگیا۔ اس نے جاب بھی ڈھونڈ لی تھی۔ وہ ایک بہترین اسٹوڈنٹ تھا اس لئے اسے ایک اچھی کمپنی میں جاب مل گئی تھی۔ زندگی کچھ دن بعد ایک ڈگر پر چلنے لگی۔لیکن روحی اور نورہ کے دل میں ھدیٰ کے لئے جگہ بننا نا ممکن سا نظر آتا تھا۔اس سارے قصے کو پانچ سال کا عرصہ بیت چکاتھا لیکن اب بھی وہ دونوں اسی دور میں جی رہی تھیں اور ھدیٰ کو معاف کرنے کو تیار نہیں تھیں۔
......................................................
اہل علم حضرات قلمی چوری سے پرہیز کریں۔ کاپی پیسٹ کی اجازت نہیں ہے۔
ESTÁS LEYENDO
Adhoora Main Mukamal Tum By Saira Ghaffar
RomanceAdhoora Main Mukamal Tum By Saira Ghaffar A love story A romantic Story Urdu Complete Novel