﷽
شام کی سرخی ہر طرف پھیل چکی تھی۔وہ پودوں میں بیٹھ کر آسمان کو بے بسی سے دیکھتے ہوٸے مغرب کی آذانوں میں سکون تلاش کررہی تھی۔ناکام! بلکل ہی ناکام کوشش تھی جو وہ کررہی تھی۔ایک کے بعد ایک دردناک منظر تھا جو اسکے سامنے ایک خوفناک فلم کی طرح چل رہا تھا۔وہ ان مناظر میں کھوچکی تھی۔وہ درد میں گم ہو گٸی تھی۔
الویرا! کہاں گم ہو یار کب سے بلا رہی ہوں تمہیں۔اتنی آوازیں تو کسی بادشاہ کو دیتی تو وہ نکل آتا زمین سے باہر اور تم ہو کہ سنتی ہی نہیں۔ وہ منہ بسورتے ہوٸے بولی تھی۔یہ کاٸنات تھی جسکی زندگی بادشاہوں اور قصے کہانیوں سے شروع ہو کر انہی پہ ختم ہو جاتی تھی۔الویرا کی دوست۔ الویرا کی بہترین دوست!
”میں نے سنا نہیں تمہیں۔“ وہ اپنے درد میں گم بولی تھی۔
”ارے جاٶ جاٶ سنا تم نے تھا مجھے۔ تم بس سننا نہیں چاہ رہی تھی کیونکہ ہر انسان کو الله نے کان دٸے ہوٸے ہیں اور ان میں آواز صاف صاف جاتی ہے اور تمھارے۔۔“
”کوٸی کام تھا؟“وہ اسے کاٹتے ہوٸے بولی تھی۔
”ہاٸے میری توبہ، حد کری تم نے الویرا۔۔نصیب پھوٹیں ایسے انسان کہ جو دوست کو کام کے وقت یاد کرے۔میں تو بس۔۔“
”میں سونے جارہی ہوں کاٸنات۔ سوگٸ تو اٹھانا مت۔“
”مگر کھانا تو۔۔“ ”بھوک نہیں ہے مجھے۔۔“ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ نظروں سے اوجہل ہوگٸی تھی۔۔
ہاں بھٸی بھوک ہو گی بھی کیوں ہر وقت تو خون پیتی رہتی ہو میرا سڑیل نہ ہو تو۔۔چلو لڑکی۔۔آج بھی اکیلے ہی کھانا پڑے گا۔
“۔”
”الویرا! الویرا! الویرا! دروازہ کھولوگی؟ کل شام سے اس کمرے میں بند ہو دوپہر کے تین بج رہے ہیں۔کسی چیز کی ہوش ہے تمہیں کہ نہیں؟“ وہ مسلسل اس انتظار میں دروازہ بجارہی تھی کہ شاید اب الویرا کو اس پر رحم آٸے اور وہ دروازہ کھول دے۔اور الویرا نے دروازہ کھول بھی دیا تھا مگر اس پر رحم کھا کر نہیں بلکہ اسسے چڑ کر۔۔
”مسٸلہ کیا ہے تمھارا؟ ہاں؟ ہر وقت کیوں سوار رہتی ہو میرے سر پر؟ ہاں نہیں ہے ہوش مجھے کسی بھی چیز کی۔تو؟ دن ہو یا رات میرے لٸے تو اندھیرا ہے! اس چاند سورج سے مجھے اب فرق نہیں پڑتا۔میری زندگی ختم ہوگٸی ہے۔۔سمجھتی ہو تم اس بات کو؟ اور خدا کا واسطہ ہے اس کونے میں سکون سے رہنے دو ورنہ یہاں سے بھی چلی جاٶں گی۔۔پھر خوش ہو تم؟“
”الویرا..“وہ بمشکل بولی تھی۔”دیکھو اس کمرے میں تم ویسے ہی مر جاٶگی ۔تمھاری تنہاٸی جان لیوا ہے۔باہر نہیں نکلوگی تو ٹھیک کیسے ہوگی؟ ہفتے گزر گٸے تم نے گھر بات نہیں کی۔سب ترس گٸے ہیں تمھاری آواز سننے کو۔مسلسل جھوٹ پر جھوٹ بول رہی ہو سب سے کہ مصروف ہو مصروف ہو۔۔کب تک؟ آخر کب تک الویرا؟ ان رشتوں کو نظر انداز کروگی جو تم سے محبت کرتے ہیں؟ کب تک ایک کیلٸے دوسرے کو تکلیف دوگی؟ قدر کرو انکی جو تمھارے پاس ہیں ورنہ قدرت چھین لے گی یہ بھی۔“
”دھمکی دیرہی ہو؟“ اس حال میں الویرا کا یہ سوال بنتا بھی تھا۔
”نہیں میری جان سمجھاری ہوں۔اچھا چھوڑو جاٶ حلیہ درست کرو اپنا میں ناشتہ لگاتی ہوں۔اور پلیز یہ بال سنوار کے آنا الله قسم کچرا رانی لگتی ہو اب تو مجھے بھی خوف آنے لگا ہے تم سے قسم جہانگیر کی۔۔“ وہ اسکے بکھرے بالوں کا مزاق بناتے ہوٸے ہنسی تھی۔۔
”جہانگیر کون؟“ وہ جو ابھی ابھی اپنے حواس میں آٸی تھی جہانگر پر چونکی تھی۔۔
”بادشاہِ۔۔۔ارے کہاں گٸی۔۔اچھا جلدی آنا بھوک لگی ہے مجھے۔ ہاں جیسے اسے فکر ہے میری“۔۔وہ قہقہہ لگاتے ہوٸے بڑ بڑاٸی تھی۔۔
![](https://img.wattpad.com/cover/216473887-288-k855133.jpg)
YOU ARE READING
آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں (✔Completed)
Spiritualیہ کہانی ہے دو محبت کرنے والوں کی جو بتاتے ہیں کہ زندگی گزارنے کیلٸے محبت ضروری نہیں ہوتی۔۔ ایسے مخلص رشتوں کی جو سکھاتے ہیں ساتھ نبھانے کیلٸے کسی رشتے کا ہونا ضروری نہیں۔ ایسے قدر دانوں کی جو بتاتے ہیں ...