دل کی سلطنت
لکھاری: مریم راشدیہ کہانی ہے "آفتاب آشیانہ" کے مکینوں کی۔ شاندار سی یہ کوٹھی دو کنال کے عرض میں پھیلی ہوئی تھی۔ گیٹ کے ساتھ ہی "آفتاب آشیانہ" کی تختی نسب تھی۔ لوہے کے کالے گیٹ سے آگے بڑھیں تو سیدھی روش اندرونی دروازے سے زینوں کے تحت جا ملتی تھی۔ آگے چلیں تو لابی سے نکل کر بڑا سا ٹی وہ لاونج جس کے ایک کونے میں کچن کا دروازہ اور ساتھ ہی ڈائننگ روم تھا۔ ڈائننگ کا ایک دروازہ کچن میں جبکہ دوسرا مہمان خانے میں کھلتا تھا۔ واپس ٹی وہ لاونج میں چلیں تو سامنے کی جانب سیڑھیاں تھیں جو اوپر کی جانب جاتی تھیں۔ اوپر ایک کونے سے دوسرے کونے تک پوری راہدری میں آمنے سامنے کمرے ہی کمرے تھے۔ مگر اس وقت گھر کا نقشہ اتنا توجہ طلب نہیں تھا جتنا کہ وہ تھی۔ وہ جسے ڈھونڈے کے چکر میں اس کی ماں ہلکان ہوئی جا رہی تھی۔ لاونج کے وسط میں کھڑی وہ لگ بھگ پچپن سالہ عورت اِدھر اُدھر گردن ہلائے اونچی آواز میں اس کا نام لیتی جا رہی تھیں۔
"ماہ رخ۔۔۔۔ماہ بیٹا کدھر ہو تم؟ ۔۔۔اف۔۔۔ میں کیا کروں اس لڑکی کا؟ اب ناجانے کہاں گم ہو گئی ہے یہ۔"
فرح بیگم پچھلے پانچ منٹ سے مسلسل اسے بلا رہی تھیں مگر وہ تو ایسے غائب تھی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
کافی دیر سے اپنی بیوی کی کان پھاڑ صدائیں سنتے وقار صاحب سے جب رہا نہ گیا تو جھنجھلاہٹ سے اخبار میز پر رکھتے وہ اٹھ کر ان کے پاس چلے آئے۔ "کیا ہو گیا ہے فرح بیگم؟ بچی نہیں ہے وہ جو گم ہو جائے گی۔ ہوگی یہیں کہیں کسی کام میں مصروف۔ اسے بخش بھی دیا کریں نا۔" انھوں نے اپنی لاڈلی کی وکالت کرنا ضروری سمجھی۔ جواباً فرح بیگم نے انہیں زبردست گھوری سے نوازا تو وہ ہوتھ کھڑے کرتے ہار مان کے واپس صوفے کی جانب بڑھ گئے۔ فرح بیگم بھی ہار مان کے کچن کا رخ کرنے ہی والی تھیں کہ اس آفت کی پرکالا کو قابو میں کرنے والا اس کا اکلوتا دشمن انھیں گھر میں داخل ہوتا نظر آیا۔ ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
"معاذ بیٹا بات سنو"
اس سے قبل کہ وہ اوپر اپنے کمرے کی جانب جاتا، فرح بیگم نے اسے وہیں دھر لیا۔
"جی چھوٹی ماما آپ نے بلایا؟"
وہ ان کے احترام کے پیشِ نظر ان کے پاس چلا آیا۔
"ہاں معاز! اوپر جا ہی رہے ہو تو تیسرے منزل پر جا کے دیکھ لینا کہ ماہ رخ اوپر چھت پر ہے یا نہیں۔ اگر وہیں ہوئی تو ذرا نیچے تو بھیجنا اس کو۔ "
معاز نے ضبط کا گھونٹ بھرا۔ آفس سے تھک ہار کے واپس آنے پر جو آخری چیز وہ دیکھنا چاہتا تھا وہ محترمہ ماہ رخ ہی تو تھیں۔ اس نے بہت مشکل سے چہرے پر مسکراہٹ سجائی اور اثبات میں سر ہلایا۔
"جی بہتر۔ ابھی بھیجتا ہوں۔"
شکستہ قدموں سے وہ اوپر کی جانب بڑھنے لگا۔ اب اسے ماہ رخ سے مغز ماری بھی تو کرنا تھی۔
───── ⋆⋅☆⋅⋆ ─────
آفتاب احمد خان کا تعلق پٹھان خاندان سے تھا جبکہ اوائل جوانی کے دور میں اپنے ٹیکسٹائل بزنس کے فروغ کے لیے لاہور شفٹ ہو جانے کے بعد آہستہ آہستہ وہ لاہوری رنگ میں رنگ گئے اور سخت اصول اور پابندیاں کہیں پیچھے ہی رہ گئیں۔ آفتاب خان اور ان کی زوجہ سلمہ خان کو اللہ نے تین بیٹوں کی نعمت سے نوازا۔ سب سے بڑے بیٹے توصیف احمد خان کی شادی اپنی پھوپھو زاد نمرہ فراز سے ہوئی تھی اور ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ معاذ، اس کے بعد سعد ،اور پھر سب سے چھوٹی سمرن۔ معاذ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد خاندانی بزنس کو سنبھال رہا تھا۔ سعد امریکہ میں اپنے پی ایچ ڈی کے تھیسس مکمل کررہا تھا اور جلد ہی اس کے واپسی ممکنہ تھی۔ سمرن حال ہی میں میٹرک کے امتحانات سے فارغ ہوئی تھی۔
منجھلے بیٹے وقار احمد خان کی شادی اپنی خالہ زاد فرح بیگم سے ہوئی تھی۔ ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ سب سے بڑا بیٹا نمیر پیشے کے اعتبار سے خاندان کا اکلوتا ڈاکٹر تھا۔ ماہ رخ اپنے بی ایس کیمسٹری کر کے فارغ ہوئی تھی۔ وہ اپنی بہن، ماہ گل سے تین سال بڑی تھی اور خاندان کی سب سے پہلی بیٹی ہونے کی وجہ سے وہ سب کو ہی بہت عزیز تھی۔ ماہ گل بی ایس فزکس کے چھٹے سمیسٹر میں تھی۔
سب سے چھوٹے بیٹے نعمان احمد خان کی شادی سعدیہ امام سے ہوئی تھی جو ان کی چچا زاد تھیں۔ اللہ نے انھیں دو جڑواں بچے دیے تھے۔ سحر اور عمیر جو کہ بہت شرارتی واقع ہوئے تھے۔ سحر اور عمیر ماہ رخ کے ہم عمر تھے اور ایک ہی یونیورسٹی سے بی ایس کرنے کے بعد وہ سب ہی آج کل فارغ تھے۔ فارغ کیا تھے سب کے ناک میں دم کیے رکھتے تھے۔
چونکہ معاذ گھر کا سب سے بڑا بیٹا تھا داجی نے بہت ارمان سے ماہ رخ اور معاذ کا ایک سال پہلے نکاح کروا دیا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن ماہ رخ میڈم نے معاذ کو اپنی زبان اور کراتوت کے وہ جوہر دکھائے کہ الامان! یہی وجہ تھی کہ معاذ ماہ رخ کو ایک نمبر کی جاہل، بدتمیز اور غیر سلیقہ مند لڑکی گنواتا تھا جب کہ ماہ رخ کے خیالات بھی نیک نہیں تھے۔ اس کے مطابق معاذ ایک نمبر کا حاسد انسان ہے جس سے دوسروں کی خوشیاں برداشت نہیں ہوتیں خاص طور پر ماہ رخ کی خوشیاں۔ جن پر وہ ناگ بن کے بیٹھ چکا ہے۔ مختصر یہ کہ ایک مشرق تو دوسرا مغرب تھا۔ دونوں کو نجانے ایک دوسرے سے کس بات پر خار رہتی تھی۔
───── ⋆⋅☆⋅⋆ ─────
معاذ بوجھل قدم اٹھاتا سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔ بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے اور شرٹ کی آستین چڑھائی ہوئی تھیں۔ سفید رنگت، کسرتی بدن اور ہلکی بیرڈ اس کی مردانہ وجاہت میں اضافہ کرتی تھی۔ بلاشبہ وہ مقابل کو چاروں خانے چت کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا مگر مقابل تھی بھی تو کون ؟ وہ جسے دیکھ کر ہی معاذ کا دماغ خراب ہوتا تھا۔
"اف کہاں پھنس گیا ہوں میں؟"
وہ کوفت سے بڑبڑایا اور سیڑھیاں چڑھتا گیا۔ پانچویں ، چھٹی، ساتویں، آٹھویں اور وہ ایک ایک کر کے اوپر کی جانب بڑھتا رہا۔
"دل تو کرتا ہے اس لڑکی کو چھت سے ہی دھکا دے دوں، زندگی عذاب بنا دی ہے اس نے میری۔"
زیر لب کوفت سے ایک بار پھر بڑبڑاتا وہ چھت پر قدم رکھ چکا تھا مگر عین اسی وقت ایک گیند فضا میں سے اڑتی ہوئی آئی اور اس نے معاذ دی جینٹل مین کو دن میں تارے دکھا دیے۔ گیند بالکل سامنے سے آئی تھی جہاں ماہ رخ دی منحوس ماری مکمل جوش سے اچھلتے ہوئے اپنے چھکا مارنے کا جشن منا رہی تھی اور وہ بھی ایسا چھکا جس کا اوٹ کم اس کے اپنے شوہر کے سر پر آلگا تھا۔ مگر جس حساب سے ماہ رخ بلا فضا میں نچاتے ہوئے لُڈیاں ڈال رہی تھی معاذ کو تو ایسا محسوس ہوا کہ گویا وہ کوئی ورلڈ کپ جیتنے پر جشن منا رہی ہے۔
آئیے ماہ رخ کا نقشہ کھینچ لیتے ہیں۔ رنگت تو ظاہر سی بات ہے گوری ہی ہوگی بھئی پٹھان جو ہوئی، کندھوں سے ذرا سے نیچے آتے گہرے سیاہ رنگ کے بال پونی میں مقید تھے۔ اس کی امی اس سے اسی بات پر عاجز رہتی تھیں کیونکہ وہ اپنے بال اس سے زیادہ بڑھنے ہی نہیں دیتی تھی۔ اسے زیادہ لمبے بالوں سے ہمیشہ کوفت سی رہی تھی۔ بھوری آنکھیں جو دھوپ میں کنچے کی مانند لگتیں تھی۔ غالب کی شاعری سے چرائے نازکی ان کے لب کی کیا کہیے والے پنکھڑی مانند ہونٹ اور وہ ستواں ناک جو شکر ہے اس کے نصیبوں کی طرح بیٹھ نہیں گیا تھا۔ وہ اچھلتی کودتی جشن مناتی لڑکی اپنے حسن سے یکثر بے نیاز معلوم ہوتی تھی مگر مقابل بھی معاذ تھا جو اس کی حرکتوں سے اتنا کوفت اور عاجز تھا کجا کہ اس کے حسن پر غور فرماتا۔ کچھ لمحے تک تو معاذ اس لمحے کو کوستا رہا جب اس نے چھت پر قدم رکھا تھا مگر کہیں نا کہیں اسے یہ بھی شک تھا کہ ہو نا ہو ماہ رخ نے جان بوجھ کر یہ حملہ کیا تھا۔ اس نے ضبط کے گھونٹ بھرے۔
" ایک منٹ میں یہ فضول حرکتیں بند کرو اور اس ایک منٹ کے ختم ہونے سے پہلے پہلے تم سب کے سب نیچے دفع ہو جاو ماسوائے ان محترمہ کے۔"
معاذ چٹخ کے بولا اور ماہ رخ کی جانب اشارہ کیا اور اگلے ہی پل چھت پر خاموشی چھا گئی۔ خوشی سے جھومتی ماہ رخ کو بریک لگا۔ پہلے تو وہ معاذ کو اوپر دیکھ کر حیران ہوئی پھر اپنی گیم کے خراب ہو جانے کے دکھ کے سبب وہ معاذ کو غصیلی نظروں سے گھورنے لگی۔ ساری کی ساری پلاٹون معاذ کے تیور دیکھ کر ماہ رخ پر ہمدردانہ نظریں ڈالے رفو چکر ہو چکی تھی۔
"تم۔۔۔! کیا مصیبت ہے تمہیں؟ یہاں کیا لینے آئے ہو؟ اچھا خاصہ گیم برباد کر دیا۔ میری زندگی کے بعد اب میری خوشیاں بھی برباد کرتے رہا کرو۔ میں تو پہلے ہی کہتی تھی تم جلتے ہو مجھ سے۔۔۔دیکھ لو میرا چھکا تک تو برداشت نہیں ہوا تم سے۔"
ماہ رخ کیسے برداشت کر لیتی کوئی اس کا گیم بگاڑے اور وہ اسے ایسے ہی جانے دے دے۔ زبان کھلی تو وہ ناجانے کیا کیا کہتی رہی۔ مارے غصے کے اس کا دماغ خراب ہو رہا تھا۔ اسے یہ بھی پرواہ نہیں تھی کہ اس کے الفاظ کا چناؤ کیا ہے وہ بس بولنے پر آئی تو بولتی ہی گئی۔ معاذ چند لمحے ضبط کے گھونٹ بھرتا اسے دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھوں میں سرد پن اتر آیا۔ اس نے چڑ کر ماہ رخ کی جانب دیکھا اور ہاتھ جھلایا گویا کہہ رہا ہو جو سمجھنا ہے سمجھو میری جوتی کو بھی پرواہ نہیں۔
"چچی جان تمھیں نیچے یاد کر رہی ہیں۔ مصروف شیڈول میں سے ٹائم نکل آئے تو مہربانی کر کے اپنی ماں کی بات سن آنا۔ "
اسے گھور کر کہنے کے بعد وہ فوراً پلٹ کے نیچے کی طرف چل دیا اور پھر وہ جیسے ہی چلا گیا ماہ رخ کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ ابھری۔ جان بوجھ کر مارا گیا نشانہ واقعی تیر پر لگا تھا۔ وہ زیر لب گنگناتی نیچے کی جانب چل دی۔
───── ⋆⋅☆⋅⋆ ─────
وہ جب نیچے پہنچی تو فرح اسی کے انتظار میں تھیں۔ اسے آتا دیکھ انھوں نے طنز و تیر کی بوچھاڑ کر دی جسے اوپر ریلنگ سے لگ جے کھڑے معاذ نے دلچسپی سے دیکھا تھا۔ اس کے دل میں ٹھنڈک سی اترنے لگی تھی۔ اسے اچھے سے سب کے سامنے لتھارنے کے بعد فرح بیگم رات کے کھانے کی ذمہ داری اسے سونپ کر اپنی جیٹھانی اور دیورانی سمیت کزن کے گھر ان کی عیادت کے لیے چل دیں۔ ماہ رخ ٹھنڈی آہیں بھرتی کچن کی طرف چل دی۔
───── ⋆⋅☆⋅⋆ ─────
ماہ گل اپنے کمرے سے تپی ہوئی نکلی اور سیدھی لاؤنج میں بیٹھے عمیر کے سر پر نازل ہوئی۔
"عمیر منحوس میں تمہے چھوڑوں گی نہیں ۔ ۔ ۔ "
"کیوں اب میں نے کیا کیا ؟"
معصومیت ہی معصومیت تھی جس کا خاتمہ عمیر نعمان پر ہوتا تھا ۔نہایت ہی معصومیت سے دیا گیا جواب ماہ گل کو تپا ہی گیا ۔
"ہانکو مت مجھے میرے نوٹس واپس کر دو ؛ورنہ چھوٹے بابا کو بتا دوں گی ۔ ۔ "
اور عمیر نے فورا اسے نوٹس تھما دیے ۔
""حد کرتی ہو گل اتنی لاپروا ہو تم نسرین نے دیے تھے مجھے صوفے کے نیچے سے ملے تھے کہہ رہی تھی یہ فضول کاغذ ہیں شکر کروکہ میں وہیں تھا "
اور ہمیشہ کی طرح ماہ گل بیوقوف بن گئی ۔
"تھینک یو عمیر تمہے نہیں پتا تم نے مجھے کتنے بڑے پرابلم سے بچا لیا ہے ۔ ۔"
اور عمیر ایک دفع پھر دل ہی دل میں خوش ہو گیا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سحر دو... دو سیڑھیاں ایک ساتھ پھلانگتی داخلی دروازے سے گزرنے لگی کہ اسی وقت سامنے سے آتے نمیر سے ٹکرا گئی ۔
"سوری نمیر بھائی۔۔!!"
دنیا جہاں کی معصومیت چہرے پر سجاتے ہوے سحر نے کہا ۔
"ٹھیک ہے مگر دیکھ کر چلا کرو گر جاتی تو؟"
ڈاکٹر صاحب احتیاط کی تدبیریں دیتے وہاں سے چل دیے یہ جانے بغیر کہ اس بار چونا انہیں کو لگا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"لڑکیوں ؛؛؛؛"
"تیار ہو جاؤ آج میں سحر نعمان تم تینوں کنگھلیوں کو نا صرف شاپنگ کرواؤں گی بلکہ کھانا بھی کھلاؤں گی وہ بھی مفت۔۔!!!"
وہ تینوں جلدی جلدی تیار ہوئیں مبادا سحر کا ارادہ ہی نابدل جائے ۔وہ کہاں اتنی مہربان ہوتی تھی ؟
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شام سے پہلے وہ لوگ خوب شاپنگ کر کے واپس لوٹیں ۔لنچ وہ باہر سے کر چکی تھیں۔
آج سحر مہربان کیوں ہوئی یہ جاننے کی بھی کوشش نا کی گئی ۔
"ھش ۔ ۔ ۔!!! لگتا ہے سب سوے ہوے ہیں "
گھر میں خاموشی دیکھ کر سمرن نے کہا"
"ہاں اور شائد معاذ چلغوزہ ابھی آفس سے ہی نہیں آیا مگر یہ عمیر کہاں رہ گیا ؟"
ماہ رخ نے معاذ کے بارے میں اپنے نیک خیالات کا اظہار کیا تو سب کو اپنی طرف گھورتا پا کر ہڑبڑائی ۔
کیا ۔ ۔ ۔ ؟؟؟؟
"بجو کچھ شرم ہی کر لیں میرے سامنے تو نا کہیں کچھ آخر میرے بھائی ہیں وہ ۔ ۔ ۔ ۔"
سمرن روہانسی ہوئی ۔
"اور کیا اچھے بھلے جہاں سکندر جیسے لڑکے کو منٹ میں کیا بنا دیا ؟"
سحر تو خاصا صدمہ لے چکی تھی ماہ رخ نے ماہ گل کو دیکھا تو وہ اسے گھور رہی تھی ۔
"چھوڑ دو اس فضول آدمی کا تذکرہ "
ماہ رخ غصے میں واک اوٹ کر گئی .
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"افففف کہاں رہ گیا یہ منحوس انسان ؟کتنی در لگا رہا ہے آنے میں سب سمجھتی ہوں اس کے چونچلے حد ہو گئی ہے۔اتنی بھوک لگی ہے یہی اصول رہا نا میں بتا رہی ہوں میں بھوک سے مر ہی جاؤں گی ایک دن "
ماہ رخ کی زبان جو چلنا شروع ہوئی تو کہاں رکی ؟
"بس کرو لڑکی داجی نے سن لیا تو کہیں گے کہ لڑکی اپنے شوہر کی محبت میں ڈوب چکی ہے اب ان کی دوری مجھ سے برداشت نہیں ہوتی لہذا رخصتی کروا دو "
سحر نے اسے چھیڑا ۔
"مرو تم سحر جب بولنا فضول بولنا ۔۔۔!!!"
اس وقت سب کھانے کی میز پر بیٹھے معاذ کا انتظار کر رہے تھے جو ابھی آفس سے واپس آیا تھا اور چینج کرنے گیا تھا ۔
"اسلام علیکم ۔۔!!"
معاذ نے داجی کے ساتھ والی کرسی کھینچتے ہوے کہا ۔
"وعلیکم اسلام ۔۔۔!!کیسا ہے میرا شیر ؟" داجی نے معاذ کا کندھا تھپتھپاتے ہوے کہا ۔
لفظ "شیر " پر ماہ رخ کے لئے اپنی ہنسی کو بریک لگانا مشکل ہو گیا اور اس نے ہنسی روکنے کی کوشش بھی نا کی ۔
"ہاہاہاہا ۔ ۔"
سب کو اپنی طرف گھورتا پا کر اس کی ہنسی کو بریک لگے اور اس نے جھٹ سے پانی کا گلاس منہ کو لگا لیا ۔اورشاید یہی اس کی بہت بڑی غلطی تھی ۔پانی کا گھونٹ بھرتے ہوے اس نے ایک نظر سامنے بیٹھے نک سک سے تیار معاذ شیر خان
کو دیکھا ۔اور پھر ۔ ۔۔۔
معاذ خان پانی پانی ہو گئے شرم سے نہیں ماہ رخ کے منہ سے نکلنے والے پانی کے فوارے سے۔
"ڈیم اٹ۔۔یہ کیا کیا بےوقوف لڑکی تم نے ۔۔؟ ہاں بولو ؟"
وہ ایک دم پھٹ پڑا ۔
"وہ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ میں یہ وہ"
ماہ رخ کو سمجھ نا آئے وہ اسے کیا جواب دے ۔
"کیا ؟؟ غلطی سے ہو گیا ہے نا"
معاذ کے گھور کر کہنے پر ماہ رخ بوکھلا گئی ۔ ۔
"چپ رہو معاذ ہماری گڑیا کو کیا ڈانٹو جا کر لباس تبدیل کر لو شائد ہم زیادہ بول گئے ہیں ۔ "
داجی نے مسکراہٹ دباتے ہوے سنجیدگی سے کہا ۔
سب کے دبے دبے قهقے گونجے ۔
"داجی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "
معاذ روہانسا ہوا ۔ پھر ماہ رخ کی طرف مڑا ۔
"چلیں بیگم صاحب ذرا یہ سوٹ دھو دی جیے آکر "
معاذ نے دانت پیسے ۔
"م ۔ ۔ ۔ ۔ میں کیوں آوں؟آپ کے ہاتھ پاؤں ٹوٹے تو نہیں ہیں ۔ ۔ "
وہ ترکی به ترکی بولی ۔
"شرم کرو ماہ تمہارا شوہر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ جاؤ اور دھو کر آؤ شرٹ "
داجی نے اسے گھورا ۔مرتی کیا نا کرتی معاذ کو گھور کر کرسی سے اٹھی ۔
"جی اچھا داجی۔۔۔!چلیں شوہر جی۔۔!!"
وہ شوہر جی پر زور دیتے ہوے بولی ۔
جب کہ سحر اور عمیر نے ایک دوسرے کو آنکھوں میں اشارے کیے۔۔۔۔۔ اب ماہ رخ کی خیر نہیں والے اشارے ۔
۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ نیچے کیا بکواس کی آپ نے؟"شرٹ دھو دو"میں دھوبن ہوں ؟
ماہ رخ کمرے میں پہنچ کر چیخی ۔
"اچھا میں نے بکواس کی تو تم نے جو حرکت کی اس کا کیا ۔ ۔ ۔ ؟؟؟"
معاذ تپ چکا تھا ۔۔یہ لڑکی ۔۔۔۔!!!
'ہاہاہاہا شیر خان ۔ ۔ ۔ "
ماہ رخ پھر ہسنے لگی۔
"یہ ۔ ۔ یہ ۔ ۔ یہ کیا کر رہے ہیں آپ ؟"
معاذ کو شرٹ اتارتا دیکھ کر ماہ رخ بوکھلا گئی ۔ معاذ نے ایک نظر اسے دیکھا جو آنکھیں میچ کر کر کھڑی تھی ۔ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتا وہ ماہ رخ تک پہنچا ۔
"تمہاری ذہنیت پر افسوس ہو رہا ہے "
معاذ کی بات پر ماہ رخ نے اپنی آنکھیں کھولی ۔ وہ تاسف سے اسے ہی دیکھ رہا تھا
"م ۔ ۔ ۔ میں میں نے کیا کیا؟ شرم تو آپ کو آنی چاہیے کسی لڑکی کے سامنے آکر سکس پیکس دکھانے سے پہلے ۔ اپنی حرکتوں پر افسوس کریں "
وہ ماہ رخ ہی کیا جسے عقل آجائے ۔ ماہ رخ اپنی پرانی جون میں لوٹ چکی تھی ۔
اس کی بات سن کر معاذ کا قهقہہ بے ساختہ تھا۔
"آہستہ ہنس لیں کیا ڈنگروں کی طرح ہنس رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ "
وہ دل میں بولی ۔
"ہنس کیوں رہے ہو تم ؟"
"ہاں ہوتا میں شرمندہ ۔۔۔۔اگر وہ لڑکی میری بیوی نا ہوتی ۔مگر تم تو میری بیوی ہو نا ۔۔"
"تم سمجھتے کیا ہو خود کو ؟"
"آپ کا شوہر ۔ ۔ ۔۔!!!"
اور ہاں لڑکی تم یا آپ کوئی ایک لفظ استعمال کر لیا کرو ۔"
حلانکہ معاذ اچھی طرح جانتا تھا کے جب وہ اس ناراض ہوتی تو اسے تم کہتی تھی اور نکاح کے بعد تو ایسے خوش نصیب موقع بہت کم آئے کہ وہ اسے آپ کہتی ۔۔
"اچھا یہ شرٹ میں نے اس لئے اتاری تھی کہ ۔ ۔ "
معاذ نے اسے دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔
"کہ ۔ ۔ ۔ ۔؟؟؟"
ماہ رخ نے پوچھا ۔
"کہ شائد تم اسے دھونے ہی آئی تھی ہے نا ؟"
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوے بولا ۔
"ہاں ہاں ۔ ۔ ۔ "
ماہ رخ جی بھر کر شرمندہ ہوئی اور شرٹ لے کر دھوڑ گئی ۔
"پاگل لڑکی ۔۔۔"
معاذ نے ہنستے ہوے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔
کپڑے بدل کر معاذ نیچے آیا تو سب ہال میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔
"کیا ہو رہا ہے ؟"
معاذ نے عمیر کے ساتھ بیٹھتے ہوے کہا
"اور دانت اندر کیوں نہیں ہو رہے تمہارے؟ "
"بات ہی کچھ ایسی ہے بھائی ۔۔!!"
عمیر خوشی سے بولا ۔
"اچھا میں بھی سنو ایسی کیا بات ہے ؟"
معاذ نے چائے کا کپ لبوں سے لگاتے ہوے کہا ۔
"دراصل پرسوں سعد آرہا ہے اس کی پی ایچ ڈی کمپلیٹ ہو گئی ہے ماشاللہ سے "
عمیر نے تفصیل سے آگاہ کیا ۔
معاذ ایک دم خوش ہو گیا ۔۔ پچھلے کچھ دن مصروفیت کے باعث اس کی سعد سے بات نا ہو سکی تھی ۔
"کیا سچ میں داجی """"
معاذ نے خوش ہوتے ہوے کہا ۔
"جی بلکل ابھی ہمیں اس کا فون آیا تھا
خدا کرے وہ خیر و عافیت سے پہنچے ۔ "
"آمین "
سب نے یک زبان ہو کر کہا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"بھابھی ۔۔۔۔"
فرح نے نمرہ بیگم کو بلایا جو کچن میں موجود تھیں ۔
"جی ؟"
نمرہ نے ان کی طرف رخ موڑا ۔
"وہ ابا حضور نے ہمیں یاد کیا ہے"
"خیریت ہے نا؟
چولہے کی آنچ مدھم کرتے ہوے نمرہ بیگم نے پوچھا ۔
"پتا نہیں بھابی وقار اور توصیف بھائی بھی وہیں ہیں ۔ "
وہ پریشانی سے بولیں ۔
"چلو ہم بھی چل کر دیکھ لیتے ہیں "
فرح بیگم اور نمرہ ایک دوسری کے پیچھے کچن سے نکلیں۔
"ابا حضور کیا ہم اندر آسکتی ہیں ؟"
فرح بیگم نے اجازت مانگی۔
"اؤ بیٹا آجاؤ تم لوگوں کا ہی انتظار کر رہے تھے۔ "
اپنی مخصوص مسکراہٹ لبوں پر سجاتے ہوے آفتاب صاحب نے انھے دیکھا ۔
"میں نے ایک فیصلہ کیا ہے ""
کچھ لمحے بعد وہ بولے ۔
"کیسا فیصلہ ابا حضور ؟"
نمرہ بیگم نے تجسس سے پوچھا ۔
فرح بیگم نے وقار صاحب کی طرف دیکھا تو انہوں نے کندھے اچکا دیے جیسے کہہ رہے ھوں مجھے بھی نہیں معلوم ۔
"ماشاء اللّه ۔۔۔ اب ہمارے بچے بڑے ہو گئے ہیں اور اپنی ذمہ داریاں سمبھالنے کے قابل ہو گئے ہے میں چاہتا ہوں کہ "ماہ رخ کی رخصتی کر دی جائے"اور پھر سعد بھی واپس آرہا ہے یہی ٹھیک رہے گا "تو کیا خیال ہے وقار میاں ۔ ۔ ؟؟"
انہوں نے گردن گھما کر وقار صاحب کی طرف دیکھا ۔
"جو آپ کو ٹھیک لگے ابا حضور "
وقار صاحب نے فرماں برداری سے جواب دیا؛
"تو پھر طے پایا کہ ٹھیک تین ہفتوں بعد رخصتی کر دی جائے گی ۔کیا کسی کو کوئی اعتراض ہے؟؟؟"
ابا حضور نے پوچھا؛فیصلہ تو ہو چکا تھا انھیں تو بس آگاہ کرنا تھا ۔
"وہ سب ٹھیک ہے مگر ابا اتنی جلدی سب تیاریاں کیسے ہوں گی ؟؟"
نمرہ بیگم اور فرح بیگم نے ایک ساتھ پوچھا۔
"ارے بیٹا کیسی باتیں کر رہی ہو اس نے کون سا ایک ملک سے دوسرے ملک جانا ہے بس ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک ہی جانا ہے"بس جو تھوڑی بہت تیاریاں کرنی ہے وہ نپٹاو ۔۔!!"
"جی ابا حضور۔۔۔!!!!"
انہوں نے چشمہ درست کیا اور کتاب دوبارہ اٹھا لی ۔اشارہ تھا کہ اب سب جا سکتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مجھے تو دال میں کچھ کالا لگتا ہے "
کیا مطلب ؟؟؟
عمیر کے کہنے پر ماہ رخ نے اچھّنبے سے پوچھا.
"اوہو ۔ ۔ ۔ اس کا مطلب ہے کہ آج دوپہر سے ہی گھر کے بڑوں اور داجی کی میٹنگ چل رہی ہے!"
جواب عمیر کے بجاے سحر نے دیا۔۔۔
"پہلے تو بس بڑے بابا اور مما، بابا کی داجی سے میٹنگ چل رہی تھی بعد میں بقیہ افراد کو بھی طلب کر لیا گیا۔"
ماہ گل نے انکشاف کیا۔
"ایسی بھی کیا بات ہے جو میٹنگ چل رہی ہے؟"
ماہ رخ نے پریشانی سے کہا اسے خطرے کی گھنٹیاں بجتی سنائی دے رہی تھیں ۔
آج اتوار تھا اور سب بچے لان میں بیٹھے تھے۔لاہور کا موسم بھی آج، کل خاصا خوش گوار ہو رہا تھا ۔ماہ رخ،ماہ گل ،سحر ،عمیر ،اور سمرن ایک طرف گھاس پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے ۔ ان سے چند فاصلے پر بیٹھا معاذ اپنے لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا مگر کان انہیں کی طرف لگا رکھے تھے ؛۔وہ گاہے بگاہے ایک نظر انھیں بھی دیکھ لیتا۔آج سنڈے ہونے کے سبب معاذ بھی فارغ تھا۔نمیر ابھی ہسپتال سے ہی نہیں لوٹا تھا ارجنٹ کیس کے سلسلے میں اسے فورا جانا پڑا تھا۔
"اہ تو ماہ رخ مادام بھی پریشان ہوتی ہیں ۔ ۔ "
ماہ رخ کو دیکھتے ہوے معاذ نے سوچا ۔
پھر رات کا واقع یاد آنے پر مسکراہٹ خود باخود اس کے ہونٹوں پر عود آئی ۔ ہلکے نیلے رنگ کے سوٹ میں کھلے بالوں والی وہ لڑکی معاذ کو موسم کا ہی ایک حصہ لگی ۔اپنے دل کی اس حالت پر معاذ خود بھی بہت حیران ہوا مگر جلد ہی اپنی حیرانی پر قابو پاتے ہوے دوبارہ کام کی طرف متوجہ ہو گیا۔دفعتاً چوکی دار نے ہارن کی آواز سن کر گیٹ وا کیا تو نمیر کی گاڑی اندر داخل ہوئی ۔ نمیر گاڑی کا دروازہ بند کرتا انہی کی طرف چلا آیا۔
"اسلام علیکم" کیا ہو رہا ہے""؟
نمیر نے انھیں مخاطب کیا۔
"نمیر بھائی دیکھیں موسم کتنا خوبصورت ہو رہا ہے ہمیں آئس کریم کھلا لائیں بھائی پلیز"
"آپ کی محنت کی حلال روزی کھانا چاہتے ہیں ہم سب"
ماہ رخ نےمنت آمیز لہجے میں کہا اور ایک نظر معاذ کو بھی دیکھا ۔
"کیا مطلب باقی سب حرام کماتے ہیں میں حرام کماتا ہوں ؟"
معاذ نے حیرت سے پوچھا ۔پتا نہیں کیوں آج کل معاذ کا دل چاہتا کہ وہ ماہ رخ سے لڑے نجانے کیوں اب وہ یہ سب بہت انجوئے کرنے لگا تھا۔جانتا تھا کہ ابھی بھی ماہ رخ نے نارمل بات کی ہے۔ مگر لڑنا بھی تو تھا نا؟
"چور کی داڑھی میں تنکا "
ماہ رخ نے دوبدو کہا۔
"مگر ماہ رخ معاذ کی تو داڑھی ہے ہی نہیں"
عمیر نے سب کو اہم بات بتانا چاہی ۔
"ہمیشہ ہانکا ہی کرو تم۔ سب سے انوکھی بات کیا کرو۔ حد ہو گئی ماہ نے صرف محاورا بولا ہے۔اگر پڑھتے وقت ٹیچر کو کم دیکھتے تو شائد آج کچھ پتا ہوتا؛"
ماہ گل نے سر پیٹھتے ہوے کہا ۔
"کہاں یار اردو کی ٹیچر بوڑھی تھیں دیکھنے والی تو انگلش کی ٹیچر تھیں"اہ نیچرل بیوٹی"
"ہنن ۔۔ تم سے اور کسی طرح کی امید رکھی بھی نہیں جا سکتی "
ماہ گل نے ناک سکوڑا ۔۔۔
"تم جل رہی ہو میرے ہونے والے بچوں کی ماں؟"
ماہ گل اور عمیر کی بات بچپن سے ہی طے تھی۔عمیر کی معنی خیز بات پر ماہ گل کا چہرہ غصے اور شرم سے بیک وقت لال ہوا تھا ۔تبھی سب کی اوہو کی آوازوں نے ماہ گل کو مزید شرمندہ کر دیا۔
"کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے مگر افسوس تمہے کیا پتا وہ کیا ہوتی ہے ؟؟اس وقت کہاں تھے تم جب عقل بانٹی جا رہی تھی؟"
ماہ گل نے تپ کر کہا۔
"تمہیں ڈھونڈھ رہا تھا ۔"
"مجھے کیوں ڈھونڈ رہے تھے تم ؟"
"اس لئے ڈھونڈ رہا تھا کہ اتفاق سے جہاں عقل بانٹی جا رہی تھی تم بھی مجھے وہاں نہیں دکھی"
عمیر نے دانتوں کی نمائش کرتے ہوے کہا۔
"اوہو جہاں چھوڑ کر گیا تھا وہیں ہو سب کے سب "
"تم لوگ لڑنا بند کرو آؤ چلیں "
نمیر نے کہا اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
سحر البتہ پریشان ہو گئی ۔
"افففف لگتا کل کی انہیں فرصت ہی نہیں ملی کہ اپنا بٹوا چیک کر لیں"""
"عمیر میرے بھائی "
وہ عمیر کے قریب جھکی ۔
"کیا ہے ؟"
"بٹوا لے لیا تم نے اپنا ؟"
"کیوں ؟؟اہ سمجھ گیا تمہاری نظر ہے اس پر جان لو یہ میرا تیسرا بٹوا ہے بلکہ ٹھہرو تم لوگوں کا ارادہ ہے کہ پہلے آئس کریم کھاؤ اور پھر معصوم سی بوتھتیاں نکل کر کہیں گی لگے ہاتھوں شاپنگ بھی کروا دیں"
"ہممممم ایسے جیسے میں تم لوگوں کو جانتا ہی نہیں "
نخوت سے کہتے ہوے وہ مڑا اور معاذ کو اپنا بٹوا بطور امانت رکھوا آیا۔
"آج ہم سب نمیر بھائی کو لوٹیں گے "کیسا؟
"جو لٹ چکا اسے کیا لوٹو گے صنم "
سحر نے آہستہ سے کہا۔
کیا ؟
عمیر نے پوچھا ۔
"کچھ نہیں چلو لوٹیں بھائی نمیر کو"
سحر چل پڑی ۔
"نمیر بھائی سوچ لیں مہنگا پڑے گا آپ کو آج کا دن "
ماہ گل نے ہنستے ہوے کہا
سوچ لیا ۔۔!!
جوابا ڈاکٹر صاحب بھی مسکرا دیے ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"چلو اترو جاؤ تم لوگ میں گاڑی پارک کر کے ابھی آتا ہوں ۔"
نمیر کے کہنے پر سب آئس کریم پالر کی طرف چل دیے ۔ ۔
"بولو کون سی آئس کریم کھاؤ گے اور کتنی کھاؤ گے ۔ ۔ ۔ ؟"
نمیر نے اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوے پوچھا۔ اور ایک نظر مینو کارڈ پر دھوڑائی ۔ ۔
"ایک ہی کھلا دیں بھائی بڑی بات ہو گی "
سحر نے کہا جانتی تھی کہ ایک کھلانے کے پیسے بھی نا ہوں گے ۔
"کیوں تمہے کیا ہے ہم دو ہی کھائیں گئے ؛"
عمیر نے تنک کر کہا ۔
"ہاں جی ۔۔۔!!! اور وہ بھی چاکلیٹ فلیور" "نمرہ جی کے بقول :
"دنیا میں چاکلیٹ اور محبت سے زیادہ کوئی دوسری ممنوعہ شے اتنی لذیز نہیں ہوتی شاید "
"""اففف ایک تو تم لڑکیاں اور تم لوگوں کی ناول پڑھنے کی عادت ۔غالباً اب تمہاری نمرہ جی کا تعلق ناول سے ہو گا ہے نا "
"خبر دار اگر نمرہ جی کو کچھ الٹا سیدھا بولا تو ۔میں بھول جاؤں گی میں آپ سے چھوٹی ہوں اور یہ جتنے بال بچے ہیں نا ڈاکٹر بننے کے بعد سارے اتار دوں گی"
سحر نے دھمکی دی۔
سحر کی دھمکی پر سب نے نمیر کے بالوں کو دیکھا جو گھنے تھے تو پھر سحر نے کن بالوں کے جھڑنے کی بات کی؟
"اچھا پھینکی ہو گی "
سب نے سوچا ۔
"بھائی نمیر کھلا دیں ورنہ یہ چڑیلیں ہمیں کھا جائیں گی ۔"
عمیر کے کہنے پر نمیر نے جلدی جلدی ویٹر کو بلا کر آرڈر دیا۔
"چلیں "
آئس کریم کھانے کے بعد ماہ رخ نے کہا۔
"ٹھہرو مجھے بل پے کرنے دو "
"افف۔۔۔ میرا بٹوا کہاں گیا؟ "
جب سب جیبیں ٹٹولنے کے بعد بھی نمیر کو اپنا بٹوا نا ملا تو وہ پریشان ہو گیا ۔
"ٹھیک سے دیکھیں نمیر بھائی میں بھی اپنا بٹوا نہیں لایا ۔"
اب کہ عمیر بھی پریشان ہوا ایک شک کی نظر سحر پہ ڈالی جو رخ موڑ کر بیٹھ گئی ۔
"کیا تم بھی اپنا بٹوا نہیں لائے؟"
نمیر نے صدمے کے زیر اثر پوچھا ۔
"بھائی آپ چیک تو کر لیتے ؟"
"یار ایمرجنسی میں ہسپتال گیا تھا میں صبح ۔دوسرا کوٹ پہنا تھا ۔یہاں آتے وقت یہ پہن لیا مگر حیرت کی بات ہے میرا بٹوا گیا تو گیا کہاں ؟"
"چھوڑیں بٹوے کو فلحال یہ سوچیں واپس کیسے جانا ہے ؟"
سحر نے پوچھا ۔
'آئیڈیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "
"سحر ہم وہی 420 ڈرامہ کر لیں ممکن ہے کام کر جائے ۔ ۔ ۔ "
"ارے ہاں مجھے کیوں یاد نہیں آیا "
کیا ؟؟؟؟؟
نمیر نے پوچھا ۔
"بس چپ کریں اور ہمیں دیکھیں "
"ویٹر۔۔۔!!!"
یس مادام ۔ ۔!!!
"یہ ساتھ والے ٹیبل پر شاہرخ اور جہانگیر بیٹھے ایکچولی ہمارے فرینڈز ہیں ۔ "
ساتھ ہی اس نے ایک نظر انھیں دیکھا ماہ رخ کے اشارہ کرنے پر وہ دونوں بھی اسے دیکھنے لگے ۔ ان کے دیکھنے پر ماہ رخ اور سحر نے ہاتھ ہلایا ۔جواباً حیرانی کی حالت میں انہوں نے بھی ہاتھ ہلایا ۔
"آج میری برتھڈے تھی تو شاہ رخ نے ٹریٹ دی سب کو میری طرف سے جگہ کم تھی سو وہ وہاں بیٹھ گئے ۔ ۔ ۔ "
"ہم جا رہے ہیں آپ بل ان سے کلیر کر لیں '
اوکے مادام ۔۔!!!
"چلو "
ماہ رخ کے کہنے پر سب دم دبا کر باہر بھاگے ۔
"اف کیا چیز ہو تم دونوں؟ شاہرخ اور جہانگیر ہاہاہاہا ۔ ۔ "
واپسی پر سارے راستے وہ ہنستے۔ رہے اردگرد سے گزرتے لوگوں نے حیرت سے مڑ مڑ کر ان پاگلوں کو دیکھا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"شاہرخ سر آپ کے فرینڈز کا بل اس میں رکھ دیں"
ویٹر نے مینو کارڈ ان کی طرف بڑھایا ۔
""کون میں ؟؟؟؟"
"جی آپ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "
"دیکھیں آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے نا ہی میں کوئی بولی ووڈ کا ہیرو ہوں اور نا یہ مغل بادشاہ میں اشرف ہوں اور یہ رمضان "
اس شخص نے اپنا تعارف کروایا ۔
"سر وی ار نوٹ رسپونسیبل "" ابھی جن مادام کو آپ نے ہاتھ ہلایا انھیں نے بتایا "
کیا ؟؟؟؟؟
یس سر ۔۔!!!
"اشرف دے دے بل ہم برا پھنسے تیری دیکھا دیکھی ہلایا تھا میں نے ہاتھ "
رمضان نے منہ بسورا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سورج کی کرنیں خان لاج پر اتریں ۔آج سعد کو آنا تھا ۔
ساری تیاری مکمل ہو گئی ہے بھابھی ؟
جی ہو گئی ہے ۔ ۔ ۔ ۔!!
نمرہ نے فرح بیگم سے پوچھا تو انہوں نے کہا ۔
"معاذ اور نمیر سعد کو رسیو کرنے داجی کے ساتھ ایئر پورٹ گئے ہیں پہنچنے والے ہوں گے ہم بھی کپڑے تبدیل کر لیں ۔"
نمرہ بیگم نے کچن سے نکلتے ہوے کہا ۔
"اور سعد کا کمرہ صاف کروا دیا کیا ؟"
نمرہ آخر کو ماں تھیں فکر مندی سے سب پوچھ رہی تھیں ۔بیٹا بھی تو کتنے عرصے بعد دیار غیر سے آرہا تھا ۔
"جی وہ ماہ رخ نے صبح ہی صاف کر دیا تھا ۔۔"
"ہممممم ٹھیک ہے ۔ "
وہ مطمئن ہوئیں ۔اب بے صبری سے انھیں اپنے بیٹے کا انتظار تھا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔
جیسے ہی پورچ میں گاڑی رکنے کی آواز آئی سب ہی باہر کی طرف بڑھے ۔
"السلام علیکم "
کسرتی جسم،سفید رنگ،کلین شیو ،بھورے بال،پینٹ شرٹ پہنے ہوے سعد بہت خوبرو جوان تھا۔
"وعلیکم السلام ۔۔! اللّه کا لاکھ ، لاکھ شکر ہمارا بچہ سہی سلامت واپس آگیا "
نمرہ بیگم نے خوشی سے آنکھوں کے بھیگیے گوشے صاف کیے ۔
"افففف مما گلے نہیں لگائیں گی "
سعد نے فرمائش کی ۔
"میرا بچہ ماں صدقے"
نمرہ بیگم نے اسے خود سے لپٹایا۔
"افف۔۔ کچھ لوگ سڑ رہے ہیں معاذ بھائی اتنا تو نا سڑیں "
سعد نے آنکھ دباتے ہوے شرارت سےکہا ۔
"بدمعاش کہیں کا بلکل نہیں بدلا"
داجی نے ہنستے ہوے کہا ۔وہ سعد کی شرارت کو سمجھ رہے تھے ۔بچپن سے ہی وہ معاذ کو ایسے چڑاتا تھا ۔
"بس داجی آپ لوگوں کی محبت نے بدلنے ہی نہیں دیا ورنہ وہاں کا ماحول تو اچھے اچھوں کا ایمان ڈگمگا دے افففف ۔۔۔کیا ماحول تھا وہاں کا ہر طرف حسن۔۔ ہائے قسم سے میری جگہ آپ جاتے نا تو ہماری دوسری دادی لے آتے "
سعد نے آنکھ دباتے ہوے کہا ۔اس کا انداز اور بات سب کو قہقہہ لگانے پر مجبور کر گئی ۔
"بدمعاش کہیں کا۔ "
داجی کھسیانی ہنسی ہنسے ۔
نہیں ذرا بتانا کیسا ماحول تھا۔
داجی کھنکھار کے سنجیدگی سے کھس پس کرنے لگے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔
رات کا کھانا سب نے خوش گوار ماحول میں گپ شپ کے دوران کھایا۔گھر کے بڑے کھانا کھانے کے بعد اپنے کمروں میں چلے گئے تھے جب کہ ابھی تو ینگ پارٹی کا سونے کا کوئی ارادہ نا تھا۔وہ سب اس وقت ٹیرس پر بیٹھے تھے ۔ رات کا اندھیرا ،ہلکی ہلکی ہوا ماحول کو فسوں خیز بنا رہی تھی ۔ایسے میں نمیر اور عمیر سے کل کا واقع سنتے سعد کا فلک شگاف قہقہ فضا میں سکون کے اتعارش کو توڑتا چلا گیا۔
"ہاہاہاہا بھابھی کیا یہ آپ نے کیا ۔ مین سریسلی شاہ رخ اور جہانگیر ۔ ۔ "
سعد ہنس رہا تھا ۔معاذ نے ماہ رخ کی ایک اور نئی حرکت سن کر آنکھیں گھمائیں ۔یہ لڑکی سدھرتی کیوں نہیں ؟
"معاذ صاحب بچ کر رہیں کیا پٹاخہ بیوی ملی ہے آپ کو ۔ ۔ ۔"
معاذ مسلسل ماہ رخ کو گھور رہا تھا جس پر اس گھورنے کا رتی برابر بھی اثر نہیں ہو رہا تھا ۔
"چلو ایک گیم کھیلیں"
سعد نے سب کو موبائل میں گم دیکھ کر ہاتھ ہلایا ۔ سخت زہر لگتا تھا اسے یہ کام ۔جب سب بیٹھے ہیں تو بھلا موبائل کا کیا کام ۔
"کیا ؟؟؟"
سب نے سعد سے پوچھا۔اور موبائل ایک طرف رکھے ۔سعد کی گیمز کو وہ مس کرتے تھے کیوں کہ انھیں کھیلتے ہوے سب بہت انجونے کرتے تھے ۔
"شاعری کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ ۔بہت مس کیا میں نے اس گیم کو "
سعد کو یاد تھا جانے سے کچھ دن پہلے بھی ان سب نے بیٹھ کر یہ کھیل کھیلا تھا ۔اور ماہ رخ جیتی تھی ۔کیوں کہ واحد وہی تھی جسے شاعری سے بہت لگاؤ تھا ۔
"ٹھیک ہے ۔۔۔!!! میں سناتا ہوں پہلا شعر ۔۔۔"
عمیر نے جوش سے کہا ۔
عرض کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔!!!
عمیر نے ہاتھ فضا میں بلند کرتے ہوے لہک کر کہا ۔
ارشاد ارشاد ۔ ۔ ۔ ۔!!!
سب اپنے ہاتھ ماتھے تک لے کر گئے ۔ انداز اسے تعظیم بخشنا تھا ۔
۔ ۔ابتدا میں کتنا معصوم سا ہوتا ہے عشق
ابتدا میں کتنا معصوم سا ہوتا ہے عشق
عمیر نے آنکھیں بند کیے ایک جذب سے کہا ۔سب اسے بہت غور سے سن رہے تھے ۔
واہ واہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!!!
چھوٹا سا کھوتی کا بچہ ہو جیسے
عمیر نے دانت نکوستے ہوے شعر مکمل کیا ۔
"فٹے منہ "
وہ سب جو بہت انہماک سے سن رہے تھے آخر میں اسے دو حرف کہتے معاذ کی طرف مڑے ۔
"اب آپ کی باری "
ماہ گل تالی بجاتے ہوے خوشی سے بولی ۔
عرض کیا ہے ۔۔!!!
"ارشاد ارشاد "
عمیر نے شرارتی انداز میں ماہ رخ کو دیکھتے ہوے کہا جس نے اسے زبان چڑائی ۔
"عشق کو بھی عشق ہو پھر میں دیکھوں عشق کو
کیسے تڑپے کیسے روے پھر عشق اپنے عشق میں "
معاذ نے ماہ رخ کو دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔
"واہ واہ "
سب متاثر ہوے بنا نا رہ سکے ۔معاذ اتنا بھی بے ذوق نہیں تھا ۔
"اب آپ سنائیں بھابھی "
سعد ماہ رخ کی طرف مڑا ۔جو گال پر انگلی رکھے شعر سوچ رہی تھی ۔بلاآخر اسے کل رات انٹرنیٹ پر پڑھا شعر یاد آیا ۔
"جدائی کے دکھ کو اگرچہ ہنس کر سہنا تھا
اسے رسمی ہی سہی مگر خدا حافظ تو کہنا تھا "
معاذ نے بغور اسے دیکھا ۔کالے سے سادے جوڑے میں بھی وہ غضب ڈھا رہی تھی ۔
"اوہو پریشان نا ہوں بھابھی کوئی کسی کو نہیں چھوڑ رہا"
سعد نے ہنستے ہوے کہا ۔وہ میٹنگ کے بارے میں جان چکا تھا ۔
کیا مطلب ؟؟
ماہ رخ نے اچھنبے پوچھا ۔معاذ بھی سعد کو دیکھنے لگا ۔
سعد نے مختصر انھیں ساری بات بتا دی ۔
"اور تمہیں کس نے بتایا ؟"
معاذ نے حیرانگی سے پوچھا ۔ سعد نے کان کھجایا ۔
"وہ کان لگا کر سنی ہیں "
سب نے اسے گھورا ۔
"اچھا نا سوری ۔بھابھی آپ کچھ بولیں "
سعد نے ماہ رخ کو دیکھا جو حیران بیٹھی تھی ۔
"کیا؟ داجی مجھ سے پوچھے بغیر میری زندگی کا اتنا اہم فیصلہ کیسے لے سکتے ہیں؟"
ماہ رخ تو گویا صدمے میں تھی ۔ہوش میں آتے ہی چلا اٹھی ۔بے ساختہ معاذ نے کانوں میں انگلیاں دیں ۔
"صرف تمہاری زندگی کا فیصلہ ؟میری زندگی نہیں ہے؟ میرے خواب نہیں؟تم تو اس طرح ریکٹ کر رہی ہو جیسے صرف تمہاری زندگی داوء پر لگی ہے؟رخصتی تو تمہاری میرے ساتھ ہی ہونی ہے نا؟میں کروں گا تمہیں برداشت ۔ویسے ہی تم بھی کر لینا ۔اور اس میں حیران ہونے کی کیا بات ہے ۔ایک نا ایک دن تو یہ ہونا تھا "
معاذ کہاں چپ رہتا۔ ناجانے یہ اوورریکٹ کیوں کر رہی ہے ؟
"اووہ چپ کریں آپ دونوں.داجی کو آپ دونوں کے نیک خیالات سے آگاہ کرنا پڑے گا "
سعد نے دونوں کو ڈرانا چاہا ۔جانتا تھا دونوں کی ہوا داجی کے سامنے نکل جاتی ہے ۔
"دیکھو ایسا کچھ مت کرنا جس سے داجی کو دکھ پہنچے."
نمیر نے ان دونوں کو وارن کیا۔ وہ بہت کم بولتا تھا ۔مگر جب بھی بولتا نصیحت ہی کرتا تھا ۔
"میں تو کچھ نہیں کہوں گا پر ان محترمہ کے دماغ میں کیا چل رہا ہے اس بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا"
معاز نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔یعنی وہ سارا بوجھ کھوس پر سے اتار کر اس پر ڈال رہا تھا ۔
"واوء یہاں بھی آپ نام بنانا چاہتے ہیں نا۔ آپ کو لگتا ہے میں داجی کو منع کر دوں گی اور سب کی نطروں میں بری بن جاوں گی ۔ اور آپ منع نہ کر کے اچھے بن جائیں گے نہیں ہرگز نہیں ۔اب ایسے تو ایسے ہی سہی"
ماہ رخ نے معاذ کو گھورتے ہوے کہا.
"محفل برخاست کی جاتی ہے.۔کیونکہ ماحول میں تناؤ بڑھ چکا ہے.."
عمیر کی بات پہ سب ہنستے ہوئے اپنے کمروں کی طرف بڑھ گئے ۔ ویسے بھی کافی رات ہو گئی تھی ۔معاذ بھی ماہ رخ کو ایک نظر دیکھتا چلا گیا ۔
" چلو ماہ رات بہت ہوگئی ہے چلو اندر چلو."
سحر نے بے چین سی کھڑی ماہ رخ سے کہا ۔
"سحر تم جاو میں کچھ وقت اکیلے گزارنا چاھتی ہوں "
ماہ رخ آہستہ آواز میں بولی ۔اتنی آہستہ کہ سحر بمشکل سن پائی ۔
"ٹھیک ہے جلدی آنا."
سحر کہتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی ۔
ماہ رخ کو وقت کھینچ کر ماضی میں لے گیا جسے سوچ کر اسے سب سے زیادہ تکلیف ہوتی تھی ۔معاذ سے اسے کوئی مسلہ نہیں تھا ۔معاذ کی بے اعتباری سے تھا ۔
YOU ARE READING
دل کی سلطنت✔
Humorمحبت سب کرتے ہیں ۔ بات کرتے ہیں اعتبار کی ۔ کیا جو محبت کرتے ہیں وہ اعتبار بھی کرتے ہیں؟ ۔ ھر رشتے کی بنیاد محبت ہو ضروری نہیں رشتے اعتماد سے بنتے ہیں ۔ معاذ اور ماہ رخ کی محبت میں اعتبار بنیادی شرط ٹھہری ۔ یہ کہانی بھروسے ،وفا اور محبت کی ہے ۔