سعد کی کسی بات پر ہنستے ہوے معاذ کی نظر جب سامنے پڑی تو معاذ ماہ رخ کو دیکھتے ہی بے خود سا ہو گیا ۔ وہ یک ٹک اسے دیکھنے لگا ۔ پیلی کرتی پر ہرا لہنگا،ہرے ہی رنگ کا دوپٹہ جس کے بارڈر پر سنہری کڑھائی تھی ،سر پر لیے ہوے ایک پلو آگے کی طرف کندھوں پر سیٹ کیے اور ایک پیچھے کی طرف ڈالے ہوے ،ہلکا سا پھولوں کا زیور ،خوبصورت میک اپ نے اس کے چہرے کے تیکھے نقوش کو ابھار کر مزید دلنشین بنا دیا تھا ۔،ایک کندھے پر جھولتی اس کی چوٹی پر بھی پھولوں کو لپیٹا گیا تھا ۔ ؛وہ عام دنوں کی نسبت آج بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔
"اھم ۔ ۔ ۔ اھم ۔ ۔ معاذ میاں تمہاری ہی ہے ؛دیکھتے رہنا ساری عمر"
عمیر کی بات پر معاذ عمیر کو گھورتا ادھر، ادھر دیکھنے لگا ۔ماہ رخ اسٹیج پر آچکی تھی اور وہ عمیر کی بات بھی سن چکی تھی ۔
"جب بولنا فضول ہی بولنا عمیر کے بچے ۔ "
سب نے چونک کر ماہ رخ کو دیکھا ۔ جو عمیر کو دیکھتی دانت یوں پیس رہی تھی کہ دانتوں کے درمیان عمیر ہو ۔
اگر معاذ نے یہ توقع رکھ ہی تھی کہ چلو آج ماہ رخ چپ رہے گی تو اس نے معاذ کی اسی توقع کو لپیٹ کر اسی کے منہ پر دے مارا ۔ ۔ "یعنی کہ مجھ سے امید نا رکھنا کہ میں دلہن بن کر بھی خاموش رہوں گی اور کسی کا طنز برداشت کر جاؤں گی ۔۔"اپنی کچھ دیر پہلے کی خوش فہمی پر سر جھٹکتے ہوے معاذ نے اپنا منہ موڑ لیا ۔
"ماہ رخ چپ کر کے بیٹھو مہمان دیکھ رہے ہیں "
ماہ گل نے اسے آنکھیں دکھائیں ۔
"ہممممم مجھے کیا سمجھا رہی ہو اس عمیر کے بچے کو سمجھاؤ نا "
ماہ گل نے عمیر کو دیکھا جو سخت پریشان ہونے کی ایکٹنگ پوری فرما رہے تھے ۔
"ماہ گل کہاں ہے ہمارا بچہ ۔ ۔ تم ۔ ۔ تم نے اتنی بڑی بات مجھ سے چھپائی ۔ میں ۔ ۔ میں تمہے چھوڑوں گا نہیں"
وہ مسکراہٹ دباتا بولا ۔ماہ گل کا چہرہ پل بھر میں خفت سے سرخ ہوا ۔
"ٹہرو ذرا برخوددار ہمیں بھی ہمارے پرپوتے سے ملواو ۔ "
داجی جو کب سے انھیں شرارتیں کرتا دیکھ رہے تھے اسٹیج کی طرف بڑھے تو عمیر کے شوخ جملے ان کے کانوں سے ٹکرائے ۔
"ااا داجی کان تو چھوڑ دیں سب دیکھ رہے ہیں اور وہ سامنے کترینہ کیف جیسی لڑکی بھی دیکھ رہی ہے ۔ ۔ چھوڑ دیں نا داجی ۔ ۔"
"۔شرم کرو ہم تم سے ایسی گفتگو کی بلکل بھی امید نہیں تھی "
داجی نے اسے گھرکا ۔
"داجی بس ایک دفع شادی کروا دیں آپ کو مایوس نہیں کروں گا ۔ ۔ ۔ "
"ہاہاہاہا بے شرم کہیں کا "
داجی ہستے ہوے معاذ اور ماہ رخ کی طرف بڑھے ۔ عمیر کی طبیعت تو بعد میں ان کی لاٹھی ہی ٹھیک کرے گی ۔
"ماشااللّه نظر نا لگے میرے بچوں کو بہت خوبصورت لگ رہے ہو تم دونوں ۔ ۔ "
داجی نے ان پر نوٹ وارے ۔
سحر ،ماہ گل اور سمرن نے مختلف رنگوں کی ایک سے ڈیزائن والی کرتیاں پہنی ہوئی تھیں جن کے ساتھ انہوں نے شرارے پہن رکھے تھے ۔ آہستہ آہستہ سب گھر والوں نے مہندی لگانے کی رسم پوری کی ۔آخر میں پھر سے ساری ینگ پارٹی اسٹیج پر آن دھمکی۔ اور ابٹن لگا لگا اور مٹھائی کھلا ،کھلا کر دونوں کا برا حال کر دیا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"عنایا بیٹا آپ یہاں اکیلی بیٹھی ہیں ؟جائیں اسٹیج پر جائیں ماہ رخ وغیرہ سے بھی مل لیں آپ کا پوچھ رہیں تھیں مجھ سے "
"جی آنٹی ضرور "
فرح بیگم کے خلوص پر وہ مسکراتی ہوی اسٹیج کی طرف بڑھ گئی ۔
-------------------------۔
وہ مسکراتے ہوے اسٹیج پر آئی ۔ ماہ رخ اسے دیکھ کر مسکرائی ۔
"واٹ آ سرپرائز "
ماہ گل اس کے گلے لگتے خوش دلی سے بولی ۔ عنایا دو سال پہلے فرانس گئی تھی ۔وہ یوں اچانک آئی انہیں خبر ہی نہیں ہوئی تھی ۔ عنایا فائن آرٹس کی سٹوڈنٹ تھی ۔
"السلام علیکم ماہ رخ آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں"
وہ ماہ رخ کے ہاتھ پر مہندی لگاتے ہوے بولی ۔
"حد ہو گئی ہے عنایا...مطلب میں پیارا نہیں لگ رہا.؟"
..معاذ نے بھنویں سکیڑتے ہوئے کہا.
" آہاں آپ بھی پیارے لگ رہے ہیں بھائی ویسے معاذ بھائی آپ بہت قسمت والے ہیں جو ماہ رخ جیسی بیوی ملی ہے آپ کو."
عنایا نے خوش دلی سے کہا ۔
"ہے نا عنایا قسمت واقعی اس لنگور پر مہربان ہوئی ہے . وہ ضربالمثل ہے نا...لنگور کے پہلو میں حور..."
ماہ رخ اترا کر بولی ۔
"شرم کریں ماہ رخ اپنے مجازی خدا کی اتنی بے عزتی تو نہ کریں ."
عنایا نے اسے ٹوکا۔
"اف ویسے بندا کتا پال لے بلی پال لے پر کبھی خوش فہمی نہ پالے...حسن پرست لوگ ہننننہ...."
معاذ نے سر جھٹکا.
"یہ عادت تمہاری ہے سب کچھ پالنے کی.."
..ماہ رخ نے تپ کے جواب دیا۔گویا چپ رہنا تو سیکھا ہی نہیں تھا.۔حساب برابر کر کے ہی دم لیتی.
"اف تم لوگ پھر لڑنا شروع ہو گئے داجی کو بتاتی ہوں مطلب کہ حد ہی ہو گئی ہے...."
سحر ان کے لڑنے سے تنگ آ گئی تھی.
"ارے چھوڑو سحر دونوں لڑتے ہی اچھے لگتے ہیں..."
عمیر کی بات سے سب نے اتفاق کیا.سعد جو کہ اندر سے کچھ لینے گیا تھا واپسی پہ معاذ اور ماہ رخ کے ساتھ کسی لڑکی کو ہنستے دیکھ کر اس طرف ہی چلا آیا .اس لڑکی کی اس طرف پشت تھی.اس لڑکی نے بلیک کلر کی لمبی فراک اور ساتھ میں حجاب پہن رکھا تھا .سعد کو ہی آواز کچھ جانی پہچانی سی لگی..وہ سٹیج تک پہنچا.
"اچھا ماہ رخ میں اب ماما پاس چلتی ہوں .."
.یہ کہہ کر عنایا جیسے ہی پلٹی اپنے پیچھے کھڑے سعد کو دیکھ کر حیران رہ گئی ۔سعد کا حال بھی اس سے الگ نا تھا ان دونوں نے بالکل نہیں سوچا تھا کہ وہ دونوں دوبارہ ملیں گے اور اگر ملیں گے بھی تو اس طرح..؟
"تم؟"
عنایا نے اس لڑکے کو گھورا ۔
نک چڑا "
ساتھ ہی اسے دیا لقب بھی یاد آیا ۔
" ارے تم....؟"
..حیرت کی وجہ سے سعد کی زبان گنگ ہو گئی تھی...وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ معصوم سی لڑکی جو پہلی ہی ملاقات میں ہی سعد کا دل بھی لے گئی تھی اسے دوبارہ ملے گی ۔ پر سعد یہ بات ماننے سے انکاری تھا۔
"سعد تم اسے پہچانتے ہو شفق آنٹی کی بیٹی ہیں یہ ۔ عنایا"
"کون شفق آنٹی ؟"
سعد نے الٹا انہیں سے سوال کیا۔
"ارے وہی ماما اور چھوٹی ماما کی فرینڑ اور بابا کی کزن.....اور تمہیں پتا ہے بچپن میں تم دونوں اتنا لڑتے تھے کے کیا بتاوءں.۔ بالکل بھی نہیں بنتی تھی تم دونوں کی.... "
معاذ نے اسے مزے سے بتایا.
"تو ابھی بھی کون سا بنتی ہے.؟"
..سعد زیر لب بڑبڑایا.
"کیا کہا آپ نے.....؟"
"کک.. کچھ .. بھی تو نہیں ..مم میں نے تو کک..کچھ نہیں کہا... میں آتا ہوں ابھی..."
سعد عنایا کے پوچھنے پر گڑبڑا گیا.
سعد نے عنایا کو ایک نظر دیکھا اور اندر چلا گیا۔پھر مڑ کر سب کو دیکھا ۔
عنو اسے کچھ نہیں پتا "
سحر نے ہنستے ہوے کہا ۔
"اچھا پھر تو اور مزہ آنے والا ہے کوئی بتائے گا بھی نہیں "
اس نے انگلی اٹھا کر سب کو وارن کیا پھر مسکراتے ہوے اسٹیج سے اتر آئی ۔گھر کے سارے فرد اندر ایک کمرے میں بیٹھے گپ شپ کے مزے لے رہے تھے اور اب ینگ پارٹی کا ٹائم شروع ہو گیا تھا۔
"سو میرے پیارے چوچے اور معزز چوچیوں اٹھو اور گانے کی تال پہ جھومو."
عمیر نے بے سری آواز میں کمنٹری کرتے ہوے کہا.اس وقت سب مہمان جا چکے تھے اور وہ سب لان میں بیٹے تھے۔معاذ، سعد ،نمیر اور سمرن ایک طرف صوفے پر بیٹھے تھے جبکہ دوسری طرف ماہ رخ، ماہ گل ،عمیر اور سحر ایک ساتھ صوفے پر بیٹھے تھے۔وہ ایک دوسرے کے مقابل بیٹھے تھے ۔
"یہ کام تم بخوبی کر سکتے ہو میری مانو تو مجرا ہی کر لو..."
ماہ گل نے تپ کر کہا ۔
"آپ کی ہی تو مانتا ہے یہ دل بس حکم کریں شیلا کی جوانی،منی کی بدنامی،اور بےبی ڈول کو سونے کی نہ بنا دیا تو اپنے اس عاشق کا نام بدل دینا..."
ماہ گل کے کہنے پر عمیر نے خود کو سر تا پیر پیش کرتے ہوئے کہا.۔
"ہمممممم ...... شودا کہیں کا نا ہو تو...."
ماہ گل کے کہنے پر سب ہنسنے لگے.
"کسی کی ہو نہیں گئی "
سعد شوخ سی سیٹی بجاتے ہوئے کہنے لگا.
"چلو آج معاذ بھائی ہمیں گانا سنائیں گے."
"ہاں معاذ گانا سناوء.."
نمیر نے بھی کہا.سب نے نمیر کی تائید کی ۔
"اچھا چلو میرا گٹار منگوا دو."
معاذ صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوے بولا ۔.
"نسرین خالہ بات سنیں..."
عمیر نے پاس ہی کام کرواتی نسرین کو آواز دی ۔
"جی عمیر بیٹا ...؟"
"وہ معاذ بھائی کے کمرے سے ان کا گٹار لا دیں."
"جی اچھا..."
تھوڑی دیر بعد وہ گٹار کے ساتھ ں نمودار ہوئیں ۔
معاذ نے گٹار پکڑا اور ریلیکس سے انداز میں بیٹھ گیا۔
اس نے ایک نظر ماہ رخ کو دیکھا وہ نظریں جھکائے بیٹھی تھی.۔معاذ نے گٹار پر دو دفعہ ایک مخصوص دھن بجائی.۔یہ تو ماہ رخ کی پسندیدہ دھن تھی... چھوٹے ہوتے معاذ جب بھی گٹار بجاتا تو ماہ رخ کے لیے یہ دھن بجاتا تھا .اس نے معاذ کو دیکھا معاذ اسے ہی دیکھ رہا تھا گہری بولتی نظروں سے ،جو محبت کا پیام دے رہی تھیں ۔معاذ نے انکھیں بند کر کے گانا شروع کیا۔
مجھ میں سفر تو کرتی رہے
ہر اک انس میں گزرتی رہے
شام و صبح تو میرا
تیرے بنا کیا میرا
دو جسم و جاں ایک ہیں
نا ہونا کبھی تو جدا
تیری میری کہانی.....ہے بارشوں کا پانی..
بن کے جو عشق برسے .....
تیری میری کہانی...
تیری میری کہانی.......ہے بارشوں کا پانی. ...
دیکھو نا کیسی اجازت ملی ہے..
اک دوسرے میں حفاظت ملی ہے..
جینے کی ساری ضرورت ملی ہے...
یہ جو بھی جیسا ہے یونہی ہمیشہ ہمیشہ رہے جسطرح..
شام و صبح تو میرا..
تیرے بنا کیا میرا..
دو جسم و جاں ایک ہیں..
نا ہونا کبھی تو جدا. ...
تیری میری کہانی. ...ہے بارشوں کا پانی. ...
بن کے جو عشق برسے...
تیری میری کہانی......
گانا ختم کر کے معاذ نے آنکھیں کھولیں تو وہ وہاں نہیں تھی اسے بہت دکھ ہوا کہ جس کے لیے گایا وہ تو وہاں موجود ہی نہیں تھی اس نے بددل ہو کر داد وصول کی ۔تھوڑی دیر بعد سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے کیونکہ اگلے دن رات کو رخصتی کا فنکشن رکھا گیا تھا تاکہ سب کی تھکن ختم ہو جائے اور فنکشن بھی انجونے کر لیا جائے ۔ماہ رخ بار بار کروٹیں بدل رہی تھی اسے نیند نہیں آ رہی تھی آخر کار تنگ آ کر وہ اٹھی اور آرام سے کافی بنانے کی غرض سے کمرے سے باہر نکل آئی اپنے پیچھے آرام سے دروازہ بند کیا کہ کہیں سحر جو کہ اس کے ساتھ اس کے بستر پہ سو رہی تھی اٹھ ہی نہ جائے ۔
وہ کچن میں گئی اور کافی بنانے لگی اسے معاذ کی نظریں یاد آئیں اسے اتنا تو اندازہ تھا کہ معاذ بھی اس سے محبت کرتا ہے مگر اسے محبت سے زیادہ اس کا بھروسہ چاہیے تھا کیونکہ کسی بھی رشتے کی مضبوطی کے لیے اعتماد کا ہونا ضروری ہے..۔
"تم نے آج اچھا نہیں کیا.."
معاذ کی اس اچانک افتاد پر وہ ڈر گئی وہ اپنی سوچوں میں اتنی غرق تھی کہ معاذ کے آنے کا پتا ہی نہ چلا.۔
معاذ کو بھی نیند نہیں آ رہی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ماہ وہاں سے اٹھ کر کیوں گئی تھی وہ اس سے بات کرنے کی غرض سے باہر نکلا تھا اور اسے کچن کی طرف جاتا دیکھ کر اس کے پیچھے چلا آیا ۔ معاذ کے اس طرح اچانک آ جانے سے ماہ رخ جو کہ کپ میں دودھ ڈال رہی تھی وہ اس کے ہاتھ پہ گر گیا۔ اس نے اپنے ہاتھ پیچھے کر لیے.۔
"آئم سوری...."
معاذ نے اس کا ہاتھ چھپانا دیکھ لیا تھا ۔
"ہاتھ اگے کرو...."
"کچھ بھی نہیں ہوا ..."
ماہ رخ کی آواز سے ہی اسے پتا چل گیا وہ درد ضبط کرنے کے چکر میں دہری ہو رہی تھی ..اس نے ماہ کا ہاتھ زبردستی پکڑا اور اس دیکھنے لگا اس کا ہاتھ لال ہو چکا تھا ابھی وہ دیکھ ہی رہا تھا کہ ماہ رخ نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور بولی ۔
"آپ کی ہمت کیسے ہوئی میر ہاتھ پکڑنے کی.؟۔"
معاذ کو سمجھ نہ آئی کہ وہ کیسی باتیں کر رہی ہے..؟
".کیا مطلب ہے تمہارا ماہ شوہر ہوں تمہارا......؟"
وہ حیرانی سے بولا ۔
"مجھے نہیں پتا بس آئندہ کے بعد آپ مجھے ہاتھ لگانے کی کوشش مت کریے گا...."
یہ کہہ کر ماہ رخ کچن سے چلی گئی ۔
"پتا نہیں ماہ تمہیں کیا ہو گیا ہے جو اتنے خوبصورت رشتے کے ہونے کے باوجود تم اس طرح کی باتیں کر رہی ہو."
اس نے گہرا سانس کھینچا ۔
...................................
چند دن پہلے:
سعد ماہ رخ اور معاذ کی شادی کے لیے گفٹ لینے جا رہا تھا جب پیچھے سے سمرن ،سحر اور ماہ گل بھی آگئیں ۔
"سعد پلیز ہمیں مال تک چھوڑ دو ہم نے شوپنگ کرنی ہے..."
"میں بھی مال ہی جا رہا ہوں چلو تم لوگ بھی آ جاوء پر زیادہ ٹائم نہیں لگانا....."
سعد نے انھیں وارن کیا ۔انہوں نے گردنیں ہلائیں ۔
"ہاں ہاں نہیں لگائیں گی چلو آ جاوء...."
..وہ سب مال کی طرف روانہ ہوگئے ..مال پہنچ کر وہ تینوں تو شاپنگ کو نکل گئیں اور معاذ اور ماہ رخ کا گفٹ لینے کے لیے سعد گفٹ شاپ میں چلا آیا .اس نے بہت سے شوپیس دیکھے پر اسے کوئی پسند نہ آیا اور پھر آخر کار اسے کاونٹر پر ایک بہت خوبصورت سا شوپیس نظر آیا اس میں ایک لڑکی اپنے ٹراوزر کو ٹخنوں سے اوپر کیے بیٹھی تھی اور لڑکے نے اس کا پاوں اپنے گھٹنے پر رکھا تھا اور اس میں پازیب ڈال رہا تھا .
سعد نے فورا اسے اٹھا لیا اور بولا
"اسے پیک کر دیں."
"سوری سر یہ بکڈ ہے ...."
"چلیں اس جیسا ایک اور پیس کر دیں...."
سعد نے مسکرا کر کہا ۔اسے ھر حال میں یہی چاہیے تھا ۔
"سوری سر اٹس دا لاسٹ پیس...... "
مینیجر معذرت کرتے ہوے بولا ۔
"میں آپ کو اس کی دگنی قیمت دونگا....."
سعد نے .
"ایسے کیسے دے دیں یہ میں خرید چکی ہوں ."
آواز پر جیسے ہی سعد نے مڑ کر دیکھا تو دیکھتا رہ گیا پیچ اور گولڈن کے کنٹراسٹ میں شارت فراک اس کے ساتھ گولڈن ہی ٹائٹس پہنے اور پیچ ہی کلر کا حجاب لیے وہ لڑکی سعد کے دل کی دنیا ہلا گئی ۔
اگلے ہی لمحےسعد نے خود کو کمپوز کیا ۔
"دیکھیں پلیز آپ کوئی اور لے لیں مجھے یہ بہت پسند آیا ہے .."
"ایسے کیسے دے دوں بھئی مجھے بھی پسند ہی آیا ہے میں تو نہیں دینے والی"
اور طویل بحث کے بعد آخر کار پھر سعد کو ہی ہار ماننی پڑی۔سعد کو وہ لڑکی پہلی ہی ملاقات میں لڑاکو پر معصوم سی لگی۔
۔...................................
آج ماہ رخ کی رخصتی تھی ۔خان لاج میں صبح سے ہی بہت چہل پہل تھی ۔عمیر باقی سب کی طرح ادھر ادھر سارے کام دیکھتا پھر رہا تھا ۔ تھوڑی دیر پہلے ہی وہ معاذ کے کمرے کی سجاوٹ کروانے کے کام سے فارغ ہوا تھا ۔ اب وہ تیار ہو چکا تھا ۔ نیچے آتے ہی اس کا سامنا سعدیہ بیگم سے ہوا ۔
"عمیر ......"
سعدیہ کے بلانے پر وہ ان کی جانب مڑا ۔
"جی ماما..."
"جاوء بیٹا جا کر پارلر سے بچیوں کو لے آو ان کا فون آیا ہے وہ تیار ہوگئی ہیں "
"جی ماما میں ابھی جاتا ہوں..."
عمیر گاڑی کی چابیاں اٹھاتے ہوے باہر کو بڑھ گیا ۔
شادی پر ماہ رخ، عمیر ،معاذ سب کے ننھیال والے بھی آئے تھے ۔شادی کا سارا انتظام عمیر ،نمیر،سعد اور بڑے ہی سنمبھال رہے تھے۔ سارا انتظام ہال میں منقعد کیا گیا تھا ۔چونکہ نکاح پہلے ہی ہو چکا تھا اس لیے فنکشن کمبائن ہی تھا۔سٹیج کے پیچھے کی دیوار کو مکمل طور پر سفید اور لال گلابوں سے بھرا تھا۔ اس کے سامنے ایک دیوان پڑا تھا اور قریبی مہمانوں کے لیے سامنے صوفے لگائے گئے تھے ہر کوئی مبہوت ہو کر سجاوٹ دیکھ اور سراہ رہا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔_______۔۔۔۔
"ماشااللّه یہ ہماری ماہ رخ ہی ہے نا ؟"
سحر نے حیران ہوتے ہوے پالر والی سے پوچھا ۔
"مادام دراصل ماہ رخ میم کا سکن کلر بہت پیارا تھا ۔ہمیں اس پر کچھ زیادہ کام نہیں کرنا پڑا ۔"
"یہ تو ہے ۔"
سحر نے تائیدی انداز میں کہا۔خود ماہ گل،سحر اور سمرن بھی بہت خوبصورت لگ رہی تھیں
تینوں نے لہنگے پہن رکھے تھے سحر کا لہنگا پیچ،ماہ گل کا سلور ،اور سمرن کا لہنگا سی گرین تھا اور اس پر ہلکا ہلکا میک اپ اور جیولری ۔،بالوں کو کھلا چھوڑ کر لوز کرل دیے گئے تھے ۔مگر ماہ رخ پر ایک الگ ہی روپ آیا تھا ۔سحر ،ماہ گل ،اور سمرن کے ایک ساتھ ماشااللّه کہنے پر ماہ رخ جھینپ گئی ۔وہ لگ ہی اتنی خوبصورت رہی تھی ۔ڈیپ ریڈ لہنگا جس پر گولڈن سلوریش کڑھائی ھوئی تھی ،کرتی گھٹنوں سے دو انچ اوپر تھی ،بالوں کا جوڑا کیا گیا تھا جس کی دو چار لٹھوں کو باہر نکل کر کرل کیا گیا تھا،برائیڈل میک اپ اس کے نقوش کو دو آتشہ کر رہا تھا ۔ ناک میں پہنی نتھ کا موتی لال لپسٹک سے ڈھکے ہونٹوں کو چھو رہا تھا تو کانوں میں پہنے جھمکے سر ہلانے پر دائیں ،بائیں حرکت کرتے ۔ماتھے پر سجا جھومر اور ٹیکا اسے ملکوتی حسن بخش رہا تھا ۔ حنائی ہاتھوں میں بھر ،بھر کر ڈالی سرخ اور سنہری چوڑیوں کی چھن ،چھن اور سرخ و سفید پاؤں میں پہنی پائلوں کی چھن ،چھن اور اس کے ساتھ اس کے دھڑکتے دل کی دھک دھک ،ہتھیلیوں سے پسینہ پھوٹ رہا تھا ۔ ۔دوپٹے کا ایک پلو آگے کی طرف اور ایک پلو پیچھے کی طرف ڈالا ہوا تھا۔
"مادام آپ لوگوں کو لینے باہر عمیر صاحب آئے ہیں ۔"
اسی اثنا میں پالر کے گارڈ نے انھیں اطلاع دی ۔
" جی ہم آرہی ہیں _"
سحر نے جواب دیا اور ماہ گل کی جانب بڑھی ۔
"ماہ گل ۔؟"
"ہممممممم ؟؟"
ماہ گل نے شیشے میں اپنے میک اپ کو آخری ٹچ دیتے ہوے اسے جواب دیا۔
"ماہ رخ کی چادر کدھر ہے ؟"
"سمرن کے پاس جو بیگ پکڑے ہیں انہی میں ہی ہے ۔"
ماہ گل نے بالوں کو ایک طرف کرتے ہوے مصروف سے انداز میں جواب دیا ۔
"سمرن ماہ رخ کی چادر دو ۔"
"چلو ماہ رخ"
سحر کے کہنے پر ماہ گل نے جلدی سے ماہ رخ کی چادر اٹھائی اور اسے اوڑھا دی ۔اس تمام عرصے میں ماہ رخ خاموش رہی ۔
"جلدی کریں بجو!!!عمیر بھائی کافی دیر سے باہر کھڑے ہیں۔"
"گھس نہیں جائے گا وہ "
ماہ گل نے تپ کر کہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب وہ تینوں ماہ رخ کو لے کر باہر آئیں ۔تو عمیر گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔عمیر نے جلدی سے شاپر اور دوسرا سامان ماہ گل سے لے کر ڈگی میں منتقل کیا۔
سمرن عمیر کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی جب کے سحر اور ماہ گلپچھلی سیٹ پر ماہ رخ کے ساتھ بیٹھ گئیں ۔ماہ گل کو دیکھتے ہی عمیر کی رگ شرارت پھڑک اٹھی ۔بلاشبہ وہ دشمن جان آج بہت خوبصورت لگ رہی تھی اور عمیر کو اسے چیھڑے بغیر سکوں کہاں ملنا تھا ۔۔۔۔۔ ؟
"ویسے میں ایک بار ہی سمجھاوں گا رخصتی پر خبر دار کوئی روئی تو۔۔۔۔۔۔"
عمیر نے بات کا آغاز کیا ۔
"کیوں ؟؟؟؟ہمارے رونے سے تمھیں بل آتا ہے کیا؟؟"
ماہ گل ہمیشہ کی طرح بھری بیٹھی تھی ۔
"بل آیا تھا میں نے بھر دیا ہے ۔ "
وہ سکون سے بولا ۔
"کون سا بل ؟"
ماہ گل نے حیرانی سے پوچھا ۔
"تم لوگوں پر پالر والی نے جو جادو کیا ہے نا اس کے پیسے مجھ سے لیے ہیں مفت کچھ نہیں ہوا "
وہ زبان نکال کر اسے چڑانا نہیں بھولا ۔
"تو کیا مسلہ ہے؟؟تمہے کیا موت پڑتی ہے؟ فرض تھا تمہارا "
اس کی فضول بات پر ماہ گل تپ ہی گئی ۔
نہیں اس کی خیر ہے وہ تو پیسے میں بڑے بابا سے لے لوں گا ۔خاصہ مہنگا جادو تھا ۔ بات تو یہ ہے دراصل آج ہال میں بہت پیارے بچے بھی ہیں "
تو ؟؟۔
۔اب کے ماہ گل جھنجھلا گئی۔۔سحر کوفت سے آنکھیں گھماتی انھیں دیکھ رہی تھی ۔سمرن واٹسپ پر سٹیٹس ڈالنے میں لگی تھی ۔
"تم لوگ رونا مت بچوں نے دیکھ لیا تو ڈر جائیں گے۔۔
وہاں بغیر ٹکٹ کے بھوتنیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ اور ماہ رخ بھی اگر جذباتی ہوئی تو رات معاذ بھائی کی گھونگھٹ پلٹنے کی بعد چیخ نکلے گی ۔۔۔۔۔۔"
عمیر بے جیسے قہقا لگا کر اپنی ہی بات کا مزہ لیا۔
"عمیر بکواس بند کر کے گاڑی چلاو۔۔!!"
اب کے گھونگھٹ کے اندر سے ماہ رخ چیخحی۔
سب نے حیران ہو کر اسے دیکھا۔
"انا اللہ وانا علیھہ راجعون ۔معاذ بھائی تو گئے یعنی حد ہو گی دلہن بن کر بھی زبان کو سکون نہیں۔"
عمیر نے باقاعدہ کانوں کو ہاتھ لگایا۔
"عمیر چپ کر کے گاڑی چلاو۔۔۔۔"
ماہ گل کے کہنے پر وہ کندھے اچکاتا ہوا موڑ کاٹنے لگا۔
"اس کی طبیعت داجی کا ڈنڈا ٹھیک کرے گا "
ماہ گل اسے گھورتے ہوے سوچ رہی تھی ۔
"اترو۔۔۔"
عمیر نے ہال کے عقبی دروازے پر گاڑی روکی۔
کیوں کہ بارات ابھی پہنچی تھی۔ مگر ابھی وہ سب گاڑیوں میں ہی تھے۔ ڈھول کی تھاپ پر سعد ،بھنگڑے ڈال رہا تھا اور ساتھ ہی معاذ کے دوست بھی تھے ۔
"ہائے میں رہ گیا "
عمیر چیخا اور دھوڑ کر برات سے جا ملا ۔ اب وہ جیسے بھنگڑے ڈال رہا تھا سارے پیچھے تھے اور وہ اور سعد ہنس ،ہنس کر بے حال ہوتے بھنگڑے ڈال رہے تھے ۔سمرنبھی گاڑی سے نکل کر بارات میں شامل ہوئی ۔
سحر اور ماہ گل ماہ رخ کو لے کر عقبی دروازے سے ہال میں داخل ہوئیں ۔ماہ رخ کو برایئڈل روم میں بیٹھا کر وہ بارات کے ویلکم کے لیے پھول کی تھالیاں لیئے باہر آئے ۔بلیک شیروانی پر ریڈ کلہ پہنے معاذ بہت خوبرو لگ رہا تھا ۔وہ کسی ریاست کا شہنشاہ معلوم ہو رہا تھا ۔
کھانے کے دور کے بعد ماہ رخ کو اسٹیج تک لایا گیا۔
"ماہ رخ نظریں جھکا لو پلیز۔۔۔۔"
سحر نے اسے کہا جو دیدے پھاڑے کر ادھر ادھر
دیکھ رہی تھی ۔
"کیوں ایسے کیا مسلہ ہے ؟ میں کانفیڈنٹ لگوں گی "
ماہ رخ دھیمی آواز میں بولی ۔
اچھا نہیں لگتا پلیز!!!!
اب کی بار سحر کے منت آمیز انداز پر اس نے نظریں جھکا لیں۔وہ اس وقت ارد گرد سے بےنیاذ اسے دیکھ رہا تھا ۔یاد تھا تو بس یہی کے وہ اس کے سامنے ہے۔اس کی محرم ،اس کی ماہ رخ ۔
"معاذ بھائی ماہ کا ہاتھ پکڑ کر اسٹیج پر چڑھائیں "
عمیر کے کہنے پر وہ ہوش کی دنیا میں واپس
آیا۔اور چلتے ہوئے وہ اسٹیج کے آخری کنارے پر پہنچا
جہاں ماہ رخ سہج سہج کے قدم اٹھا رہی تھی ۔
اس نے ماہ رخ کے پہنچنے سے پہلے ہی اپنی ہتھیلی پھیلائی ۔ماہ رخ نے بے بس ہو کر ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیا ۔بے اختیار اسے ماہ رخ کی رات کی کہی ہوئی بات یاد آئی ۔
""ہمت کیسے ہوئی اپ کی میرا ہاتھ پکڑنے کی ؟"معاذ نے اک جتاتی نظر اس پر ڈالی اور ماہ رخ بھی وہ ہی بات یاد کر کے سیخ پا ہو گئی ۔ اسے اس لمحے اپنی بے بسی پر شدید رونا آیا کاش وہ دلہن نا ہوتی تو پھر معاذ کے جتنے بھی دانت نکل رہے تھے وہ خود انہیں توڑ دیتی۔
معاذ نے جب اس کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کی تو
ماہ رخ نے اپنا دوسرا ہاتھ بھی اس کے ہاتھ پر رکھ دیا ۔
معاذ کو بہت خوش گوار حیرت محسوس ہوئی
مگر اگلے ہی لمحے ساری حیرت اڑن چھو ہو گئی ۔
کیوں کے ماہ رخ اپنے پانچوں ناخن اس کی ہتھیلی میں گھسا چکی تھی۔۔۔اور خود کمال اطمینان سے سامنے دیکھ کر پوز بنا رہی تھی ۔دیکھنے والے سمجھے کے پوز بن رہا ہے مگر حقیقت صرف معاذ جانتا تھا کہ یہ جنگلی بلی اس کے ساتھ کیا کر رہی تھی ۔
معاذ نے ہونٹ دانتوں تلے دبا کر درد برداشت کیا ۔
""" چھوڑو گا نہی تمھیں""
دل ہی دل میں اک اور وعدہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"چلیں بھائی معاذ نکالیں تیس ہزار روپے "
سحر نے اپنی ہتھلیی پھیلائی ۔
کیوں؟؟؟
معاذ نے انھیں تنگ کرتے ہوے پوچھا ۔
"ارے دودھ پلائی کے!!"
ماہ گل نے ہنستے ہوے کہا ۔
"میں نہی دے رہا۔ توبہ اتنا مہنگا دودھ؟"
معاذ نے ہاتھ اٹھاتے ہوے کہا ۔ارادہ انھیں تنگ کرنے کا تھا ۔
"معاذ بھائی ایک روپیہ نا دیجئے گا ان فقیرنیوں کو"
عمیر نے اپنی ٹانگ پھنسانی لازمی سمجھی ۔
"کیوں مسلہ ہے کوئی تمھیں؟"
ماہ گل عمیر پر بھڑکی۔
"میں نے بتا دینا ہے پھر۔"
عمیر نے دھمکی دی ۔
"کیا بتاؤ گے ہاں؟؟؟بولو؟"
ماہ گل دونوں ہاتھ کمر پر رکھتے ہوے بولی ۔
"یہی کہ تم لوگوں نے یہ دودھ ،دودھ بیچنے والے فیکے سے لیا تھا ۔اور یہ بھی کہ اس دودھ میں ملاوٹ بہت ہوتی ہے "
عمیر نے معصومیت سے کہا ۔سب اس کے انداز پر ہنس رہے تھے جو سب کچھ تو بتا ہی چکا تھا ۔
"کمینہ "
ماہ گل زیر لب بڑبڑائی ۔
"کیا اتنا بڑا دھوکا۔۔۔۔۔؟"
معاذ روہانسا ہو گیا۔ابھی اس نے کتنے مزے سے یہ دودھ پیا تھا۔کاش یہ عمیر اپنی زبان پہلے کھول دیتا ۔معاذ کو تو سوچ ،سوچ کر ہول اٹھ رہے تھے ۔
"نہیں معاذ بھائی دل پہ نا لیں یہ تو فطرتاً کمینہ ہے ۔۔جھوٹ بول رہا ہے ۔ہم ایسی کب ہیں ۔آپ پیسے دیں بس "
ماہ گل نے عمیر کو گھورا اور معاذ کی طرف دیکھ کر لجاجت سے بولی ۔
"توبہ یہ دن دیکھنے کو میں زندہ تھا؟؟یہی دن؟؟"
عمیر اس بات کو دل پہ لے گیا تھا ۔
"نہیں ابھی اور بھی ایسے دن ہیں ان کے لیے
ابھی زندہ ہو ۔ابھی تم دیکھنا تمہارے ساتھ ہوتا کیا کیا ہے ۔۔"
ماہ گل کے کہنے پر سب کا قہقہہ جان دار تھا ۔
"ارے کیا تنگ کر رہے ہو ؟؟؟ دے دو پیسے
بچیوں کو "
داجی کے کہنے پر اخر کار معاذ کو اپنی جیب لٹانی پڑی۔
ماہ گل پیسے گنتی عمیر کے پاس سے گزری جس کا منہ لٹکا ہوا تھا ۔
"اف اتنے پیسے "
ایک جتاتی نظر ماہ گل عمیر پر ڈالتی یہ جا اور وہ جا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔__۔۔۔۔
رخصتی کا شور اٹھا تو ماہ رخ کی آنکھیں آنسوؤں سے لبا لب بھر گئیں۔اگر چہ وہ اک کمرے سے دوسرے کمرے میں جا رہی تھی مگر اب ذمہ داریاں بڑھ گئی تھیں وہ ایک آزاد لڑکی نہیں رہی تھی اب اس پر بہت سی ذمہداریاں آن پڑی تھیں ۔وہ گھر جہاں وہ اب معاذ کے حوالے سے جانی جائے گی ۔ کبھی نا کبھی اس کے اور معاذ کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم ہو گا ۔ وہ معاذ کے سنگ زندگی کا سفر طے کرنے والی تھی۔
کیوں کے اللّه نے معاذ کو اس کا ہمسفر بنایا تھا۔
اس کی محبت کو محرم بنایا تھا۔ وہ اب اس کے گھر کی بیٹی اور بہو تھی ۔گھر پہنچنے پر ماہ رخ کو کمرے میں آرام کرنے بھیج دیا گیا۔کیوں کہ ساری رسمیں پہلے ہی ہال میں ہو چکی تھیں ۔جب وہ کمرے میں آئی تو گلابوں کی مسحور کن خوشبو ہر سو پھیلی ہوی تھی بیڈ پہ پھولوں کے بکے لگے تھے جب کے بیڈ پر گلاب کی پتیاں بھی بچھائی ہوئی تھی۔سب سے پہلے اس نے اپنے آپ کو زیور اور میک اپ سے آزاد کیا اور پھر کپڑے بدلے،
بیڈ پر پڑی پتیاں کو اکھٹا کیا اور ڈسٹ بن کی نظر کیا۔پھر ہاتھ جھاڑتی ایک نظر کمرے پر ڈالتی لائٹ بند کرتی
بیڈ پر اپنے ارد گرد تکیے پھیلا کر سوتی بنی۔رات کا فنکشن تھا تو سبھی تھکے ہوئے تھے۔ینگ پارٹی نے بہت سے پیسے لینے کے بعد معاذ کو کمرے میں جانے دیا ۔
معاذ محتلف کیفیات میں گھرا کمرے میں داخل ہوا۔
کمرے میں لیمپ کی روشنی نے ماحول کو خواب ناک بنایا ہوا تھا اس پر ستم گلابوں کی خوشبو ۔
مگر اگلے ہی لمحے وہ ٹھٹھکا۔عین بستر کے درمیان وہ بہت مزے سے اس کے ارمانوں کا قتل کرنے کے بعد ان ثبوتوں پر ٹینکی پانی بہانے کے بعد سو رہی تھی ارد گرد تکیے رکھے خود سے بے خبر اس کی آمد سے بے خبر مست ہو کر سو رہی تھی ۔وہ چلتا ہوا اس تک پہنچا۔میک اپ سے پاک چہرا۔سادہ ٹی شرٹ اور ٹراوزر،کھلے بال ارد گرد پھیلے ہوے تھے ۔سوتے ہوئے اس کے چہرے پر دنیا بھر کی معصومیت تھی۔چند لمحے وہ اسے دیکھتا رہا پھر اس پر کمبل درست کرتا اپنے کپڑے تبدیل کرنے چلا گیا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صبح ماہ رخ کی آنکھیں اچانک کھلیں ۔ کچھ لمحے وہ چھت کو گھورتی رہی ۔ہواس بحال ہوے تو اپنے ساتھ بیڈ پر کسی کی موجودگی کا احساس ہوا معاذ کو اپنے اتنے پاس دیکھ کر وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔
"کیا ہوا؟؟؟"
معاذ کی آواز پر اس نے شعلہ باز نگاہوں سے معاذ کو دیکھا۔وہ اس کی اچانک افتاد پر ہی جاگا تھا۔
"آپ کی ہمت کیسے ہوئی میرے بیڈ پر سونے کی؟؟"
اس کی بات پر معاذ کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔
" آپ کا بیڈ؟؟ ہوش میں آئیں زوجہ صاحبہ آپ بندہ ماہ بدولت کے کمرے میں ہیں اور اسی کے بستر پر آرام فرما رہیں تھیں ۔
"ہبھول جائیں اسے یہ اب سے میرا بیڈ ہے ۔ میں نے آپ سے شادی کی تو یہ میرا ہے "
دھونس جماتے ہوے کہا گیا۔
اچھا جی ۔۔۔؟ تو بیڈ والی سے شادی میں نے کی ہے تو یہ بیڈ والی پھر میری ہوئی "
اس کے گرد بانہوں کا حصار باندھتے ہوے معاذ نے کہا ۔
"چھ۔۔۔۔۔۔ چھوڑیں مجھے ۔۔۔۔شرم نہیں آتی ؟؟"
وہ تڑپتی ہوئی اس کی بانہوں سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی۔
"نہیں آتی ۔۔۔۔۔بہت بے شرم مہشور ہوں الحمداللّه ۔ شرمانے کے لیے تم ہی کافی ہو جان۔۔۔۔"
"توبہ توبہ ۔۔۔۔ ایسے بیہودا القابات سے مت
نوازیں مجھے آخری بار کہہ رہی ہوں چھوڑیں مجھے۔۔۔۔۔"
ورنہ۔۔۔"
اس کی بات کاٹتے ہوے معاذ نے کہا ۔
"مریں کہیں جا کر "
ماہ رخ اسے دھکا دے کر باتھروم میں جا گھسی
معاذ کے قہقہہ نے باتھ روم تک اس کا پیچھا کیا۔
"کتنے فضول انسان ہیں۔اففف۔۔۔ بچو ماہ بیٹا "
ماہ رخ نے خود کو ہی تلقین کی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"کیا ہے کوئی مسلہ ہے آپکو ؟"
ماہ رخ اس وقت شیشے کے سامنے کھڑی اپنے بال بنا رہی تھی ۔معاذ جو باتھروم سے نکلا ہی تھا ماہ رخ کو ڈریسنگ کے پاس کھڑا دیکھ کر اسکی طرف ہی چلا آیا۔
اس کی مسلسل گھوری سے تنگ آکر ماہ رخ نے پوچھا ۔
"ہننن ۔۔۔ مسلے کی لگتی ۔ڈریسنگ کے آگے پھیل کر کھڑی ہو میں نے بھی تیار ہونا ہے پھر اگر تمہارے ساتھ کھڑا ہوا تو محترمہ کہیں گی "ہمت کیسے ھوئی آپ کی میرے ساتھ کھڑا ہونے کی ؟"
معاذ اچھا خاصا تپا ہوا تھا۔اس کی نقل اتارتے ہوے بولا ۔
ماہ رخ نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ دروازہ بجنے لگا ۔
"ہٹو میں دیکھتا ہوں"
معاذ نے دروازہ کھولا۔
"السلام علیکم مما جان "
سامنے نمرہ بیگم کھڑیں تھیں ۔
"وعلیکم السلام ۔ ماہ رخ اٹھی کہ نہیں؟"
"جی بڑی مما میں بھی جاگ گئی ہوں ۔"
معاذ کے جواب دینے پہلے ہی وہ بول اٹھی ۔
"ماشااللّه کتنی پیاری لگ رہی ہے میری بچی۔"
انہوں نے ماہ رخ کو دیکھ کر کہا جو پیچ کلر کے سوٹ میں بہت حسین لگ رہی تھی ۔وہ اپنی تعریف پر جھینپ گئی۔
"کیا مما جان ؟ بہو ملی تو بیٹا بھول گیا ؟"
معاذ روہانسا ہو گیا ۔آنکھوں میں ہنوز شرارت تھی۔
"نہیں میرا بیٹا لاکھوں میں ایک ہے ۔چلو شاباش ناشتہ ریڈی ہے نیچے آجاؤ ۔سب انتظار کر رہے ہیں "
وہ اس کے گال کھینچ کر لاڈ سے بولیں ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔
السلام علیکم۔۔!!!
معاذ اور ماہ رخ نے سب کو سلام کیا اور اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔ماہ رخ نے عمیر ۔سحر اور ۔ماہ گل کو دیکھا وہ تینوں بہت ہی معنی خیز نظروں سے معاذ اور ماہ رخ کا ایکسرے کر رہے تھے۔
"کیا ؟"
کرتے کی آستینیں فولڈ کرتے ہوے معاذ نے ان سے پوچھا ۔
"ک ۔ ۔ ۔ کچھ نہیں ۔ "
داجی کو بھی اپنی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا پا کر عمیر ہکلا گیا ۔ معاذ سر جھٹکتے ہوے ناشتہ کرنے لگا ۔
"توصیف بیٹا "
داجی نے چشمہ ٹھیک کرتے ہوے توصیف صاحب کی طرف دیکھا ۔
"جی ابا حضور"
"ولیمے کا انتظام دیکھنے کب جانا ہے ؟"
"جی ابا حضور ہم تھوڑی دیر تک فارم ہاؤس کے لیے نکلیں گئے۔"
ولیمہ کا انتظام فارم ہاؤس میں کیا گیا تھا ۔
"ہممممم ٹھیک کسی بھی قسم کی کوئی کمی بیشی نا ہو "
داجی نے تنبیہہ کی ۔
"جی ابا حضور ہم پورا خیال رکھیں گے "
توصیف صاحب نے ہاتھ پونجتے ہوے کہا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔
"ماہ بولو نا معاذ بھائی نے کیا گفٹ دیا ؟"
سحر ۔ماہ گل ۔اور سمرن پچھلے دس منٹ سے ماہ رخ کا سر کھا رہی تھیں۔معاذ ناشتے سے فارغ ہوتے ہی باہر کی جانب بڑھ گیا تھا جب کہ باقی سب ولیمے کا انتظام دیکھنے گئے تھے ۔
"ہممممم گفٹ یار بہت اچھا گفٹ دیا تھا معاذ نے ۔ایسا تو کوئی گفٹ ہو ہی نہیں سکتا ۔"
ماہ رخ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھتی اب ریلکس ہو چکی تھی ۔سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا بتائے ۔رات تو معاذ کے آنے سے پہلے گدھے ،گھوڑے بیچ کر وہ سو چکی تھی ۔
"اوہو مجھے تو پہلے ہی پتا تھا معاذ بھائی اوپر سے ہی سخت ہیں اندر سے تو بڑی کوئی نکلی چیز ہیں ۔"
سحر نے کہا ۔
ہیں ؟تمہے کیسے پتا ؟
ماہ گل نے ابرو اچکائی۔
"ارے ظاہر سی بات ہے سخت نظر آنے والے لوگ اندر سے نرم مزاج ہوتے ہیں ۔ تم نے سنا نہیں کبھی فوجی رومانٹک ہوتے ہیں حالانکہ ان کی ٹریننگ انھیں کتنا سخت بنا دیتی ہے ۔"
سحر آنکھ دباتے ہوے بولی اور سب کو اپنے پڑھے ناولز کے مطابق علم دینا چاہا ۔
"خیر ماہ بتاؤ کیا گفٹ ملا ؟"
سحر گھما پھرا کر پھر اسی موضوع پر آگئی ۔
"پیار ہائے پیار دیا کیا تم لوگوں کو لگتا ہے کہ پیارسے بڑھ کر کوئی تحفہ قیمتی ہو سکتا ہے ؟"
ماہ رخ کو کچھ سمجھ نہیں آیا تو بونگیاں مارنے لگی ۔
"ہممممم واقعے پیار سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا بیگم
معاذ جو ابھی باہر سے آیا تھا ماہ رخ کی باتیں سن کر جل بھن ہی گیا ایک تو محترمہ اس کے کمرے میں آنے سے پہلے فوت ہو چکی تھیں اور اوپر سے جھوٹ ؟
مانو معاذ کے ارمانوں کا خون تھا ۔
"آ ۔ ۔ ۔ آپ آپ کب آئے "
ماہ رخ ہکلاتے ہوے سیدھی ھوئی ۔
"ابھی جب آپ ہمارے حسین ویڈنگ گفٹ کو بیان کر رہی تھیں "
دانتوں پر دانت جماتے ہوے معاذ نے کہا ۔
"چلو سب کے سامنے آپ کی خدمت میں کچھ اور عرض کرتے ہیں "
معاذ کی بات پر سحر۔ ماہ گل ۔اور سمرن کی دبی دبی ہنسی گونجی جب کہ ماہ رخ کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا۔معاذ اس کے سامنے آیا ۔
"یہ شعر میری بیگم کے لیے "
ماہ رخ کا سانس اٹکا ۔
"ہم ہو گئے ہیں تمہارے تمہیں سوچنے کے بعد
اب نا کسی کو دیکھیں گے تمہے دیکھنے کے بعد
دنیا چھوڑ دیں گے تمہے چھوڑنے کے بعد
خدا معاف کرے اس قدر جھوٹ بولنے کے بعد "
ماہ رخ کی رکی سانس بحال ھوئی دندناتی ھوئی وہ بیڈروم کی طرف لپکی ۔
سب کے قہقہے اسے کمرے تک سنائی دیے
"ہممممم بدتمیز کہیں کا"
وہ کڑتے ہوے سوچ تھی تھی ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔
سلور میکسی ، ہلکے میک اپ اور جیولری کے نام پر جھمکے پہنے ماہ رخ کوئی آسمانی حور لگ رہی تھی ۔
بلیک ڈنر سوٹ میں اس کے ساتھ چلتا معاذ بھی شہزادوں سا حسن چرائے ہوے تھا ۔دونوں کی جوڑی کو سب نے خوب سراہا۔لڑکوں نے برات پر چونکہ سفید شلوار قمیض کا تھیم رکھا تھا سو ولیمے پر سب نے بیلو ڈنر سوٹ پہن رکھے تھے۔البتہ لڑکیوں نے شارٹ فراک اور کیپری پہنی تھیں ۔ولیمے کا فنکشن بہت اچھا گزرا۔آخر میں معاذ اور ماہ رخ کا فوٹو سیشن ہوا جسے معاذ نے تو خوب انجونے کیا جبکہ ماہ رخ اسے گھورتی اور بڑبڑاتی رہی ۔البتہ یہ بڑبڑاہٹ صرف معاذ کو سن رہی تھی ۔
"ہاتھ تھوڑا سائیڈ پر کر لیں ۔زیادہ شودے نا ھوں "
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔
"سنیں ؟"
سعد نے اسٹیج کی طرف جاتی عنایا کو پکارا۔
"جی ۔ ۔؟"
وہ سعد کی طرف پلٹی ۔دل میں خوب ہنسی بھی تھی ۔
بلیک سوٹ میں اپنی گوری رنگت اور خوبصورت نین نقش میں وہ سعد کو بہت خوبصورت لگی ۔
"میں گھما پھرا کر بات کرنے کا عادی نہیں ہوں صاف بات کرنا پسند کرتا ہوں"
سعد نے تہمید باندھی ۔ عنایا نے سر ہلایا ۔
"جی بولیں ؟"
وہ معصومیت سے بولی ۔
" میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔"
سعد نے اسے دیکھتے ہوے کہا ۔
"میری منگنی ہو چکی ہے مسٹر سعد "
وہ سنجیدگی سے بولی ۔
"یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟"
۔سعد صدمے کی کفییت میں بولا۔
"نام نہیں پوچھیں گے میرے ان کا؟"
عنایا شوخ لہجے میں بولی۔سعد میں تو اتنی بھی ہمت نا تھی کے وہ اس کے سامنے کھڑا رہ سکتا۔وہ اس سے نظریں چراتا دوسری طرف چل دیا ۔
"مام میں گھر جا رہا ہوں "
وہ نمرہ بیگم کے پاس پہنچا۔
"خیرت بیٹا اپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟"
نمرہ بیگم اس کی سرخ آنکھوں کو دیکھتے ہوے بولیں۔
"جی مام بس تھکاوٹ کی وجہ سے سر درد ہے
ریسٹ کروں گا تھوڑی دیر تو ٹھیک ہو جاؤں گا۔"
وہ اپنے ماتھے کو دو انگلیوں سے دباتے ہوے بولا ۔
"ٹھیک ہے جاؤ آرام کرو"
اب کے نمرہ بیگم بولیں تو ان کے لہجے میں فکر مندی تھی۔
سعد بھی اس وقت کسی کا سامنا کرنے کی حالت میں نہیں تھا۔وہ چپ چاپ وہاں سے چل دیا ۔
"چلو بیٹا ماہ رخ کو لے جاؤ تم دونوں کافی تھک گے ہو "۔
توصیف صاحب نے کہا ان دونوں کو کہا جو اسٹیج پر ایک دوسرے سے لاتعلق بیٹھے تھے ۔انھیں لگا وہ دونوں کافی تھک چکے ہیں ۔ وہ خود بھی گھر ہی جا رہے تھے مگر کچھ مہمانوں کو سی اف کرنا تھا سو انھیں کچھ دیر کے لیے ہال میں ہی رکنا تھا ۔
"جی ڈیڈ"
معاذ فورا کھڑا ہوا ۔
"چلیں ماہ رخ؟"
توصیف صاحب کو جواب دیتا وہ ماہ رخ سے متوجہ ہوا جو تھکی ہوئی لگ رہی تھی۔
"جی چلیے"
سب کے سامنے وہ عزت سے پیش آرہی تھی ۔ وہ اپنی مکیسی سمبھالتی چھوٹے ، چھوٹے قدم اٹھاتے ہوے اس کے پچھے ہو لی۔ سارا سفر خاموشی سے کٹا۔دونوں میں سے کسی نے کوئی بات نا کی ۔معاذ وقفے وقفے سے اسے دیکھ ضرور رہا تھا ۔خان لاج پہنچنے پر گارڈ نے گیٹ کھولا۔گاڑی پورچ میں آرکی تو ماہ رخ اپنا کلچ اٹھاتی ایسے دھوڑی جیسے جیل سے رہا ہوئی ہو۔معاذ بھی اس کے پچھے ہو لیا کیوں کے وہ بھی تھک چکا تھا۔
لاؤنج میں داجی بیٹھے تھے وہ کچھ دیر ان کے پاس بیٹھا پھر اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔جس وقت وہ کمرے میں داخل ہوا اس وقت ماہ رخ ڈریسینگ روم سے نکل رہی تھی۔وہ ٹراوزر اور شرٹ پہنے ہوئے تھی۔اس پر اک نظر ڈال کر معاذ بھی فریش ہونے چلا گیا ۔جب تک معاذ فریش ہو کر لوٹا ماہ رخ لمپ اون کرتی بیڈ پر لیٹ چکی تھی۔آج اس نے تکیے نہیں رکھے جانتی تھی کہ کوئی فائدہ نہیں تھا معاذ پھر بھی بیڈ پر ہی سوئے گا۔معاذ بھی تھک چکا تھا سو بحث کیے بغیر وہ بھی خاموشی سے لیٹ گیا۔دونوں ھی خاموش تھے ۔دونوں میں سے کسی نے پہل نہیں کی تھی ۔معاذ اس کے سرد رویے کے سبب خاموش تھا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صبح معاذ کی آنکھ کھلی تو سب سے پہلے اس کی نظر اپنے پہلو پر گئی۔ مگر ماہ رخ وہاں نہیں تھی۔ اس نے تھوڑا سا سر اونچا کر کے دیکھا تو نیم اندھیرے مو ماہ رخ اسے جائے نماز پر نظر آئی۔شلوار قمیض پہنے ہوے وہ رات والے حلیے سے یکسر مختلف نظر آرہی تھی ۔وہ مکمل انہماک سے نماز ادا کر رہی تھی۔ معاذ کی نظر گھڑی پر پڑی تو فجر کا وقت تھا۔معاذ ماہ رخ کو دیکھ کر حیران ہوا اسے معلوم نہیں تھا کے ماہ رخ بھی نماز پڑھتی ہے ۔خود معاذ پانچ نمازوں کو پابندی سے ادا کرتا تھا۔معاذ بھی وضو کرنے کے لیے اٹھا اور ماہ رخ کے آگے جائے نماز بچھائی اور نماز پڑھنے لگا۔ماہ رخ اب دعا مانگ رہی تھی۔معاذ نے نماز ادا کی اور مڑ کر اسے دیکھا جو اب اٹھ رہی تھی۔
"مجھے جگا دیتی ۔"
"اس سے کیا ہوتا ؟"
ماہ رخ نے اسے ایک نظر دیکھا ۔
"تم میری امامت میں نماز پڑھ لیتی "
معاذ سادہ سے لہجے میں مسکراتے ہوے بولا ۔
تم نماز بھی پڑھتی ہو؟؟
سوالیہ انداز میں وہ اس سے پوچھ رہا تھا ۔کیوں کہ وہ اس کی پہلی بات کے جواب میں خاموش رہی تھی ۔اس کی خاموشی اسے بے چین کر رہی تھی ۔ماہ رخ نے حیرت سے اسے دیکھا جیسے اس کی بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو ۔
"نہیں صرف آپ ہی مسلمان ہیں نا؟"
وہ تپ کر بولی ۔
معاذ کچھ شرمندہ سا ہو گیا ۔
"میرا وہ مطلب نہیں تھا"
وہ گڑبڑ ایا۔
"جو مرضی مطلب ہو آپ کی بات کا مجھے فرق نہیں پڑتا ۔جو مرضی سمجھیں مگر میں فارغ نہیں آپ کی باتوں کے مطلب سمجھنے کو"۔
بدتمیزی سے جواب دے کر ماہ رخ پلٹ گئی۔جب کے معاذ اسے دیکھتا رہ گیا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ ماہ رخ کس بات پر اس طرح کا ردعمل دکھا رہی تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
اس کا ارادہ لان کا چکر لگانے کا تھا۔ سو وہ کمرے سے نکل کر لان کی طرف چلی گئی ۔اسے معاذ سے یوں بات کر کے بہت دکھ ہوا مگر وہ بے بس تھی ۔
"سوری معاذ آپ کو تو کچھ بھی یاد نہیں ہے مگر میں کچھ نہیں بھولی۔"
ماہ رخ نے تلحی سے سوچا۔
محبت کے دعوے سب کر لیتے ہیں مگر جو اعتبار کرتے ہیں وہی محبت کرتے ہیں اور آپ تو مجھ پر اعتبار ہی نہیں کرتے آپ کو کیا لگتا ہے میں اتنی آسانی سے کسی کے موبائل میں اپنی فوٹو بنوا لیتی ہوں ۔نہیں معاذ شاید آپ نہیں جانتے ۔میں اس دن آپ کو وہاں دیکھ چکی تھی ۔کاش میں ایسا نا کرتی ۔"
وہ صرف سوچ ہی سکی ۔
سورج نکل رہا تھا آہستہ آہستہ رات کی تاریکی ختم ہو رہی تھی۔ اور افق پر پھیلتا سورج ہر شے کو اپنی روشنی میں سمیٹ رہا تھا۔ماہ رخ نے اک گہرا سانس کھینچا اور اندر کی طرف بڑھ گئی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اسلام علیکم ایوری ون!!!
معاذ نے سب کو مشترکہ سلام کیا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ماہ رخ نے معاذ کو دیکھا جو اس وقت آفس کے لیے تیار بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا ۔ہمیشہ کی طرح وہ بال اک طرف گرائے پنیٹ کوٹ پہنے بہت خوبرو لگ رہا تھا۔
اس دن کے بعد معاذ اور ماہ رخ کی آپس میں کوئی بات نہیں ھوئی ایک عجیب سی سرد مہری دونوں کے درمیان چھائی ھوئی تھی ۔معاذ صبح کا آفس گیا رات کو کمرے میں صرف سونے ہی آتا تھا۔ماہ رخ نے بھی اسے بلانا ضروری نہیں سمجھا ۔معاذ چاہتا تھا کہ ماہ رخ خود اسے ناراضگی کی وجہ بتائے ۔سوچ ،سوچ کر وہ پاگل ہو گیا کہ ماہ رخ کس بات پر ناراض ہے ۔اسی سرد مہری میں دو ہفتے گزر چکے تھے ۔
ماہ رخ کی نظروں کی تپش خود پر محسوس کر کے معاذ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا ۔معاذ کو اپنی طرف دیکھتا پا کر ماہ رخ ادھر ادھر دیکھنے لگی ۔اس کے اس انداز پر معاذ کے عنابی ہونٹ مسکرا اٹھے ۔وہ دلبر آج بھی سجی سنوری اس کی دل پر بجلیاں گرا رہی تھی ۔
"معاذ بیٹا آج آفس سے جلدی آجانا شفق کے گھر دعوت ہے ہم سب انوائٹڈ ہیں "
نمرہ بیگم نے مسکراتے ہوے کہا ۔
"ٹھیک ہے مام"
معاذ کرسی دھکیلتا اٹھ گیا ۔جب کہ عنایا کے گھر جانے کا سوچ کر سعد کی آنکھوں میں سرخیاں پھیل گئیں ۔اس نے بہت مشکل سے اپنے دل کو سمجھایا تھا اب وہ کسی اور کا نصیب تھی مگر یہ دل ایک آخری بار اس کے دید کے لیے ترس رہا تھا ۔
"داجی میری بھی شادی کروا دیں نا میں نے بھی ڈھیر ساری دعوتیں کھانی ہیں ۔"
عمیر نے دہائی دی ۔
"چل ہٹ نالائق کہیں کا ہر بات شادی پر ہی ختم ہوتی ہے تمہاری"
داجی اپنی لاٹھی اٹھا کر اٹھے ۔ عمیر صاحب کو فورا ان کے نیک خیالات کا الہام ہوا آؤ دیکھا نہ تاؤ فورا سے غائب ہوگئے۔
"آہا برخودار کہاں دوڑ گئے ہو آو تمہاری شادی بھی کروا دوں۔"
سب ہی اس نوک جھونک سے لطف اٹھا رہے تھے۔ جبکہ ماہ گل تو اسکی سب کے سامنے کرنے والی ہر وقت کی بکواس سے تنگ آچکی تھی۔
"چھچھورا کہیں کا۔"
وہ کڑھ کر سوچتی رہی ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔
" السلام علیکم"
معاذ ابھی آفس سے واپس لوٹا تھا۔ کمرے کی طرف جانے سے پہلے ہال میں چھوٹے بابا کو بیٹھے دیکھا تو ادھر ہی چلا آیا ۔
"اور سناؤ آج کی میٹنگ کیسی رہی؟"
وقار صاحب نے پوچھا ۔
جی چھوٹے بابا الحمداللّه کامیاب رہے ہیں اور انشاء اللّه یہ پروجیکٹ بھی ہمیں ہی ملے گا۔
معاذ نے مسکراتے ہوے کہا ۔
" چلو اللّه بہتر کرے اور ذرا جلدی سے جاکر دیکھو کہ ماہ رخ تیار ہوئی ہے کہ نہیں ڈنر کا ٹائم ہوگیا ہے"
" جی چھوٹے بابا "
سعادت مندی سے کہتے ہوے وہ اٹھ کر کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"اففف یہیں تو رکھے تھے کہاں گئے ؟"
ماہ رخ ڈریسنگ کے دراز میں ادھر ادھر اپنے سونے کے کنگھن تلاش کر رہی تھی جو بڑی مما نے اسے منہ دکھائی میں دیے تھے ۔اپنے ہی دھیان میں گم اسے پتہ بھی نہ چلا کب معاز اس کے پیچھے کھڑا ہوگیا تھا۔
"اوف االلّه جی اب میں لیٹ ہو رہی ہو نہ یہ معاذ جن کا ہی کام ہے کھڑوس کہیں گا ادھر ادھر ہاتھ مارتے پتہ نہیں میرے کنگن کہاں کر دیے اور جناب آفس سے بھی نہیں آئے کہیں انہی کی وجہ سے لیٹ نہ ہو جائیں ہم ہی۔ سڑا ہوا کریلا، بندر کہیں کا بھو. . . . "
ابھی ماہ رخ اسکو مزید القابات سے بھی نوازتی اگر اسے اپنے کنگن نظر نہ آتے وہ تو بھلا ہو ان کنگنوں کا جو نظر آئے اور ماہ رخ کی فراٹےبھرتی زبان کو لگام لگا کنگن اٹھاکر ماہ رخ جیسے ہی سیدھی ہوئی تو ڈریسنگ کے شیشے میں اپنے پیچھے نظر آتے معاذ کو دیکھ کر گھبرا گئی۔
" وہ میں. . . میں وہ آپ کب آئے؟"
وہ بوکھلائی ۔
" ہائے اللّه جی پلیز اس بندے نے کچھ نہ سنا ہو"
" خوشی ہوئی بیگم جی آپ کی خیالات جان کر ذرا میرے ان کانوں کو دو تین مزید القابات سنا کر مجھے خود کی نظروں میں معتبر کردیں_"
معاذ نے چبا چبا کر کہا اور اسے دیکھا جو نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی ۔پرپل گھٹنوں تک آتی فراک، سی گرین کیپری کے ساتھ سی گرین ہی ڈوپٹہ جو پوری طرح پھیلا کر لیا گیا تھا، نازک سی بالیاں پہنے، ہلکے ہلکے میک اپ میں وہ اس کے ہوش اڑا گئی۔ غصہ تو سارا جھاگ بن کر بہہ گیا۔
"نہیں بس اتنی ہی کافی ہیں۔ باقی پھر کبھی۔"
وہ اس کو اپنی طرف دیکھتا پا کر بوکھلا گئی اور جو منہ میں آیا بول گئی ۔
ماہ!!
گھمبیر لہجے میں بلایا گیا۔
"جی ۔ ۔ ۔ جی ۔ ؟"۔ ۔
وہ اس کے انداز سے گھبرائی جو سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا ۔
" وہ نہ تم ۔ ۔ ۔ ۔ "
معاذ نے مسکراہٹ دبائی ۔
"جی میں کیا ۔ ۔ ؟"
تم نا میرے راستے میں کھڑی ہو میں کہہ رہا تھا کہ ذرا سائیڈ پر ہونا مجھے اپنا سامان لینا ہے"
معاذ نے اپنی بات پوری کر کے اسے دیکھا جو سرخ ہو رہی تھیں شرم سے نہیں غصے سے۔
"دفع ہو آپ ایک نمبر کے فضول آدمی ہیں۔"
"ہاہاہاہا نہیں دو نمبر کا ہوں ۔"
۔ وہ ہنستے ہوے بولا ۔
"میری طرف سے بھلے دس نمبر کے ہوں مجھے کیا فرق پڑتا ہے اس سے؟۔"
"فرق تو پڑتا ہے آخر کو اس بندے کی بیوی ہو تم"۔
ایک ہاتھ ڈریسنگ ٹیبل کی شیشے پر رکھے اور دوسرا ہاتھ اپنی پینٹ کی جیب میں ڈالے ہوئے معاذ اس پر جھکا۔
" جانے دیں مجھے"
وہ منمنائی۔
" ہاں تو جاؤں نہ میں نے کونسا روک رکھا ہے تمہیں ۔ "
واہ یہ شان بے نیازی ماہ رخ بس سوچ کر رہ گئی ۔
"آہ لو برڈز باقی کا کوٹا واپس آکر پورا کرلینا فلحال تو شاید ہمیں کہیں جانا نہیں تھا؟"
تھوڑی تلے ہاتھ رکھتے ہوئے عمیر دروازے کی چوکھٹ پر کھڑا ان سے سوال کر رہا تھا۔
"عمیر ٹھہرو تمہیں تو میں بتاتی ہوں"۔
ماہ رخ تو بھاگنے کی تیاری میں ہی تھی عمیر تو بس نجات دہندہ بن کر آیا تھا۔معاذ اس کے انداز پر سر جھٹک کر ہنس دیا ۔
"پاگل "
وہ بڑبڑایا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"معاذ نے آج کافی دنوں بعد بات کی ہے مجھ سے اللّه خیر ہی کرے"۔
"آنٹی بہت اچھا کھانا بنایا ہے آپ نے بہت مزہ آیا۔"
برابر میں ہی بیٹھیے معاذ کی آواز پر اس نے تمام سوچوں کو جھٹکا ۔
"اففف مجھے کیا چھوڑو "
"جی انٹی بہت زبردست کھانا بنایا ہے آپ نے ھر چیز بہت مزیدار تھی
ماہ رخ کیوں پیچھے رہتی اور کھانا واقعی بہت مزے کا بنا تھا۔
"تھینک یو سو مچ بیٹا ویسے سب کچھ عنایا نے ہی بنایا میں نے تو بس سویٹ ڈش بنائی ہے۔"
ان کی بات پر سعد نے ایک نظر سامنے دیکھا عنایا برتن سمیٹ رہی تھی۔
"ہماری بیٹی نے تو بہت اچھا کھانا بنایا ہے۔ بھئی وجاہت اور شفق لگتا ہے اب ہم اپنی امانت لے ہی جائیں۔"
توصیف صاحب کی بات پر عنایہ کے چہرے پر لالی پھیل گئی۔ اور وہ کچن کی جانب چلی گئی۔ تمام بچا پارٹی سعد کو دیکھتے ہوے مسکراہٹ دبا رہی تھی ۔سعد تو ابھی تک شاک میں تھا۔
"ارے بھائی آپ ہی کی امانت ہے جب مرضی لے جائیں ۔ "
"سعد کی الحمداللّه جاب سٹارٹ ہونے والی ہے۔ اب تو شادی ہوہی جانی چاہیے کیوں سعد میاں ؟"۔
وجاہت صاحب سے بات کرتے ہوئے آخر میں توصیف صاحب اس سے مخاطب ہوئے۔
"آہ یا میرے اللّه ۔ ۔ ۔ "
سعد نے بے اختیار ہی کہا۔
" تمہاری اور عنایا کی بات بچپن سے طے ہے ۔تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہے "
توصیف صاحب اس سے پوچھ نہیں رہے تھے وہ اسے بتا رہے تھے ۔
"نہیں بابا مجھے اعتراض نہیں ہے ۔نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے منگنی وغیرہ کو چھوڑیں سیدھی شادی ہی کروا دیں
اس کی بات پر سب کی ہنسی بے ساختہ تھی۔
"اف سعد تم نے بھی عمیر کی کرسی سنبھال لی ہے؟ اسی کی طرح کہہ رہے ہو میری شادی کروا دیں ۔"
شفق بیگم ہنستے ہوئے بولیں
"جھوٹ میری کرسی نہیں سنبھالی انہوں نے"
عمیر بولا۔
"جس رفتار سے یہ چل رہے ہیں نہ اگلے سال مجھے چاچو کہنے والے نے بھی آ جانا ہے جبکہ میری تو خالی منگنی بھی ڈسکس نہیں ہوتی۔ مجھے لگتا ہے کہ جب میں بوڑھا ہو جاؤں گا تو داجی کہیں گے کہ "لگتا ہے میرا پوتا شادی کے قابل ہوگیا ہے اور پھر اللّه اللّه کر کے میں گھوڑی چڑھوں نگا"اور تب میرے بھتیجے، بھتیجیاں کہیں گے کہ یہ بوڑھے انکل دولہے کی جگہ پر کیوں بیٹھے ہیں؟"۔
عمیر نے سلگتے ہوئے کہا۔
"ہاہاہا" برخودار تمہیں بہت جلدی ہے گھوڑی چڑھنے کی"
وجاہت صاحب نے ہنستے ہوئے کہا۔
"ویسے میں نے کچھ کہنا ہے تمہیں "
وجاہت صاحب نے عمیر کی طرف جھکتے ہوئے کہا۔
وجاہت صاحب عمیر کی بائیں طرف بیٹھے تھے۔
" جی ۔۔۔جی "
وہ ان کی طرف مڑا ۔
"شادی نہ کرواو ابھی بیچلر لائف انجوائے کرو ابھی سے تمہاری منگیتر کے سامنے تمہارا یہ حال ہے تو شادی کے بعد تو وہ تمہے بے حال کر دے گی ۔"
اور ساتھ ہی انھوں نے ایک نظر سامنے بیٹھی ماہ گل کو دیکھا جو پیسٹری کو ایسے چبا رہی تھی کہ وہ پیسٹری نہیں عمیر ہو۔
" وہ تو انکل جی ان کی محبت ہے انہی کے کہنے پر تو میں نے بات کی ہے ورنہ مجھے کیا؟"
لڑکیوں کی طرح منہ پر دونوں ہاتھ رکھے شرمانے کی ناکام اداکاری کرتے ہوئے عمیر نے کہا۔
" پھر ٹھیک ہے ۔ طے پایا کے ایک ماہ بعد نمیر اور سحر کی شادی ہوجائے اور ان کے ایک ماہ بعد سعد اور عنایا ،ماہ گل اور عمیر کی شادی ہو جائے ویسے بھی گھر کے بچے ہیں جلدی ، جلدی اپنی ذمہ داری اٹھا لیں تو ہی بہتر ہے اور ویسے بھی اب تو یہ اپنی ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہو گئے ہیں۔ ویسے کسی کو کوئی اعتراض ہے؟"
اپنی کہنے کے بعد داجی نے سب کو دیکھا۔
سب نے نفی میں سر ہلایا ۔
" ٹھیک ہے پھر"
سب کو مطمئن دیکھ کر داجی نے گویا فیصلے پر مہر لگائی ۔ البتہ سحر ابھی تک شاک میں تھی اور دوسری طرف نمیر اتنا ہی ریلیکس تھا۔
"" اف یہ اتنے آرام سے کیوں بیٹھے ہیں جیسے انہیں کوئی مسئلہ ہی نہیں"۔
سحر کی نظروں کا اثر تھا شاید کہ نمیر نے اس کی طرف دیکھا نمیر کو اپنی طرف دیکھتا پا کر سحر بوکھلا گئی اور نظروں کا زاویہ بدلا اس کی اس حرکت پر نمیر کے ہونٹ بے ساختہ مسکرائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گھر میں شادی کی تیاریاں بہت زور و شور سے چل رہی تھیں ۔ نمرہ بیگم ، سعدیه بیگم اور فرح بیگم کا زیادہ تر وقت بازار میں گزرتا۔ ماہ رخ کو ایسی صورتحال میں سارا گھر سنبھالنا پڑھ رہا تھا کیوں کے سحر اور ماہ گل بھی شاپنگ میں مصروف رہتی تھیں۔ معاذ کی روٹین وہی تھی صبح آفس جاتا تو شام کو واپس آتا دونوں کی ملاقات ہمیشہ ڈنر یا ناشتے پر ہی ہوتی تھی۔ مگر دونوں کے درمیان سرد مہری ہنوز برقرار تھی۔ شادی کے ہنگاموں میں مصروف کسی کو بھی ان کی سرد مہری کا اندازہ نہ ہوسکا دو دن بعد نمیر اور سحر کی مہندی تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ماہ رخ آج بہت مصروف رہی وہ کافی تھک چکی تھی جب وہ کپڑے تبدیل کر باہر آئی تو اسی لمحے معاز بھی کمرے میں داخل ہوا ۔ دروازہ بند کرکے معاذ جب واپس پلٹا تو ماہ رخ بستر پر تکیہ سیٹ کر رہی تھی۔ ایک بےتاثر سی نظر اس پر ڈال کر اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔
ماہ آخر یہ کب تک چلے گا ؟؟؟
وہ تھکے انداز میں بولا ۔
کیا؟؟
ماہ رخ انجان بنی۔
"" تم جانتی ہو ماہ"
وہ اس کے برابر میں آبیٹھا ۔
"ابھی سے تھک گئے ؟"
"ہاں تمہاری بے نام نفرت کی وجہ ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے تھک گیا ھوں "
تھکن اس کے لہجے سے نمایاں تھی ۔
"ڈھونڈیں ۔۔کہیں بے شمار باتوں میں آپ کو یہ وجہ بھی پتا چل جائے گی "
وہ رخ پھیر کر بولی ۔
"اگر میں تم پر پہلے غصہ ہوتا تھا تو اس کی وجہ تمہاری ایمیچورٹی تھی ۔تم جانتی ہو میں تم پر بلاوجہ غصہ نہیں کرتا تھا۔ تمہاری حرکتیں ہی ایسی تھیں ۔دیکھو میں نہیں جانتا تھا کہ تم میرے اس غصے کو انا کا مسئلہ بنا لو گی۔ میں ایک عام سا بندہ ہوں میں زیادہ ایکسپریسیو بندہ نہیں ہوں۔ اپنے ساتھ جڑے رشتوں کو لے کر میں بہت پوزیسیو ہوں۔ میرے لیے ہر وہ رشتہ اہم ہے جو میرے ساتھ جڑا ہے اور پھر ہم نے تو عمر بھر یہی رشتہ نبھانا ہے ۔ہمارے درمیان شاید دوستی اعتماد اور سچ بولنے تک کا بھی رشتہ نہیں ہے ہمارے درمیان نکاح کا ایک بہت مضبوط رشتہ ہے۔ ہر رشتے کو کچھ وقت چاہیے ہوتا ہے ۔ہمیں ابھی دوستی کا رشتہ نبھانا چاہئے کچھ وقت لگے گا اعتماد ، سچائی اور وفا کا رشتہ قائم ہونے میں تم میری شریک حیات ہو ماہ رخ ۔کیا تم دوستی کا رشتہ نبھانے میں میرا ساتھ دو گی؟"
وہ بہت مان سے اس سے پوچھ رہا تھا ۔ماہ رخ نے اس کی طرف دیکھا ۔اس کی آنکھوں میں مان ،محبت تھی وہ اسے ٹھکرا نہیں سکی جانے کیوں وہ بہت بے بس ہو گئی ۔شاید محبت ؟ ہاں محبت ھی تو انسان کو بے بس کر دیتی ہے ۔ ماہ رخ کے انکار کرنے کا کوئی حق ہی نہیں بنتا تھا۔ انسان جب تک خود نہ چاہے حالات بدل نہیں سکتے ۔ ماہ رخ نے بھی جان لیا تھا کہ حالات تب تک نہیں بدل سکتے تھے جب تک وہ خود نہ چاہے۔ ماہ رخ نے بھی جان لیا تھا جب تک وہ خود میں بدلاو پیدا نہ کر لیتی وہ اس رشتے کو آگے نہیں بڑھا سکے گی ۔
"جی معاذ میں آپ کا ساتھ ضرور دوں گی"
وہ سر جھکائے بولی ۔
"میں جانتا ہوں کہ کوئی ایسی بات ہے جسے لے کر تم پریشان ہو مگر میں تم سے نہیں پوچھوں گا۔ صحیح وقت آنے پر تم وہ بات خود مجھے بتاؤ گی۔ ہمیشہ آنے والے وقت کے لیے اچھا گمان رکھنا چاہیے پرنسیس "
"ٹھیک ہے کھڑوس "
ماہ رخ نے ہنستے ہوئے کہا۔وہ دونوں بچپن میں ایک دوسرے کو یونہی بلاتے تھے ۔معاذ نے آج بہت عرصے بعد ماہ رخ کو اپنی وجہ سے ہنستے ہوئے دیکھا تھا ۔اندر کہیں بہت اطمینان سا اترا تھا۔
" اچھا مجھے لگتا ہے تم تھک چکی ہو سو جاؤ ویسے بھی آج تم بہت مصروف رہی ہو۔"
وہ اٹھتے ہوے بولا ۔
"آہم آہم کوئی کہتا تھا کہ ماہ رخ بہت کام چور ہے "_
ماہ رخ نے ایک ابرو اچکائی ۔
"ٹھیک ہے مگر تم نے پروف کیا کہ میں غلط تھا۔"
معاذ نے ہار مانتے ہوے کہا۔
" ابھی تو آپ بہت سی باتوں میں خود کو غلط پائیں گے "
"دیکھتے ہیں"
اس نے پراعتماد لہجے میں کہا۔
"آپ نے سونا نہیں ہے؟"
اس نے معاذ سے پوچھا جو اسٹڈی روم کی طرف جا رہا تھا ۔
"نہیں تم سو جاؤ مجھے ابھی تھوڑا کام ہے ایک فائل دیکھنی ہے ابھی یہاں اسٹڈی کروں گا تو تم ڈسٹرب ہو گی_"
وہ مسکراتے ہوے بولا ۔
" ٹھیک ہے"
مارخ نے کمبل سیٹ کیا_
"گڈنائٹ"
لائٹ آف کرتے ہوئے معاذ کمرے سے ملحق اسٹڈی روم میں چلا گیا ۔
"گڈنائٹ"
ماہ رخ نے زیر لب کہا۔
آج وہ بہت پرسکون تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اب وہ دن دور نہیں جب ان کے درمیان وفا اور اعتماد کا رشتہ بھی قائم ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔_________۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کی کرنیں خان لاج پر اتریں ۔تو معمولات زندگی کا آغاز ہو چکا تھا ۔لاؤنج میں داجی ،وقار ،توصیف ،نعمان صاحب بیٹھے گپوں اور اخبار پڑھنے میں مصروف تھے ۔ کچن میں سحر ایک طرف کھڑی آٹا گوند رہی تھی ۔ ماہ گل املیٹ کے لیے پیاز کاٹ رہی تھی ۔ سمرن فل یونیفارم میں تیار نیچے آتے ہوے نظر آرہی تھی ۔ ایسے میں ماہ رخ اور معاذ کے کمرے کی طرف چلیں تو وہاں معاذ الماری میں منہ دیے جھنجھلایا ہوا تھا ۔
"ماہ رخ میری گرے شرٹ کہاں ہے ؟"
وہ سخت تپا ہوا تھا ۔
"یہ والی پہن لیں نا میں نے یہی ریڈی کر دی تھی ۔"
ماہ رخ نے ایک وائٹ شرٹ اس کے سامنے کی ۔
"یار ۔۔۔مجھ گرے ھی پہننی ہے ۔فورا ڈھونڈھ کر دو مجھے ۔"
معاذ الماری سے دو قدم پیچھے ہٹا ۔ماہ رخ اسے گھور کر رہ گئی ۔ پھر الماری کے پاس آئی اور ادھر ادھر ہاتھ مارنے لگی ۔
"یار ڈھونڈھ دو میں لیٹ ہو رہا ھوں "
"کیا ہے ؟ ڈھونڈھ رہی ھوں نا "
وہ چیخی ۔
"آہستہ یار "
معاذ نے کانوں میں انگلیاں دیں ۔
"اتنا اونچا بولتی ہو ایک دفع تو مردے بھی کفن پھاڑ کر اٹھ بیٹھیں ۔"
وہ بڑبڑایا ۔
"کچھ کہا ؟"
ماہ رخ نے اس کی طرف رخ کیا ۔
"ہاں ۔۔۔نہیں کچھ نہیں ۔تم بس شرٹ نکال دو ۔بڑا احسان ہو گا تمہارا ۔ "
وہ ہاتھ جوڑتے بولا ۔
"معاذ وہ ۔۔۔۔"
"ہاں بولو ؟کیا کیا تم نے اس شرٹ کے ساتھ ؟"
معاذ خدشے کے زیر اثر بولا ۔
"ٹھہریں ایک منٹ ۔ "
وہ مڑی ۔معاذ اسے دیکھتا رہا ۔ باہر نکل کر گرل سے لٹک کر اس نے نسرین کو آواز دی ۔
"خالہ جھاڑنے والا نیا کپڑا لے کر آئیے گا زارا اوپر "
"پر بٹیا ۔۔اس ٹائم جھاڑ پونجھ ؟"
نسرین جاسوسی سے مجبور تھی ۔
"جی ۔۔بس آئیں ۔"
دو منٹ بعد نسرین آتی دکھائی دی ۔
"یہ لیں بٹیا ۔"
"شکریہ خالہ اب آپ جائیں میں دیکھ لوں گی "
وہ مسکرائی ۔
"جی اچھا "
ان کے جانے کے بعد ماہ رخ خود پر دم درود کرتی اندر آئی ۔جہاں معاذ پینٹ ،بنیان پہنے تولیہ گلے میں اٹکائے کھڑا تھا ۔
"یہ لیں "
ماہ رخ نے جھاڑنے والا کپڑا اس کے سامنے کیا جسے دیکھ کر معاذ کا جی چاہا کہ وہ اسے جھاڑ کر رکھ دے ۔
"یہ ۔۔۔یہ ۔۔۔؟؟؟"
اس سے کچھ بولا ھی نہیں گیا ۔کھینچ کر اس نے اپنی شرٹ اپنے سامنے کی ۔ جہاں درمیان میں استری سے جلنے کا بڑا سا نشان تھا ۔
"یہ میری نئی شرٹ تھی ۔"
وہ صدمے سے بولا ۔
"جل گئی نا "
وہ معصومیت سے بولی ۔
"ماہ رخ ؟"
"ہاں ۔۔۔جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ۔"
"کیا مطلب ؟؟؟"
ماہ رخ حیرانی سے بولی ۔
"کچھ جلنے کی بو نہیں آرہی ۔"
معاذ بے نیازی سے ادھر ادھر دیکھتا بولا ۔
"ہاں ۔۔۔آرہی ہے پرررر ۔۔۔۔۔"
وہ ایک دم معاذ کو دھکیلتی ڈریسنگ روم کی طرف دھوڑی جہاں استری اسٹینڈ پر اس کا نیا بلیو سوٹ پڑا تھا اور اس کے اوپر فل چلتی استری ۔
"یا اللّه "
دھوڑ کر اس نے استری دور کی جس کے ساتھ اس کا سوٹ بھی چپک چکا تھا ۔وہ معاذ کی بات سننے جانے سے پہلے یہی استری کر رہی تھی ۔وہ روہانسی ہو گئی ۔مڑ کر اس نے دیکھا جہاں معاذ ڈریسنگ کی چوکھٹ کے ساتھ بازو باندھے کھڑا تھا ۔
"آپ کی وجہ سے ہوا ہے سب کا سب "
ماہ رخ نے اس کے سینے پر مکے برسائے ۔
"میری وجہ سے ؟"
وہ حیرانی سے بولا ۔
"ہاں تو اور کیا ۔نا آپ مجھے بلاتے نا میں یوں بیچ میں اپنا کام چھوڑ کر آتی ۔"
"اور یہ تمہاری وجہ سے ہوا ہے "
معاذ نے جلی ہوئی اپنی شرٹ اس کے سامنے کی ۔
"یہ آپ کی وجہ سے ہوا ہے "
ماہ رخ نے اپنی شرٹ اس کے سامنے کی ۔
"تمہارا قصور ہے ۔تم کچھ نہیں کر سکتی ۔"
معاذ جلے انداز میں بولا۔
"میں نہیں کرسکتی ۔آپ سمجھتے کیا ہیں خود کو ۔؟"
اس نے اپنی شرٹ فولڈ کر کے اس کے منہ پہ دے ماری ۔
"یہ تم لے لو "
معاذ نے اپنی شرٹ اس پر اچھالی ۔
"اب دیکھو تم نے مجھے کتنا لیٹ کر دیا "
بھر آکر معاذ کی نظر گھڑی پر پڑی تو وہ چلا اٹھا ۔
"میں نے کیا ؟جھوٹے آدمی ۔"
ماہ رخ نے اسے گھورا ۔
"معاف کر دو مجھے پلیز "
معاذ نے ہاتھ جوڑا ۔
"جاؤ کیا معاف "
وہ احسان کرتے لہجے میں بولی ۔
"بہت نوازش "
وہ جلے کٹے انداز میں بولا اور اپنی وائٹ شرٹ اٹھا کر ڈریسنگ کی طرف چلا گیا ۔
"سنو ؟"
جاتے ،جاتے وہ مڑا ۔
"کہیں ؟"
وہ تحمل سے بولی ۔
"اب نسرین خالہ کو دونوں شرٹ دے دینا ۔جھاڑنے والے دو کپڑے ہو گئے ہیں "
"معاذ میں آپ کا سر پھاڑ دوں گی "
کتنا افسوس تھا اسے اپنی شرٹ کے جلنے پر ۔اوپر سے یہ انسان اسے مزید جلا رہا تھا ۔معاذ ہنستا ہوا کمرے میں چلا گیا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔
" ہٹیں چھوڑیں میرا راستہ "
سحر منمنائی ۔
سحر کچن کی طرف جا رہی تھی جب کچن کے دروازے پر نمیر سے ٹکرا گئی۔
" ویسے مجھے نہیں پتا تھا کہ میری ہونے والی بیوی اتنی ٹیلینٹیڈ ہے۔"
نمیر زومعنی انداز میں بولا ۔
"ک ۔ ۔ کیا مطلب ہے آپ کی اس بات کا؟ میں نے کیا کیا؟"
سحر نے گھبراتے ہوئے پوچھا ۔
"یاد نہیں آرہا یا یاد نہیں کرنا چاہتی "
((ایک جھماکے سے سحر کے دماغ میں چوری کرنے والی بات آئی "
اہ تو نمیر جان گئے ہیں ۔چلو اچھا ہی ہوا اب کم از کم اتنا تو پتہ چل ہی گیا ہو گا کہ شادی کے بعد مجھے شوپنگ کے پیسے آرام سے دے دیا کریں گے۔ ورنہ جانتے ہونگے کہ اگر سحر کو سیدھے طریقے سے پیسے نہ دیئے تو سحر انگلی ٹیڑھی کرکے نکال لے گی)")۔
" کیا کہہ رہے ہیں ڈاکٹر صاحب ٹھیک طریقے سے بتائیں؟"
سحر خود کو نارمل کر چکی تھی۔ اسلئے اعتماد سے بولی۔معصومیت چہرے پر سے ٹپک ،ٹپک کر گر رہی تھی ۔
" کیا ہو رہا ہے یہاں؟" نمرہ بیگم کی آواز پر سحر دوڑتی ہوئی کچن میں چلی گئی۔جب کہ نمیر نے گردن مسلی ۔
" وہ بڑی امی میں ابھی آیا."
سر کھجاتے ہوئے نمیر وہاں سے کھسک لیا۔
"شیطان کہیں کا"
نمرہ بیگم ہنستے ہوئے کچن کی طرف بڑھ گئیں ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
" ماشااللہ دونوں بچے کتنے خوبصورت لگ رہے ہیں"۔
داجی نے نمیر اور سحر کو دیکھتے ہوئے کہا جو ایک ساتھ اسٹیج پر بیٹھے بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔ آج ان دونوں کی مہندی تھی۔ نکاح دوپہر میں ہی ہو چکا تھا ۔
کیا؟کیا؟داجی ہم پیارے نہیں لگ رہے؟
عمیر نے صدمے سے کہا۔
"داجی میرے داجی کر دیں نا عمیر کی تعریف آج وہ دو گھنٹے پالر رہا ہے تب جاکر یہ بگے بندر سی بوتھی نکلی ہے"۔
ماہ گل نے ہنستے ہوئے کہا۔
"شرم لڑکی کچھ شرم تمہارا ہونے والا شوہر ہے"۔
داجی کو ہنسی تو بہت آئی مگر ضبط کر گئے۔
" ؟ کیا داجی؟ "اٹ از ناٹ فیئر"
ماہ گل داجی کو دیکھتے ہوئے بولی۔
" وٹ فیئر اینڈ ان فیئر یہ سب کچھ نہیں ہوتا اور آپ کہا کرو مجھے آخر کو تمہارا ہسبینڈ ٹو بی ہوں"۔
عمیر نے سنجیدگی سے کہا ۔
" ہممممم " آپ" اور وہ بھی تمھے ؟ "منہ دھو کر رکھو اپنا آیا بڑا "
ماہ گل پیر پٹختی وہاں سے چلی گئی۔جبکہ عمیر بیچارہ ہاتھ مسلتا رہ گیا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔
اسٹیج پر بار بار کوئی نا کوئی آرہا تھا ۔ کافی دیر تک سب انھیں مہندی لگاتے رہے ۔ سحر تو چوئی موئی بنی بیٹھی تھی ۔
" سنو"
نمیر نے آہستگی سے اسے پکارا ۔
" جی؟"
وہ بوکھلائی مگر اعتماد بحال کرتے بولی ۔
" بہت حسین لگ رہی ہو آج"
نمیر نے دل کھول کر تعریف کی ۔
" ججی ۔ جی شکریہ!"
سحر بمشکل بولی تھی۔ ورنہ اس نے پہلی بار تعریف جو کی تھی بے ہوش ہونا تو بنتا ہی تھا۔ سحر نے اورینج کلر کی اونچی کرتی اسٹائل فراک پہنی تھی اور ساتھ میں ڈارک گرین شرارہ، پر پل ڈوپٹے کا ایک پہلو آگے اور ایک پلو پیچھے کو ڈالے ہوئے، کندھے پر ایک طرف ڈالی ہوئی فرینچ بریڈ، نازک پھولوں کا زیور پہنے وہ ہلکے ہلکے میک اپ میں نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی۔ نمیر بھی بہت خوبصورت لگ رہا تھا وائٹ کرتے شلوار پر، گولڈن واسکوٹ پہنے ہوئے پیروں میں پشاوری چپل، جیل سے سیٹ کیے بال ،کلین شیو میں وہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔سب کی زبان سے دونوں کو دیکھ کر "ماشاء اللّه " نکلتا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔
" ماہ"
سیڑھیاں اترتی ماہ رخ معاذ کی آواز پر پلٹی۔
" جی؟؟"
" ماہ تمہاری بائیں آنکھ"
معاذ نے اس کی آنکھ کی طرف دیکھ کر تشویش سے کہا ۔
"کیا ہوا میری آنکھ کو ؟"
معاذ کی بات پر ماہ رخ کا ہاتھ بے ساختہ اپنی بائیں آنکھ پر گیا۔وہ گھبرائی ۔
" آج ڈراونی لگ رہی ہے دراصل تمہارا کاجل پھیلا ہوا ہے"
وہ آنکھ دباتے بولا ۔ماہ رخ کا خون خول اٹھا ۔
" کیا؟؟؟"
ماہ رخ صدمے سے بس اتنا ہی کہہ پائی ۔
" ہٹیں میں نہیں کرتی آپ سے بات"
وہ معاذ کو ایک طرف کرتے ہوئے بولی اور وہاں سے جانے ہی لگی تھی کہ معاذ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے قریب کیا۔
"مذاق کر رہا تھا یار بہت خوبصورت لگ رہی ہو"
پنک قمیض اور لائٹ گرین شلوار جبکہ پرپل ڈوپٹہ ایک کندھے پر سیٹ کئے ہوئے ،بالوں کی البتہ چوٹی بنا کر کمر پر ڈالی ہوئی تھی، حنائی ہاتھوں میں چوڑیاں انہیں اور دلکش بنا رہی تھیں وہ بلا شبہ بہت حسین لگ رہی تھی۔
معاذ نے شلوار قمیض پہنی تھی ۔ کندھوں پر میرون شال ڈالی ہوئی تھی۔معاذ نے ماہ رخ کو دیکھا جو بوکھلا کر ادھر ادھر دیکھ رہی تھی ۔
آگے بڑھ کر معاذ نے اس کے ماتھے پر اپنی محبت کی پہلی مہر ثبت کی ۔ماہ رخ جہاں کی تہاں رہ گئی ۔بے یقینی سے نظریں اٹھائے اس نے معاذ کو دیکھا ۔بے ساختہ پلکیں عارضوں پر سجدہ ریز ہوئیں اور شفق کی لالی اس کے چہرے پر پھیل گئی۔ مبہوت سا معاذ اس کے چہرے پر آتے جاتے رنگوں کو دیکھ رہا تھا ۔
"اب چھوڑ بھی دیں مجھے اگر دیکھ لیا ہو تو "
ماہ رخ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے منمنائی۔ دراصل اس میں اتنی ہمت بھی نا تھی کے معاذ کی طرف دیکھتی۔
معاذ نے مسکراتے ہوے اسے اپنی گرفت سے آزاد کیا تو وہ باہر کی جانب بڑھ گئی ۔معاذ مسکراتے ہوے اسے جاتے دیکھتا رہا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
" السلام علیکم آنٹی کیسی ہیں آپ اور باقی لوگ نظر نہیں آ رہے؟"
سعد نے شفق بیگم سے پوچھا۔
" ہا ہاہا ۔ سیدھا سیدھا لوگوں کا نام پوچھ لو نا بیٹا "
وجاہت صاحب ہنستے ہوئے بولے۔
سعد شرمندہ ہوگیا ۔وہ عنایا کو دیکھنے آیا تھا مگر وہاں وہ اسے کہیں نظر ہی نہ آئی۔
" دراصل عنایہ نے خود آنے سے منع کردیا تھا کہہ رہی تھی کہ اسکی کچھ اسائنمنٹ کمپلیٹ کرنے والی ہے ۔صبح جمع کروانی تھی سو اب بیٹھ کر کمپلیٹ کرے گی۔"
"اوکے انٹی بعد میں ملیں گے "
سعد مسکراتے ہوے پلٹا۔
" حد ہو گئی ہے ایک ماہ ہو گیا ہے شکل تک نہیں دکھائی مجھے ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ تیار رہتا ہے اس کے پاس۔ مگر خیر ایک ایک بدلہ گن گن کر لوں گا بچو"
سعد نے تپ کر دل میں سوچا ۔ سعد چلتا ہوا اسٹیج تک پہنچا جہاں سب کزن مستیاں کر رہے تھے۔ سب نمیر اور سحر کو خوب تنگ کر رہے تھے۔ مہندی کے فنکشن کا انتظام لان میں ھی کیا گیا تھا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"کتنا مزا آیا آج معاذ"
ماہ رخ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
" ہممممم اللّه ان دونوں کو خوش رکھے"
معاذ نے دل سے دعا دی۔
" امین"
ماہ رخ بے ساختہ بولی ۔
"ماہ رخ ؟؟"
معاذ نے سنجیدگی سے اسے دیکھا ۔
"جی"
وہ ہونٹ دانتوں تلے دبائے بولا ۔مقصد اسے تنگ کرنا تھا اتنا کہ وہ اس سے لڑے .
" آہ ۔ ۔ مجھے نیند آرہی ہے آف میں تو آج تھک گئی ۔بہت زور کی نیند آرہی ہے ۔"
معاذ کی نظروں کے پیغام پڑھتی ماہ رخ کمبل لیتی کروٹ بدل گئی ۔
"میری بات سنو "
معاذ نے چبا چبا کر کہا ۔وہ تو بس اس سے دو گھڑی بات کرنا چاہتا تھا اور یہ محترمہ نخرے ھی ختم نہیں ہو رہے تھے ۔
"اففف معاذ نیند آرہی ہے لائٹ بند کر دیں اور سونے دیں مجھے بھی اور خود بھی سو جائیں خدا کا واسطہ ہے"
"تمہیں تو میں دیکھ لوں گا"
وہ دھمکی دیتے ہوے بولا ۔
" شوق سے دیکیھے گا کل جب تیار ہوں گی مگر ابھی تو لائٹ آف کر دیں"۔
"ویسے تم بہت پیاری لگ رہی تھی بس تھوڑی سی چڑیل ۔ ۔ ۔ ۔ "
معاذ کی بات بیچ میں رہ گئی کیونکہ ماہ رخ نے اسے سرہانہ کھینچ کر مارا تھا۔
اف ظالم لڑکی ۔ایسے کرتے ہیں کیا؟
معاذ نے سرہانا دبوچتے ہوے کہا ۔
" جی ہاں۔ اور اب نہ سوئے تو میں اور بھی ظالم ہو سکتی ہوں"
ماہ رخ نے انگلی دکھاتے ہوے اسے وارن کرنا چاہا ۔
" آہ ہو جاؤ ہم بھی تو اسی انتظار میں بیٹھے ہیں"
معاذ نے مسکراتے ہوے کہا اور اس کی انگلی پکڑ کر چومی ۔
"معاذ کیوں تنگ کر رہے ہیں مجھے؟ ہٹیں اور زیادہ پھیلنے کی ضرورت نہیں ہے "
اسے خود سے دور کرتے ہوے ماہ رخ نے کہا ۔ماہ رخ کروٹ بدل گئی۔دل معاذ کے اس انداز پر ایک الگ انداز میں دھڑکا بے اختیار اس نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا ۔
"تمہارے دل کی دھڑکنیں مجھے یہاں تک سنائی دے رہی ہیں"۔
معاذ نے ہنستے ہوے کہا ۔
"معاذ آپ ۔۔!!!"
ماہ رخ جارجانہ تیوروں سے اس کی جانب بڑھی ۔
"اچھا بابا معاف کر دو "۔
معاذ نے دونوں ہاتھوں سے اس کے کان پکڑتے ہوے معافی مانگی۔جب کہ اس کے اس انداز پر ماہ رخ کھلکھلا کر ہنس دی ۔
"پاگل ہیں یہ "
ماہ رخ نے کروٹ بدلتے ہوے سوچا ۔
"تم نے کیا ہے "
معاذ کی آواز گھونجی ۔
"اف ماہ رخ کچھ کیا سوچنا اب یہ تو بہت خطر ناک ہیں"
خود کو ڈپٹتے ہوے ماہ رخ نیند کی وادیوں میں اتر گئی ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔
بلاآخر نمیر اور سحر کی شادی کا دن آن پہنچا ۔ سعد نمیر کے کمرے میں بیٹھا اسے تیار ہوتے ہوے دیکھ رہا تھا ۔
" آج تو دلہا صاحب آپ کے دانت شریف ہی اندر نہیں ہورہے"۔
سعد نے نمیر کو دیکھ کر کہا جو اس وقت گولڈن شیروانی میں ریڈ کلہ پہنے مسکراتے ہوئے بہت خوبرو لگ رہا تھا۔
"کس کے دانت اندر نہیں ہورہے مجھے بتاؤ شاید اندر فکس نہ ہورہے ہوں ایسے فکس کروں گا، ایسے فکس کروں گا کہ فکس ہونے کے بھی قابل نہیں رہیں گے"
اصلی بات سے بے خبر عمیر نے کرتے کے بازو فولڈ کرتے ہوئے ڈائلوگ مارنا ضروری سمجھا ۔
"تھم جا ہیرو سمجھا ۔۔۔ بات کا پتہ نہ ہو تو یہ اپنی چھ فٹ کی ٹانگ نہ اڑایا کر "
سعد نے عمیر کو اس کی اوقات یاد دلائی کہ
"لے، لے بھائی تیری اتنی ہی عزت ہے"
عمیر بس ناراض نگاہوں سے اسے گھور کر ہی رہ گیا۔ کیوں کہ بات کڑوی ہی سہی مگر سولہ آنے درست تھی ۔
"یا الہی ان کا یوں دیکھنا
اب ہم انہیں دیکھیں یا ان کی نظروں کو دیکھیں"
" اے بس کر خاموش ہی رہ کیوں ٹانگیں توڑ رہا ہے شعر کی "
عمیر نے سعد کو لتاڑا۔ یعنی بدلا لیا ۔وہ چلتے ہوے باہر آگئے ۔
"لیڈیز اینڈ جینٹلمین پٹ یور ہینڈ ٹوگیدر فور دا بیوٹیفل کپل"
"(خوبصورت جوڑے کے لیے تالیاں بجائیں )
عمیر کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوے سعد نے کہا ۔
اس کی بات پر نمیر اور عمیر نے مڑ کر دیکھا جہاں معاذ اور ماہ رخ سیڑھیاں اتر رہے تھے۔ ماہ رخ گولڈن شارٹ فراک جس پر گولڈن کڑھائی کی ہوئی تھی پہنے ہوئی تھی جبکہ ساتھ میں لال شرارہ اور لال ہی ڈوبٹہ ایک طرف ڈالے ہوئے نازک زیور کھلے بالوں اور ہلکے سے میک اپ میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ جب کہ اس کے ساتھ معاذ وائٹ سوٹ پر گولڈن واسکوٹ پہنے ہوئے تھا جس کی جیب میں لال رومال اٹکا ہوا تھا بال ایک طرف سیٹ کیے ہوئے تھے ہلکی ہلکی شیو میں وہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔
" ارے واہ بھائی بھابھی "کیا میچنگ ہے؟" دیکھیں آپ گھر پر تیار ہوئی ہیں اور کتنی خوبصورت لگ رہی ہیں جبکہ وہ تینوں بھوتنیاں بننے پالر گئی ہیں ۔"
عمیر نے ماہ رخ کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
"ہاہاہاہا پاگل۔۔۔!!!"میں ماہ گل کو بتاؤں گی"
ماہ رخ نے دھمکی دی ۔
" نہیں بھابھی پلیز نہیں نہیں ۔ پہلے ہی بہت مشکل سے ہو رہی ہے میری شادی میں کنوارا مرنا نہیں چاہتا۔"
عمیر نے معصوم صورت بنا کر دہائی دی۔
"" نہ بتایئے گا بھابھی ورنہ بعد میں بےچارا کچھ یوں کہتا پھرے گا:
تھوڑا سا چکن تھوڑا سا پاستہ
شادی کروا دو خدا کا واسطہ"
سعد نے اپنا فرض ادا کیا ۔
" ہاہاہاہا بہت ہنسی آئی کہہ تو ایسے رہا ہے جیسے تیرے والی نے تجھے پھولوں کے ہار پہنا دیے ہوں"
عمیر نے کلس کر کہا ۔
" او بس کرو بھئی پہلے مجھے میرے بولی تو لانے دو"
کب سے خاموش کھڑے نمیر نے بھی دہائی دی ۔
" لو آپ کرلو شوق پورا لگو آگے"
ماہ رخ نے کھینچ کر نمیر کو آگے لگایا۔
" ارے معاذ بھائی آپ کیوں اتنے چپ ہیں ؟ماہ رخ کہیں تم رات کو منہ دھو کر ایسے ہی تو باہر نہیں نکلی تھی؟"
عمیر نے سوالیہ انداز اپنایا ۔
کیا مطلب ہے تمہارا؟
ماہ رخ نے اس کی بےتکی بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کی ۔
" میرا مطلب تھا کہ منہ دھونے کے بعد جو میک اپ ادھر ادھر پھیلا ہوتا ہے اسے بھی صاف کرنا ہوتا ہے"
عمیر نے معصومیت سے کہا۔
" کمینے رکو میں اب تو ماہ گل کو پکا بتاؤں گی"
ماہ رخ نے عمیر پر جھپٹتے ہوئے کہا۔
" ابے معاذ یار تو انہیں چھڑوا نا میری برات نکل جانی ہے"۔
نمیر نے اپنی ہی دہائی دی۔
" نہ کر میرے بچے آج معاذ کو جی بھر کے اپنی بیوی کو دیکھنے دے میرا نہیں خیال ان کے لئے آج اس سے زیادہ اہم کوئی اور کام ہے ۔"
سعد کے کہنے پر جہاں معاذ کو ہوش آیا وہیں عمیر سے دو، دو ہاتھ کرتی ماہ رخ بھی چونکی۔
"اف سب پاگل ہیں تم سب بہرے ہو گئے ہو؟ ہارن سنائی نہیں دے رہا تم لوگوں کو؟"
اپنی جھجھک مٹاتے ہوئے ماہ رخ باہر کو بھاگ گئی۔
" اف یہ معاذ بھی نہ حد کرتے ہیں"
جبکہ ہونٹوں پر ایک خوبصورت سی مسکان پھیل گئی۔
بارات ہال پہنچی تو ان کے استقبال کے لیے نعمان صاحب، سعدیہ بیگم ،شفق بیگم، وجاہت صاحب، توصیف صاحب، نمرہ بیگم ماہ گل اور سمرن پہلے ہی موجود تھیں ۔
سحر بھی آچکی تھی پر ابھی اسے برائیڈل روم میں ہی بٹھایا گیا تھا۔ تھوڑی دیر میں سحر کو بھی اسٹیج پر لایا گیا ۔سحر دلہن بن کے بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ روایتی دلہنوں کا سرخ جوڑا پہنے ہوئے، برائیڈل میک اپ، کیے بالوں کا جوڑا بنائے ،نفیس سے زیور ، مہارت سے سیٹ کیے گئے ڈوبٹے میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
"ماہ رخ میں کیسی لگ رہی ہوں ؟"
جونہی ماہ رخ سٹیج سے اتر کر اس تک پہنچی تو اس نے ماہ رخ سے پوچھا ۔
"ہاہاہا یہ تو تم بھائی سے ہی پوچھنا"
ماہ رخ نے شرارت سے کہا۔
سحر کا چہرہ پل بھر میں ہی سرخ ہوا تھا ۔ سحر ماہ رخ ،ماہ گل اور سمرن کی ہمراہی میں اسٹیج تک آئی جہاں نمیر نے اسے ہاتھ تھام کر اپنے برابر بٹھایا ۔سب نے ان دونوں کی جوڑی کو خوب سراہا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
معاذ ۔۔"
ماہ رخ نے دانت پیستے ہوئے معاذ کو پکارا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
"ہاں جی جانِ معاذ "
محبت بھرے لہجے میں پوچھا گیا ۔
"معاذ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نہ ؟نہیں مسئلہ کیا ہے؟ سب دیکھ رہے ہیں۔ آپ کیسے مجھے پاگلوں کی طرح دیکھ رہے ہیں؟ سیدھے کام نہیں کر سکتے؟"
ماہ رخ نے دانت پیستے ہوئے کہا ۔
" یاد کرو تم نے ہی رات کو کہا تھا صبح ٹھیک سے دیکھیے گا معاذ"
معاذ نے معصومیت سے کہتے ہوے پھر سے اسے دیکھنا شروع کر دیا گویا اس سے اہم کوئی کام نہیں ہو ۔مقصد اسے زچ کرنا تھا ۔
" اف اللہ جی معاذ سوری غلطی سے کہہ دیا تھا۔ پلیز ۔۔!!! ایسے نہ دیکھیں مجھے"
"جی میم آپ کو بل آتا ہے میں اپنی زوجہ کو دیکھ رہا ھوں "
معاذ نے گردن اکڑائی ۔ ماہ رخ نے تپ کر اسے گھورا ۔پھر تن فن کرتی وہاں سے چلی گئی ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"سونیو سنو نہ "
عمیر نے بےڈھنگے انداز میں ماہ گل کو بلایا ۔
کیا ہے ؟؟
ماہ گل باقاعدہ کاٹ کھانے کو دھوڑی۔
" کا ۔ ۔ کچھ نہیں!!! ویسے اتنا اونچا نہ بھی بولتی تم نا اچھا نہیں کرتی میرے ساتھ جاناں"
وہ بوکھلایا اس کے انداز سے ۔
"در فٹے منہ عمیر۔ جیسے تمہیں اثر ہو جاتا ہے نہ؟"
ماہ گل کہہ کر رکی نہیں چلی گئی ۔
"ہمت کر میرے بھائی تیری میری اوقات ہی کیا ہے؟ تیرے والی ہو کر منہ نہیں لگاتی۔ میرے والی نے ایک ماہ سے شکل نہیں دکھائی ۔سمجھ سکتا ہوں میں تمہارا غم پالر پر ایویں ہی اتنے پیسے لگائے ""تیرا غم ،میرا غم اک جیسا صنم،"
سعد نے عمیر کے کندھوں پر بازو حمائل کرتے ہوئے کہا۔
" پراں ہٹ آیا بڑا سالے تیرے ساتھ تو ایسی ہی کتوں والی ہونی چاہیے میں تو کہتا ھوں شادی تک تجھے شکل بھی نہ دکھائے اپنی "
عمیر نے کلستے ہوے کہا وہ ابھی تک اپنی بےعزتی نہیں بھولا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔
دودھ پلائی کی رسم ماہ گل ،ماہ رخ اور سمرن نے مل کر کی تھی۔
" کیا؟؟؟ تم دونوں اپنے بھائی کے ساتھ نہیں ہو"
YOU ARE READING
دل کی سلطنت✔
Humorمحبت سب کرتے ہیں ۔ بات کرتے ہیں اعتبار کی ۔ کیا جو محبت کرتے ہیں وہ اعتبار بھی کرتے ہیں؟ ۔ ھر رشتے کی بنیاد محبت ہو ضروری نہیں رشتے اعتماد سے بنتے ہیں ۔ معاذ اور ماہ رخ کی محبت میں اعتبار بنیادی شرط ٹھہری ۔ یہ کہانی بھروسے ،وفا اور محبت کی ہے ۔