لاسٹ پارٹ ♥

3.4K 164 55
                                    

نمیر نے افسوس میں سرہلایا ۔
"جی نہیں ہم اپنی بہن کے ساتھ ہیں"
تینوں نے دوبدو کہا ۔
"وہ تو ہو گی نہ بہن کے ساتھ آخر کو پیسے بھی تو اس طرف والیوں کو ملنے ہیں نہ ؟"
سعد نے دانت نکالتے ہوے کہا ۔
"میں بھی اپنی آپی ساتھ ھوں ۔"
عمیر شرافت سے ان تینوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔
"چل ہٹ  پرے ساری زندگی تو آپی کہا نہیں آج آپی یاد آگئی ۔"
ماہ گل کے ایک دھموکے سے عمیر صاحب دلہے کے قدموں میں سجدہ ریز ہو گئے ۔  لڑکوں نے خوب تنگ کیا پر لڑکیاں اپنا حق لے کر ہی رہیں۔بیچارہ دولہا جو بھی کر لے آخر میں لٹ ھی جاتا ہے ۔ شادی والے دن سالیاں لوٹتی ہیں اور شادی کے بعد بیوی سکون لوٹ لیتی ہے ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سحر اس وقت نمیر کے کمرے میں  بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ گلابوں کی خوشبو چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی ۔سب رسموں کے بعد اسے کمرے میں چھوڑ دیا گیا تھا ۔سحر سر  جھُکائے بیٹھی تھی۔ گلا کھنگھارتے ہوئے نمیر  کمرے میں داخل ہوا۔ دروازہ بند کرکے نمیر بیڈ کی طرف بڑھا جہاں سحر کا جھکا ہوا سر مزید جھک  چکا تھا۔ نمیر  بیڈ پر سحر کے قریب بیٹھ گیا ۔
السلام علیکم!!
جوابا سحر  نے بھی سر کو ہلکا سا ہلا کر جواب دیا ۔
کیسی ہو ؟
محبت سے پوچھا گیا ۔
"ٹھیک ہوں"
سحر نے مدہم لہجے میں کہا ۔
"تم خوش ہو ؟"
نمیر نے اس کی آنکھوں میں جھانکا ۔
"جی "
وہ مدہم سا بولی ۔نمیر مسکرا دیا ۔
" سحر میں تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں تم ان باتوں کو آج سے ہی اپنے پلو سے باندھ لو مجھے باتیں دہرانی نہ پڑیں"
نمیر  نے سنجیدگی سے کہا ۔
"جی بولیے میں سن رہی ہوں"
سحر نے ہولے سے کہا ۔
"سحر اب تم یہ بچوں والی حرکتیں  بند کردو پلیز ۔اب تم ایک  شادی شدہ عورت ہو ۔ ۔ ۔ "
" نمیر"
نمیر کی  بات ختم ہونے سے پہلے ہی سحر  اس کی بات کاٹتے ہوے چلا اٹھی ۔
کیا؟؟؟
نمیر  نے حیرانی  سے پوچھا۔
"نمیر میں عورت نہیں ہوں"
نمیر  نے سحر کو یوں دیکھا کہ گویا اس کی عقل پر ماتم کر رہا ہو۔
" شادی شدہ تو ہو نا؟ ایک منٹ ۔ اب کہیں یہ  ماننے سے انکار نہ کر دینا کہ تم شادی شدہ بھی نہیں ہوں؟ ہو نا ؟
کسی خدشے کے زیرِ اثر نمیر نے پوچھا ۔
"نہیں وہ تو میں ہوں نا؟"
سحر نے   معصومیت سے آنکھیں پٹا کر جواب دیا۔
" نا "سے کیا مطلب ہے؟ اس کی تصدیق بھی مجھ سے چاہ رہی ہو"؟
وہ حیرانی سے بولا ۔
" نہ  ۔ ۔ نہیں تو آخر کو  نکاح نامے پر سائن میں نے کیے  ہیں تین بار قبول ہے میں نے ہی کہا تھا ۔اتنا بڑا مرحلہ میں طے  کیا ہے اور مجھے پتا نہیں ہوگا؟"
اور اتنا بڑا پر سحر نے باقاعدہ بازو پھیلا کر بڑا کو ظاہر کرنا چاہا۔
" نمیر  آپ کچھ کہہ رہے  تھے ؟"
سحر نے  معصومیت سے پوچھا۔
" ہاں مگر آپ بولیے میں سنتا ہوں۔ نہیں۔  بلکہ ایک کام کرتے ہیں تم میری جگہ پر آجاؤ اور مجھے اپنا دوپٹہ بھی دے دو میں تمہاری جگہ پر بیٹھ جاتا ہوں"
نمیر نے جل کر کہا۔
"آپ بھی نہ نمیر چھوڑیں اچھا تھوڑی  لگتا ہے ؟"
سحر شاید بات کو زیادہ سیریس لے گئی تھی۔
" اوہ ۔ ہاں یاد آیا ڈاکٹر صاحب میرے رونمائی کا تحفہ تو دیں ؟"
نمیر کے سامنے بازو پھیلا کر سحر  نے اپنی  رونمائی کا تحفہ مانگا۔
" کیا یار سحر بہت خراب ہو تم ۔ میری بات بھی نہیں سنی اور سیدھا اپنی پڑ گئی ہے"
"ہاں تو صبح ماہ وغیرہ  پوچھیں گی تو میں کیا کہوں گی؟ کہیں آپ  لانا تو نہیں بھول گئے؟"
سحر نے فکرمند ہوتے ہوئے پوچھا ۔
"سحر تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا۔ انہی پیسوں سے لے لینا جو میرے بٹوے سے نکالے تھے۔ ویسے وہ بٹوا میرا فیورٹ تھا "
نمیر نے  آخر میں شکوہ کیا۔
" آپ کو کیسے پتا چل گیا یہ بات صرف مجھے ہی پتہ تھی؟"
سحر شرمندہ ہوئی۔
" اگلے روز ہی مجھے اندازہ ہوگیا تھا تمہارے تیور دیکھ کر"
"آپ ناراض ہیں ؟"
وہ منمنائی ۔
"نہیں مجھ سمیت میری ھر چیز پر تمہارا حق ہے "
نمیر کی بات پر سحر جی جان سے مسکرا دی ۔ کتنا اچھا لگتا ہے جب کوئی آپ کو مان بخشے ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔
" ماہ کیا ہوا ایسے کیوں بیٹھی ہوں ؟؟؟"
معاذ نے ماہ رخ  سے پوچھا جو اس وقت ٹیرس میں رکھی کرسی پر بیٹھی تھی سامنے ہی میز پر  کافی رکھتے ہوئے معاذ  بھی اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
" میں نہیں کر رہی آپ سے بات"
ماہ رخ نروٹھے لہجے میں بولتی رخ پھیر گئی ۔
" کوئی مجھے بتائے گا کہ میری خطا کیا ہے آخر؟"
معاذ  کافی کا مگ اٹھاتے ہوئے بولا۔
"آپ آج مجھے کیسے ہوچھوں کی طرح دیکھ رہے تھے ؟"
" کیا ہوچھوں کی طرح ؟"
معاذ کی تو صدمے سے آنکھیں ہی کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔اس کی بیوی کو تو محبت کا الف ب بھی نہیں پتا تھا ۔
"اور نہیں تو کیا ؟ کتنی شرمندگی ہوئی نہ مجھے سارے ایسے گھور رہے تھے مگر آپ کو تو اثر  نہیں ہوا ،نہ ہونا تھا۔
" اچھا یار تم تو فرمابردار بیوی نہیں میں تمہارا فرمانبردار بن رہا تھا۔ تم نے ہی تو کہا تھا کہ کل دیکھ لیجئے گا"
کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے معاذ نے مزے سے کہا ۔
"کیا مطلب ہے آپ کی اس بات کا ؟ میں ماشاء اللہ سے فرمابردار بیوی ہوں"
"اہ! اتنی تم فرما بردار بیوی  اب تمہیں میں کیا کہوں؟"
شرارتی لہجے میں کہتے ہوے معاذ نے سرد آہ بھری۔
" بس رہنے دیں  مجھے پتا ہی ہے کوئی فضول بات ہی  کرنی ہوگی آپ نے"
سر جھٹکتے ہوے ماہ رخ  کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔
ہاہاہاہا ۔ ۔ ۔ کافی تو پی لو نہ"
"ہممممم مجھے نہیں پینی خود ہی پی لی جیے ۔"
کمرے سے ماہ رخ  کی آواز آئی۔
"اف  یہ لڑکی اللہ ہمت دینا مجھے ۔"
"آمین"
دل نے بے ساختہ کہا۔ اگرچہ حالات اتنے  خوشگوار نہیں تھے مگر پہلے سی سردمہری بھی نہیں تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آج سحر اور نمیر کا ولیمہ تھا ڈل گولڈن میکسی میں برائیڈل میک اپ اور کھلے بالوں کے ساتھ چہرے پر شرمگیں مسکراہٹ کے ساتھ سحر بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ ماہ گل ،ماہ رخ  اور سمرن  نے بہت مشکل سے اس کی جان چھوڑی تھی نمیر کا دیا گیا پینڈٹ دیکھ کر ہی  انہوں نے سحر کی  جان خلاصی کی تھی۔
عمیر اور سعد تو  باقاعدہ صبح ،صبح ان دونوں کو  جگانے ان کے کمرے کے باہر پہنچ گئے تھے یہ الگ بات تھی کے بعد میں داجی نے ان  کی خوب کلاس لی تھی "لاٹھی سے کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے" خوب تواضع کے بعد ان دونوں  کا جواب یہ تھا کہ" ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے"
نمیر  بھی بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ سب لڑکوں نے تھری  پیس پہنے ہوئے تھے نمیر کے ڈریس کا کلر مختلف تھا  ۔سعد ، معاذ اور عمیر  تینوں کے تھری پیس سیم تھے ۔ لڑکیوں نے بھی کلر مختلف رکھے تھے مگر  ڈیزائن سیم تھے ۔لانگ شرٹز کے ساتھ  کھلے ٹراؤزر پہنے ہوے وہ سب بہت خوبصورت لگ رہی تھیں ۔
"" سعد میرے بھائی  اپنے منہ کا زاویہ درست رکھ آج تو خوش ہوجا میرے بھائی بھابھی  آئیں ہیں۔ ویسے تو اتنا اگنور کیوں کر رہا ہے انھیں ؟ وہ اسٹیج پر بھی آئیں تھیں تو، تو  نے ان کے سلام کا جواب تک نہیں دیا؟"
" اف سمجھا کر میرے یار ۔ یہ بھی ایک لوجک ہے  ٹھیک ہے؟ دیکھنا  خود معافی مانگے گی ورنہ  ۔ ۔ ۔ ۔ "
سعد نے عمیر کو دیکھتے ہوے بات ادھوری چھوڑی ۔
"ورنہ ؟"
عمیر نے جلدی سے بے صبروں کی طرح پوچھا ۔
"ورنہ ہم خود معافی مانگ لیں گے ۔کیسا ؟"
سعد نے دانت نکالتے ہوے کہا ۔
"فٹے منہ تمہارے مگرررر  ۔ ۔ ۔ "
سعد پر دو حرف بھیجتے ہوے وہ رکا ۔
مگر ؟"
سعد نے اس کی طرف دیکھا ۔
"آئیڈیا اچھا ہے "
سعد کو گلے لگاتے ہوے عمیر نے کہا ۔
"ابے ہٹ پیچھے کیوں میری جنس مشکوک کر رہا ہے ۔"
سعد نے عمیر کو دھکا  دیتے ہوے کل کی بات کا بدلہ لیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سحر اور نمیر ہنی مون کے لئے شمالی علاقہ جات  جا چکے تھے۔ کچھ دنوں کے لیے ہنگاموں کا شور  تھم  چکا تھا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
معاذ کمرے میں آیا تو ماہ رخ ڈریسنگ سیٹ کر رہی تھی ۔
"ماہ  یار جلدی کرو میری پیکنگ کر دو پلیز!!
" کیوں؟؟؟
واپس جاتی ماہ رخ پلٹی۔  معاذ نے چائے کا گھونٹ بھرا ۔جو ابھی ماہ گل اسے دے کر گئی تھی ۔
"وہ دراصل بزنس میٹنگ کے سلسلے میں ایک ماہ کے لئے جانا پڑا ہے ۔ ۔ ویسے ابھی دو تین دن یہیں ھوں کچھ کام نپٹانے ہیں  ۔ ۔ ۔ "
وہ سرسری سے انداز میں بولا ۔
"کیا آپ کا جانا بہت ضروری ہے؟؟؟"
ماہ رخ اداس ہوئی اس کے جانے کے بارے میں سن کر ۔
"جانا اتنا ضروری نہیں ہے  مگر مجھے یہاں کوئی خاص کام نہیں ہے سو میں جاؤں گا کیوں ؟؟ اگر تم کہتی ہو تو نہیں جاتا ۔ ۔ ۔  "
بالوں کو ہاتھ سے سلجھاتے ہوے معاذ نے ایک نظر اس پر ڈالی جو نیلے سوٹ میں سادی سی مگر بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔
"میں نے کب روکا دو دن چھوڑ کر آج ھی جائیں ۔"
ماہ رخ غصے سے بولی ۔اسے رہ ،رہ کر معاذ پر غصہ آرہا تھا جو جان بوجھ کر جا رہا تھا ۔
"پکی بات ہے نہ مکرو گی تو نہیں ؟"
معاذ نے ابرو اچکائی ۔
"  نہیں مکروں گی ۔"
وہ اعتماد بھرے لہجے میں بولنے کی کوشش کر رہی تھی مگر چاہ کر بھی ایسا اعتماد نا لا پائی ۔جو معاذ کو اعتماد دلا سکے ۔
"دیکھنا ایک دن میں ھی مجھے بری طرح یاد کرنے لگو گی "
معاذ نے وثوق  سے کہا ۔
"نہیں آپ دیکھنا ایک گھنٹے بعد ھی مجھے یاد کرنے لگیں گے ۔اور واپس بھی آجائیں گے "
ماہ رخ اسے چڑاتے ہوے بولی ۔
"اتنا اعتبار ہے خود پر ؟"
"ساری بات اعتبار کی ھی ہے "
ماہ رخ کھوئے انداز میں بولی ۔
"میں سمجھا نہیں ؟"
معاذ اچھنبے سے بولا ۔
"آپ سمجھ نہیں سکتے ۔زندگی ایک پہیلی بن چکی ہے معاذ میں جتنا سلجھانا چاہتی ھوں اتنا الجھ جاتی ہے "
وہ اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ رہی تھی ۔
"تم ان دھاگوں کو ڈھیلا چھوڑ دو جو تمہیں الجھا رہے ہیں زندگی سہل ہو جائے گی "
معاذ نے چائے کا خالی کپ ایک طرف رکھا اور اسے دیکھتے ہوے سنجیدگی سے بولا ۔
"معاذ جانتے ہیں ،ہم انسان چاھتے ہیں کہ زندگی ہمیں وہی دے جو ہم چاھتے ہیں مگر زندگی ہمیں وہی دیتی ہے جو وہ چاہتی ہے "
وہ اپنے پیچھے معاذ کو لاجواب چھوڑ کر جا چکی تھی ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔  ۔
خان لاج میں آج کل کچھ خاص گہما گہمی نہیں تھی۔ عمیر اور سعد کی شرارتیں اور سب کو تنگ کرنا آج کل ختم ہو چکا تھا کیوں کہ وہ سنجیدگی سے لڑکیاں لائن پر لانے کے پلان پر عمل کر رہے تھے ۔عمیر کے خشک رویے نے ماہ گل کو بے چین کیا تو وہیں سعد کے لیے دیے انداز نے عنایا کو بے چین کیا ہوا تھا ۔ آج ماہ گل اور عنایا اپنے لہنگے لینے بازار اکھٹے ھی آئیں تھی اور اب لہنگے پسند  کرنے کے بعد کاؤنٹر کے پاس کھڑی تھیں۔
"یار بڑا  مسلہ ہو گیا "
ماہ گل پریشانی سے بولی ۔
کیوں اب کیا ہوا ؟؟؟؟
عنایا نے کاؤنٹر سے دور ہٹتے ہوے پوچھا ۔ فرح بیگم دور نمرہ بیگم کے ساتھ کھڑیں دوسرے جوڑے دیکھ رہی تھیں ۔
یار عنایا میں تمھے کیا بتاؤں یار ؟؟
ماہ گل انگلیاں چٹخاتے ہوے بولی ۔
"اب کچھ پھوٹو بھی گل "
عنایا کو بے چینی ہوئی ۔
"یار عمیر کا رویہ میرے ساتھ کچھ عجیب سا ہو گیا ہے بات بھی نہیں کرتا پہلے والی شوخی بھی نہیں رہی حتیٰ  کہ پہلے آتے  جاتے چھیڑتا تھا اب ایسا کچھ بھی نہیں کرتا بہت سیریس ہو گیا ہے یار مجھے نہ ڈر لگ رہا ہے مانا اس کی  ساری حرکتیں عجیب ہوتی ہیں میں اسے ڈانٹتی بھی ھوں مگر اچھا لگتا ہے اس کا مذاق کرنا پھر
مجھے اچھا سا لگتا ہے میرا اسے ڈانٹنا اور اس کا آگے سے ڈھیٹ  ہونا مگر اب وہ چپ ہوا ہے تو خوف آتا ہے "
وہ ایک جذب کی کیفیت میں سب بتاتی گئی ۔
"ارے بس کرو لڑکی ۔ مجھے تو تم یوں کہ رہی ہو کہ جیسے سعد کا رویہ میرے ساتھ بہت اچھا ہے ۔ نمیر بھائی کے ولیمے  پر میں سلام کہنے گئی اس کا بھی جواب نہیں دیا آرام سے وہاں سے چلے گئے مجھے  بے آرام کر کے "
عنایا نے منہ پھلاتے ہوے کہا۔
"خیر یار سب ٹھیک ھی رہے انہیں سمبھال ھی لیں گے ''''
ماہ گل کے لہجے میں یقین بول رہا تھا ۔
"اللّه کرے ایسا ھی ہو ۔اور ہاں انٹی سے پوچھ لو مجھے کینوس بورڈ لینے بھی جانا ہے "
عنایا نے گھڑی دیکھتے ہوے کہا ۔
"اچھا رکو پوچھتی ھوں "
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لان کے پچھلے حصے میں وہ تنہا کافی کا کپ لیے سوچوں میں غرق تھی ۔پرندوں کی مدھم چہچہاہٹ اور ٹھنڈی ہوائیں بہت دل فریب تھیں ۔مگر ماہ رخ کا دل اداس تھا ۔ دل اداس ہو تو ھر شے بے معنی ہو جاتی ہے ۔
"اہ ۔۔۔۔معاذ اب آپ ایک ماہ کے لئے چلے جائیں گے۔
میں کیسے رہوں گی آپکے بغیر ؟مجھے تو آپ نے اپنی عادت ڈال دی ہے ۔ عادت زیادہ خطر ناک ہوتی ہے ۔
میں آپ کو کیسے روکوں گی ؟آپ کو مجھ پر بھروسا ہے بھی کہ نہیں ؟آہ یہ بھروسا "
ساری بات ھی یہیں سے شروع ہوتی ہے ماہ رخ نہیں جانتی تھی یا شاید وہ جاننا ھی نہیں چاہتی تھی ۔
گہرا سانس بھرتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔پرسوں معاذ کی فلائٹ تھی اور ماہ رخ روکنا چاہتی تھی
کافی کا خالی مگ تھامے وہ پلٹ گئی ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
"ماہ رخ تم خوش کیسے رہ سکتی ہو جس طرح میرا سکون برباد ہوا ایسے ھی میں تمہارا سکون بھی برباد کر دوں گا "
ہاہاہاہا وہ جنونی انداز میں ہنسا.
تین سال پہلے

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Apr 07, 2020 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

دل کی سلطنت✔Where stories live. Discover now