زینب آمنہ کی گود میں سر رکھے آنکھیں بند کیے لیٹی ہوئی تھی اور ان کا دوپٹہ اپنے چہرے پر رکھا ہوا تھا۔ زینب کو عادت تھی جب تک وہ آمنہ کا دوپٹہ اپنے چہرے پر نا رکھ لیتی اسے نیند نہیں آتی تھی۔
"اچھی ماما! آپ کے دوپٹے سے اتنی اچھی خوشبو کیوں آتی ہیں؟" زینب نے آنکھیں بند رکھے ہی سوال کیا۔
آمنہ نے نا سمجھی سے اس کی طرف دیکھا۔
"کیا مطلب؟ اتنی اچھی خوشبو کیوں آتی ہے؟ پرفیوم لگایا ہوتا ہے شاید اس لیے۔" آمنہ نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
"نہیں! اچھی ماما آپ نے پرفیوم نا بھی لگایا ہو پھر بھی بہت اچھی خوشبو آتی ہے اور صرف دوپٹے سے ہی نہیں آپ سے بھی بہت اچھی خوشبو آتی ہے۔ اور یہ پرفیوم کی خوشبو نہیں اس سے بھی زیادہ اچھی ہوتی ہے۔" اب زینب نے آنکھیں کھول کر آمنہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"وہ اس لیے میری جان کیوں کہ سب کو اپنی ماؤں سے ایسی ہی خوشبو آتی ہیں۔" آمنہ نے نیچے جھک کر زینب کا ماتھا چومتے ہوئے کہا۔
"آپ کو بھی پھپھو سے ایسی ہی خوشبو آتی ہے؟" زینب نے آمنہ سے پوچھا۔
"ہاں! مجھے بھی آتی ہے۔" آمنہ نے پیار سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
"چلو اب سو جاؤ۔ ٹائم زیادہ ہو گیا ہے۔" آمنہ نے زینب سے کہا۔
"اچھی ماما! گندے بابا کا ابھی تک فون نہیں آیا۔ میں ایک دفعہ انھیں دوبارہ کال کر لوں؟" زینب نے آمنہ کی گود سے سر اٹھاتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ کر کہا۔
"کل کر لینا اب سو جاؤ۔" ابھی آمنہ نے یہی کہا تھا کہ زینب کے فون پہ کال آنے لگ گئی۔
جب زینب نے فون پکڑ کر دیکھا تو اس پے ذارون کی ویڈیو کال آ رہی تھی۔ یہ دیکھ کر زینب کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ اس نے اپنی مسکراہٹ چپا کر کال اٹھائی۔
"السلام عليكم!" ذارون کی آواز گونجی
"وعلیکم السلام! جی کس سے بات کرنی ہے آپ نے؟" زینب نے خفگی دکھاتے ہوئے کہا۔
"مجھے اپنی بیٹی سے بات کرنی ہے۔ ہوسکتی ہے؟" ذارون نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔
"نہیں" یک لفظی جواب۔
"کیوں؟" ذارون نے حیران ہونے کی کوشش کرتے ہوئے کہا لیکن چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ مسکراہٹ روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
"کیوں کہ وہ آپ سے ناراض ہے" زینب نے اب موبائل سائیڈ پر رکھ دیا تھا۔
"آپ اس سے کہہ دو نا کہ اس کے بابا اس سے سوری کہہ رہے ہیں۔" ذارون نے اپنے دونوں کان پکڑتے ہوئے کہا۔
زینب نے ٹھوڑا سا چہرہ اٹھا کر موبائل کی طرف دیکھا جہاں ذارون نے اپنے دونوں کان پکڑے ہوئے تھے یہ دیکھ کر زینب کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔
"گندے بابا! آپ کو پتا ہے نا میں نے آپ کی کال کا کتنا ویٹ کیا اور آپ اب بات کر رہے ہیں۔"
"سوری بابا کی جان! دوبارہ ایسا نہیں ہوگا۔"
آمنہ زینب اور ذارون کو باتیں کرتا چھوڑ کر اپنے کمرے میں آگئی جہاں پر احمد لیپ ٹاپ پر کچھ کام کرنے میں مصروف تھے۔ آمنہ کے کمرے میں داخل ہونے پر احمد نے لیپ ٹاپ سے نظریں اٹھا کر آمنہ کی طرف دیکھا۔
"زینی سو گئی؟" احمد نے لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔
"نہیں ذارون کا فون آگیا تھا اس سے باتیں کر رہی ہے۔" آمنہ نے احمد کے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا۔
"ہمممم۔ کیا ہوا؟ کچھ پریشان لگ رہی ہو۔" احمد نے آمنہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"ہمہیں زینب کو بتا دینا چاہیے۔ بعد میں بتائیں گے تو اسے برا لگے گا۔" آمنہ نے اپنا چہرہ احمد کی طرف کرتے ہوئے کہا۔
"اب تو رات کافی ہوگئی ہے کل بتا دے گیں لیکن صرف عمرہ کرنے جانے والی بات باقی سب کچھ جب ہم واپس آجائے گے تب بتا دیں گے۔"
"لیکن اگر اس نے ضد کی ساتھ جانے کی پھر کیا کرے گے؟" آمنہ نے فکرمندی سے کہا۔
"آپ سمجھا دینا اسے سمجھ جائے گی بچی نہیں ہے اب وہ" احمد نے لیپ ٹاپ اپنی طرف کرتے ہوئے کہا۔
"یہ تو سمجھا دوں گی لیکن وہ صفیہ آنٹی کے گھر جانے کے لیے کیسے مانے گی؟"
"مان جائے گی اپنی ماں سے ملنے سے تو نہیں مانا کرے گی نا" احمد نے کی بورڈ پر انگلیاں چلاتے ہوئے کہا۔
احمد آپ سمجھ کیوں نہیں رہے بات ملنے کی نہیں ہیں ان کی پاس رہنے کی ہیں۔ زینب ہمارے بغیر کیسے رہے گی اور زینب کو چھوڑے ہم اس کے بغیر کیسے رہے گے؟" آمنہ نے مشکل سے اپنے آنسو روکتے ہوئے کہا۔
"آپ کو تو سمجھنا پڑے گا نا ہم صفیہ چاچی کو تو نہیں مانا کر سکتے۔زینب ان کی بیٹی ہے۔ اور زینب بھی سمجھ جائے گی۔ میں نے اسی لیے ابھی اپنا سارا بزنس ادھر شفٹ نہیں کیا اسے کہہ دے گے آفس کے کام سے واپس جانا پر رہا ہے تب تک وہ صفیہ چاچی کے پاس روک جائے اور جب تک ہم واپس آئے گے تب تک اسے بھی عادت ہو جائے گی صفیہ چچی کے ساتھ رہنے کی۔" احمد نے آمنہ کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
"کاش زینب ہماری سگی اولاد ہوتی۔ تو اسے کہیں بھی نا جانا پڑتا۔ میں نے آپ کو مانا بھی کیا تھا پاکستان نہیں جاتے لیکن آپ نے میری ایک بھی نہیں سنی دیکھ لے اب آپ صفیہ آنٹی نے کہہ دیا ہے نا زینب کو ان کی پاس بیھج دے۔" آمنہ نے اپنا سر احمد کے کندھے پر رکھتے ہوئے کہا
"وہ ہماری ہی بیٹی ہے۔ اور آپ کو پتا ہے پاکستان واپس آنا ہماری مجبوری تھی۔ بابا نے بچپن میں زینب کا نکاح کروایا تھا اس وجہ سے اور ہم زینب کو ہمیشہ کے لیے تو اپنے پاس نہیں رکھ سکتے کبھی نا کبھی تو اس کی شادی کرنی ہی تھی نا۔زینب کی پڑھائی ختم ہو جائے تو اس کی بھی رخصتی کر دے گے۔ اور ایک دو دن تک اسے گھر بھلا کر زینب کو سب کچھ بتا بھی دے گے۔" احمد نے آمنہ کے بالوں میں ہاتھ پیھرتے ہوئے کہا۔
"ہم ابھی صرف اسے عمرے پر جانے کا اور نکاح کا بتا دیتے ہیں اور جب ہم واپس آئے گے تو تب اسے سمجھا کر صفیہ آنٹی کے پاس بھیج دے گے۔ اس کے پیپرز ہونے والے ہیں اور میں نہیں چاہتی وہ کوئی ٹنشن لے۔" آمنہ نے چہرہ اٹھا کر احمد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
"ٹھیک ہے۔" احمد نے آمنہ کے بالوں پر اپنے ہونٹ رکھتے ہوئے کہا۔
____________________________________________________________________
زینب رات کو زارون سے باتیں کرتی رہی تھی جس وجہ سے صبح وہ تھوڑی دیر سے اٹھی۔ وہ جلدی جلدی تیار ہو کر نیچے کچن میں گئی جہاں روزانہ کی طرح آمنہ اور احمد ناشتہ کر رہے تھے۔ وہ باری باری دونوں کی طرف گئی اور ان کا ماتھا چوم کر باہر کی طرف جانے لگی جب آمنہ نے آواز دے کر روکا۔
"زینب ناشتہ کر کے جاؤ۔" آمنہ نے کرسی سے اٹھے ہوئے کہا
"اچھی ماما دیر ہو گئی ہے ادھر ہی کچھ کھا لو گی۔" وہ یہ کہہ کر آمنہ کی سنے بغیر ہی باہر کی طرف چلی گئی۔
"آپ نے اسے روکا کیوں نہیں ناشتہ کئے بغیر ہی چلی گئی ہے۔" آمنہ نے احمد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"کیوں ٹنشن لے رہی ہیں وہ بچی نہیں رہی اب ادھر ہی کچھ کھا لے گی آپ بیٹھے اور ناشتہ ختم کرے اپنا۔" احمد نے آمنہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے دوبارہ کرسی پہ بیٹھاتے ہوئے کہا۔
"لیکن۔۔۔۔" آمنہ نے کچھ بولنا چاہا لیکن اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی احمد نے کھانے کا نوالہ بنا کر آمنہ کے منہ میں ڈال دیا اور آمنہ بس ان کی طرف خفگی سے دیکھتی رہ گئی۔
____________________________________________________________________
"انکل جلدی کرے آج دیر ہو گئی ہے۔" زینب نے موبائل میں ٹائم دیکھتے ہوئے کہا
"اچھا بیٹا۔"
تھوڑی دیر بعد یونیورسٹی آگئی تھی۔ زینب گاڑی سے اتر کر تیز تیز قدموں سے چلتی کلاس روم کی طرف جا رہی تھی۔ اس نے کلاس روم کے باہر پہنچ کر موبائل پہ ٹائم دیکھا جہاں پر صرف ایک منٹ ہی اوپر ہوا تھا۔
"شکر ہے ٹائم پر پہنچ گئی۔" زینب نے یہ کہتے ساتھ ہی کلاس روم کا دروازہ کھولا اور سامنے دیکھا جہاں پر سر کھڑے تھے۔ سر کی طرف دیکھتے ساتھ ہی زینب کا منہ اور آنکھیں دونوں حیرت سے کھل گئی۔
"واٹ دا۔۔۔۔۔۔۔" زینب کے ہونٹ ہلے تھے اور سامنے کھڑے شخص کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی.
زینب آہستہ آہستہ چلتی کلاس کے اندر آئی تھی اور آنکھیں اس نے کالی چمکتی ہوئی آنکھوں میں ہی ڈالی ہوئی تھی۔ جب وہ آئمہ کے ساتھ جا کر بیٹھنے لگی تو اسے آواز آئی
"مس آپ کس سے پوچھ کر اندر آئی ہیں؟" ٹائیگر نے اپنے بازو سینے پر بندھتے ہوئے کہا
زینب جو کہ بیگ رکھ کر بیٹھنے ہی لگی تھی ٹائیگر کا سوال سن کر اس کی طرف اپنا رخ کیا۔
"ہم پہلے بھی سر سے پوچھے بغیر ہی کلاس کے اندر بیٹھ جاتے ہیں۔" زینب نے ٹائیگر کو جواب دیا
(پہلے جب بھی کوئی سٹوڈنٹ دیر سے آتا تھا تو چپ کر کے اپنی جگہ پر بیٹھ جاتا تھا تاکہ سر کو پڑھاتے ہوئی درمیان میں ڈسٹرب نا کرے اسے لئے زینب پوچھے بغیر ہی اندر آگئی تھی۔)
"وہ آپ لوگ پہلے کرتے تھے لیکن جب تک میں یہاں پر ہوں ایسا نہیں ہوگا۔ اور آپ دیر سے آئی ہیں اس لئے آپ پلز باہر چلی جائے۔" ٹائیگر نے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"لیکن میں صرف ایک منٹ ہی لیٹ ہوئی ہوں۔" زینب نے حیرت سے پوچھا
"ایک منٹ لیٹ ہوئی ہیں یا دس منٹ لیٹ تو آپ آئی ہی ہیں۔ اور آپ کو پتا ہونا چایئے کہ ایک سٹوڈنٹ کی زندگی میں ایک ایک سیکنڈ بھی بہت قیمتی ہوتا ہے اور آپ ایک منٹ کی بات کر رہی ہیں۔" وہ بہت سنجیدگی سے اسے وقت کی اہمیت کے بارے میں بتا رہا تھا لیکن زینب نے اس کی آنکھوں میں شرارت دیکھ لی تھی۔
لیکن۔۔۔۔۔" زینب نے کچھ کہنا چاہا لیکن ٹائیگر نے اس کے بولنے سے پہلے ہی اسے چپ کروا دیا
"مس آپ پہلے ہی بہت وقت ضائع کروا چکی ہیں اس لئے بحث کو چھوڑے اور چپ کر کے باہر چلی جائے۔" ٹائیگر نے دوبارہ دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئی سنجیدگی سے کہا۔
لیکن زینب اس کی آنکھوں کی مسکراہٹ دیکھ سکتی تھی اور اس کا دل کر رہا تھا اس کی آنکھیں باہر نکال دے یا پھر اسے جان سے ہی مار دے۔
زینب نے چپ کر کے بیگ اٹھایا اور اس کے پاس سے گزر کے جانے لگی جب اس نے ٹائیگر کی ہلکی سی آواز سنی
"جان تو پہلے ہی لے چکی ہوں اب دوبارہ کیوں مارنا چاہتی ہو۔" ٹائیگر نے ہلکی سی سرگوشی کی
زینب کو اس کی بات سن کر غصہ بہت آیا لیکن وہ اس کی طرف دیکھنے بغیر ہی باہر چلی گئی۔
____________________________________________________________________
ارے! آج اتنی جلدی گھر آگئی طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟" آمنہ جلدی سے صوفے سے اٹھتے ہوئے زینب کی طرف گئی۔
"اچھی ماما میں ٹھیک ہوں۔" زینب نے بیگ ٹیبل پر رکھا اور آمنہ کے پاس جا کر اپنا سر نیچے کیا آمنہ نے اس کے ماتھے کو چوما اور کچن میں چلی گئی۔ زینب بھی جا کر صوفے پہ بیٹھ گئی۔
"یہ لو پانی پیو۔" آمنہ نے زینب کو پانی کا گلاس پکڑایا اور اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔
"آئی کیسے ہو؟ انکل کو فون کیا تھا؟" آمنہ نے اس کے حجاب کی پن نکال کر اس کا سکارف دھیلا کیا۔زینب نے پانی پی کر خالی گلاس ٹیبل پہ رکھا اور آمنہ کی طرف اپنا رخ کر کے ان کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور باری باری دونوں ہاتھ چومیں۔
"اچھی ماما کیوں ٹنشن لے رہی ہے میں بلکل ٹھیک ہوں اور جی میں انکل کے ساتھ ہی آئی ہوں۔" زینب نے آمنہ کی گود میں سر رکھتے ہوئے کہا۔
"کیسے ٹنشن نا لوں آپ آگے کبھی اتنی جلدی آئی نہیں ہو نا اس لئے۔" آمنہ نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
"پپپرز ہونے والے ہیں اور سلیبس بھی ختم ہو گیا ہے۔سر کلاس میں آ کر کوئی لیکچر ہی نہیں دیتے۔ جس نے ان سے کچھ پوچھنا ہوتا ہے اس کا جواب دے دیتے ہیں اس لیے میں گھر آگئی۔" زینب نے آنکھیں بند کرتے ہوئے جواب دیا۔
(ٹائیگر نے ساری کلاس کے سامنے اسے چھوٹی سی بات کی وجہ سے کلاس روم سے نکال دیا تھا جس وجہ سے اسے غصہ آگیا اسے لئے وہ باقی لیکچر لئے بغیر ہی گھر آگئی تھی۔)
"لیکن بیٹا آپ کو سب لیکچر لینے چاہیے کیا پتا کچھ ضروری انفارمیشن مل جائے" آمنہ نے اسے سمجھتے ہوئے کہا۔
"اچھا دوبارہ نہیں ہوگا۔" زینب نے آمنہ کی کمر کے گرد بازو لپیٹ کر آمنہ کے اور ساتھ لگتے ہوئے کہا۔
تھوڑی دیر بعد آمنہ نے دیکھا تو وہ سو گئی تھی۔ آمنہ نے اس کا سر اپنی گود سے اٹھا کر صوفے پر رکھا اور خود اٹھ کر کچن میں لنچ کی تیاری کرنے چلی گئی۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
Thanks for reading😍
Hope u like this ep😊
Give ur reviews in comment⬇⬇
And
Don't forget to vote🌟
❤❤❤
YOU ARE READING
کیسے بتاؤں تجھے
Fantasyکہانی ایک لڑکی کی جو ہر وقت خوش رہنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں کیوں کہ وہ جانتی اگر وہ خوش رہے گی تو اس کے اپنے بھی خوش رہے گے ____________________________________________________________________ کہانی ایک ایسے لڑکے کی جس نے اپنے ماں باپ کے قتل کا ب...