episode 6

654 32 9
                                    

زینب یونیورسٹی کی گراؤنڈ میں اکیلی بیٹھی تھی اور آئمہ کلاس روم میں تھی۔ آج زینب جلدی آگئی تھی لیکن وہ ٹائیگر کے ہوتے ہوئے کلاس روم میں نہیں جانا چاہتی تھی۔
زینب دنیا جہاں سے بے خبر بیٹھی موبائل استعمال کر رہی تھی جب اسے اپنے کھندے پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا۔ زینب نے تھوڑی سی گردن گھوما کر دیکھا تو پیچھے آئمہ اپنا بیگ رکھ کر نیچے بیٹھ رہی تھی۔
"لے آئی لیکچر؟" زینب اب پوری طرح آئمہ کی طرف گھوم گئی تھی۔
"ہاں!" آئمہ نے بیگ میں سے کچھ ڈھونڈتے ہوئے جواب دیا۔
"وہ تو شکل سے ہی غنڈہ ٹائپ لگتا ہے اس نے کیا پڑھایا ہوگا۔" زینب نے ٹائیگر کا مذاق بناتے ہوئے کہا۔
"سہی کہا۔ پڑھایا تو کچھ نہیں ہے۔ کوئی سٹوڈنٹ سوال وغیرہ کر رہے تھے ان سوالوں کا جواب دے رہا تھا۔ اس کے علاوہ ہر وقت موبائل پے کچھ نا کچھ ٹائپ ہی کر رہا تھا۔" آئمہ نے بیگ  میں سے موبائل نکال کر بیگ بند کر کے سائیڈ پہ رکھتے ہوئے کہا۔
"ویسے کچھ بتایا اس نے وہ کیا کرنے آیا ہے ادھر؟" زینب نے آئمہ سے سوال پوچھا۔
"اور سب سے ضروری سوال اس نے اپنا نام بتایا؟"
"سر کسی ضروری کام سے شہر سے باہر گئے ہیں اور ہمارا سلیبس بھی ختم ہوگیا ہے۔ کچھ پڑھانے والا ہے نہیں تو سر نے ایک ہفتے کے لئے اسے بھیج دیا ہے۔ سر کے بیٹے کا دوست ہے۔" آئمہ نے اسے ساری تفصیل بتائی جو ٹائیگر نے پوری کلاس کو بتائی تھی۔
"اور تمہیں ابھی تک اس کا نام نہیں پتا؟" آئمہ نے حیران ہو کر پوچھا۔
"یار مجھے کیسے پتا ہوسکتا ہے۔ میں نے تو کل بھی اس کا لیکچر نہیں لیا تھا اور آج بھی نہیں لیا۔ "ینب نے کچھ بیزار ہوتے ہوئے پوچھا
"لیکن وہ تو تمہیں رروزانہ پھول ببھیجتا ہے تو تمہیں تو نام پتا ہوگا نا؟ اور مجھے تو لگتا ہے یونیورسٹی بھی تمہاری وجہ سے ہی آیا ہے۔"آئمہ نے زینب سے سوال کرتے ہوئے اپنے خیالات کا بھی اظہار کر دیا۔
"مجھے بس یہ پتا ہے کہ یہی مجھے پھول بھیجتا ہے۔ مجھے تو یہ بھی نہیں پتا یہ میرے بارے میں کیسے جانتا ہے اور مجھے پھول کیوں بھیجتا ہے۔ اور میرے پیچھے کیوں پڑا۔" زینب نے بیزار ہوتے ہوئے کہا۔
"اتنی پیاری جو ہو ہر کوئی تمھارے پیچھے ہی آئے گا نا۔" آئمہ نے اپنی ایک آنکھ دباتے ہوئے کہا
"نام!" زینب نے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا
"اچھا اچھا! بتا رہی ہوں، شہروز نام بتایا ہے اس نے اپنا۔ " آئمہ نے ابھی نام بتایا تھا کہ ساتھ ہی اس کے فون پر کال آنے لگ گئی۔
زینب نے نام سنے کے بعد آئمہ کی طرف سے نظریں ہٹا کر سامنے دیکھا جہاں پر ٹائیگر فون پر کسی سے بات کرتے ہوئے کلاس روم سے باہر نکل رہا تھا۔
"شہروز۔۔۔۔۔۔ ہمممممممم۔۔۔۔ اس کی شکل دیکھنے کے بعد بھی اس کے ماں باپ کے ذہن میں اتنا اچھا نام کیسے آگیا۔" زینب سامنے ٹائیگر کو فون پہ بات کرتے ہوئے دیکھتی سوچ رہی تھی۔
"زینب غلط بات ہے کسی کی شکل کے بارے میں ایسی باتیں نہیں کرتے۔"
"لیکن جب انسان حرکتیں ایسی کر کے اپنے چہرے پر منحوسیت ڈال لے تو اس میں میری سوچ کا کیا قصور۔" زینب اپنی سوچ پر مسکراتے ہوئے سامنے ٹائیگر کو ہی دیکھ رہی تھی۔
ٹائیگر نے فون بند کر کے سامنے دیکھا جہاں پر زینب اسی کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ ٹائیگر نے اس کی مسکراہٹ دیکھ کر اپنے پیچھے دیکھا کہ کہیں وہ کسی اور کی طرف تو نہیں دیکھ رہی لیکن پیچھے کوئی بھی نہیں تھا۔
"اسے کیا ہوگیا میری طرف دیکھ کر کیوں مسکرا رہی ہے۔" ٹائیگر نے سوچا اور پھر زینب کی طرف دیکھنے لگ گیا۔
آئمہ نے فون بند کر کے بیگ میں رکھ کر زینب کی طرف دیکھا جو اپنی سوچوں میں گم ٹائیگر کی طرف دیکھ رہی تھی۔ آئمہ نے اس کی نظروں کی سمت دیکھا تو سامنا ٹائیگر کھڑا زینب کی طرف دیکھ رہا تھا اور پھر اس نے زینب کی طرف دیکھا جو ٹائیگر کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
"زینب مسکرا کیوں رہی ہو؟" آئمہ نے زینب کو کہا لیکن زینب نے کوئی جواب نہیں دیا۔
"زینب!" آئمہ نے اب اس کا کھندہ ہلا کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔
"ہاں!" زینب نے چونک کر آئمہ کی طرف دیکھا۔
"اسے دیکھ کر مسکرا کیوں رہی ہو؟" آئمہ نے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"کسے؟" زینب نے نا سمجھی سے پوچھا۔
آئمہ نے اس کا سر پکڑ کر ٹائیگر کی طرف کیا جو ابھی تک کھڑا زینب کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ اس کے چہرے پر نا سمجھی کے تاثرات دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ وہ اس کی طرف دیکھ کر نہیں مسکرا رہی بلکہ اپنی ہی کسی سوچ میں گم تھی۔
زینب نے جب سامنا دیکھا تو اس بار ٹائیگر کو اپنی طرف دیکھتا پا کر اسے غصہ آگیا.
زینب کی آنکھوں میں غصہ دیکھ کر ٹائیگر مسکرایا تو اس کی مسکراہٹ دیکھ کر زینب کو اور غصہ آگیا۔ ٹائیگر نے اپنے موبائل کی طرف دیکھا اور پھر سر اٹھا کر زینب کی طرف دیکھا۔ اس نے اپنی ایک آنکھ دبائی اور دوسری طرف چل دیا۔ زینب کا منہ اس کی اس حرکت پر کھل گیا۔اس نے جلدی سے ادھر ادھر دیکھا لیکن ادھر زیادہ سٹوڈنٹ نہیں تھے۔ اس نے غصہ میں اپنا بیگ اٹھایا اور اپنی کلاس کی طرف چلی گئی اور آئمہ بس پیچھے سے آوازیں دیتی رہ گئی۔
____________________________________________________________________
"کیا ہوا اچانک غصے میں کیوں آگئی تھی؟" آئمہ نے کلاس میں آکر زینب کے ساتھ بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں غصے میں نہیں آئی تھی۔" زینب نے آرام سے کہا اور اپنا موبائل استعمل کرنے لگ گئی۔ مطلب صاف تھا ابھی وہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی۔
آئمہ نے بھی سمجھتے ہوئے اس سے اور کوئی سوال نہیں کیا۔ تھوڑی دیر بعد سر آگئے اور وہ دونوں ان کی طرف متوجہ ہوگئی۔
دونوں لیکچر لے کر کلاس سے باہر نکل رہی تھی جب زینب کے فون پہ مس کال آئی۔
زینب نے جب موبائل کی طرف دیکھا تو اس پہ ڈرائیور کی کال تھی۔
"انکل لینے آگئے ہیں۔ اللہ‎ حافظ!" زینب نے آئمہ سے ہاتھ ملایا اور یونیورسٹی کے گیٹ کی طرف بھر گئی۔
ابھی وہ گیٹ کی طرف جا ہی رہی تھی جب اس کے سامنے ایک لڑکا آکر کھڑا ہوگیا۔
زینب اپنی نظریں نیچے رکھ کر ایک سائیڈ پر ہوکر نکلنے لگی تو وہ لڑکا بھی اسی طرف ہوگیا۔ زینب پھر دوسری طرف سے ہو کر جانے لگی تو وہ بھی اسی سائیڈ پہ ہوگیا۔
زینب نے چہرے اٹھا کر اس لڑکے کی جانب دیکھا۔ زینب دو منٹ تک اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی رہی۔ وہ لڑکا بھی ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ لئے اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ چٹھی کا وقت تھا اس لئے آس پاس سے کافی سٹوڈنٹ گزر رہے تھے۔
"اب اگر تم میرے سامنے آئے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔" زینب بس اتنا کہ کر چپ ہوگئی۔
"تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اس لڑکے نے تو کو لمبا کرتے ہوئے کہا۔
زینب پھر ایک سائیڈ پر ہو کر گزرنے لگی لیکن وہ ایک دفعہ پھر اس کی سامنے آگیا۔
زینب نے ایک منٹ کے لئے اپنی آنکھیں بند کر کے کھولی اور اپنے ہاتھ کی مٹھی بنا کر  ہاتھ اوپر کر کے اس لڑکے کے منہ پر مکا مارا۔ مکا لگا تو زور کا تھا لیکن وہ بس تھوڑا سا لڑکھڑایا تھا۔ زینب نے اسی چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی تانگ پر پوری قوت سے اپنا پاؤں مار کر اسے نیچے گرایا۔
"آئی ہوپ(I hope) تمہیں 'تو' کا جواب مل گیا ہوگا۔" زینب نے تھوڑا سا نیچے جھک کر اس لڑکے کو کہا۔ آس پاس سے گزرتے ہوئے سٹوڈنٹ ہنسے لگ گئے۔  اس لڑکے کا غصے اور شرمندگی کی باعث منہ لال ہوگیا۔
زینب اسے کہنے کے بعد سائیڈ پر ہو کر آگے چلی گئی۔
"تمہیں تو میں بعد میں دیکھ لوں گا۔" اس لڑکے نے کھڑے ہو کر پیچھے سے غصے میں اونچی آواز میں کہا۔
"اوکے! کل میں اسی وقت پہ، اسی جگہ سے گزروں گی۔ اپنا شوق پورا کر لینا۔" زینب نے بغیر موڑے ہی جواب دیا اور گیٹ سے باہر نکل گئی۔
____________________________________________________________________
زینب گھر کے اندر داخل ہوئی تو آمنہ کو کچن سے نکلتے دیکھا۔ زینب آمنہ کے پاس گئی اور اپنا سر نیچے کیا آمنہ نے اس کے ماتھے کو چوما۔
"زینب جاؤ جا کر فرش ہو جاؤ آپ کی پھپھو آنے والی ہے پھر ایک ساتھ ہی کھانا کھائے گے۔" آمنہ اسے کہہ کر کچن میں جانے لگی جب زینب کی آواز آئی۔
"کیااااا۔۔۔۔۔!" زینب نے حیران ہوتے ہوئے کہا
"اچھی ماما مجھے بلکل بھی بھوک نہیں ہیں۔ میں نے آج یونیورسٹی میں کچھ زیادہ ہی کھا لیا تھا اور اگر پھپھو رات تک روکے گی پھر تو آپ سمجھے میں نے آج سارے دن کا کھانا یونیورسٹی میں ہی کھا لیا تھا۔ مجھے نیند بھی بہت آرہی ہے، مجھے پکا یقین ہے میں کل صبح تک نہیں اٹھنے والی۔" زینب ایک بھی سانس لئے بغیر بس اپنی ہی بولی جا رہی تھی۔
"زینب!" آمنہ نے آنکھیں دیکھائی
"لیکن اچھی ماما!" زینب نے ایک اور کوشش کی
"جاؤ جا کر فرش ہو جاؤ۔ گھنٹے آدھے گھنٹے تک پھپھو آنے والی ہیں پھر کھانا کھاتے ہیں۔" آمنہ نے پیار سے اس کے گال کو چھوا اور کچن میں چلی گئی۔
___________________________________________________________________
زینب نے اپنے کمرے میں آ کر اپنا بیگ بیڈ پر رکھا اور خود بھی بیڈ پر گر گئی۔
"یاررررررر! ایک مصیبت ختم نہیں ہوتی دوسری آجاتی ہے۔" زینب نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑتے ہوئے کہا
("شرم کرو اپنی پھپھو کو مصیبت کہہ رہی ہو۔ اچھی ماما سنے گی تو کتنا برا لگے گا۔") زینب نے سوچتے ہوئے کروٹ لی۔
(گھر میں ہر طرف گہماگہمی تھی۔ گھر کو بہت خوبصورت طریقے سے سجایا گیا تھا۔ سیڑھیوں کے گرد پھولوں کی سجاوٹ کی گئی تھی۔ سامنے ہال میں صوفے رکھا گیا تھا اور اس کے ساتھ دو کرسیاں بھی رکھی ہوئی تھی۔ صوفے کے پیچھے کی جگہ کو بھی پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ عورتوں کے بیٹھنے کی جگہ اندر ہال میں ہی رکھی گئی تھی جبکہ مردوں کا انتظام باہر کیا گیا تھا۔ زیادہ لوگ نہیں تھے۔ بس احمد کے کچھ دوست اور آمنہ کے ددھیال والے تھے۔

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Jul 08, 2020 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

کیسے بتاؤں تجھے Where stories live. Discover now