مرتضیٰ ہاؤس میں اس وقت امل اور بریرہ کے درمیان ایک ٹیڈی بیئر کو لے کر جنگِ عظیم چھڑی ہوئی تھی جس کے اثرات پورے کمرے میں واضح طور پر دیکھے جاسکتے تھے جن تکیے اور کشنز کو اس وقت بیڈ پر موجود ہونا چاہیے تھا ان میں سے کچھ ہتھیار کے طور پر استعمال کیے جا رہے تھے اور کچھ زمین پر بڑی شان سے موجود تھے پر ہار ماننے کے لیے دونوں ہی تیار نہیں تھے اور تیار ہوتے بھی کیسے آخر کو اب یہ ان کی انا کا مسئلہ جو بن گیا تھا..
"آپی میں بول رہی ہوں میرا ٹیڈی بیئر چھوڑ دو ورنہ میں آپ کی فیورٹ ڈریس چھپا دوں گی.."
بریرہ نے اب دھمکیوں کا سہارا لیا
"چھپا کر تو دکھاؤ میں تمہارے اردو کے پیپر میں مارکس کم آنے والی بات امی کو بتا دوں گی..اور یہ میرا بیئر ہے"
امل نے بھی بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے کہا
"آپی مارکس والی بات کرکے آپ نے اپنی اہمیت میری نظر میں کھو دی ہے"
بریرہ نے آخری حربہ ایموشنل بلیک میلنگ آزمایا
"ہنہہہ تم اور تمہاری نظر.."
امل کا انداز مزاق اڑانے والا تھا جو بریرہ کو غصہ دلا دینے کے لیے کافی تھا اس نے وہ جھٹکا دیتے ہوۓ کھینچا جس کی وجہ سے امل کا ناخن بھی ٹوٹ گیا اور بریرہ خود بھی امل کے اچانک اس بئیر کو چھوڑ دینے پر پیچھے کی طرف گئی اور اس کی کہنی بیڈ سائڈ پر موجود پانی سے بھرے کانچ کے جگ پر لگی اور وہ زمین پر گر کر کئی حصوں میں تقسیم ہوگیا نتیجتاً اس کی آواز سن کر خدیجہ بیگم دوڑتی ہوئی ان دونوں کے کمرے میں داخل ہوئیں اور کمرے میں چاروں طرف نظریں دوڑانے لگیں کمرے میں داخل ہوتے ہی سامنے جو بچی کچی کسر تھی وہ ان کے پسندیدہ ٹوٹے ہوۓ جگ کو دیکھ کر پوری ہوگئی
"یہ جگ توڑ دیا...تم لوگوں نے"
انھوں نے غصے میں سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ پوچھا
"امی... صرف آپ کا جگ ہی نہیں اس کدو نے میرا ناخن بھی توڑا ہے"
امل نے اپنا دکھڑا رویا
"اچھا ہوا اللّٰہ نے ماں کو تنگ کرنے کی سزا دی ہے...ایسی نافرمان اولاد اللّٰہ میرے دشمنوں کو بھی نا دے.."
انھوں نے ہر بار غصے میں بولے جانے والا ڈائیلاگ بولا
"اپنی پھپھو کی بیٹیوں کو دیکھو کیسے گھر چمکا کر رکھتی ہیں ماں کو ہلنے نہیں دیتں اور یہاں کوئی میری اولاد کو دیکھے میرا خون جلانے سے فرصت ہی نہیں ملتی.."
بریرہ نے امل کی طرف جھک کر ان کے آگے کے ڈائیلاگ بتاۓ جواباً امل نے اسے گھوری سے نوازا تو وہ مسکراتی ہوئی پیچھے ہوگئی
"اپنی پھپھو کی بیٹیوں کو دیکھو کیسے گھر چمکا کر رکھتی ہیں ماں کو ہلنے نہیں دیتں اور یہاں کوئی میری اولاد کو دیکھے میرا خون جلانے سے فرصت ہی نہیں ملتی.."
خدیجہ بیگم کے یہ بولنے کی دیر تھی کہ امل اور بریرہ کے ہونٹوں پر ہنسی رینگنا شروع ہوگئی
"یہ دیکھو مسکرا رہی ہو دونوں میں کوئی لطیفہ سنا رہی ہوں جیسے...میں دس منٹ میں کمرے میں واپس آرہی ہوں اگر پورا کمرہ صاف نہیں ہوا تو دونوں کا ایک ایک کم عید کا جوڑا بنے گا.."
ان دونوں کی ہنسی نے جلتی میں تیل کا کام دکھایا تھا
"تم دونوں اپنا حلیہ تو دیکھو لگتا ہی نہیں ہے کہ انسانوں کی قوم سے تعلق ہو.."
وہ غصے میں بولتی ہوئی گئیں تو وہ دونوں سنگھار میز کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے اور خود کو دیکھنے لگے
امل بلیک اور ریڈ کُرتے کے ساتھ ریڈ ہی ٹراؤزر میں ملبوس تھی جس پر اس وقت لاتعداد شکنیں تھیں لمبا قد صراحی جیسی گردن گوری رنگت پرکشش اور بڑی بڑی لائٹ براؤن آنکھیں کھڑی ناک خوبصورت سرخ مائل ہونٹ لائٹ براؤن ہی کمر تک آتے بال جن کی حالت دیکھ کر لگ رہا تھا پہلے پونی میں قید تھے کیونکہ ابھی تو پونی لڑنے کی وجہ سے بالوں کے آخری سرے پر تھی...
بریرہ نے نیوی بلو کلر کی شرٹ کے ساتھ وائٹ ٹراؤزر پہنا ہوا تھا پر کپڑوں کو دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے مٹکے سے نکال کر پہنے ہوں یہ بھی بلکل امل سے کافی ملتی تھی وہی گورا نکھرتا ہوا رنگ لمبے گھنے بال جو اس وقت بہت بری حالت میں تھے گول منہ بھرے بھرے گلابی گال اور تھوڑی سی موٹی ناک ان گالوں کی وجہ سے ہی امل اسے کدو بلاتی تھی
"بس کپڑے ہی تھوڑے سے خراب ہوۓ ہیں.."
بریرہ نے دونوں کے کپڑوں کی حالت مد نظر رکھتے ہوئے بولا
"اور بس بال ہی کھل گئے ہیں.."
امل نے بھی بالوں میں سے پونی نکالتے ہوئے کہا
باقی سب تو صحیح ہے..امی بھی نا غصے میں کچھ بھی بول دیتی ہیں.."
بریرہ نے کندھے اُچکاتے ہوئے بولا تو امل نے بھی بھرپور اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور کمرہ صاف کرنے لگیں...جس ٹیڈی بیئر کے پیچھے انھوں نے اتنا ہنگامہ کرا تھا وہ تو بیچارہ بیڈ پر ایسے ہی پڑا تھا
**************************
وہ اندھیرے میں ڈوبے ہوئے کمرے میں پنچنگ بیگ پر زور زور سے مکے برسا رہا تھا کچھ دیر بعد جب انٹرکام بجا تو اس نے مکے برسانا بند کردئیے اور انٹرکام کی طرف بڑھ گیا پیچھے وہ پنچنگ بیگ زور زور سے جھولتا رہا انٹرکام اٹھاتے ہی اس نے پوچھا
"جی؟"
اس کی بھاری مردانی آواز پورے کمرے میں گونجی
"سر آپ کی امی نے بلوایا ہے آپ کو"
دوسری طرف سے کسی ملازم نے بولا...اس نے بغیر کوئی جواب دیئے انٹرکام رکھ دیا اور اس کے ریموٹ کا ایک بٹن دباتے ہی وہ پورا کمرا روشنی میں نہا گیا یہ بیسمینٹ میں بنا کالے اور سفید رنگ کا ایک دلکش جمنگ روم تھا جس کی زمین کو دیکھو تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے لکڑی کی وہاں پر ایکسرسائز کے لیے کئی جدید مشینیں لگی ہوئی تھیں دیواروں میں شیشے لگے ہوۓ تھے اور کمرے کے درمیان میں ایک پنچنگ بیگ لٹکا ہوا تھا...اس وقت اس نے صرف بلیک کلر کا ٹراؤزر پہنا ہوا تھا اور بلیک شرٹ زمین پر وہیں رکھی ہوئی تھی جہاں اس نے ایکسرسائز شروع کرنے سے پہلے اتار کر رکھی تھی اس کا جسم دیکھ کر صاف معلوم ہورہا تھا کہ وہ اس کمرے میں کئی کئی گھنٹے محنت کرتا ہے گوری رنگت لمبی کھڑی ناک کشادہ پیشانی جس پر لائٹ گولڈن بال جو پسینے کی وجہ سے پیشانی پر چپکے ہوئے تھے جنھیں وہ ہاتھوں کی مدد سے پیچھے ہٹا رہا تھا موچھوں تلے خوبصورت مائل عنابی ہونٹ جو کم کم ہی مسکرایا کرتے تھے اور خشخشی داڑھی پسینے میں شرابور ہونے کے باوجود اس وقت وہ وجیہہ مرد لگ رہا تھا... اس نے پاس پڑی شرٹ اٹھا کر پہنی پانی کی بوتل اٹھائی اور اسی ریموٹ سے کمرے کی لائٹ بند کرتا کمرے سے باہر آگیا یہ کمرا ایک ایسی جگہ تھی جہاں اس نے کسی کو آنے اجازت نہیں دی ہوئی تھی وہ بیسمینٹ کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا گھر کے ہال میں آگیا ہال کے دائیں طرف تین کمرے بنے ہوۓ تھے اور بائیں طرف سے کچن ڈائنگ روم اور ڈرائنگ روم کا راستہ تھا اور ہال میں سے ہی اوپر کی طرف جانے کے لیے سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں جہاں چار کمرے موجود تھے جن میں سے ایک اس کا خود کا بھی تھا وہ دائیں طرف بنے ہوۓ کمروں میں سے ایک کمرے میں چلا گیا دروازہ کھٹکھٹا کر اندر چلا گیا جہاں نادیہ بیگم کمرے میں موجود صوفے پر وائٹ ٹراؤزر اور لائٹ بلو شرٹ میں ملبوس تھیں بالوں کو انھوں جوڑے کی شکل میں باندھا ہوا تھا اور سر پر دوپٹا پہنے وہ ایک نفیس خاتون معلوم ہو رہی تھیں شکل و صورت دونوں کی کافی حد تک ملتی تھی
"جی امی آپ نے بلوایا تھا.."
اس نے بہت ہی آہستہ آواز میں پوچھا
"ہاں شامیر مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے.."
انھوں نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوۓ بولا تو اس نے بیٹھتے ہوۓ پوچھا
"جی بولیں.."
"مجھے زارہ کے کے متعلق بات کرنی ہے...وہ اس کار ایکسیڈنٹ کے بعد خوش دکھتی تو ہے مگر خوش ہے نہیں.."
ان کے لہجے میں افسردگی چھائی ہوئی تھی ظاہر سی بات کوئی بھی ماں اپنی بیٹی کو اس حالت میں دیکھ کر افسردہ ہی ہوسکتی ہے ان کی بات سن کر شامیر کے ماتھے پر بل پڑنے لگے
"کیوں اس نے آپ سے کچھ کہا ہے.."
اس نے تفتیشی انداز میں پوچھا
"نہیں وہ کہاں اس بارے میں کچھ بولتی ہے..پر میں تو ماں ہوں اس لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ ہر بات مجھے بولے تو ہی مجھے پتہ چلے.."
انھوں نے سامنے بیڈ سائیڈ پر رکھی ہوئی تصویر کو دیکھتے ہوۓ بولا جو نادیہ بیگم اور زارہ کی اس کار ایکسیڈنٹ سے پہلے کی ہنستی مسکراتی تصویر تھی
"تو آپ نے زاہد انکل(ڈاکٹر) سے آپ نے بات کری ہے کہ وہ کب تک دوبارہ چلنا شروع ہوگی؟؟"
"ہاں میری بات ہوئی ہے تھی انھوں نے یہی کہا ہے کہ زارہ کو کسی ایسے فزیوتھراپسٹ کی ضرورت ہے جو اس کے اندر امید پیدا کرسکے.."
"تو اس کے فزیوتھراپسٹ روز گھر آکر کیا کرتے ہیں؟؟"
"شامیر وہ اپنا کام اچھے سے کر رہے ہیں پر زارہ کو لگنے لگا ہے کہ ہم سب اسے صرف تسلی دے رہے ہیں کہ وہ دوبارہ چلنے لگے گی...پر ایسا کبھی نہیں ہوگا.."
"تو اس کا حل؟؟"
"تو زاہد بھائی نے ایک فزیوتھراپسٹ تجویز کی ہے..جو اتنی تجربہ کار نہیں پر وہ اپنے پیشینٹز کو فزیوتھراپی سے زیادہ الفاظوں سے صحیح کر دیتی ہے..تو میں سوچ رہی ہوں ایک بار تم اس سے مل کر بات کرلو کیا وہ زارہ کا کیس لینے کے لیے تیار ہے بھی یا نہیں.."
انھوں نے اپنی بات ختم کرکے شامیر کی طرف دیکھا جس کا چہرہ سپاٹ تھا
"امی اس کے تیار ہونے سے پہلے میں تیار نہیں ہوں ایک تو اس کے پاس تجربہ نہیں ہے اور دوسرا اگر زارہ کسی بھی قسم کی مینٹلی ہیلپ کی ضرورت ہے تو وہ ہمیں کسی اچھے ماہرِ نفسیات کو دکھانا چاہیے.."
اس نے مضبوط لہجے میں کہا تو نادیہ بیگم نے اسے دیکھتے ہوۓ بولیں
"شامیر تم جانتے ہو زارہ کتنی حساس ہے اور اس ایکسیڈنٹ کے بعد تو وہ اور ہر بات میں کچھ زیادہ ہی حساس ہوجاتی ہے اگر ہم کسی ماہرِ نفسیات کو دکھانے کا بولیں گے تو وہ سمجھے گی مجھے سب مجھے پاگل سمجھنے لگے ہیں..تم جانتے ہو وہ کتنی حساس ہے"
انھوں نے بہت ہی تحمل سے اسے سمجھایا
"ٹھیک ہے اگر آپ اتنا کہہ رہی ہیں تو میں اس ڈاکٹر سے مل لوں گا.."
شامیر کے بولتے ہی زارہ اپنی وہیل چیئر چلاتے ہوۓ کمرے میں داخل ہوئی وہ ایک بہت ہی معصوم اور خوبصورت لڑکی تھی گوری رنگت لمبی ناک جس میں بالی پہنی ہوئی تھی شامیر جیسے ہی لائٹ گولڈن مگر گھنگریالے کمر تک آتے بال سرخی مائل ہونٹ اس وقت اس نے نیلے ٹراؤزر کے ساتھ نیلی ہی شرٹ پہنی ہوئی تھی گلے میں سفید رنگ کا دوپٹہ ڈالے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی
"ایسے کونسے راز و نیاز ہیں جو اکیلے اکیلے کئیے جارہے ہیں؟؟"
اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی مسکراتے ہوۓ پوچھا
"ہم ماں بیٹے کی بات ہے.."
نادیہ بیگم نے اسے تنگ کرنے کے لیے کہا
"ہاں ہاں کرلیں ابھی جتنی باتیں کرنی ہوں ایک دفعہ بیوی کو آ جانے دیں دیکھیئے گا کیسے یہی بیٹا بیوی کے پلو سے بندھ جاۓ گا.."
ذارہ نے اپنا پسندیدہ ٹاپک شامیر کی بیوی پھر نکال ہی لیا اس کی بات پر شامیر نے اسے مسکرا کر دیکھا مسکرانے کی وجہ سے شامیر کے دونوں گالوں پر ڈمپل پڑے جو کسی کو بھی اپنی طرف متوجہ کر سکتے تھے.. ایک زارہ ہی تھی جو شامیر جعفری کو کبھی کبھی مسکرانے پر مجبور کر دیتی تھی
"میں جانتی ہوں میرا بیٹا ماں کا فرمانبردار اور بیوی کے حقوق ادا کرنے والا ہوگا"
انھوں نے شامیر کو دیکھتے ہوۓ مان سے کہا
"وہ تو وقت ہی بتائے گا..ویسے میں آپ کو پہلے سے آگاہ کر دوں ان جیسے گنے لوگ جوروں کے غلام ہی نکلتے ہیں.."
ذارہ نے مبینہ بیگم کی طرف جھکتے ہوۓ بہت ہی رازداری سے بتایا تو نادیہ بیگم نے پلٹ کر اسے گھور کر دیکھا جس کا مطلب تھا ان کے بیٹے کے خلاف کوئی بری بات نا کی جاۓ
"اچھا کچھ نہیں بولتی آپ کے لاڈلے کو.."
اس نے ہاتھ کھڑے کرتے ہوۓ بولا تو نادیہ بیگم ہنس دیں
"میں اپنے روم میں فریش ہونے جا رہا ہوں آپ لوگ باتیں کریں.."
وہ بولتے ہوئے باہر کی طرف بڑھ گیا..
مصطفیٰ جعفری کا تعلق ایک مڈل کلاس گھرانے سے تھا وہ اپنی ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے انھوں نے نادیہ بیگم سے پسند کی شادی کی تھی اور شادی کے دو سال بعد پہلی اولاد شامیر جعفری نے جنم لیا اور پھر شامیر کی پیدائش کے پانچ سال بعد زارہ جعفری پیدا ہوئی شامیر بچپن سے ہی زارہ سے بہت پیار کرتا تھا وقت کا کام تھا گزرنا وہ گزرتا گیا اور شامیر اور زارہ اب بڑے ہوگئے تھے شامیر نے ایم بی اے کرنے کے بعد اپنے دوست حسنین کے ساتھ مل کر لیدر کا چھوٹا سا بزنس اسٹارٹ کردیا تھا زارہ بھی ایم بی بی ایس کے آخری سال میں تھی اور شامیر نے اس سے وعدہ کیا تھا وہ اسے دنیا کی سب سے بہترین یونیورسٹی سے تخصص کرواۓ گا پر ضروری نہیں کہ وہی ہو جو ہم چاہیں شامیر کو بزنس میں ایک بہت بڑا فائدہ ہوا تھا جس سے اس نے ایک گاڑی خرید لی تھی گاڑی دیکھ زارہ کو بھی گاڑی چلانے کا شوق پیدا ہوا اس نے شامیر سے کہا تو شامیر نے اسے سکھانا بھی شروع کردی کچھ ہی عرصے میں وہ گاڑی چلانا سیکھ تو گئی تھی مگر ماہر نہیں ہوئی تھی مصطفیٰ صاحب بھی جاب سے ریٹائر ہونے کے بعد گھر میں ہی ہوتے تھے شامیر کام کے سلسلے میں شہر سے باہر تھا زارہ نے اس بات کا فائدہ اٹھانے کا سوچتے ہوۓ مصطفیٰ صاحب کو اپنے ساتھ شامل کیا اور دونوں نادیہ بیگم کو بتاۓ بغیر رات کے بارہ بجے آئسکریم کھانے کے لیے نکل گئے گاڑی زارہ چلا رہی تھی اور سامنے بھی نہیں دیکھ رہی تھی جس کے لیے مصطفیٰ صاحب اسے کئی مرتبہ ٹوک بھی چکے تھے مگر وہ اتنی پرجوش تھی کہ کچھ بھی بتاتے بتاتے بار بار مصطفیٰ صاحب کی طرف مڑ کر دیکھنے لگتی تھی اسی لاپرواہی کے زیرِ اثر وہ سامنے سے آتے ٹرک کو نہیں دیکھ سکی اور جب دیکھا تو وہ اتنا قریب تھا کہ وہ کچھ کر نہیں سکی اس سے پہلے ٹرک گاڑی سے ٹکراتا مصطفیٰ صاحب اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر زارہ کے اوپر جھک گئے تاکہ وہ بچ جاۓ اور وہ بچ گئی اور مصطفیٰ صاحب نہیں...
ایک باپ نے بیٹی کی جان بچانے کے لیے مسکراتے ہوۓ موت کو گلے لگا لیا تھا...
**********************
سب کھانے کی میز پر بیٹھے ہوۓ کھانا آنے کا انتظار کر رہے تھے کیونکہ کھانا آج امل نے بنایا تھا پانچ منٹ بعد اس نے بریانی کی ٹرے لاکر میز پر رکھی جس میں سے خوشںبو بھی بہت اچھی آرہی تھی اور دکھنے میں بھی اچھی خاصی تھی...امل نے سب کو سرو(serve) بھی خود ہی کر رہی تھی یہ دیکھ کر تو بریرہ کا دل ہی بیٹھنے لگا امل نے ایک تو کھانا بھی بنایا اور اب سرو(serve) بھی خود ہی کر رہی جیسے ہی وہ اس کی پلیٹ میں ڈالنے لگی تو بریرہ نے روک دیا
"نہیں نہیں...میں سالن لوں گی.."
بریرہ نے زبردستی مسکراتے ہوئے کہا کیونکہ اسے دال میں کچھ کالا ہونے کی بو آنا شروع ہوگئی تھی
"ارے...میں نے اتنے پیار سے بنایا ہے میری بہن اب نہیں کھاۓ گی تو مجھے بہت برا لگے گا.."
امل نے ایک بڑی سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاۓ بولا تو میز پر موجود تمام افراد کو اچنبھا تو ہوا پر کسی نے کچھ بولا نہیں اب امل کے اتنے اسرار پر بھی بریرہ نہیں لے رہی تھی تو دادو بول اٹھیں
"ارے بھئی بریرہ کھا لو اتنے نخرے دکھانے کی کیا ضرورت ہے.."
دادو کے کہنے پر بریرہ نے تھوڑی سی بریانی ہی لی امل اپنی کرسی پر بیٹھ کر سب کے کھانے کا انتظار کرنے لگی اور پہلا چمچہ کھاتے ہی مرتضٰی صاحب اسے نکالنے پر مجبور ہوگئے یہی حال خدیجہ بیگم کا بھی تھا دادو اور بریرہ نے ابھی تک ایک چمچہ بھی نہیں کھایا تھا اور ان کی حالت دیکھنے کے بعد تو وہ ایسا کوئی ارادہ رکھتے بھی نہیں تھے ان کی یہ حالت دیکھ کر امل کے تو چھکے ہی چھوٹ گئے اس نے فٹا فٹ مرتضٰی صاحب اور خدیجہ بیگم کو پانی دیا جسے پینے کے بعد وہ کچھ بولنے کی حالت کے قابل ہوۓ
"بیٹے اتنا نمک ڈلتا ہے کیا کھانے میں؟؟"
مرتضیٰ صاحب نے بہت ہی تحمل سے پوچھا
"وہ مجھے لگا ہی تھا کہ تھوڑا سا زیادہ ہوگیا ہے.."
امل نے سر جھکا کر بولا
"تھوڑا سا زیادہ یہ تھوڑا سا زیادہ ہے؟؟..."
خدیجہ بیگم نے غصے سے آگ بگولہ ہوتے ہوئے پوچھا ہے
"وہ نا... غلطی سے دو مرتبہ مجھ سے نمک ڈل گیا تھا..."
اس کے اس طرح معصومیت سے کہنے پر دادو اور مرتضٰی صاحب مسکرا اٹھے اور نادیہ بیگم نے تو سر ہی پکڑ لیا
"کیا ہوگا اس لڑکی کا میں تو تھک گئی ہوں اتنی عمر کی لڑکیاں تو پورے پورے گھر سنبھال لیتی ہیں اور ہماری لاڈلی کو دیکھو ایک بریانی بھی بنائی تو اس میں بھی غلطی سے دو مرتبہ نمک ڈال دیا.."
خدیجہ بیگم نے غلطی پر زور دیتے ہوۓ غصے میں بولا امل کو سب کے سامنے ڈانٹ کھاتے دیکھ کر بریرہ کا پیٹ تو خوشی سے بھر گیا تھا..
"اچھا چلو کوئی بات نہیں..آئندہ دھیان رکھنا.."
مرتضیٰ صاحب نے امل کی رو دینے والی شکل کو دیکھتے ہوۓ کہا تو بریرہ کا تو منہ ہی بن گیا
"آپ کی یہ بے جا شے کا ہی نتیجہ ہے.."
خدیجہ بیگم نے منہ بنا کر کہتے ہوۓ دوسری پلیٹ میں سالن نکالا
"چلو امل تم بھی کھانا کھالو.."
دادو نے امل کے جھکے سر کو دیکھتے ہوئے محبت بھرے لہجے میں کہا
"ہاں ہاں تھک جو گئی ہوگی اتنی لزیز بریانی بناتے بناتے.."
بریرہ نے امل کی طرف جھک کر بولا تو پلٹ کر امل نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا..
"رمضان کا چاند کل پرسوں نظر آجاۓ گا تو آپ لوگ مجھے کل بتا دیجئے گا کہ کیا کیا چاہیے.."
مرتضیٰ صاحب نے سب کو دیکھتے ہوئے بولا
"میں آج رات ہی کو امل کے ساتھ ساری لسٹ بنا لوں گی.."
نادیہ بیگم کی یہ بات سنتے ہی امل کے چہرے کے سارے بلب جل اٹھے تو وہیں بریرہ کا موڈ ہی اوف ہوگیا کیونکہ جو بھی لسٹ بنوانے میں مدد کرتا تھا اسے اپنے لیے کوئی نا کوئی پسندیدہ چیز منگوانے کا فائدہ ملتا تھا اور اب یہ فایدہ امل کو مل رہا تھا بریرہ کو نہیں..
سفینہ بیگم اور وہاب صاحب کی تین اولادیں تھیں مرتضیٰ وہاب ، حمنہ وہاب اور مریم وہاب مرتضٰی وہاب کی شادی ان کی خالہ زاد کزن خدیجہ سے ہوئی حمنہ وہاب کی شادی ان کی پسند سے ان کے کلاس فیلو سے ہوئی اور مریم وہاب کی شادی اپنے پھوپھو زاد کزن سے ہوئی مرتضٰی وہاب کی دو ہی اولادیں تھیں امل جو کہ ایک فزیوتھراپسٹ تھی اور بریرہ جو اردو میں میں بی اے کر رہی تھی وہیں حمنہ بییگم کی تین اولادیں تھیں عائزہ ، عائشہ اور عمر..اور مریم بیگم کے دو ہی بیٹے تھے داؤد اور سلیمان...امل کے پیدا ہونے کے ایک ہفتے بعد ہی وہاب صاحب چل بسے تھے جو کہ سب کے لیےہی ایک بہت بڑا جھٹکا تھا...
**************************
شامیر زاہد انکل کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ مسکراتے ہوئے اپنی کرسی پر سے کھڑے ہوکر اس کے گلے لگے
"کیسے ہو برخوردار..؟؟"
انھوں نے الگ ہوتے ہوئے پوچھا
"الحمدللہ میں ٹھیک..آپ کیسے ہیں؟؟"
اس نے سپاٹ چہرے کے ساتھ بہت ہی دھیمی آواز میں پوچھا
"میں بھی بلکل فٹ..چلو آؤ بیٹھو میں تمہارے لیے چاۓ منگواتا ہوں.."
انھوں نے اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا
"نہیں..میری میٹنگ ہے بس میں فزیوتھراپسٹ سے بات کرنے آیا تھا..اگر آپ انھیں بلا لیں تو میں وقت پر میٹنگ کے لیے پہنچ جاؤں گا.."
اس نے ان کے سامنے رکھی ہوئی دو کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھتے ہوۓ بولا
"وہ فزیوتھراپسٹ ہسپتال میں جاب نہیں کرتی ہے.."
"تو؟؟"
شامیر نے حیرت سے پوچھا
"اسے اجازت نہیں ہے جاب کرنے کی..یہاں بھی وہ میرے کہنے پر آرہی ہے.."
"انکل آپ کیسے ایک ایسی فزیوتھراپسٹ تجویز کر سکتے ہیں جو کسی ہسپتال میں کام نہیں کرتی.."
شامیر نے حیرانگی سے پوچھا
"شامیر تمہیں یاد ہے میرے ابو کے لیے میں نے کتنے فزیوتھراپسٹ تبدیل کیے تھے پر وہ بھی وہیل چیئر پر سے کھڑے ہی نہیں ہورہے تھے.."
انھوں نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوۓ پوچھا
"جی مجھے یاد ہے.."
اس نے انھیں غور سے دیکھتے ہوۓ بولا
"وہ اس لیے اس وہیل چیئر کو نہیں چھوڑ رہے تھے کیونکہ وہ چھوڑنا نہیں چاہتے تھے..وہ ناامیدی کے اندھیرے میں ڈوب گئے تھے.انھیں وہیل چیئر پر سے کھڑا کرنے والی امل ہی تھی.. ناامیدی کے اندھیرے سے نکال کر امید کی روشنی دلانے والی امل تھی...جو کام تجربہ کار فزیوتھراپسٹ نہیں کرسکے تھے وہ امل نے کر دیا تھا کیونکہ اس نے ان کی جسمانی حالت سے زیادہ دماغی حالت پر محنت کی تھی..اور زارہ کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے.."
انھوں نے شامیر کو سمجھانے کی کوشش کی اور یہ کوشش کسی حد تک کامیاب بھی ہوگئی
"اگر آپ اتنا اسرار کر رہے ہیں تو ایک مہینہ دیکھ لیتے ہیں.."
اس کی اس بات پر زاہد انکل مسکرا اٹھے
"وہ کب آئیں گی؟؟"
اس نے ہاتھ میں بندھی گھڑی دیکھتے ہوۓ امل کے متعلق پوچھا
"دس بجے کا بولا تو تھا میں نے..پتہ نہیں کیوں ابھی تک نہیں آئی.."
انھوں نے بھی گھڑی دیکھتے ہوئے بولا جو ابھی سوا دس بجا رہی تھی تقریباً بیس منٹ بعد وہ ٹہلتے ہوئے گیٹ کھٹکھٹاۓ بغیر کمرے میں داخل ہوئی
"اسلام وعلیکم انکل...کیسے ہیں آپ؟؟"
اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا
"وعلیکم السلام..میں بلکل ٹھیک.. تمہارے کیا حال ہیں.."
"میں بھی بلکل ٹھیک..آپ کو پتہ تو ہے مجھ سے جلدی اٹھا نہیں جاتا..بس اسی لیے لیٹ ہوگئی..مجھے پتہ ہے آپ کو برا نہیں لگے گا"
اس نے چہکتے ہوئے بولا
"نہیں نہیں بلکل نہیں"
انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
"یہ تو بتائیں آپ نے مجھے بلایا کیوں تھا..؟؟ویسے اچھا ہوا آپ نے بلا لیا ورنہ تو مجھے آج کچن دھونا پڑتا..کل سے رمضان جو شروع ہورہا ہے اب بریرہ کی بچی دھوۓ گی"
وہ ہمیشہ کی طرح اپنے آس پاس سے بے خبر ان کو اپنے قصے سنانے لگی
"امل بیٹا بریک پر پاؤں رکھو..اور ان سے ملو یہ ہیں شامیر جعفری.."
انھوں نے ہنستے ہوئے بولا
"ہاۓ اللّٰہ یہ بھی کب سے میری باتیں سن رہے تھے.."
اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر شامیر کو دیکھتے ہوئے بولا جو اسے کب سے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا
امل نے نیلے رنگ کی جینز کے ساتھ پیلے رنگ کی سلک کی کرتی پہنی ہوئی تھی اور گلے میں نیلے رنگ کا ہی دوپٹہ ڈالے بالوں کو پونی میں قید کرے میک سے پاک چہرے میں بہت پیاری لگ رہی تھی اور منہ پر ہاتھ رکھے بڑی آنکھوں میں حیرت اور معصومیت سجاۓ اس نے شامیر کی طرف دیکھا پر اس کے دیکھتے ہی شامیر نے نظریں زاہد انکل کی طرف پھیر لیں
"امل بیٹھ جاؤ.."
انھوں نے ہنستے ہوۓ اسے بیٹھنے کا بولا تو وہ شرمندہ شرمندہ سی شامیر کے برابر والی کرسی پر بیٹھ گئی
"میں نے تمہیں شامیر سے ملنے کے لیے بلایا تھا.."
ان کے بولتے ہی دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا شامیر نے اگلے ہی پل نظریں موڑ لیں پر امل اسے غور سے دیکھنے لگی نیلی جینز کے ساتھ سفید شرٹ پہنے اور اس کے اوپر نیلے رنگ کا ہی کوٹ پہنے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے ہوۓ وہ کسی بھی مرد کو خود سے جلنے پر مجبور کرسکتا تھا
"ہینڈسم تو ہے.."
اس نے یہ بات دل میں ہی بولی
"کیوں انکل..؟؟"
اس نے زاہد انکل کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے پوچھا تو وہ اسے تمام تفصیلات سے آگاہ کرنے لگے
"انکل...ساری بات ٹھیک ہے پر میں یہ کیس نہیں لے سکوں گی.."
اس نے انھیں دیکھتے ہوئے بولا تو شامیر نے اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوۓ پوچھا
"کیوں..؟؟"
"میں منع کر رہی ہوں..کیا یہ وجہ کافی نہیں ہے.."
اس نے مضبوط لہجے میں جواب دیا
"جب آپ کو کسی کی مدد کرنی ہی نہیں تھی تو آپ کیوں بنیں فزیوتھراپسٹ.."
شامیر نے کاٹ دار لہجے میں بولا کیونکہ اسے نا سننے کی عادت ہی نہیں رہی تھی اور امل نے نا بول کر اسے ضد دلانے کی کوشش کی تھی
"آپ اپنی حدود میں رہیں تو بہتر ہوگا.."
اس کا لہجہ امل کو سخت ناگوار گزرا تھا اور وہ اس نے اپنے سخت لہجے سے جتلا بھی دیا تھا زاہد انکل بات کو بڑھتے دیکھ کر بیچ میں بولے
"امل میں جانتا ہوں تم مرتضٰی کی وجہ سے انکار کر رہی ہو.."
وہ ان کے منہ سے اصل وجہ سنتے ہی چپ ہوگئی اور اپنا ہونٹ چبانے لگی
"میں مرتضٰی سے بات کروں گا..وہ مان جاۓ گا.."
زاہد انکل کے بولتے ہی شامیر نے اپنی کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے بولا
"ٹھیک ہے انکل..آپ پوچھ کر مجھے بتا دیجیئے گا..ویسے ہی مجھے میٹنگ کے لیے دیر ہوچکی ہے.."
آخری بات اس نے امل کو دیکھ کر بولی جس پر اس نے اس وقت تو کچھ نہیں بولا پر اس کے کمرے سے باہر نکلتے ہی فوراً بولی
"بہت ہی کوئی بد تہذیب انسان تھے..اگر اس لڑکی کی مدد کرنے کی بات نا ہوتی تو میں ایسے شخص سے بات بھی کرنا نا پسند کرتی..ہنہہ.."
وہ غصے میں اور بھی بہت کچھ کہنے کا ارادہ رکھتی تھی پر کسی اور کی موجودگی کا احساس ہوتے ہی اس نے پیچھے دیکھا اور پیچھے کھڑے شامیر کو دیکھ کر اس کے تو چودہ طبق روشن ہوگئے وہ بغیر کچھ کہے ٹیبل پر رکھا اپنا موبائل اٹھا کر باہر نکل گیا
"کیا انھوں نے سب سن لیا؟؟"
امل نے زاہد انکل کو دیکھتے ہوئے پوچھا تو انھوں نے ہاں میں سر ہلایا
"ہاۓ اللّٰہ...مجھے تو لگا ابھی رومن رنگز کی طرح ایک سوپر مین پنچ ماریں گے.."
امل نے سر پر ہاتھ مارتے ہوۓ بولا تو زاہد انکل ہنسنے لگے اور باہر کھڑے شامیر کے ہونٹوں کو بھی ہلکی مسکراہٹ چھو کر گزر گئی...
**************************
آپی اٹھو..ابو بلا رہے ہیں"
بریرہ نے اسے زور زور سے ہلاتے ہوۓ بولا تو وہ آنکھیں مسلتی ہوئی کھڑی ہوئی
"کیوں بلایا ہے.."
اس نے اونگھتے ہوئے بولا
"سارے کام مجھے بتا کر یا مجھ سے پوچھ کر ہی تو کرتے ہیں جو مجھے پتہ ہوگا.."
بریرہ نے خالصتاً عورتوں کی طرح ہاتھ نچا نچا کر بولا
"اچھا چلو میں آرہی ہوں.."
وہ بولتی ہوئی واشروم میں چلی گئی....
تھوڑی دیر بعد وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی جہاں پر گھر کے تمام افراد صوفوں براجمان تھے
"زاہد کا فون آیا تھا..."
امل کے بیٹھتے ہی انھوں نے اسے بولا تو اسے یاد آیا ورنہ تو وہ گھر آکر بھول ہی گئی تھی
"آپ نے منع کر دیا نا.."
اس نے صوفے پر پاؤں اوپر کر کے تسلی سے بیٹھتے ہوۓ بولا
"نہیں...میں نے ہاں بول دیا ہے..."
ان کی یہ بات امل کے لیے چار سو چالیس واٹ کے جھٹکے سے کم نہیں تھی
"کیا؟؟..پر کیوں..میرا مطلب ہے کیسے..؟؟"
اس نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا اور پاؤں بھی زمین پر رکھ لیے کیونکہ یہ بات سنتے ہی تسلی و سکون تو کہیں دور جا سویا تھا...
"زاہد نے مجھے بتایا اس بچی کے بارے میں اور ویسے بھی وہ اس کے فوت ہوۓ دوست کی اولاد ہے...زاہد بہت اسرار بھی کر رہا تھا اور مجھے بھی اچھا نہیں لگا کہ کسی یتیم کی مدد کرنے کا منع کروں.."
ان کے لہجہ ہمدردی سے چور تھا اور امل کا بس نہیں چل رہا تھا سامنے رکھی ہوئی شیشے کی ٹیبل پر اپنا سر مار لے
"اچھا یہ زاہد نے نمبر بھیجا ہے...اس پر کال کر کے بات کرلو اور ٹائم وغیرہ پوچھ لو میں تمہیں چھوڑ بھی دوں گا اور لے بھی لوں گا.."
انھوں نے محبت بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا تو بس اس نے زبردستی مسکرانے پر ہی اکتفا کیا
"چلو بھئی یہ ساری باتیں چھوڑو اور چھت پر جاکر دیکھو چاند ہوا کہ نہیں..؟؟"
دادو کے بولنے پر امل فوراً اپنی جگہ سے کھڑی ہوگئی پر بریرہ کے تو کانوں پر جوں تک نہیں رینگی کیونکہ وہ چپس کھانے اور موبائل میں لوڈو کھیلنے میں کافی مصروف تھی
"چلو چھت پر.."
امل نے اس کے ہاتھ سے موبائل اور چپس کا پیکٹ چھینتے ہوۓ بولا..
"کیوں..کل سعودیہ میں چاند نظر تو آگیا ہے..اور ہمارے پٹھان بھائیوں نے آج روزہ بھی رکھ لیا ہے تو ہمارے چاند نے بھی آج نکل ہی آنا ہے.."
بریرہ نے چڑھتے ہوئے امل کو بولا
"بریرہ کھڑی ہورہی ہو یا نہیں.."
خدیجہ بیگم کی آواز سنتے ہی بریرہ صوفے پر سے ایسے کھڑی ہوئی جیسے صوفے میں اسپرنگ نکل آئے ہوں اور چھت تک کا سفر بھی کافی جلدی تہ کرلیا
"کب نظر آۓ گا یہ چاند.."
بریرہ نے آسمان کو تکتے ہوۓ امل سے پوچھا جو اپنی ہی کسی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی
"آپی میں تو بولتی ہوں نیچے جا کر بولتے ہیں چاند نظر آگیا.."
اب بھی جواب نا ملنے پر بریرہ نے امل کی طرف دیکھا جو منڈیر پر بیٹھی ہوئی اپنے ہی خیالوں میں گم تھی
"آپی میں آپ سے بات کر رہی ہوں.."
بریرہ نے امل کو ہلاتے ہوۓ بولا تو وہ ہوش میں آئی
"کیا ہوا ہے..؟؟"
امل نے چڑھتے ہوئے پوچھا
"میری چھوڑو آپ اپنی بتاؤ...آپ کو کیا ہوا ہے.."
بریرہ نے کمر پر دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا
"یار یہ ابو کو یہ ہمدردی کا بھوت کیوں سوار ہوا ہے؟؟..ایسے تو بولتے ہیں میں اپنی بیٹیوں کو کام نہیں کرنے دوں گا.."
امل نے غصے میں بولا
"آپ نے زاہد انکل کے ابو کی بھی تو فزیوتھراپی کی تھی نا تو اب کیا مسئلہ ہے؟؟.."
بریرہ کو امل کی پریشانی کی وجہ اب بھی سمجھ نہیں آرہی تھی
"وہ زاہد انکل کے ابو تھے...یہ ان کے دوست کی بیٹی ہے..تم نہیں سمجھ سکتی.."
امل نے منڈیر پر سے کھڑے ہوکر ٹہلتے ہوۓ کہا
"آپ نے کچھ بھنڈ مارا ہے نا؟؟"
بریرہ نے اس کے سامنے جاکر بولا تو وہ رک کر اسے حیران و پریشان نظروں سے دیکھتے ہوۓ پوچھنے لگی
"تمہیں کیسے پتہ..؟؟"
"آپ کی رگ رگ سے واقف ہوں..اب جلدی جلدی بتاؤ کیا کیا ہے.."
امل نے اسے ہسپتال کا سارا واقعہ حرف بہ حرف سنادیا اور سنتے ہی بریرہ نے تو سر ہی پکڑ لیا
"آپی اپنی اتنی بے عزتی سننے کے بعد تو وہ آپ کو چھوڑے گا ہی نہیں.."
بریرہ نے تو معاملے کو سنگینی کی بلند ترین عمارت پر پہنچا دیا تھا
"ہاۓ اللّٰہ...ابھی تو مجھے کال بھی کرنی ہے.."
امل نے ہونٹ چباتے ہوئے بولا
"ہممم...اس معاملے کے بارے میں بہت سکون و تحمل سے سوچنا پڑے گا..حل نکالنا مشکل ہے پر میں سنبھال لوں گی.."
بریرہ کی باتوں نے تو امل کی بچی کچی ہمت بھی ختم کر دی تھی ابھی وہ لوگ سوچتے کہ پڑوس سے چاند ہوجانے کی اور مبارکبادوں کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں
"چلو بھئی ہم بھی نیچے جاکر سب کو مبارکباد دے دیں.."
بریرہ نے بھاگتے ہوئے بولا
"پر ہم نے تو چاند دیکھا ہی نہیں.."
امل نے بھی اس کے پیچھے بھاگتے بھاگتے پوچھا
"وہ تو ہمیں ویسے بھی نظر نہیں آنا تھا... رؤیت ہلال کمیٹی والوں پر بھی مجھے تو شک ہے کہ انھیں بھی نظر آتا ہے یا نہیں.."
بریرہ نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوۓ آہستہ آواز میں امل کو بولا جس نے اس کی اس بات پر صرف برا سا منہ بنانا ہی کافی سمجھا...اندر جاکر دونوں نے باری باری دادو کا ہاتھ چوم کر انھیں مبارکباد دی اور خوب ساری دعائیں لیں خدیجہ بیگم اور مرتضٰی صاحب سے گلے مل کر ہی مبارکباد دینے پر دونوں نے اکتفا کیا...
**************************
شامیر اور حسن دونوں کسی اہم بات پر تبصرہ کرتے ہوئے گھر میں داخل ہوۓ تو شامیر کی آخری بات پر حسن ہنسنے لگا
"ہمیں بھی تو پتہ چلے..کس بات پر ہنسا جا رہا ہے؟؟.."
نادیہ بیگم جو ہال میں ہی موجود صوفوں پر بیٹھی ہوئی تھیں مسکرا کر پوچھنے لگی
"آپ کو آج کی تازہ ترین خبر بتاتا ہوں..آپ کے بیٹے کی ناک میں ایک لڑکی نے دم کردیا ہے.."
حسن نے صوفے پر بیٹھتے ہوۓ ہنستے ہوۓ بولا تو شامیر بغیر کوئی ردعمل ظاہر کرے اس کے برابر میں ہی بیٹھ گیا
"کون لڑکی..؟؟"
نادیہ بیگم نے حیرت سے پوچھا کیونکہ شامیر کی ناک میں کسی لڑکی کا دم کرنا کافی حیرانگی کی ہی بات تھی
"وہی زاہد انکل کی فزیو.."
شامیر نے منہ بناتے ہوۓ بولا اتنے میں زارہ بھی وہاں پر آگئی
"کیا باتیں ہورہی ہیں.."
زارہ نے حسن اور نادیہ بیگم کو مسکراتے ہوۓ اور شامیر کو منہ بناتے دیکھ کر پوچھا
"تمہاری نئی فزیو کے بارے میں.."
نادیہ بیگم نے جواب دیا
"ابھی ان میڈم نے ہاں نہیں بولا ہے..."
شامیر نے "نئی فزیو" پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا
"اوہ ہو..بھائی اس میں اتنا چڑنے کی کیا بات ہے.."
زارہ کو اس کے چڑنے کی وجہ بلکل سمجھ نہیں آئی
"وہ لڑکی وقت کی پابند ہہ نہیں ہے...وہ دروازہ کھٹکھٹاۓ بغیر کہیں بھی چلی آتی ہے..اسے بات کرنے کی تو بلکل تمیز نہیں ہے اور لوگوں کی پیٹھ پیچھے برائیاں بھی کر لیتی ہے.."
شامیر اس میں اور بھی برائیاں نکال سکتا تھا پر سب کی ہنسی نے اسے چپ ہوجانے پر مجبور کر دیا
"ایک بیچاری سی لڑکی میں آپ کتنے نقص نکال چکے ہیں بھائی.."
زارہ نے افسوس کرتے ہوئے کہا
"اور وہ بیچاری تو بلکل نہیں ہے...اس کی وجہ سے میں اتنی ضروری میٹنگ نہیں اٹینڈ کرسکا اب پتہ نہیں وہ لوگ واپس میٹنگ کرنے پر آمادہ ہوں گے بھی یا نہیں.."
اس کے اتنے سالوں بعد اس طرح سے غصہ کرنے پر سب مسکرا رہے تھے
"آپ کے دماغ پر وہ لڑکی اتنی سوار ہے کہ آپ ہمیں رمضان کے چاند ہوجانے کی مبارکباد دینا بھی بھول گئے.."
زارہ نے کھکھلا کر ہنستے ہوتے ہوئے بولا تو حسن کو اپنا دل زور زور سے دھڑکتا ہوا محسوس ہوا شامیر کچھ بولتا اس سے پہلے اس کا فون بج اٹھا
"ہیلو.."
شامیر نے انجان نمبر ہونے کی وجہ سے تھوڑا سوچتے ہوۓ کال اٹھائی پر سامنے سے آنے والی آواز وہ ایک سیکنڈ میں پہچان گیا
"امل.."
شامیر نے اگلے لمحے ہی بولا تو امل نے اسپیکر پر ہاتھ رکھ بریرہ کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا بریرہ نے بھی اسے آگے بات جاری رکھنے کا آنکھوں سے ہی اشارہ دیا
"وہ میں زارہ کی فزیو بننے کے لیے تیار ہوں.."
امل نے اکڑ کر بولا تو شامیر نے دوسری طرف بہت ہی برا سا منہ بناتے ہوۓ بولا
"ٹھیک ہے.."
"تو آپ ٹائمنگ بتا دیں.."
امل فوراً کام کی بات پر آئی
"صبح نو سے بارہ بجے تک آجائیے گا.."
شامیر کے منہ سے ٹائم سنتے ہی امل کی دھیمی سی آواز نے اسپیکر کی شکل اختیار کرلی
"آپ کا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا...میں روزے میں نو بجے نہیں اٹھ سکتی.."
"کیوں روزہ آپ کو منع کرتا ہے؟؟.."
شامیر کی اس بات پر امل کی طرف سے بریرہ اور شامیر کی طرف سے حسن زارہ اور نادیہ بیگم تینوں کے قہقہے بے ساختہ تھے
"میں تین سے پانچ بجے تک آؤں گی.."
امل نے اس کے سوال کو نظر انداز کرے ہوۓ بولا
"ٹھیک ہے.."
شامیر نے غصے میں بول کر فون کاٹ دیا...اس سے پہلے کوئی اس سے کچھ پوچھتا وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا
"چلیں بھئی آپ لوگوں کو بھی رمضان مبارک..اور اب میں اپنے گھر چلتا ہوں.."
حسن نے زارہ سے نظریں بچاتے ہوئے بس نادیہ بیگم کو دیکھتے ہوئے ہی بولا پر زارہ نے اسے غور سے ضرور دیکھا لمبا قد سانولی مگر پرکشش رنگت کھڑی ناک تیکھے نقش کالے بال جن کو جیل سے سیٹ کیا ہوا تھا بلیک جینز کے اوپر وائٹ شرٹ اور بلیک کوٹ پہنے وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا زارہ کو اپنی طرف تکتے پا کر اس نے فوراً اس کی طرف دیکھا مگر وہ تب تک چہرہ دوسری طرف موڑ چکی تھی وہ بھی طنزیہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاۓ باہر کی طرف بڑھ گیا
*************************
YOU ARE READING
قدرِ زمن ✅✅(compled)
Short Storyاسلام وعلیکم...!!! شروع اللّٰہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے... قدرِ زمن کا مطلب ہے وقت کی اہمیت ہم کبھی اپنی ناامیدی میں وقت کی اہمیت کا اندازہ نا کرتے ہوئے وقت برباد کر دیتے ہیں تو کبھی ہم وقت کی اہمیت کا اندازہ نا کرتے ہوۓ اپ...