امل پلنگ پر بیٹھی اپنا ہونٹ چبانے میں مصروف تھی اس وقت اس کے ہر انگ انگ سے بے چینی جھلک رہی تھی جب کہ بریرہ پُر سکون انداز میں موبائل استعمال کر رہی تھی اور ہر تھوڑی دیر بعد امل پر بھی نظر ڈال لیتی تھی
"آپی اتنا کیوں پریشان ہورہی ہو.."
آخر کار بریرہ نے فون سائڈ پر رکھ کر پوچھ ہی لیا
"یار کل کیا ہوگا؟؟.."
امل نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا
"وہی ہوگا جو منظورِ خدا ہوگا.."
بریرہ نے بہت ہی آرام سے جواب دیا
"دفعہ ہو تم تو...ابھی امی آنے والی ہیں سحری کے لیے اٹھانے جلدی سے لائٹ بند کرو تاکہ ہم سونے کا ناٹک کر سکیں.."
امل نے اس کی کمر پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا تو بریرہ نے بھی فوراً کھڑے ہوکر لائٹ بند کری اور امل کے برابر میں آنکھیں موند کر لیٹ گئی...یہ ناٹک یہ دونوں پچھلے کئی سالوں سے کرتی آرہی تھیں اور یہ بات دادو کے علاوہ گھر میں کسی کو نہیں پتہ تھی...
تھوڑی دیر بعد خدیجہ بیگم نے کمرے میں داخل ہوتے ہی لائٹ جلائی اس وقت ان دونوں کی شکلیں دیکھ کر کوئی نہیں بول سکتا تھا کہ وہ دونوں یہ ناٹک کر رہی ہیں
"امل...بریرہ اٹھو..."
انھوں نے دونوں کو آواز دی پر دونوں ٹس سے مس نہ ہوئیں
"امل بریرہ..."
اب کی بار انھوں نے زور سے بولا تو بریرہ نے آہستہ آہستہ تھوڑی سی آنکھیں کھولیں
"امی بس دو منٹ.."
بریرہ نے نیند سے چور آواز نکالتے ہوئے بولا تو خدیجہ بیگم نے اس کا ہاتھ کھینچ کر اسے پلنگ پر بٹھا دیا
"دو منٹ کا کوئی ٹائم نہیں ہے امل کو بھی اٹھاؤ اور دونوں سحری کے لیے باہر آؤ.."
وہ سختی سے بولتی ہوئی باہر چلی گئیں ان کے جاتے ہی امل بھی اٹھ کر بیٹھ گئی اور دونوں ایک دوسرے کو دیکھ مسکرانے لگیں...
تھوڑی دیر بعد وہ دونوں سحری کے لیے ٹیبل پر موجود تھیں ان دونوں کے آتے ہی سب نے سحری شروع کر دی
"امل..کل تمہیں کتنے بجے جانا ہے.."
مرتضیٰ صاحب نے لسّی کا گلاس منہ سے لگاتے ہوئے پوچھا
"کہاں..؟؟"
امل نے مسکراتے ہوئے پوچھا تو سب اپنی سحری چھوڑ کر اسے عجیب و غریب نظروں سے دیکھنے لگے اور سب کی نظروں کو پڑھنے کے بعد اس کی یاداشت واپس آئی
"اچھا اچھا..وہاں...وہاں تو تین سے پانچ تک جانا ہے.."
اس نے زبردستی مسکراتے ہوئے بولا
"ٹھیک ہے..میں آفس سے تین بجے تک آجاؤں گا.."
مرتضیٰ صاحب نے اسے دیکھتے ہوئے بولا تو اس نے بھی ہاں میں سر ہلا دیا
"چلو بھئی سحری کا وقت ختم ہونے والا ہے..جلدی جلدی سب پانی پی لو..."
خدیجہ بیگم کے بولتے ہی بریرہ نے دو گلاس پانی پی لیا
"بس کرو بریرہ پیٹ میں درد ہوجاۓ گا.."
دادو نے اسے تیسرا گلاس بھی بھرتے دیکھ کر بولا
"دادو..بس دو گلاس اور.."
بریرہ نے تیسرا گلاس پیتے ہوئے بولا ابھی وہ چوتھا گلاس بھر ہی رہی تھی کہ مسجد سے سحری کا وقت ختم ہوجانے کے سائرن کی آواز آگئی..
"میں نے چوتھا گلاس بھی نہیں پیا اور اب مجھے برتن بھی دھونے ہیں دیکھ لیجئے گا عصر کے بعد میں بے ہوش ہو جاؤں گی.."
بریرہ نے برتن نا دھونے کے لیے ناٹک کیا
"مجھ سے تو امید بھی مت رکھنا دھونے کی رات کو بھی میں نے ہی دھوۓ ہیں.."
امل نے ہاتھ کھڑے کرتے ہوۓ بولا تو بریرہ فوراً امل کی طرف مڑی ان دونوں کی یہ معصوم سی حرکتیں دیکھ کر وہاں بیٹھے تمام نفوس مسکرا رہے تھے
"پلیز بس ابھی کے دھو لو پھر کل افطار کے رات کے کھانے کے بلکہ سحری کے بھی میں دھو لوں گی.."
بریرہ نے منت بھرے لہجے میں کہا
"نہیں.."
امل نے ٹکا سا جواب دے دیا
"آئی لو یو...پلیز.."
بریرہ نے امل کا ہاتھ پکڑ کر کہا تو امل کا دل موم ہو ہی گیا..
"اچھا چلو ٹھیک ہے.."
بل آخر امل مان ہی گئی اور بریرہ نے سکون کا سانس لیا...
***************************
فجر کی نماز پڑھ کر شامیر گھر میں داخل ہوا تو زارہ وہیل چیئر پر اور نادیہ بیگم ہال میں موجود صوفے پر بیٹھیں قرآن مجید پڑھ رہی تھیں وہ نادیہ بیگم کے سامنے والے صوفے پر براجمان ہوگیا جس کا مطلب تھا اسے کچھ ضروری بات کرنی ہے پر وہ قرآن پڑھتے ہوۓ انھیں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا تھوڑی دیر بعد نادیہ بیگم نے قرآن مجید کو چوم کر بند کرا اور شامیر کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولیں
"بولو شامیر.."
"وہ دوپہر میں تین سے پانچ بجے تک آئیں گی.."
اس نے انھیں دیکھتے ہوئے نام لیے بغیر بولا
"وہ کون؟؟.."
نادیہ بیگم نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوۓ پوچھا زارہ بھی قرآن پڑھ چکی تھی تو وہ بھی اسے غور سے دیکھ رہی تھی
"امل.."
وہ نام لیتے ہی صوفے پر سے کھڑا ہوگیا تو زارہ کے ہونٹ مسکرا اٹھے اور یہ چیز شامیر کی نظروں سے چھپی نہ رہ سکی
"کیا ہوا؟؟مسکرا کیوں رہی ہو..؟؟"
اس نے اپنی چھوٹی انگلی سے انگھوٹا دباتے ہوئے کہا
"ضروری تھوڑی ہے کچھ ہو تبھی مسکرایا جاۓ؟؟.."
اس نے شامیر کے ہاتھوں کو دیکھتے ہوۓ کہا
"تین بجے تک میں بھی آجاؤں گا.."
وہ بول کر رکا نہیں سیڑھیاں عبور کرتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا اور اس کے جاتے ہی زارہ کی ہنسی کا فوارہ چھوٹ گیا
"کیوں تنگ کر رہی تھی اس بیچارے کو.."
نادیہ بیگم نے زارہ کو آنکھیں دکھاتے ہوۓ بولا
"میں کہاں تنگ کر رہی ہوں وہ خود ہی تنگ ہورہے ہیں..ویسے اس لڑکی سے ملنے کی مجھے تو بہت جلدی ہے.."
زارہ نے مسکراتے ہوۓ بولا
"چلو اب تم بھی جاکر سوجاؤ.."
ان کے بولتے ہی زارہ ہتے پر لگے ہوۓ ریموٹ کی مدد سے وہیل چیئر کو اپنے کمرے کی طرف لے گئی...
***************************
امل گاڑی میں سے اتری تو اس کی نظریں دو منٹ کے لیے منجمند ہوگئیں ہونی بھی چاہیے تھیں کیونکہ وہ سفید رنگ کا حسین گھر دیکھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا امل لان میں سے چلتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی تو اتنے بڑے ہال کو دیکھ کر اسے سمجھ نہیں آئی کہ کہاں جاکر بیٹھے تبھی ایک ملازم نے آکر بولا
"آپ یہاں بیٹھ جائیں میم آرہی ہیں.."
ایک ملازمہ نے آکر بولا تو وہ مسکراتی ہوئی ایک صوفے بیٹھ گئی اور اطراف کا جائزہ لینے لگی دو منٹ بعد اس کو ایک حیران کن بات سمجھ آئی کہ تمام ملازمین نے ایک مخصوص یونیفارم ملبوس کیا ہوا ہے
"تبھی تو میں سوچوں اتنی اکڑ کس بات کی ہے ان میں.."
اس نے دل میں ہی سوچا پانچ منٹ بعد نادیہ بیگم بھی آگئیں تو وہ مسکرا کر کھڑی ہوکر ان سے ملی ان کی شخصیت اسے کافی متاثر کن لگی تھی انھوں نے امل سے تھوڑی بہت بات چیت کر کے ملازمہ کو زارہ کو لانے کا بولا
"اسلام وعلیکم.."
زارہ کے اتنے پر جوش انداز میں سلام کرنے پر امل نے بھی مسکرا کر جواب دیا وہ زارہ سے کوئی بات کرتی کہ ایک ملازم نے آکر بولا
"شامیر سر ان کو اسٹڈی روم میں بلا رہے ہیں.."
"میں ان سے اکیلے میں ملنے نہیں جاؤں گی..اگر انھیں کوئی بات کرنی ہے تو وہ یہاں آکر کر سکتے ہیں.."
اس نے بہت ہی مضبوط لہجے میں بولا تو نادیہ بیگم اُس کی اِس بات کافی متاثر ہوئیں اور زارہ تو فین ہی ہوگئی
"شامیر کو بولو یہاں آکر بات کرلے.."
انھوں نے ملازم کو بولا تو وہ سر ہلاتے ہوئے بولنے چلا گیا امل نے اس وقت وائٹ ٹراؤزر کے ساتھ بلیک شرٹ پہنی ہوئی تھی گلے میں وائٹ کلر کا دوپٹہ ڈالے بالوں کو پونی میں قید کرے میک سے پاک چہرے میں بھی وہ بہت پیاری لگ رہی تھی پانچ منٹ بعد شامیر آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترتا ہوا آرہا تھا شامیر نے بھی وائٹ جینز پر وائٹ ہی شرٹ پہنی ہوئی تھی اور لائٹ گولڈن بالوں کو وہ انگلیوں کی مدد سے بار بار پیچھے ہٹا رہا تھا
"بندہ ہے تو ہینڈسم.."
امل نے بے اختیار سوچا اور پھر خود اپنی ہی سوچ پر غصہ کرنے لگی شامیر آکر امل کے برابر والے صوفے پر بیٹھ گیا زارہ ان دونوں کو بہت ہی غور سے دیکھ رہی تھی
"مجھے آپ سے زارہ کے پچھلے فزیوتھراپسٹ اور ان کے بناۓ ہوۓ ڈائٹ پلان کے بارے میں ڈسکس کرنا تھا.."
اس نے بہت ہی تحمل سے ٹانگ پر ٹانگ رکھتے ہوۓ بولا
"جی میں وہ تمام فائلز دیکھ چکی ہوں.."
امل نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ جواب دیا
"تمام مشینز زارہ کے کمرے میں موجود ہیں آپ وہاں چلی جائیں.."
وہ بول کر کھڑا ہوگیا تو امل بھی کھڑی ہوگئی ابھی امل نے دو قدم بڑھائے ہی تھے کہ اس کا پاؤں دوپٹہ میں پھنس گیا اس سے پہلے وہ منہ کے بل شیشے کی ٹیبل پر گرتی شامیر نے فوراً اسے کندھوں سے تھام لیا نادیہ بیگم بھی اپنی جگہ سے کھڑی ہوکر آگے بڑھیں زارہ نے بھی اپنی وہیل چیئر امل اور شامیر کی طرف بڑھائی امل ہوش میں آتے ہی شامیر سے دور ہوئی نادیہ بیگم نے اسے صوفے پر بٹھایا اس کی دھڑکن تھوڑی دیر بعد نارمل ہوئی تو وہ زارہ کے ساتھ اس کے کمرے کی طرف بڑھ گئی..
امل نے کچھ مشینز زارہ کے پاؤں پر لگائیں
"ارے واہ تمہارے پاؤں میں تو سینسیشن (sensation) ہے"
امل نے مسکراتے ہوئے بولا تو زارہ کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ آگئی
"کیا ہوا..؟؟"
امل نے اس کی مسکراہٹ کو دیکھتے ہوۓ پوچھا
"کچھ نہیں.."
اس نے بولا تو امل نے بھی زیادہ زور نہیں دیا کیونکہ وہ چاہتی تھی وہ اسے خود بتاۓ
"آپ کی اور بھائی کی لڑائی ہوئی تھی پہلی دفعہ میں.."
زارہ نے تھوڑی دیر بعد امل سے پوچھا تو امل نے چونک کر اسے دیکھا پر پھر اپنے دل کی بات بولنے سے خود کو روک ہی نا پائی
"ویسے ایک بات بتاؤں تمہارے بھائی بہت ہی کھڑوس انسان ہیں..."
بولنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ وہ پہلے ہی دن اس کے بھائی کو اس کے منہ پر ہی کھڑوس بول چکی ہے امل نے زبردستی مسکراتے ہوئے زارہ کی طرف دیکھا
"ہاں ہیں تو وہ بلکل کھڑوس.."
زارہ کی اس حمایت پر امل اور زارہ دونوں کھل کر ہنسیں
"ویسے تم پڑھتی کیا ہو..؟؟"
امل نے جان بوجھ کر ہنستے ہنستے پوچھا پر سوال سنتے ہی زارہ کی ہنسی بند ہوگئی
"کچھ نہیں.."
اس نے بہت ہی مدھم آواز میں جواب دیا
"تو پڑھ لیا ہے..؟؟"
امل نے دوبارہ سوال کیا
"نہیں.."
اس نے یک لفظی جواب دیا
"اچھا یہی بتا دو کیا پڑھ رہی تھی.."
امل نے مسکراتے ہوئے پوچھا
"ایم بی بی ایس کر رہی تھی.."
اس نے اتنا آہستہ بولا کہ امل کو بھی بمشکل ہی آواز پہنچی
"میں تھک گئی ہوں.."
اس کے بولتے ہی امل نے تمام مشینز سائڈ پر کردیں اور اس سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگی تاکہ اسے کمفرٹیبل کرسکے...
******************************
حسن نے کمرے میں موجود بک شیلف کے پاس کھڑے ہوکر ایک بک کھولی اور اس میں سے ایک تصویر نکال کر دیکھی وہ تصویر زارہ کے سیکنڈ ائیر کی تھی مسکراتی ہوئی آنکھیں جن میں بے شمار خواب سجے ہوئے تھے اس تصویر کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو منجمد ہونے لگے جنھیں اس نے آنکھیں بند کر کے اندر کی طرف دھکیلا تبھی کمرے میں ایک خاتون داخل ہوئیں سفید شلوار قمیض میں ملبوس آنکھوں پر چشمہ لگائے وہ ایک نفیس اور سادہ خاتون معلوم ہورہی تھیں ان کے آتے ہی اس نے فوراً بک شیلف میں بک واپس رکھی اور مسکراتے ہوئے ان کی جانب مڑا
"کیا ہوا امی..؟؟"
"کچھ نہیں.."
انھوں نے کمرے میں موجود صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولا
"آپ کو کچھ بات کرنی ہے..؟؟"
اس نے ان کے چہرے کے تاثرات بھانپتے ہوئے پوچھا
"ہاں..میں چاہتی ہوں تم ایک لڑکی سے مل لو.."
حفصہ بیگم نے اسے دیکھتے ہوئے بولا
"کیوں؟؟.."
اس نے جانتے ہوئے بھی انجان بننے کی کوشش کی
"شادی کے لیے..."
انھوں نے بہت ہی تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جواب دیا
"آپ جانتی ہیں...میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں.."
اس نے بھی اتنے ہی تحمل سے جواب دیا
"کون ہے وہ لڑکی جس کا تم پچھلے تین سال سے نام بھی بتانے کے لیے تیار نہیں ہو.."
اب کی بار ان کا تحمل کہیں دور جا سویا تھا
"آپ جانتی ہیں جس دن وہ ہاں بولے گی میں آپ کو ہی سب سے پہلے بتاؤں گا.."
اس نے ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا
"ٹھیک ہے جیسی تمہاری مرضی.."
انھوں ہمیشہ کی طرح ہار مان کر کھڑے ہوتے بولا
"افطار کے لیے نیچے آجاؤ.."
وہ یہ بول کر باہر چلی گئیں...ان کے جاتے ہی اس نے ایک لمبا سا سانس ہوا کے سپرد کیا..
**************************
امل افطار کے بعد چھت پر ٹہل رہی تھی کہ بریرہ اس کے لیے کافی اور اپنے لیے چاۓ لے کر چھت پر آئی
"یہ لو تمہاری کافی.."
بریرہ نے اسے کافی کا مگ دیتے ہوئے بولا
"تم میرے لیے کافی وہ بھی میرے بولے بغیر لے کر آئی ہو طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟؟"
امل نے اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بخار چیک کرتے ہوئے پوچھا
"اف اللّٰہ ایک تو آپ کے لیے کچھ اچھا کرنا ہی نہیں چاہیے.."
بریرہ نے اسکا ہاتھ اپنے ماتھے پر سے ہٹاتے ہوئے بولا
"اچھا چلو ٹھیک ہے تم کہتی ہو تو مان لیتی ہوں.."
امل نے کندھے اُچکاتے ہوئے بولا اور جان بوجھ کر بریرہ کو تنگ کرنے کے لیے کافی پیتے پیتے ٹہلنا شروع کردیا تھوڑی دیر تو بریرہ نے اس کے بولنے کا انتظار کرا مگر پھر اس سے زیادہ دیر صبر ہو نا سکا تو وہ بول بول پڑی
"اچھا بھئی اب بتا بھی دیں وہاں کیا کیا ہوا..؟؟"
بریرہ کا انداز بلکل بے صبروں والا تھا
"دیکھا آگئی نا لائن پر.."
امل نے بھی اپنی گردن اکڑا کر بولا
"مجھے پتہ ہے آپ بھی بتانے کے لیے بڑی بے صبری ہو رہی ہو.."
بریرہ نے کہا تو بلکل سچ تھا پر وہ دونوں جانتے تھے امل یہ بات زندگی میں کبھی نہیں مانے گی
"اچھا چلو تم اتنا کہہ رہی ہو تو میں بتا دیتی ہوں.."
امل نے بریرہ کے برابر والی کرسی پر بیٹھتے ہی آستینوں کو کہنیوں تک چڑھایا بالوں کو جوڑے کی شکل میں لپیٹا اور حرف بہ حرف سب بتانے لگی
"ویسے کیا وہ مسٹر جعفری دکھنے میں بھی اتنے ہی برے ہیں.."
بریرہ نے سب سننے کے بعد پوچھا
"ارے نہیں نہیں دکھنے میں تو بہت ہینڈسم ہیں.."
بولنے کے بعد امل کو احساس ہوا وہ غلط بندے کے سامنے غلط بات کر گئی ہے..
"میرا مطلب ہے کہ نہیں دیکھنے میں اتنے برے نہیں ہیں.."
امل نے بات کو سنبھالنے کی ایک ناکام کوشش کی
"ہاں ہاں میں سمجھ رہی ہوں.."
بریرہ نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو امل نے بھی زبردستی مسکراتے ہوئے گردن ہلائی
"بریرہ نیچے آنا.."
خدیجہ بیگم نے نیچے سے بریرہ کو آواز لگائی تو بریرہ دونوں کے خالی مگ اٹھاتے ہوئے کھڑی ہوگئی
"چلو جاؤ جلدی امی بلا رہی ہیں.."
امل نے اسے وہاں سے بھگانے کی کوشش کی
"ہاں ہاں جا رہی ہوں.."
بریرہ نے ایک معنی خیز مسکراہٹ اس کی طرف اچھالتے ہوۓ بولا
"اچھا سنو.."
بریرہ نے چھت کی سیڑھیوں کے پاس سے آواز لگائی تو امل نے مڑ کر دیکھا
"مسٹر ہینڈسم کے بارے میں زیادہ مت سوچنا.."
بریرہ بولتے ہی وہاں سے غائب ہوگئی اور امل نے اپنا سر پیٹ لیا کیونکہ بریرہ نے یہ بات اب ساری زندگی اس کو سنانی تھی...
****************************
شامیر چاۓ ہی پی رہا تھا کہ اس کا فون پر حسن کی کال آگئی
"ہاں بولو.."
شامیر نے فون اٹھاتے ہی بولا
"بندہ سلام دعا ہی کر لیتا ہے.."
حسن نے ہمیشہ کی طرح اس کو سلام دعا نا کرنے والی عادت پر ٹوکا
"ہمم..آئندہ کرلوں گا.."
شامیر نے چائے کا کپ منہ سے لگاتے ہوئے اپنا ہمیشہ دیا جانے والا جواب دیا
"وہ میں ایک میل تمہیں بھیج رہا ہوں دیکھ لینا.."
حسن نے میل سینڈ کرتے ہوئے بولا
"ٹھیک ہے.."
شامیر یہ بول کر فون رکھنے ہی والا تھا کہ حسن کی آواز دوبارہ اسپیکر پر ابھری
"سنو سنو.."
حسن نے کچھ یاد آنے پر آواز دی تھی
"کیا ہوا؟؟"
شامیر نے بیڈ پر رکھا لیپ ٹاپ اٹھاتے ہوئے پوچھا
"آج وہ فزیوتھراپسٹ آئی..؟؟"
حسن کے لہجے سے تجسس صاف جھلک رہا تھا
"اف اللّٰہ تم لوگ کیوں اس لڑکی کو لے کر میرے پیچھے پڑ گئے ہو؟؟.."
شامیر نے چڑتے ہوۓ چاۓ کا گھونٹ بھرا
"کیونکہ حنا کہ بعد یہ پہلی لڑکی ہے جس کی باتوں اور حرکتوں کا تجھ پر اثر ہوتا ہے.."
حنا کا نام سنتے ہی شامیر کو چاۓ کڑوی لگنے لگی تھی
"حسن.."
شامیر کے لہجے میں دکھ موجود تھا
"یار میرا وہ مطلب نہیں تھا..."
حسن کو بولنے کے بعد افسوس ہورہا تھا
"مجھے پتہ ہے.."
شامیر نے بول کر فون رکھ دیا...اس کی ان کالی آنکھوں میں ایک پل کے لیے دکھ ابھرا تھا پر پھر اس نے لیپ ٹاپ اٹھا کر خود کو کام میں مصروف کر لیا...
***************************
امل کو یہاں کام کرتے ہوۓ ایک ہفتہ گزر چکا تھا نا وہ کام کے علاوہ شامیر سے کوئی بات کرتی تھی اور نا ہی وہ کرتا تھا جبکہ نادیہ بیگم اور زارہ سے اس کی کافی اچھی دوستی ہوگئی تھی
"امل؟؟.."
زارہ نے امل کو آواز دی
"ہممم.."
امل نے ایکسرسائز کرواتے ہوۓ جواب دیا
"تم آج افطار یہاں ہمارے ساتھ کر لو گی؟؟.."
زارہ کے بولتے ہی امل کا ایکسرسائز کرواتا ہاتھ رکا اور پوری طرح سے اس نے زارہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوۓ پوچھا
"کیوں..؟؟"
"کیونکہ میرا دل چاہ رہا ہے...پلیز.."
زارہ نے بہت ہی التجاء کرتے ہوۓ بولا
"تم جانتی ہو مجھے اجازت نہیں ملے گی.."
"میں پوچھ لوں؟؟.."
"فائدہ نہیں ہے میں جانتی ہوں ابو کبھی نہیں مانیں گے.."
امل نے مسکراتے ہوئے بولا پر زارہ کا منہ لٹک گیا تھا
"کون کیا اجازت نہیں دے گا.."
نادیہ بیگم نے شامیر کے ساتھ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا
"امی دیکھیں نا میں کب سے بول رہی ہوں کہ افطار ہمارے ساتھ کر لو آج پر یہ مان ہی نہیں رہی...آپ بولیں نا.."
زارہ نے نادیہ بیگم سے بولا تو انھوں نے مسکراتے ہوئے امل سے بولا
"رک جاؤ نا آج..شامیر کا دوست بھی آرہا ہے.."
"نہیں آنٹی مجھے اجازت نہیں ملے گی.."
امل کو بہت برا لگ رہا تھا انھیں منع کرتے ہوئے پر وہ مجبور تھی
"بھائی آپ بولیں نا.."
زارہ نے جان بوجھ کر شامیر کو بیچ میں گھسیٹا جو پینٹ کی ایک جیب ہاتھ ڈالے دوسرے ہاتھ سے موبائل استعمال کرنے میں مصروف تھا زارہ کے اس طرح بولنے پر امل نے فوراً زارہ کو گھوری سے نوازا پر اس بات کا اثر لیے بغیر شامیر کو دیکھ رہی تھی
"رک جائیں..جب سب اتنا بول رہے ہیں.."
اس نے بہت مشکل سے بولا
"نہیں وہ اب.."
اس سے پہلے وہ کچھ بولتی شامیر نے اسے درمیان میں ہی ٹوک دیا
"آپ کے ابو سے میں اجازت لے لوں گا.."
اُس کی اِس طرح حق جتا کر بولنے پر امل کے ساتھ ساتھ نادیہ بیگم اور زارہ بھی حیران ہوۓ تھے
"جی..؟؟"
زارہ نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوۓ پوچھا
"نہیں وہ میرا مطلب ہے کہ مجھے وہ دو تین مرتبہ مل چکے ہیں..ان کا نمبر بھی ہے میرے پاس اگر آپ چاہیں تو میں پوچھ سکتا ہوں.."
اس نے کندھے اُچکا کر خود کو نارمل ظاہر کرتے ہوئے بولا
"آپ کو وہ دو تین مرتبہ کہاں ملے ہیں؟؟.."
امل نے دو تین مرتبہ پر زور دیتے ہوۓ پوچھا
"آپ کو چھوڑنے یا لینے آتے ہیں تو ان سے ملاقات ہوجاتی ہے.."
شامیر پوچھنے کا بول کر اب پچھتا رہا تھا
"اب پوچھ بھی لیں.."
زارہ نے خوش ہوتے ہوئے شامیر سے بولا
"امل مجھے آپ سے بات بھی کرنی ہے کیا آپ باہر آئیں گی؟؟.."
شامیر کے یہ بولنے کی دیر تھی کہ زارہ کو کھانسی شروع ہوگئی اور وہ کھانسی نادیہ بیگم کی گھوری سے ہی بند ہوئی تو وہ دونوں باہر کی طرف بڑھ گئے
"زارہ کی حالت میں کوئی تبدیلی آرہی ہے؟؟"
شامیر نے باہر آتے ہی پوچھا
"فلحال کچھ بھی بولنا بہت مشکل ہے پر وہ اپنی ڈائٹ صحیح سے لے رہی ہے ایکسرسائز کروانے میں بھی اب زیادہ تنگ نہیں کرتی..تو ہم اللّٰہ سے کچھ اچھے کی امید رکھ سکتے ہیں.."
اس نے پیشہ ورانہ انداز میں جواب دیا
"ٹھیک ہے..میں آپ کے ابو کو کال کر لیتا ہوں.."
اس نے نمبر ڈائل کرتے ہوۓ بولا..سلام دعا کے بعد اس نے اصل بات کی
"انکل وہ آج کچھ مہمان آرہے ہیں تو زارہ چاہتی ہے امل بھی آج یہیں افطار کر لیں..اگر آپ اجازت دیں تو؟؟"
شامیر نے بہت ہی احترام سے اپنی بات پیش کی
"ٹھیک ہے.."
مرتضیٰ صاحب نے بھی بہت ہی آرام سے اجازت بھی دے دی تو الوداعی کلمات کے بعد شامیر نے فون رکھ دیا
"آپ کے ابو نے اجازت دے دی ہے.."
امل کے لیے یہ بات ایک بہت بڑا جھٹکا تھی
"جی..؟؟"
امل نے کافی بلند آواز میں پوچھا
"جی.."
اس کے مقابل شامیر نے بہت ہی آہستہ آواز میں جواب دیا
*************************
"ابو آپ آپی کو لینے نہیں گئے ابھی تک..؟؟"
بریرہ نے گھڑی کو دیکھتے ہوئے بولا جو چھ بجا رہی تھی
"نہیں آج وہ افطار کے بعد آۓ گی.."
انھوں نے بہت ہی پُر سکون انداز میں جواب دیا
"کیوں..؟؟"
بریرہ کی آواز حیرت و پریشانی سے چُور تھی..
میرے پاس شامیر کا فون آیا تھا کافی اسرار کر رہا تھا تو میں منع نہیں کر سکا.."
"ابو آپ نے آج سے پہلے تو ایسے کبھی نہیں کیا.."
بریرہ نے منہ بناتے ہوۓ شکوہ کیا
"ایسے کیسے نہیں کیا؟؟.."
انھوں نے محبت بھرے لہجے میں پوچھا
"ایسے باہر افطار کرنے کی اجازت تو کبھی نہیں دی.."
بریرہ نے چڑتے ہوئے بولا
"وہ لوگ اچھے لوگ ہیں بیٹا بس اسی لیے اور میں خود بھی ملا ہوا ہوں.."
انھوں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی
"میں آپی کے بغیر اکیلی اب کیا کروں گی.."
بریرہ کی حالت رو دینے والی ہوگئی تھی
"اوہ تو اصل مسئلہ یہ ہے.."
انھوں نے مسکراتے ہوئے بولا
"ہممم.."
اس نے منہ لٹکا کر جواب دیا
"جب اس کی شادی ہوجاۓ گی تب کیا کرو گی؟؟.."
انھوں نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوۓ پوچھا
"تب تو میں اس کے ساتھ جہیز میں جاؤں گی نا.."
اس نے چٹکی بجاتے ہوئے اپنے لحاظ سے بہت ہی کوئی کمال کا حل بتایا تھا پر اس کا یہ حل سن کر مرتضیٰ صاحب کا قہقہہ بے ساختہ تھا
"ہنسیں نہیں میں سچ بتا رہی ہوں.."
اس نے چڑتے ہوۓ بولا
"اچھا نہیں ہنستا.."
انھوں نے محبت بھرے انداز میں سینے سے لگاتے ہوئے بوکا تو وہ بھی مسکرا دی...
*************************
افطار کے بعد نادیہ بیگم اپنے کمرے میں چلی گئیں تھیں پر حسن ، شامیر ، زارہ اور امل ہال میں موجود صوفوں پر بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے تبھی ملازم نے آکر سب سے چاۓ اور کافی کا پوچھا
"ہم چاروں چاۓ ہی پیئں گے.."
زارہ نے چاروں کی طرف سے جواب دے دیا
"نہیں میں چاۓ نہیں پیتی.."
امل کے یہ بولنے کی دیر تھی ملازم سمیت وہاں بیٹھے تمام نفوس اس کو جن نظروں سے دیکھ رہے تھے اسے لگا کہ اس سے کوئی بہت بڑا جرم سر زد ہوگیا ہے
"تم چاۓ نہیں پیتی..سچی؟؟"
زارہ نے بہت ہی حیران و پریشان ہوتے ہوۓ پوچھا
"ہاں.."
امل نے سب کو دیکھتے ہوۓ بولا تو سب نے اس کو بہت حیرانگی سے دیکھا
"کیا ہوا؟؟"
امل نے پریشان ہوتے ہوۓ سب کو دیکھ کر پوچھا
"کچھ نہیں تم بتاؤ تم کیا پیو گی.."
زارہ نے اسے پریشان ہوتے دیکھ کر پوچھا
"کافی.."
"تین چاۓ اور ایک کافی.."
زارہ نے ملازم کو بولا تو وہ سر ہلاتا ہوا وہاں سے چلا گیا..
"ویسے آپ کا میں نے بڑا نام سنا تھا..ملنے کی بھی بڑی خواہش تھی جو آج پوری بھی ہوگئی"
حسن نے مسکراتے ہوئے بولا تو شامیر کا دل کیا اس کا سر ہی پھاڑ دے
"زارہ نے ہی ضرور آپ کو میرے بارے میں بتایا ہوگا.."
امل نے بھی مسکراتے ہوۓ بولا
"نہیں نہیں اس کے علاوہ بھی لوگ ہیں گھر میں.."
اُس کی اِس بات پر شامیر نے اسے گھوری سے نوازا پر وہ کہاں اس کی گھوری سے ڈرنے والا تھا
"نادیہ آنٹی سے سنا ہے.."
امل نے پھر سے تکا لگایا
"نہیں نہیں.."
اب کی بار تو شامیر نے سر ہی پکڑ لیا
"مسٹر رومن رنگز.."
امل نے بولتے ہی زبان دانتوں تلے دبائی اس کے شامیر کو رومن رنگز بولنے پر زارہ اور حسن کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ بکھر گئی شامیر کے لب بھی مسکرا اٹھے تو امل کو آج پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ شامیر کے گالوں پر ڈمپل پڑتے ہیں جو بہت پرکشش لگتے ہیں
"اہمم اہممم.."
زارہ نے امل اور شامیر کو ایک دوسرے کو تکتے پاکر کھانسنا ضروری سمجھا زارہ کی کھانسی دونوں کو ہوش میں لانے میں کامیاب بھی ہوگئی اتنے میں چاۓ اور کافی بھی آگئی
"میں ابو کو کال کر کے تھوڑی دیر گارڈن میں ٹھلوں گی.."
امل اپنا مگ اٹھا کر بولتی ہوئی باہر چلی گئی شامیر نے بھی اپنا مگ اٹھا کر بولا
"میرا لیپ ٹاپ گاڑی میں رہ گیا ہے میں لے کر آتا ہوں.."
وہ بول کر باہر کی طرف بڑھ گیا تو ہال میں صرف حسن اور زارہ ہی بچے
"کیسی ہو..؟؟"
حسن نے تھوڑی دیر بعد خاموشی کی دیوار گراتے ہوئے پوچھا
"ٹھیک.."
زارہ نے یک لفظی جواب دیا..حسن کو برا لگا تھا کہ زارہ نے اس کی خیریت دریافت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا
"مجھ سے نہیں پوچھو گی..کیسا ہوں میں..؟؟"
حسن کے لہجے میں دکھ صاف موجود تھا
"نہیں..کیونکہ مجھے دِکھ رہا ہے آپ بلکل ٹھیک ہیں.."
زارہ نے آنسو پیتے ہوۓ بولا
"سچ میں تمہیں میں بلکل ٹھیک دِکھ رہا ہوں؟؟.."
حسن نے طنزیہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاۓ پوچھا
"ہاں.."
زارہ کو اس ہاں بولنے میں جتنی تکلیف ہوئی تھی یہ بس وہ اور اسکا خدا ہی جانتا تھا
"اگر تم کہہ رہی ہو تو ٹھیک ہی کہہ رہی ہوگی.."
حسن نے طنزیہ لہجے میں کہتے ہوۓ چاۓ کا کپ منہ سے لگا لیا اب ان کے درمیان پھر سے خاموشی کی دیوار حائل ہوگئی تھی...
***************************
YOU ARE READING
قدرِ زمن ✅✅(compled)
Short Storyاسلام وعلیکم...!!! شروع اللّٰہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے... قدرِ زمن کا مطلب ہے وقت کی اہمیت ہم کبھی اپنی ناامیدی میں وقت کی اہمیت کا اندازہ نا کرتے ہوئے وقت برباد کر دیتے ہیں تو کبھی ہم وقت کی اہمیت کا اندازہ نا کرتے ہوۓ اپ...