آخری عشرہ (حصہ دوم)

2.3K 145 26
                                    

ان کے جاتے ہی بریرہ کمرے میں آئی تو اسنے امل کو دیکھا وہ سو گئی تھی وہ ایسی ہی تھی جب بھی زیادہ پریشانی ہوتی تھی وہ سوجایا کرتی تھی دنیا کے مسئلوں سے فرار کا اس کے پاس یہ بہترین حل تھا بریرہ زمین پر بیٹھ کر اسے دیکھ کر سوچنے لگی کہ اگر وہ چلی گئی تو اس کا کیا ہوگا وہ تو کبھی اس سے ایک پل کے لیے بھی جدا نہیں ہوئی آہستہ آہستہ بریرہ کے ذہن کے پردے پر ان دونوں کے بچپن کی یادیں چلنے لگیں...
بچپن میں جب نانی کے گھر کوئی ایک کزن بھی بریرہ کو چھوٹا سمجھ کر ڈانٹ دیتا تھا تو امل اس سے لڑنے پہنچ جاتی تھی اور پھر جب تھوڑے سے بڑے ہوۓ تو ایک دوسرے کی چاکلیٹ فریج میں سے کھا جاتے تھے اور ایک دوسرے کو ہی ڈراتے تھے کہ گھر میں بھوت رہتا ہے وہ یہ سب کرتا ہے..ایک دفعہ ان دونوں نے کمرا بند کرکے ایک دوسرے کے اتنے برے بال کاٹے تھے کہ دونوں کو گنجا کروانا پڑا تھا..پھر کالج کے فرسٹ ڈے امل اس کو کالج کے گیٹ تک سمجھاتی رہی تھی کہ یہ کرنا وہ مت کرنا کس سے کس طرح بات کرنا وہ والی غلطی تو بھول کر بھی مت کردینا اور پھر یونیورسٹی کے فرسٹ ڈے تو امل نے کیک بنایا تھا بھلے ہی جلا ہوا مگر بنایا ضرور تھا اور وہ کیک ان دونوں نے ہی ختم کیا تھا ایسی کئی یادیں یاد کرتے کرتے بریرہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے..کروٹ لیتے وقت امل کی آنکھ ہلکی سی کھلی تو اس نے بریرہ کو اس طرح زمین پر بیٹھے ہوۓ روتے دیکھا تو جھٹ سے اٹھ کر اس کے پاس آکر بیٹھی اور اس کا منہ تھامتے ہوۓ پوچھا
"کیا ہوا..؟؟بریرہ.."
بریرہ کچھ بھی بولے بغیر اس کے گلے لگ کر رونے لگی تو امل اس کی پیٹھ آہستہ آہستہ تھپتھپاتے ہوۓ پوچھنے لگی
"کیا ہوا ہے بریرہ؟؟کسی نے کچھ کہا ہے..؟؟"
بریرہ نے اس سے الگ ہوتے ہوئے نا میں سر ہلایا
"تو پھر..؟؟"
امل نے پریشان ہوتے ہوۓ پوچھا کیونکہ بریرہ رونے والوں میں سے نہیں رلانے والوں میں سے تھی اس کو روتا دیکھ امل کو لگ رہا تھا کچھ بہت برا ہوا ہے تبھی وہ اس طرح رو رہی ہے
"بس یہ سوچ کر رونا آگیا اگر آپ چلی جاؤ گی تو میرا کیا ہوگا.."
بریرہ نے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا تو امل کو چند پل لگے تھے بریرہ کی بات سمجھنے میں اور سمجھ آنے کے بعد امل کی آنکھیں بھی نم ہوگئی تھیں
"ارے میری کدو میں کہیں نہیں جارہی.."
امل نے اسے گلے لگاتے ہوئے بولا تو وہ اس کے کدو بولنے پر ہنس دی
"اچھا بھئی بہت ایموشنل سین ہوگیا.."
بریرہ نے اپنے موڈ میں واپس آتے ہوۓ بولا تو وہ دونوں ہنس دیں
               **********************
دو دن گزر گئے تھے مگر امل کے گھر والوں کی طرف سے کسی بھی قسم کا کوئی جواب نہیں آیا تھا تو شامیر نے خود امل کے نمبر پر کال کرلی امل نے شامیر کا نمبر دیکھ کر دو تین لمبے لمبے سانس لیئے اور پھر فون اٹھاتے ہی بولا
"جی بولیے.."
امل کی آواز سنتے ہی شامیر کے لب مسکرا اٹھے
"کیسی ہو؟؟"
شامیر کی آواز سے اس کا لمبی گفت و شنید کرنے کا ارادہ لگ رہا تھا
"ٹھیک.."
امل نے یک لفظی جواب دیا
"کیا کر رہی تھی؟؟"
اس نے بالکونی میں آتے ہوۓ پوچھا
"آپ کام بتائیں گے..؟؟کیوں فون کیا ہے..؟؟"
امل نے چڑتے ہوۓ پوچھا
"اپنی ہونے والی بیوی سے باتیں کرنے کے لیے.."
شامیر کی اس پر اعتمادی پر تو امل کا منہ کھلا کا کھلا ہی رہ گیا
"آپ نے رمضان میں پی تو نہیں لی ہے.."
امل نے منہ پھلاتے ہوۓ پوچھا تو شامیر ہنسنے لگا امل نے پہلی بار شامیر کو ہنستے سنا تھا ایک پل کے لیے تو وہ شامیر کی ہنسی میں کھو گئی تھی پر اگلے ہی پل ہوش میں آتے ہوئے بولی
"میں فون رکھ رہی ہوں.."
امل غصے میں بولتے ہوۓ فون رکھنے لگی تو شامیر نے بولا
"یہ غلطی کرنا بھی مت ابھی کہ ابھی تمہارے گھر آجاؤں گا.."
شامیر کی اس دھمکی کا اثر امل پر ہوا اور اس نے فون بند نہیں کیا
"آپ مجھ سے شادی کیوں کرنا چاہتے ہیں.."
امل نے دو منٹ کی خاموشی کے بعد پوچھا
"کیونکہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں.."
شامیر کے منہ سے اپنے لیے ایسے الفاظ سںن کر امل کا دل  حلق کے ذریعے باہر آنے والا تھا
"آپ مجھ سے شادی کیوں نہیں کرنا چاہتیں..؟؟"
امل کے چپ ہوجانے پر شامیر نے بالکونی میں رکھی کرسیوں پر بیٹھتے ہوۓ پوچھا
"کیونکہ میں آپ سے محبت نہیں کرتی.."
امل نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا
"کوئی بات نہیں..وہ تو ہو ہی جائے گی.."
شامیر نے مسکراتے ہوئے بولا تو امل نے فون کو گھور کر ایسے دیکھا جیسے کہ شامیر ہو اور پھر اس کے بعد ناٹک کرتے ہوئے بولا
"ہیلو ہیلو.. آواز نہیں آرہی..ہیلو.."
امل کی اس بچکانہ حرکت پر شامیر نے مسکراتے ہوۓ فون رکھ دیا
اس کے فون رکھتے ہی امل نے دل پر ہاتھ رکھا کہ وہ کہیں باہر ہی نا آجاۓ...
اس کے فون رکھتے ہی شامیر کے کمرے کا انٹرکام بجا اس کے اٹھاتے ہی ملازم نے بولا
"سر آپ کو آپکی امی نیچے بلا رہی ہیں.."
اس نے اوکے بول کر انٹرکام رکھا اور نیچے اتر گیا.. سیڑھیوں سے اترتے ہوۓ اس نے نیچے نادیہ بیگم کو حسن اور حفصہ بیگم کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھا تو وہ نیچے اترتے ہی حسن کے گلے لگا اور اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا تھوڑی دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد حفصہ بیگم نے وہ بات کی جو وہ کرنے آئیں تھیں
"نادیہ..آج میں تم سے زارہ کا رشتہ مانگنے آئی ہوں..حسن کے لیے..."
نادیہ بیگم کو ایسا لگا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہیں ہال میں آتی زارہ نے بھی یہ بات سن لی تھی اس کی چلتی ہوئی وہیل چیئر بھی ہال کے درمیان میں ہی رک گئی تھی حسن نے زارہ کو دیکھا تو زارہ نے نظریں ہی پھیر لیں پر شامیر کا چہرہ بے تاثر تھا..
نادیہ بیگم نے جواب دینے کے لیے دو دن کا وقت مانگا تو وہ لوگ جانے لگے شامیر انھیں گیٹ تک چھوڑنے گیا تھا
"مجھے پتہ ہے تمہیں برا لگا ہوگا.."
حسن نے اس کے تاثرات بھانپنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا
"نہیں مجھے بلکل برا نہیں لگا..کیونکہ مجھے پہلے ہی اس بات کا پتہ تھا.."
حسن کے لیے یہ بات ایک بہت بڑا جھٹکا تھی
"کس نے بتایا؟؟"
حسن نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا
"ضروری نہیں ہے ہر بات بتائی جاۓ.."
شامیر مسکرا کر بولتا ہوا پلٹ گیا تو حسن بھی اپنی گاڑی کی طرف مڑ گیا..
               **********************
امل دادو کمرے میں آتے ہی ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی اور آنکھیں موند لیں تو وہ آہستہ آہستہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگیں
"کیا ہوا ہے..؟؟"
انھوں نے اس کے پریشان چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا
"کچھ نہیں.."
اس نے آہستہ سی آواز میں آنکھیں موندے ہی جواب دیا
"رشتے کی بات پر پریشان ہو..؟؟"
ان کے بولتے ہی امل نے آنکھیں کھول کر ان کی طرف دیکھا لیکن بغیر کچھ بولے دوبارہ آنکھیں موند لیں
"دادو ابو کا کیا جواب دینے کا ارادہ ہے..؟؟"
امل نے تھوڑی دیر بعد آنکھیں موندے ہی پوچھا
"وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پارہا ابھی.."
انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
"تم کیا چاہتی ہو..؟؟"
دادو نے اس سے پوچھا تو اس نے پٹ سے آنکھیں کھول کر ان کی طرف دیکھا
"پتہ نہیں.."
امل نے ان کے ضعیف چہرے کو دیکھتے ہوئے بولا
"شامیر اچھا لڑکا نہیں ہے؟؟"
دادو کے پوچھتے ہی اس نے جھٹ سے بولا
"اچھے ہیں.."
"تو..اس سے شادی کرنے میں کیا مسئلہ ہے..؟؟"
"پر میں آپ سب کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی.."
امل کے جواب پر وہ مسکرا اٹھیں
"یہ کام تو ہر بیٹی کو کرنا پڑتا ہے.."
انھوں نے اس کے بال سہلاتے ہوئے بولا تو اس نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں کیونکہ وہ اب اور اس بارے میں نہیں سوچنا چاہتی تھی..
            ************************
زارہ نے رات کے دو بجے حسن کو فون کیا تو اس نے پہلی بیل پر ہی فون اٹھا لیا جیسے وہ اسی کے فون کا انتظار کر رہا ہو
"ہیلو.."
حسن کی آواز اسپیکر پر ابھرتے ہی زارہ نے ایک لمبا سانس کھینچا اور بہت ہی تحمل سے پوچھا
"آپ نے رشتہ کیوں بھیجا ہے.."
"عام طور پر لوگ رشتہ شادی کرنے کے لیے ہی بھیجتے ہیں میں نے بھی وہی کرنے کے لیے بھیجا ہے.."
حسن نے بات کو مزاح کا رنگ دینے کی کوشش کی
"آپ نے یہ بہت ہی گھٹیا حرکت کی ہے..مجھے آپ سے اتنے بچکانہ پن کی امید نہیں تھی.."
زارہ نے ہر لفظ کو چبا چبا کر ادا کیا
"تم نے کہا تھا نا کہ آپ کوئی حق نہیں رکھتے تو نکاح کر کے تمہارا حق دار بن رہا ہوں.."
حسن نے بہت ہی پر سکون انداز میں بولا
"آپ کی خام خیالی ہے یہ کہ میں ہاں کر دوں گی.."
زارہ نے طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے کہا تو حسن نے مسکراتے ہوئے اس سے سوال کیا
"زارہ...تم اپنے ماں اور بھائی کو منع کرتے وقت کیا جواز دو گی..؟؟"
"مجھے کوئی جواز دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے...میری نا ہی کافی ہوگی.."
زارہ نے فخر سے بولا تو حسن طنزیہ ہنس دیا
"آپ کیوں نہیں پیچھے ہٹ جاتے..؟؟"
زارہ نے دو منٹ کی خاموشی کے بعد روتے ہوئے پوچھا حسن کو اس پل لگا کہ وہ اس سے زیادہ اس کے سامنے ڈٹ کر کھڑا نہیں ہوسکے گا زارہ کے آنسو اسے بہت تکلیف پہنچا رہے تھے
"زارہ... کیوں کر رہی ہو تم یہ سب.."
حسن کا لہجہ نم تھا
"کیونکہ میں آپ کے قابل نہیں ہوں..."
زارہ نے روتے ہوۓ بول کر فون کاٹ دیا تھا حسن جانتا تھا زارہ اسی وجہ سے اس سے دور بھاگتی ہے پر زارہ ہمیشہ اس بات کو جھٹلاتی آئی تھی پر آج اس نے تھک ہار کر خود بھی اپنی زبان سے اقرار کر لیا تھا...
             ***********************
فجر کی نماز پڑھنے کے بعد مرتضٰی صاحب نے امل کو کمرے میں بلایا تھا امل جانتی تھی انھوں نے شامیر کے رشتے کے متعلق ہی بات کرنی ہے وہ سکون سے ان کے سامنے والی کرسی پر جا کر بیٹھ گئی اور ان کے بولنے کا انتظار کرنے لگی وہ چاہتی تھی ہاں ہوجاۓ مگر اس کو اجازت نہیں تھی کہ وہ یہ بات زبان سے بول سکے کیونکہ اسے آج بھی یاد ہے جب کالج کا پہلا دن تھا تب ہی مرتضٰی صاحب نے بول دیا تھا امل تم جہاں چاہتی ہو جتنا چاہتی ہو میں پڑھاؤں گا مگر کبھی جاب کرنے کی اور پسند کی شادی کرنے کی بات مجھ سے مت کرنا اور اس نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایسا کچھ نہیں کرے گی آج تک بس وہ اسی وعدے کی پاسداری کرتی ہوئی آرہی تھی..
"کیا تم شامیر کو پسند کرتی ہو..؟؟"
اسے مرتضٰی صاحب سے کسی ایسے ہی سوال کی امید تھی
"نہیں.."
اس نے یک لفظی جواب دیا اس وقت وہ ہنستی مسکراتی معصوم سی امل نہیں لگ رہی تھی اس وقت ایک سمجھدار اور میچور لڑکی لگ رہی تھی جو سامنے والے کی ذہنیت کے مطابق ان سے بات کرنا جانتی ہو
"تو پھر ان لوگوں کی ہمت گھر تک رشتہ لانے کی کیسے ہوگئی..؟؟"
مرتضیٰ صاحب نے سخت الفاظوں کا استعمال شروع کر دیا تھا..اس وقت اسے شامیر پر غصہ آرہا تھا کہ اس نے یہ رشتہ بھیج کر اسے اس کے باپ کے سامنے شرمندہ کردیا ہے
"مجھے نہیں پتہ.."
امل نے ان کے پیروں کو دیکھتے ہوئے بولا
"ٹھیک ہے پھر ہم منع کر دیتے ہیں.."
ایک پل کے لیے امل کا دل کیا انھیں یہ قدم اٹھانے سے روک دے مگر اس وعدے نے اس کی زبان تالو سے چپکا دی تھی
"ٹھیک ہے.."
وہ بول کر اٹھ گئی اور وہاں سے چلی گئی..اس کے جاتے ہی مرتضٰی صاحب بھی اٹھ کر دادو کے کمرے میں چلے گئے دادو کچھ تسبیحات کر رہی تھیں وہ ختم ہوتے ہی انھوں نے پوچھا
"کیا ہوا..؟؟"
"وہ امل کے رشتے کا کیا جواب دینا ہے..؟؟"
انہوں نے دادو سے پوچھا تو دادو نے الٹا ان سے سوال کیا
"تمہارا کیا ارادہ ہے..؟؟"
"مجھے لگتا ہے ہمیں نہیں بول دینا چاہیے..مگر آخری فیصلہ آپ کا ہی ہوگا"
انھوں نے ان کے پیروں میں دیکھتے ہوۓ بولا
"ہمم..تو ٹھیک ہے..ہاں بول دو.."
دادو کا فیصلہ سنتے ہی ان کی نظر پیروں پر سے ہٹ کر چہرے پر چلی گئی
"کیا ہوا..؟؟"
دادو نے ان کی آنکھوں میں بے یقینی دیکھتے ہوئے پوچھا
"کچھ نہیں...مجھے لگا تھا آپ نا بولیں گی.."
مرتضیٰ صاحب نے نظروں کو دوبارہ پیروں کی طرف جھکاتے ہوئے بولا
"مرتضیٰ..لکڑی کو اتنا ہی موڑنا چاہیے جتنی اس میں لچک ہو اگر اس سے زیادہ موڑنے کی کوشش کرو گے تو وہ ٹوٹ جاۓ گی.."
وہ دونوں جانتے تھے وہ ان کے بناۓ گئے اصولوں کے بارے میں کہہ رہی ہیں تو وہ ہاں میں سر ہلا کر ان کے پاس سے اٹھ گئے...
             ************************
شامیر دوپہر میں گھر میں داخل ہوا تو خلافِ معمول زارہ اور نادیہ بیگم ہال میں موجود تھے اور ان کے چہروں پر موجود خوشی بھی الگ سے نمایاں ہورہی تھی
"خیریت تو ہے..؟؟"
شامیر نے چابی اور موبائل سامنے ٹیبل پر رکھ کر صوفے بیٹھتے ہوئے پوچھا
"وہ بھائی.."
زارہ نے آگے بات ادھوری چھوڑ دی تو شامیر نے بولا
"آگے بول بھی لو زارہ.."
"وہ بھائی امل کے گھر سے فون آیا تھا..منع کر دیا انہوں نے.."
زارہ نے ادکاری کرتے ہوئے بولا
"ٹھیک ہے.."
اس نے کندھے اُچکاتے ہوئے بولا
"انھوں نے ہاں بول دیا ہے..اور ہمیں گھر پر بھی بلایا ہے.."
نادیہ بیگم نے زارہ کو گھورتے ہوئے بولا تو شامیر نے اثبات میں سر ہلا دیا
"حسن تمہاری ایسی باتوں میں ضرور آجاۓ گا.."
شامیر نے جان بوجھ کر حسن کا نام زارہ کے سامنے لیا تھا تاکہ وہ اس کے تاثرات بھانپ سکے اور حسن کا نام سنتے ہی اس کے تاثرات پل بھر میں سخت ہوگئے تو وہ مسکراتے ہوئے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا..
              ***************************
امل کا موڈ صبح سے کچھ خاص اچھا نہیں تھا ابھی بھی وہ پلنگ پر بیٹھی ہوئی اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں کچھ ڈھونڈ رہی تھی بریرہ بھاگتی ہوئی آئی اور اچھل کر اس کے برابر میں لیٹ گئی تو امل نے ایک خفا سی نظر اس پر ڈالی اور دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوگئی
"آپی..آپ ابو کے فیصلے سے خوش نہیں ہو..؟؟"
بریرہ نے پوچھا
"پتہ نہیں.."
اس نے اپنا چہرہ بریرہ کی طرف موڑ کر کندھے اُچکاتے ہوئے بولا
"ویسے آپ کو پتہ تو ہے نا ابو کا فیصلہ..؟؟"
بریرہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا
"ہاں ابو نے منع کردیا نا.."
امل نے اس کی مسکراہٹ پر دھیان دینے بغیر بولا تو بریرہ نے اپنی ہنسی چھپاتے ہوۓ ہاں میں سر ہلا دیا
تھوڑی دیر بعد امل کا فون بجا تو اس نے نمبر دیکھے بغیر فون اٹھا لیا
"ہیلو.."
شامیر کی آواز سنتے ہی اس کے چودہ طبق روشن ہوگئے
"آپ.."
اس نے اتنی زور سے بولا کہ بریرہ نے اس سے بھی زور سے پوچھا
"کون ہے..؟؟"
دوسری طرف شامیر کو آج اپنے کان کی خیر نہیں لگ رہی تھی
"شامیر.."
امل نے اسپیکر پر ہاتھ رکھ کر آہستہ آواز میں بولا تو بریرہ شامیر کا نام سنتے ہی پُر جوش انداز میں اٹھ کر بیٹھ گئی
"جی بولیں..؟؟"
امل نے بریرہ کو آنکھیں دکھاتے ہوۓ پوچھا
"مبارک ہو.."
شامیر نے مسکراتے ہوۓ بولا
"کس بات کی؟؟"
امل نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا
"ہمارا رشتہ پکا ہونے کی.."
شامیر نے ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالتے ہوئے بولا
"ہمارا رشتہ..؟؟"
امل کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا وہ کیا بول رہا ہے اس سے پہلے امل کچھ بولتی بریرہ نے اس کے موبائل کے اسپیکر پر ہاتھ رکھتے کر پھسپھساتے ہوۓ بولا
"ابو نے ہاں بول دیا ہے.."
"کیا؟؟.."
امل نے بھی پھسپھساتے ہوئے بولا مگر اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں
"ہاں..امی تمہیں بلا بھی رہی تھیں.."
بریرہ  نے مسکراتے ہوۓ اسے بتایا تو امل نے غصہ کرتے ہوئے بولا
"ساری کام کی باتیں ابھی ہی یاد آنی تھیں.."
"ہیلو..ہیلو.."
شامیر نے کوئی پچوسیں مرتبہ ہیلو بولا تھا مگر ہوش کسے تھا
"ہیلو.."
اب کی بار شامیر نے اتنی زور سے بولا کہ امل کو احساس ہوا کہ کوئی فون پر بھی موجود ہے
"جی..جی..بولیں.."
امل نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا
"آپ ابھی بریرہ سے باتیں کر لو..میں آپ سے رات کو مل کر ہی بات کروں گا.."
اس نے بول کر فون رکھ دیا اور امل ہیلو ہیلو ہی کرتی رہ گئی
"عجیب پاگل انسان ہیں..رات کو یہ مجھ سے کیوں ملیں گے.."
امل نے فون کو گھورتے ہوئے بولا تو پاس بیٹھی بریرہ نے اس کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوۓ کہا
"ابو نے افطار کے بعد انھیں بلایا ہے..اس لیے.."
"اللّٰہ اللّٰہ میری زندگی سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے اور مجھے پتہ بھی نہیں.."
امل نے سر تھامتے ہوئے ڈرامائی انداز اپنایا
"ہاں وہ تو آپ کے چہرے کی خوشی ہی بتا رہی ہے.."
بریرہ نے اسے چھیڑتے ہوئے بولا
"بکواس مت کرو.."
وہ زبردستی کا غصہ کرتے ہوئے واشروم میں چلی گئی تو بریرہ ہنس دی..
              ***********************
شامیر زارہ کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا کر کمرے میں داخل ہوا تو زارہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی شامیر اس کے پاس آکر بیٹھ گیا تو زارہ نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا
"آپ رشتے کے بارے میں بات کرنے آۓ ہیں..؟؟"
"ہاں.."
شامیر نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا
"آپ جانتے ہیں میں نہیں چاہتی.."
ہاں.."
شامیر نے یک لفظی جواب دیا
"اب اس بارے میں بات کرنے کے لیے ہے نہیں کچھ.."
زارہ نے چھت پر لگے گول گھومتے پنکھے کو دیکھتے ہوئے بولا
"وجہ منع کرنے کی؟؟.."
شامیر نے اس کی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا جو اس نے پنکھے پر ہی جما رکھی تھیں
"میں اس کے قابل نہیں ہوں.."
زارہ نے اپنے آنسو پیتے ہوۓ بولا تو شامیر کے ماتھے پر بل پڑنے لگے
"تم نے یہ کیسے طے کر لیا؟؟.."
شامیر کے پوچھتے ہی اس نے شامیر کی نظروں میں دیکھا جو بہت کچھ بول رہی تھیں
"زارہ وہ پچھلے پانچ سال سے تمہارا انتظار کر رہا ہے..اب تو اس کو اور نہیں آزماؤ..وہ زبان سے ایک اُف نہیں کرتا مگر اس کی آنکھوں کی چمک ختم ہوگئی ہے..وہ ہنستا ضرور ہے مگر اس کا دل خالی ہوگیا ہے..تم جس قرب سے گزر رہی ہو وہ بھی اسی قرب سے گزر رہا..دونوں کا اب یہ تھکا دینے والا سفر ختم کردو زارہ.."
شامیر نے بول کر اس کی طرف دیکھا تو اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھگا ہوا تھا شامیر نے اسے پلنگ پر بٹھایا پانی پلایا تو وہ بولنے کے قابل ہوئی
"بھائی..میں تھک گئی ہوں.."
زارہ کی آواز کا قرب شامیر کو تڑپا گیا تھا
"تو بچے ہاں بول کر ختم کردو یہ خود سے چھڑی ہوئی جنگ.."
شامیر نے اسے خود سے لگاتے ہوئے بولا تو زارہ نے سر اس کے سینے پر رکھے ہوئے ہی پوچھا
"کیا اتنا آسان ہے..؟؟"
"اس سے بھی زیادہ آسان ہے کوشش تو کرو.."
اس نے زارہ کا سر تھپتھپاتے ہوۓ بولا تو زارہ نے ہاں میں سر ہلا دیا..
شامیر نے زارہ کو دوبارہ پلنگ پر لٹا دیا اور اس کے پاس سے اٹھ کر چلا گیا...زارہ نے بھی آنکھیں موند لیں اس کو آہستہ آہستہ اپنے اندر سکون اترتا ہوا محسوس ہوا...
            *************************
گیٹ بجا تو مرتضیٰ صاحب نے گھڑی کی طرف دیکھا اور انھیں اندازہ ہوگیا کہ جعفری فیملی ہی آئی ہوگی وہ اٹھ کر گیٹ کھولنے گئے تو وہ لوگ پھل اور مٹھائی کے ٹوکرے لے کر داخل ہوۓ وہ بھی کافی اچھی طرح ان سے ملے اور ان کو ڈرائنگ روم میں لے کر آئے شامیر نے آتے ہی دادو کے آگے سر جھکا کر دعا لی اس کے بعد وہ لوگ ہلکی پھلکی باتیں کرنے لگے پر شامیر کی آنکھیں امل کو ہی ڈھونڈ رہی تھیں اسے امید تھی کہ وہ بریرہ کے ساتھ آجاۓ گی مگر وہ بریرہ کے ساتھ بھی نہیں آئی تو اس کا منہ لٹک گیا اس بات کا مزہ زارہ اور بریرہ نے اندر ہی اندر خوش ہوکر بہت لیا
"وہ ہم نے زارہ کا رشتہ بھی پکا کر دیا ہے.."
نادیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے سب کو خبر دی تو سب زارہ کو مبارکباد دینے لگے
"میں آپ لوگوں سے ایک اور بات بھی کرنا چاہتی تھی..؟؟"
نادیہ بیگم نے سب کو دوبارہ اپنی طرف متوجہ کرتے ہوۓ بولا
"جی بولیں.."
خدیجہ بیگم نے سنجیدگی سے بولا
"ہم چاہ رہے تھے شامیر کا نکاح زارہ کے ساتھ عید کے اگلے ہفتے ہی ہوجاۓ.."
پوری مرتضیٰ فیملی یہ بات سن کر ششدر  ہوگئے تھے
"اتنی جلدی کیوں..؟؟"
دادو نے پریشان ہوتے ہوۓ پوچھا
"نہیں..منگنی کرنے سے اچھا نکاح ہوجاۓ تو بہتر بھی ہے اور نکاح کی شرعی طور پر بھی حثیت ہے جوکہ منگنی کی نہیں ہے.."
انھوں نے اپنی بات کافی اچھی طرح سے بیان کی
"ٹھیک ہے..نکاح ایک ہفتے بعد ہی ہوگا.."
دادو کے بولتے ہی سب نے ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کی اس وقت وہاں پر عید سے پہلے عید کا سماں لگ رہا تھا...
"مجھے ایک ضروری کال کرنی ہے میں آتا ہوں.."
شامیر سفید جھوٹ بول کر ڈرائنگ روم سے نکلا سب اپنی باتوں میں اتنے مگن تھے کہ کسی نے اس کو امل کے کمرے میں جاتے ہوۓ ہی نہیں دیکھا شامیر نے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے امل کی چڑی ہوئی آواز آئی
"بریرہ کونسی مصیبت لاحق ہوگئی ہے.."
امل کی آواز سنتے ہی شامیر مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوا امل موبائل میں اتنی مگن تھی کہ اس نے آنے والے شخص کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھے بغیر بولا
"کیا..."
اس سے پہلے وہ سوال مکمل کرتی شامیر کے پرفیوم کی مہک اس کی ناک تک پہنچنے پر اس نے جھٹ سے نظریں اٹھا کر دیکھا سامنے دیوار سے ٹیک لگائے گرے پینٹ کی جیب میں دونوں ہاتھ ڈالے وائٹ شرٹ کی آستینوں کو کہنیوں تک موڑے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجاۓ وہ کھڑا تھا گالوں پر پڑتے ڈمپل آنکھوں میں چمکتی محبت لیے کھڑا دیکھ کر امل کو اپنا دل ایک پل کے لیے ڈگر سے اترتا ہوا محسوس ہوا پر اگلے ہی پل وہ ہوش میں آتے ہوئے بولی
"آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟؟.."
"تم باہر کیوں نہیں آئیں؟؟"
شامیر نے اس کی طرف ایک قدم بڑھاتے ہوئے پوچھا
"آپ کے ٹوتھ پیسٹ میں نمک ہے..؟؟"
امل کے اس بے تک کے سوال پر شامیر نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا
"بھئی اب آپ میرے سوال کے جواب میں سوال کریں گے تو میں بھی آپ کے سوال کے بدلے ایسا ہی سوال کروں گی.."
اس نے کندھے اُچکاتے ہوئے بولا تو شامیر ہنسنے لگا امل نے اس کو ہنستے دیکھ دل ہی دل میں ماشاءاللہ کہا
"امل.."
اس کا لہجہ محبت سے چور تھا
"جی؟؟"
امل نے نظریں جھکائے ہی پوچھا کیونکہ وہ اس کی نظروں میں دیکھنے کی ہمت نہیں کر پارہی تھی
"میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں.."
اس نے امل سے چند انچ کے فاصلے پر کھڑے ہوتے ہوئے بولا
"تھینک یو.."
امل کو سمجھ ہی نہیں آیا وہ اس بات کا کیا جواب دے تو اس نے دو منٹ سوچنے کے بعد کافی غیر رومانی جواب دیا
"امل...میری محبت کے اقرار میں اس سے اچھا جواب دینے کی قابلیت کوئی رکھ ہی نہیں سکتا.."
شامیر نے اپنے رومانی موڈ کا بیڑہ غرق ہوتے دیکھ کر طنزیہ انداز میں بولا پر امل اس کو اپنی شاباشی سمجھ کر شرماتے ہوۓ مسکرا دی..اس پل شامیر کو اس کی معصومیت پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا اس سے پہلے وہ کچھ بولتا بریرہ دھڑام سے دروازہ کھولتی ہوئی اندر آئی اور شامیر کو کمرے میں دیکھ کر اس کی سٹی پٹی گم ہوگئی اور اس کو اچانک یہاں دیکھ کر امل اور شامیر کی
"آپ کو پتہ ہے سب آپ کو باہر تلاش کر رہے ہیں.."
بریرہ نے شامیر کو دیکھتے ہوئے بولا تو امل کی تو حالت ہی خراب ہوگئی اگر کوئی بھی شامیر کو یہاں پر دیکھ لے گا تو ان کی شامت تو پکی
"اچھا ٹھیک ہے تو میں چلا جاتا ہوں.."
شامیر اس سے پہلے کمرے سے باہر جاتا امل نے جھٹ سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکتے ہوئے پوچھا
"آپ کیا چاہتے ہیں..مجھے ابو الٹا پنکھے سے لٹکا دیں..؟؟"
"کیوں بھئی میں کیوں ایسا چاہوں گا..؟؟"
"آپ حرکت تو یہی کر رہے ہیں کہ ابو آپ کو یہاں میرے ساتھ دیکھیں اور مجھے پنکھے سے الٹا لٹکا دیں.."
"اچھا ٹھیک ہے میں آپ کو باہر لے کر جاتی ہوں.."
بریرہ نے ان دونوں کو فضول باتوں میں وقت ضائع کرتے دیکھ کر بولا
"اگر آپ کی آپی میرا ہاتھ چھوڑ دیں گی تو ہم چل لیں گے.."
امل جو ابھی تک بے خیالی میں شامیر کا ہاتھ پکڑے کھڑی تھی شامیر کے بولنے پر جھٹ سے چھوڑ کر پیچھے ہوئی تو شامیر آنکھ مار کر بریرہ کے ساتھ باہر کی طرف بڑھ گیا
"کہاں چلے گئے تھے تم..؟؟"
نادیہ بیگم نے اس کو ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی پوچھا
"وہ امی یہاں سگنل نہیں آرہے تھے تو باہر چلا گیا تھا.."
شامیر کے بولتے ہی زارہ نے جان بوجھ کر اپنے موبائل پر سگنل چیک کرتے ہوۓ بولا
"نہیں میرے موبائل میں تو صحیح آرہے ہیں.."
"ابھی ابھی آۓ ہوں گے.."
شامیر نے ایک لفظ چباتے ہوئے بولا تو زارہ معنی خیز انداز میں مسکرا دی..شامیر بھی مسکراتے ہوئے دوبارہ صوفے پر بیٹھ گیا..
             ************************
حسن نے زارہ کے نمبر پر کال کری تو زارہ نے پہلی دفعہ میں تو اٹھایا ہی نہیں کیونکہ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا بات کرے لیکن اس کے دوبارہ فون کرنے پر اس نے فون اٹھا لیا کیونکہ وہ جانتی تھی وہ جب تک نہیں اٹھاۓ گی وہ کال کرتا رہے گا
"اسلام وعلیکم.."
زارہ فون اٹھاتے ہی بولی
"وعلیکم السلام.."
حسن کے لہجے سے خوشی ٹپک رہی تھی
"تھینک یو.."
حسن نے دو منٹ کی خاموشی کے بعد بولا
"کس لیے.."
زارہ نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا
"ہاں بولنے کے لیے..نکاح کے لیے تیار ہونے کے لیے..خود کو مجھے سونپنے کے لیے.."
وہ اور بھی بہت سی وجوہات پیش کرنے والا تھا مگر زارہ نے روک دیا
"بس بس سمجھ گئی.."
زارہ نے ہنستے ہوئے بولا حسن نے کتنے سالوں بعد اس کی زندگی سے بھر پور ہنسی سنی تھی اسے اپنے اندر سکون اترتا ہوا محسوس ہوا..اس نے فوراً ہی دل میں اللّٰہ کا شکر ادا کیا کہ اللّٰہ نے اسے صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت دی..تھوڑی دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد حسن نے فون رکھ دیا..
اس وقت زارہ کو اپنا ایک ایک رواں اللّٰہ کا شکر مند لگ رہا تھا..
                 ********************
نادیہ بیگم اور شامیر لان میں بیٹھے نکاح کی تیاریوں اور تقریبات کے بارے میں ہی گفتگو کر رہے تھے کہ شامیر کے ماموں کی فیملی ان کو مبارکباد دینے آگئی شامیر فوراً اٹھ کر ماموں کے گلے ملا نادیہ بیگم بھی اٹھ کر بھائی اور بھابھی سے بہت اچھی طرح ملیں
"کتنے چھپے رستم نکلے آپ..میں تو آپ کو شرف النفس انسان سمجھتا تھا.."
شامیر کے ماموں زاد کزن علی نے اس سے گلے ملتے ہوۓ بولا تو شامیر نے گلے ملتے ہوۓ ہی اس کی پسلیوں کو تھوڑا سا دبا کر چھوڑ دیا مگر کافی دیر تک اس کی پسلیوں میں درد رہا تھا
"پھپھو آپ نے تو مجھے پرایا ہی کردیا..اتنی بھی کیا بے رخی کے ایک فون ہی نہیں کرا..بس آپ نے میرے اس دل کو توڑ دیا ہے.."
اس نے ڈرامائی انداز اپناتے ہوئے بولا تو شامیر نے مسکراتے ہوئے اس سے پوچھا
"تو مطلب اب تم کوئی فنکشن اٹینڈ نہیں کرو گے..بلکہ ایسا کرو کہ اتنا برا لگا لو کہ نکاح میں بھی نہیں آنا.."
شامیر نے پر سوچ انداز میں بولا تو علی نے ڈھٹائی کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے بولا
"نہیں مجھے اتنا برا لگا ہے کہ میں آج سے ہی آپ کے گھر میں شفٹ ہورہا ہوں وہ بھی آپ کے کمرے میں.."
اس کی یہ بات سن کر شامیر نے اس کا کندھا دباتے ہوئے بولا
"میرے کمرے کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھنا.."
"شکر ہے علی کوئی تو آیا اس گھر میں جو رونق لگاۓ گا.."
نادیہ بیگم نے خوش ہوتے ہوئے بولا تو ممانی جان جھٹ سے بولیں
"ارے نادیہ..تم لوگوں کو پریشان کر دیگا.."
"نہیں نہیں بھابھی شامیر ہے نا اسے سنبھالنے کے لیے.."
نادیہ بیگم نے انھیں تسلی دیتے ہوۓ بولا
"مجھے ایسا لگ رہا ہے میں تئیس سال کا نہیں تین سال کا ہوں.."
علی نے برا مناتے ہوئے بولا
"ارے نہیں نہیں تم تو میرا دائیاں بازو ہو.."
نادیہ بیگم نے اسے تسلی دیتے ہوئے بولا تو اس نے شامیر کو آنکھیں دکھاتے ہوۓ کہا
"دیکھ رہے ہیں آپ ابھی تک پھپھو کا بازو نہیں بن پاۓ ہیں.."
"ہاں پھپھو کا بھتیجا جو ہے اس کام کے لیے.."
شامیر نے افسوس کرتے ہوئے کہا
"ویسے بھابھی ہیں کیسی..؟؟"
تھوڑی دیر بعد علی نے شامیر کی طرف جھکتے ہوۓ پوچھا تو شامیر نے اسے گھوری سے نوازا جس کے بعد وہ سیدھا ہوکر بیٹھ گیا مگر اسے لگا جیسے شامیر مسکرایا ہو پر اس نے اپنا خیال سمجھ کر جھٹک دیا کیونکہ وہ کم کم ہی مسکرایا کرتا تھا..
               ************************
"اوہ بنو رے بنو میری چلی سسرال کو..انکھیوں میں پانی دے گئی.."
بریرہ گانا گاتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی تو قرآن پڑھتی امل نے اسے گھور کر دیکھا تو وہ بھی اس کو قرآن پاک پڑھتے دیکھ چپ ہوگئی..وہ انتظار کرنے لگی کہ  وہ جلدی پڑھے اور وہ اس کو تنگ کرسکے امل نے اس کے ان ناپاک ارادوں کو بھانپتے ہوئے تلاوت اور لمبی کردی لیکن بریرہ بھی ڈھیٹ بن کر بیٹھی انتظار کرتی رہی بلاآخر امل نے ایک گھنٹے بعد قرآن مجید چوم کر آنکھوں سے لگایا اور پھر بند کرکے شیلف میں رکھ کر مڑی ہی تھی کہ بریرہ اس کے پیچھے کھڑی ہوئی تھی
"کیا ہے؟؟"
امل نے کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا
"ہمیں اب کہاں کچھ ہوگا اب تو جو ہوگا وہ آپ کو ہوگا.."
بریرہ نے اس کو کندھا مارتے ہوۓ بولا
"اب ہم کہاں تنگ کریں گے..اب تو آپ کے مسٹر رومن رنگز ہی آپ کو تنگ کرا کریں گے.."
بریرہ کے منہ سے شامیر کا ذکر سنتے ہی امل کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری جس کو اس نے دباتے ہوئے کہا
"بریرہ دفع ہورہی ہو یا میں امی کو تمہارے مارکس کے بارے میں بتاؤں.."
امل نے اس کی دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھا
"اللّٰہ کرے تمہاری جلدی شادی ہوجاۓ..میری جان چھوٹے.."
بریرہ غصے میں بولتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی..تو امل مسکرا کر لیٹ گئی اس سے پہلے اس کی آنکھ لگتی اس کے موبائل پر میسج کی ٹیون بجی اس نے پہلے سوچا اگنور کر دے مگر پھر کوئی کام کا میسج ہوگا یہ سوچ کر موبائل اٹھایا تو شامیر کا میسج تھا
"رات کو ساڑھے نو بجے تیار رہنا ہمیں جانا ہے.."
"اللّٰہ اللّٰہ ہمیں کہاں جانا ہے..؟؟"
اس نے بڑبڑاتے ہوئے فون لگایا تو دوسری بیل پر ہی اس نے فون اٹھالیا
"ہمیں کیوں جانا ہے؟؟اور کہاں جانا ہے؟؟آپ نے ابو سے پوچھا؟؟ اللّٰہ اللّٰہ آپ کیسے مجھے اس طرح اپنے ساتھ چلنے کا بول سکتے ہیں ابھی میں آپ کی منکوحہ نہیں ہوں.."
امل سانس لینے کے لیے رکی اس سے پہلے وہ دوبارہ بولنا شروع کرتی شامیر نے جھٹ سے بولا
"امل..بس میری جان بس پہلے میری سن لو.."
میری جان سننے پر امل کے لب خود بہ خود ہی سل گئے تھے
"ہمیں نکاح کی شاپنگ کرنے جانا ہے..اور انکل نے اجازت دے دی ہے.."
شامیر نے اس کی تمام پریشانیوں کو دور کرتے ہوئے کہا
"پر پھر بھی ہم آج نہیں جاسکتے.."
امل نے اس کی ساری بات سننے کے بعد بولا تو شامیر نے پوچھا
"کیوں بھئی؟؟.."
"کیونکہ آج طاق رات ہے اور میں اپنی طاق رات شاپنگ میں برباد نہیں کرسکتی.."
"امل ہمیں تمہارے نکاح کے ڈریس کا آرڈر دینا ہے..اگر زیادہ دیر کریں گے تو وہ تیار نہیں ہوسکے گا.."
شامیر نے اسے سمجھانے کی کوشش کی
"اللّٰہ اللّٰہ آپ مجھے طاق رات کو مال میں برباد کرنے کا کیسے بول سکتے ہیں..؟؟کیا آپ کو تراویح نہیں پڑھنی؟؟.."
امل نے اس پر رعب جھاڑتے ہوئے پوچھا
"اچھا ٹھیک ہے جیسی تمہاری مرضی..اور ہاں میری تراویح پندرہ روزہ تھی تو وہ ختم ہوگئی ہے.."
"ہمم ٹھیک ہے.."
امل فون رکھنے ہی والی تھی کہ شامیر نے بولا
"ویسے تم بیویوں کی طرح روعب جھاڑتی اچھی لگتی ہو.."
شامیر نے مسکراتے ہوۓ بولا تو امل کے گال دھک گئے
" ایک تو مجھے پہلے سے ہی روزہ لگ رہا ہے اوپر سے آپ بھی تنگ کر رہے ہیں.. اللّٰہ حافظ.."
اس سے پہلے وہ کچھ بولتا امل نے بول کر جلدی سے فون رکھ دیا اور دوبارہ مسکراتی ہوئی لیٹ گئی..
                  *********************
امل ، شامیر ، زارہ ، حسن ،علی ، بریرہ سارا ٹبر شاپنگ کرنے مال میں جمع تھا
"زارہ اور حسن تم لوگ اپنے نکاح کی شاپنگ کرلو میں اور امل اپنے نکاح کی کر لیتے ہیں اور بریرہ اور علی کو جو لینا ہو وہ لے لیں..پھر اس کے بعد ہم سب فوڈ کورٹ میں مل لیں گے"
شامیر کے اس لائحہ عمل پر سب آمادہ ہوگئے اور الگ الگ بوتیک اور دکانوں جانب چل دیئے..
"تم نے کوئی کلر سوچا ہے؟؟"
شامیر نے امل کے ساتھ ایک بوتیک میں جاتے ہوۓ پوچھا
"نہیں.."
امل نے بوتیک میں لگے ڈریسز دیکھتے ہوئے بولا ابھی وہ لوگ دیکھ ہی رہے تھے کہ ایک لڑکی ہیل کی ٹک ٹک کرتی ہوئی ان کی طرف آئی اور شامیر کو دیکھ کر حیران ہوتے ہوئے بولی
"شامیر تم یہاں..؟؟بہت ہی حسین سرپرائز ہے.."
اس لڑکی کے اس طرح بولنے پر امل نے اس لڑکی کو اوپر سے نیچے تک دیکھا بلیک کلر کے اسٹریٹ ٹراؤزر کے اوپر بلیک ہی گٹھنوں تک آتی شرٹ میں ملبوس کندھوں تک آتے بال جن کو اس نے کھلا چھوڑا ہوا تھا گوارا رنگ نیلی بڑی بڑی آنکھیں چہرے پر ہلکہ پھلکا میک اپ کیے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی امل نے دل ہی دل میں اس کی خوبصورتی کی داد دی
"تم یہاں کیا کر رہی ہو..؟؟"
شامیر نے بھی کافی دوستانہ انداز میں پوچھا جو امل کو ایک آنکھ نہیں بھایا
"یہ میرا ہی بوتیک ہے.."
اس نے مسکراتے ہوئے بولا تو شامیر نے ستائش بھری نظروں سے دیکھتے ہوۓ کامپلیمنٹ (complement) کیا
"گریٹ جاب.."
"تھینک یو.."
اس نے مسکراتے ہوئے بولا اور امل کو دیکھنے لگی جو ایک طرف چپ کر کے کھڑی ہوئی تھی
"اوہ میں تم دونوں کو انٹروڈیوس(introduce) کروانا بھول گیا..یہ امل ہے میری ہونے والی بیوی اور یہ حنا ہے میری ایکس گرل فرینڈ.."
شامیر کے اس اچانک بم دھماکے پر امل تو ششدر ہی ہوگئی حنا کو بھی حیرانگی ہوئی کہ وہ اپنی ہونے والی بیوی کو کیسے یہ بات بول سکتا ہے دونوں ہی اوکورڈ (awkward) صورتحال کا شکار ہوگئی تھیں پھر بھی دونوں نے مسکراتے ہوئے ہیلو ہائے کیا شامیر دونوں کو زیادہ پریشان نا کرتے ہوئے امل کو لے کر آگے بڑھ کر نکاح کے لیے ڈریسز دکھانے لگا جبکہ امل اس کی شکل دیکھ رہی تھی وہ کیسے اتنا نارمل ہوسکتا ہے تھوڑی دیر تک وہ لوگ اسی بوتیک میں ڈریسز دیکھتے رہے اور شامیر کا رویہ بھی بلکل عام سا تھا وہ حنا کو دکھانے کے لیے بلکل امل سے ہنس ہنس کر باتیں نہیں کر رہا تھا نا ہی امل سے چپک رہا تھا
"یار مجھے میری ہونے والی بیوی کے قابل کا کوئی ڈریس یہاں دکھا ہی نہیں..آئی ہوپ تمہیں برا نہیں لگے گا.."
شامیر نے حنا کو مسکراتے ہوئے بولا تو امل اس کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگی کہ یہ بد تمیز زیادہ ہے یا بد لحاظ مگر وہ فیصلہ نہیں کر پائی
"نہیں مجھے بلکل برا نہیں لگا.."
حنا نے شکل پر بارہ بجاتے ہوئے بولا تو شامیر اس کے ساتھ بوتیک سے باہر آگیا..
"آپ جان بوجھ کر مجھے اس بوتیک میں لے کر گئے تھے.."
امل نے دوسرے بوتیک میں داخل ہوکر ڈریسز دیکھتے ہوئے پوچھا
"ہاں.."
شامیر نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا
"آپ اس کو دکھانا چاہتے تھے کہ آپ موو آن کر گئے ہیں..؟؟"
امل نے ایک ڈریس وہاں پر لگے آئینے میں خود پر رکھ کر دیکھتے ہوئے پوچھا
"نہیں..میں تمہیں اس سے ملوانے لے کر گیا تھا.."
شامیر نے دوسرا ڈریس اس کے ہاتھ میں دیتے ہوۓ بولا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا..
تھوڑی دیر بعد سب شاپنگ کر کے فوڈ کورٹ میں موجود کچھ نا کچھ آرڈر کر رہے تھے کہ ان کو بابر گیلانی اپنی ٹیبل کی طرف آتا دکھائی دیا اور شامیر کا بس نہیں چل رہا تھا اس کی ٹیبل کی طرف بڑھتی ٹانگیں ہی توڑ دے
"شامیر کیسے ہو..؟؟"
اس نے شامیر سے ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھا
"ٹھیک.."
شامیر نے اپنے لہجے سے اس پر یہ بات واضح کر دی تھی کہ اسے اس کا یہاں آنا بلکل پسند نہیں آیا
"آپ نے اس دن بھی اپنا نام نہیں بتایا تھا..ایسا بھی کیا راز ہے بتا دیں.."
اس نے امل سے فری ہوتے ہوئے بات کی تو شامیر کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا وہ اپنی کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے آہستہ سے بابر گیلانی کے پاس گیا اور ایک زور دار طمانچہ اس کے منہ پر مارا جس کی گونج پورے فوڈ کورٹ میں گونجی تھی سب ان کی طرف متوجہ ہوگئے تھے شامیر کا ایک طمانچہ اس کی بتیسی ہلا گیا تھا یہ بات حسن اور امل کو چھوڑ کر باقی سب کے لیے حیران کن تھی کیونکہ شامیر کبھی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھاتا تھا
"I'll finish you if you ever try to come in a way of my lady.."
اس نے بابر کا کالر جھاڑتے ہوئے اسے وارننگ دی اس سے پہلے وہ کچھ بولتا حسن بول اٹھا
"آپ کل آکر کچھ لیگل فارمیلیٹیز پوری کر لیجیے گا کیونکہ آپکی اور ہماری ڈیل ختم.."
وہ کچھ بولے بغیر ہی غصے میں وہاں سے چلا گیا تماشہ ختم ہوتے ہی آہستہ آہستہ لوگ بھی اپنے کاموں میں دوبارہ مشغول ہوگئے اور وہ لوگ بھی ان کا آرڈر آتے ہی سب کھانے میں مصروف ہوگئے سوائے امل کے کیونکہ یہ تماشہ دیکھنے کے بعد اب اس کا کچھ کھانے کا دل نہیں کر رہا تھا..
               ************************
Assalamualaikum..!!
So here is the part 2 of second last episode...
I'll try my best to upload last episode as soon as I can..
So do vote and don't forget to do comment to let me know how was the episode...❤️❤️

قدرِ زمن                                                         ✅✅(compled)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora