اسلام علیکم
امید کرتی ہوں آپ سب خیرت سے ہوں گے اللہ آپ سب کو ہمیشہ اپنے امان میں رکھیں۔آمین۔
یہ "ایک وہی رہنما" جو کہ میرا دوسرا ناول تھا اس کے دو کرداروں کی کہانی ہے
آپ سب پہلے "ایک وہی رہنما پڑھ لیں۔۔۔
امید کرتی ہوں آپ سب کو پسند آئے گا
اور ایک وہی رہنما کے ریڈرز کو لگتا ہے کہ اندازِ محبت پڑھنے سے ان کا ایک وہی رہنما ناول خراب ہوگا تو وہ یہ سٹوری نا پڑھیں میں نہیں چاہتی کہ ان کو برا لگے
***********************
یہ ہے انوکہ
اندازِ محبت
(دانیال اور انوشے کی کہانی)
الفت کا داوے دار
محبت میں بے مثال ۔۔۔۔۔
فلک اس وقت بادلوں کی لپیٹ میں تھا ستمبر کے آخری آیام چل رہے تھے اس لیے شام ہوتے ہی موسم میں خنکی چھا جاتی تھی یونیورسٹی میں اس وقت صبح کے مطابق کم چہل پہل تھی آخری لیکچر ختم ہوتے ہی سب اسٹوڈنٹس کلاس سے باہر نکلنے لگے ایسے میں پانچ فٹ پانچ انچ کا لڑکا ایک کندھے پر بیگ ڈالے تیز تیز قدم چلتا راہداری سے گزر کر پارکنگ ایریا کی طرف جارہا تھا صاف رنگت ،کالی آنکھیں ۔۔۔کالے گھنے بال جو کہ سلیقے سے بنے ہوئے تھے، شرٹ کی آستین کہنیوں تک موڑ رکھی تھیں لب مسلسل گنگنارہے تھے اس کے ساتھ چلتے لڑکے نے اس کی گنگناہٹ سننی چاہی
"میں نے تو دھیرے سے ۔۔۔
نینوں کے دھاگے سے ۔۔۔
مانگا ہے پیار کو تیرے ۔۔۔۔"
"کس کے لیے مانگ لیا پیار؟"لڑکے نے شرارت سے پوچھا
کالی آنکھیں اٹھیں لب مسکرائے
"بس ہے کوئی"وہ آنکھوں میں ڈھیروں محبت لیے بولا
"کہیں شمیم تو نہیں"
"استغفراللہ بکواس نہ کر"
"پھر یار بتا بھی دے اب کون ہے وہ۔۔یونیورسٹی میں تین سال سے تیرے ساتھ ہوں ایک لڑکی کی طرف بھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا پھر یہ کون ہے جس سے پیار کر بیٹھا ہے"اسٹوڈنٹس ان کے ساتھ سے ہوتے آگے بڑھ رہے تھے
"وقت آنے پر بتاؤ گا "اس نے لڑکے کا کندھا تھپکا
"آجا کیفے چلتے ہیں"
"نہیں مغرب کی نماز کا وقت ہورہا ہے اور ماما بھی گھر پر انتظار کررہی ہوں گی چلتا ہوں اللہ حافظ"وہ اسے الوداع کہتا اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا بیگ پیچھلی سیٹ پر رکھتے وہ خود ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوگیا موبائل جیب سے نکال کر پاسورڈ ڈالا پھر گیلری کھول کر سیکرٹ لو
(secret love)
نامی فولڈر کھولا سامنے ڈھیروں تصاویر تھیں اس نے ایک تصویر کھولی آسمانی رنگ کا پاؤں تک آتا گاؤن اس کے اوپر سکن حجاب کئے نازک سی لڑکی ڈائس پر کھڑی تھی ایک ہاتھ ہوا میں تھا شاید وہ کوئی لیکچر دے رہی تھی یقیناً تصویر چھپ کر لی گئ تھی بلاشبہ وہ بہت حسین تھی لیکن جس نے اس پر دل ہارا تھا وہ حسن پرست نہیں تھا ،بہت سی خوبصورت لڑکیاں اس سے دوستی کرنے کے لیے ترستی تھی لیکن وہ ۔۔۔۔۔،وہ تو بس اپنے آپ کو ایک پر وار بیٹھا تھا
*********************
سردی کی وجہ سے کھڑکی بند کر رکھی تھی لیکن پردے ہٹے ہونے کی وجہ سے سورج کی کرنیں کمرے کو روشن کررہی تھیں باہر ٹیرس اور لان کے پودوں پر شبنم کے قطرے چمک رہے تھے
سیاہ بلاوز اور ارغوانی(purple ) رنگ کا اسکرٹ پہنے وہ بیڈ کے پاس آئی پھر جھک کر سکارف اٹھا کر آئینے کے سامنے آگئی ہلکے بھورے بال جو کندھوں سے نیچے تک تھے انہیں باندھ کر وہ حجاب اوڑھنے لگی گھنی پلکوں کے سائے میں سیاہ آنکھیں جن میں ایک خاص چمک تھی جو اس وقت اپنا عکس دیکھنے میں مرکوز تھیں سفید چمکدار رنگت ، وہ بہت حسین تھی بلکل دائیں جانب دیوار پر لگی تصویر میں موجود لڑکی کی طرح کمرہ کسی شہزادی کے کمرے سے کم نہیں تھا دیوار پر مختلف پینٹنگز لگی ہوئی تھی کھڑکی کے ساتھ رکھے اسٹڈی ٹیبل پر لیپ ٹاپ ،پین ہولڈر اور چند سکیچ بُکس رکھی ہوئی تھی میز کے ساتھ بک شیلف تھی جس میں مختلف ناولز، اسلامی کتابیں اور قرآن مجید موجود تھا
حجاب کرنے کے بعد اس نے آخری نظر خود پر ڈالی اور کمرے سے نکل آئی سیڑھیاں اتر کر وہ سیدھی اپنے بابا کے کمرے میں گئ جو کچھ دنوں کے لیے ملک سے باہر گئے ہوئے تھے لیکن معمول کے مطابق وہ پھر بھی ان کے کمرے میں آتی تھی دروازہ کھولتے ہی سامنے بیڈ تھا اور دائیں جانب ڈریسنگ روم۔ بیڈ کے پچھلی دیوار پر بہت ہی پیاری بڑی سی تصویر لگی ہوئی تھی جس میں لڑکے نے مسکرا کر لڑکی کے کندھوں کے گرد بازو پھیلایا ہوا تھا اور وہ دونوں مسکرا کر تصویر بنوا رہے تھے وہ ان کے نکاح کی تصویر تھی تصویر دیکھتے ہی وہ مسکرائی پھر نظر بائیں جانب لگی تصویروں پر گئ پوری دیوار مختلف تصویروں سے بھری ہوئی تھی شاید یہ تصویریں ہی کمرے میں رہنے والے کا کُل اثاثہ تھیں وہ ایک پینٹنگ کے سامنے آکر کھڑی ہوگئ جس میں درمیان میں وہ کھڑی تھی اور اس کے ایک طرف اس کے بابا اور دوسری طرف اس کی ماما تھی اس نے دونوں کا ہاتھ تھام رکھا تھا پیٹینگ دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں نمی آگئ
"کاش ماما جانی میں آپ کا ہاتھ تھام سکتی آپ کے گلے لگ کر آپ کی موجودگی محسوس کرسکتی کاش"آنسو باڑ توڑ کر گال پر پھسلا
"ہوگئ میری شہزادی تیار"وہ پلٹی
"دادی"
"ارے میری شہزادی کی آنکھوں میں آنسو کیوں"
"نہیں تو"اس نے فوراً گال صاف کیا پھر مسکرائی
"اپنے بابا کی ہمت ہو اس کی جینے کی وجہ ہو جانتی ہو نہ جب اداس ہوتی ہو تو وہ بےچین ہوجاتا ہے"
"جانتی ہوں دادی جان بابا کی سانس اٹک جاتی ہے مجھے اداس دیکھ کر لیکن دادی میرا دل بھی کٹتا ہے بابا کو ایسے دیکھ کر قسمت نے بہت کٹھن امتحان لیا ہے بابا کا "آخر میں اس کی آواز بھیگ گئ
" یہی زندگی ہے بیٹا زندگی تو نام ہی امتحان کا ہے لیکن اللہ اپنے بندے پر اس کی وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اور میرا بیٹا تو بہت ہمت وحوصلے والا ہے اس نے صبر سے اپنی آزمائشوں کا سامنا کیا ہے اس نے صبر کیا اور پھر اللہ نے بھی تو اسے اکیلا نہیں چھوڑا اس کی رہنما اس کو سونپ دی جس نے پل پل اس کا ساتھ دیا اس کاخیال رکھا اس کو کبھی اداس نہیں ہونے دیا"انہوں نے آگے بڑھ کر اس کی پیشانی پر پیار کیا رہنما کوئی اور نہیں ان کی پوتی ہی تھی وہ نم آنکھوں سے مسکرائی
************************
ہاتھ میں کلچ تھامے وہ راہ داری سے ہوتی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی آگے بڑھ رہی تھی ارد گرد سب اپنے کام میں مشغول تھے مہرون اور کالے رنگ کا سوٹ اس پر بہت جچ رہا تھا اس نے رک کر ایک لڑکی سے پوچھا
"سبحان کیبن میں ہے؟"
"جی کچھ دیر پہلے ہی آئیں ہیں"وہ سر ہلاکر کیبن کی جانب بڑھ گئ اندر آتے ہی اس نے پورے کمرے میں نظر گھمائی جو کہ خالی تھا
"کہاں گیا "وہ آگے میز کے پاس آئی اور فائل اٹھا کر دیکھنے لگی تبھی سبحان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر سر اس کے کندھے پر رکھا ثناء چونک کر سیدھی ہوئی
"کیسی رہی میٹنگ"وہ اس کی جانب پلٹی
"میٹنگ تو اچھی رہی لیکن "
"لیکن کیا؟"
"اپنی دبنگ ثناء کو یاد کرتا رہا" اس کے ہاتھ تھامے سبحان نے میز سے کمر ٹکائی ثناء مسکرائی
""اچھا سبحان سنو میں انکل کی طرف جانے کا سوچ رہی ہوں اتنے دن ہوگئے ہیں سب بولا رہے ہیں"
"ہاں دن تو کافی ہوگئے ہیں ایسا کرو چلی جاؤ رات کو میں پِک کرلوں گا"
" اور ہاں"جاتے جاتے وہ پلٹی "سمن کو فون کرلینا وہ کب سے تمہیں فون کر رہی تھی"
"اوہ یس"سبحان نے فوراً میز سے فون اٹھا کر نمبر ملایا دوسری جانب فون اٹھاتے ہی شاید شکایتیں شروع ہوگئی تھی سبحان نے آنکھیں بند کر کے بالوں میں ہاتھ پھیرا
"پرنسس سنو تو ۔۔۔۔ میٹنگ میں تھا پرنسس "اور پھر اگلے پندرہ منٹ تک سبحان اپنی پرنسس کی ڈانٹ سنتا رہا جبکہ ثناء مسکراہٹ دبائے اسے دیکھ رہی تھی
*********************
اس نے ڈور بیل بجانے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ دروازہ پہلے ہی کھل گیا
وہ مسکرائی کتنے دنوں بعد اس نے ارقم کو دیکھا تھا فون پر تو روزانہ بات ہوجاتی تھی لیکن آفس کے سلسلے میں وہ اور سبحان دبئ گئے ہوئے تھے اور پھر واپس آکر بھی کام میں اس قدر الجھ گئے تھے کہ ملنے کا وقت ہی نہیں ملا
"اسلام علیکم"
"وعلیکم السلام جی کس سے ملنا ہے ؟"ارقم سنجیدگی سے پوچھنے لگا ثناء کی مسکراہٹ سکڑی
"کمو کیا ہوا ہے اندھے تو نہیں ہوگئے ؟"
"اوہ اچھا سن یہ تم ہو کچھ موٹی نہیں ہوگئی تم اور یہ اخلاقیات کیا سبحان شاہ نے سکھائیں ہیں" ثناء اسے گھورتی آگے بڑھی
"تم ہٹو آگے سے مجھے اندر جانا ہے۔"وہ اندر آگئ
"ارے رکو رکو " ثناء رک گئی ارقم اس سے پہلے اندر بھاگا
"سَن تھوڑا تِرچھی ہوکر اندر آنا۔" ثناء نے حیرانی سے اسے دیکھا
"ارے نئے دروازے لگائے تھے تم گزروگی تو یو نو۔۔ ٹوٹ پھوٹ گئے تو۔"
"کیااااااا میں تمہیں اتنی موٹی لگ رہی ہوں۔" ثناء اس کو مارنے کے لیے بھاگی اب ارقم آگے اور ثناء اس کے پیچھے تھی ارسل ،رضا صاحب اور باقی گھر والے جہاں ثناء کو دیکھ کر خوش ہوئے وہیں انکی بھاگ دوڑ سے پریشان ہوگئے ۔علینہ آواز سن کر کچن سے باہر آئی۔
"ثناء۔۔!!!!ارے ارے ثناء رک جاو کیا ہوا ہے۔"
"علینہ سنبھال لو اس کنگ کانگ کو بڑا برا پٹے گا مجھ سے یہ"
"ہوا کیا ہے" آخر ارسل نے پوچھا ۔
"بھائی اس نے مجھے موٹی کہا ہے۔"
" چل جھوٹی میں نے کب کہا"وہ صوفے پر بیٹھ گیا
" ابھی تم نے کہا کہ ترچھی ہوکر آنا دروازے سے "
"ہاں تو اس میں موٹا لفظ کہاں کہا میں نے ۔"
"ارقم کے بچے تم نہیں بچو گے "
ثناء اسے کشن اٹھا کر مارنے لگی ۔
"سَن شائن "دانیال کی چہکتی آواز پر وہ رکی دانیال فوراً سیڑھیاں پھلانگتا اس تک پہنچا
"دانی کیسے ہو"وہ اس سے ملی
"میں بلکل ٹھیک آپ کیسی ہیں سعد اور سمن نہیں آئے؟ "
"نہیں وہ ویک اینڈ پر آئیں گے میں تو آفس سے آئی ہوں آپ سب کی بہت یاد آرہی تھی"وہ باری باری سب سے ملی
"ہانیہ اور باقی سب بچے کہاں ہیں"
"ہانیہ اپنی دوست کے گھر گئ ہے اور باقی اکیڈمی گئے ہیں"
"اچھا"وہ سب لاؤنج میں ہی بیٹھے باتیں کررہے تھے ثناء نے ساتھ بیٹھے دانیال کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا ثناء مسکرائی دانیال اور ثناء کی آپس میں بہت پکی دوستی تھی دانیال اپنی ہر بات ثناء کو بتاتا تھا اور اگر کوئی بات بھی منوانی ہوتی تو فوراً ثناء سے رابطہ کرتا تھا
علینہ اور شزاء نے مل کر چائے کے ساتھ کچھ لوازمات میز پر لگائے اس طرح ہنستے مسکراتے وہ سب باتوں میں مصروف ہوگئے
**********************
آسمان پر سیاہی پھیل چکی تھی مہتاب چارو سو اپنی روشنی پھیلا رہا تھا موبائل پر انوشے کی ویڈیو کال آرہی تھی اس لیے وہ اٹھ کر باہر لان میں آگئ کیونکہ اندر سگنل ڈراپ ہورہے تھے وہ کال اٹینڈ کرکے لان میں رکھی کرسی پر بیٹھ گئ
"اسلام علیکم خالہ جانی"انوشے کی چہکتی آواز ابھری جو کسی کے دل کی دھڑکن بڑھا گئ
"وعلیکم اسلام میری جان "
"کیسی ہیں خالہ"
"میں بلکل ٹھیک وہاں پر سب کیسے ہیں احمر بھائی کیسے ہیں واپس آگئے" ثناء نے بولتے گردن موڑ کر دائی جانب دیکھا دروازے کے پیچھے کوئی کھڑا تھا ثناء مسکرائی
"یہاں سب ٹھیک ہیں ۔۔۔،بابا کل آئیں گے ۔آپ بتائیں وہاں سب کیسے ہیں کیا آپ شزاء خالہ کی طرف ہیں؟"
"یہاں بھی سب ٹھیک ہیں ہاں میں شام میں آئی تھی بس سبحان آنے ہی والے ہیں"دانیال دروازے کے ساتھ پشت لگائے آنکھیں بند کیے کھڑا تھا تبھی شزاء کی کچن سے آواز آئی
"دانیال ثناء کو بولو کھانے کے لیے آجائے"
"اچھا ماما"اس نے لان میں قدم رکھا
"انوشے کھانسی کیوں آرہی ہے آپ کو بخار ہورہا ہے نا"ثناء فکرمند ہوئی جبکہ دانیال کے چہرے پر بھی فکرمندی واضح ہوئی
"نہیں بس ہلکا سا flu ہورہا ہے "انوشے ٹشو سے اپنی آنکھیں صاف کرنے لگی جب بھی اسے بخار یا اس کا گلا خراب ہوتا تھا اس کی آنکھوں سے پانی بہنا شروع ہوجاتا تھا دانیال ثناء کے سامنے کھڑا ہوگیا
"ثناء آپی ماما کھانے کے لیے بلا رہی ہیں"
"اچھا آتی ہوں"دانیال پلٹنے لگا جب ہی آواز آئی
"خالہ دانیال کیسا ہے اتنا وقت ہوگیا ہے بات ہی نہیں ہوئی اس سے بات کروائیں نا "ثناء نے سر اٹھا کر دانیال کو دیکھا جس کا رخ دوسری جانب تھا
"ہاں ہاں کرواتی ہوں ۔۔۔دانیال یہ لو انوشے بات کرنا چاہ رہی ہے"ثناء نے موبائل اس کی جانب بڑھایا تو اس نے ہاتھ سے اشارہ کرکے منع کردیا ثناء نے اس گھورا تو وہ اس کے ساتھ بیٹھ گیا موبائل اب بھی نہیں پکڑا
"اسلام علیکم دانی کیسے ہو" ہوا کا تیز جھونکا گزرا
دانیال کی نظریں سکرین کے علاوہ ہر طرف طواف کرنے لگیں
"وعلیکم اسلام میں ٹھیک آپ کیسی ہیں"
"میں بھی بلکل ٹھیک یہ مجھ سے اتنا شرما کیوں رہے ہو "انوشے کی بات پر ثناء نے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی روکنی چاہی دانیال نے اسے گھورا
"نہیں میں کیوں شرماؤں گا آپ سے "
"یونیورسٹی کیسی۔۔" کھانسی کی وجہ سے وہ اپنا جملہ مکمل نہیں کرسکی دانیال نے نظر اٹھا کر سکرین پر دیکھا نظر نے پلٹنے سے، ۔۔وقت نے چلنے سے، ۔۔۔۔دل نے دھڑکنے سے انکار کردیا۔۔۔۔۔۔
"آپ کی طبیعت خراب ہے"دل کو کچھ ہوا
"نہیں بس۔۔"
"انوشے بہت پٹو گی مجھ سے میں ابھی احمر جیجو کو بتاتی ہوں"
"نہیں نہیں خالہ اصل میں موسم بدل رہا ہے نا بس اسی وجہ سے طبیعت خراب ہے آپ بلکل فکر مت کریں میں نے دوائی لی ہے"بولتے بولتے وہ پھر کھانسنے لگی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں دانیال جھٹکے سے اٹھ گیا
"آپی جلدی آجائیں "وہ سنجیدگی سے کہتا اندر چلا گیا ثناء نے کچھ سوچتے ہوئے اس کی پشت کو دیکھا اور پھر انوشے کی جانب متوجہ ہوگئ
کمرے میں آتے ہی دانیال نے زور سے کشن بیڈ پر پھینکا
"طبیعت اتنی خراب ہورہی ہے اور کہہ رہی ہیں کچھ نہیں ہوا خیال کیوں نہیں رکھتی اپنا "دانیال کمرے میں چکر کاٹنے لگا کچھ وقت ہی گزرا تھا جب ثناء اس کے کمرے میں آگئ
"دانی یہ پینڈلم کی طرح چلنا بند کرو سر گھوم رہا ہے میرا"
" میں بہت غصے میں ہوں "
"بہت دیکھا ہے تم جیسو کو غصے میں مجھ سے نا الجھو بھئ ہٹو "وہ اسے ایک طرف کرتی صوفے پر جاکر بیٹھ گئ اور ساتھ رکھا چپس کا پیکٹ کھول کر مزے سے کھانے لگی دانیال نے منہ بسور کر اسے دیکھا
"پاٹنر کچھ کرو نا کب بات کرو گی بابا سے "وہ اس کے ساتھ بیٹھا التجا کرنے لگا ثناء نے پیکٹ اس کو تھمایا پھر گویا ہوئی
"میں بات کرچکی ہوں "
"ہیں!!!!! کیا کہا سب نے جلدی بتائیں"
"مجھے کوئی انکار کرسکتا ہے "اس نے ایک ادا سے کہا دانیال تو گویا شاکڈ ہوگیا
"او ہیلو مسٹر ہوش میں آؤ"ثناء نے اس کے سامنے چٹکی بجائی
"کیا آپ سچ کہہ رہی ہیں میں لندن جاسکتا ہوں "
"ہاں بلکل سچ کہہ رہی ہوں ارسل بھائی کو منا لیا ہے اور آپی بھی مان گئ ہیں"دانیال اس کا ہاتھ پکڑے کھڑا ہوا اور گول گول گھومنے لگا
"اللہ میں کتنا خوش ہوں میں بتا نہیں سکتا تھینک یو سو مچ سن شائن تھینک یو ۔۔۔،یو آر دی بیسٹ پاٹنر آئی لو یو"
"افف دانی خدا کا نام لو چکڑ آنے لگ گئے ہیں مجھے"اس نے اپنا سر پکڑا
"میں بہت خوش ہوں "ثناء نے سر اٹھا کر اسے دیکھا خوشی دانیال کے چہرے سے ہی چمک رہی تھی
"میری دعا ہے کہ میرا پاٹنر ہمیشہ ایسے ہی خوش رہے"اس نے پیار سے اس کے گال پر ہاتھ رکھا "میں نہیں جانتی دانی قسمت میں کیا لکھا ہے لیکن تمہاری آنکھوں میں چھپا پیار تمہارے دل کی تمنا پوری کرنے میں جہاں تک ہوسکا میں تمہارا ساتھ دوں گی"وہ دل میں مخاطب تھی
"آپی"
"ہوں"
"آپ ہمیشہ میرا ساتھ دیں گی نا "ثناء نے سر ہلایا
"بلکل دوں گی لیکن دانی آگے جو بھی ہوگا چاہے تمہارے حق میں ہو یا نہیں تم نے مایوس نہیں ہونا اللہ جو بھی کرتے ہیں ہمارے لیے بہترین ہوتا ہے"ثناء نے اسے سمجھانا چاہا
"انشاءاللہ میں آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گا"
"بیسٹ اوف لک پاٹنر "
************************
ایئر پورٹ سے قدم باہر رکھتے ہی تیز ہوا کا جھونکا اس کو چھو کر گزرا
ڈرائیور اسکے انتظار میں باہر ہی موجود تھا ۔ ڈرائیور کے سلام کا جواب دے کر وہ گاڑی میں بیٹھ گیا ۔ باوقار شخصیت آنکھوں میں وہی مسحورکن چمک جن پر اب عمر کے ساتھ نفیس سے گلاسز لگ گئے تھے جس سے شخصیت اور بھی پر کشش ہوگئی تھی بال آج بھی بکھرے بکھرے تھے جنہیں سنوارنا وہ شاید بھول چکا تھا گاڑی سنگنل پر رکی تو اس نے موبائل سے نظریں اٹھا کر دائیں جانب باہر دیکھا زندگی رواں دواں تھی لیکن اس کی نظریں تو سامنے موجود
ice cream parlour
کو دیکھتے ہی تھم گئیں اس نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ماضی کی یاد تھامے اس سے ٹکرایا
" یہاں کی آئس کریم مجھے بہت پسند ہے تو تم یاد رکھنا جب بھی میرا دل کرے یا میرا موڈ خراب ہو تو آئس کریم یہی سے لانا سمجھے"
"سر"آواز پر وہ چونکا
"ہاں"
"آپ کا فون بج رہا ہے"اس نے سکرین کو دیکھا
کچھ دیر بعد گاڑی گھر کے باہر آکر رکی گارڈ نے دروازہ کھول دیا انوشے جو اپنے کمرے میں تھی بھاگ کر نیچے آئی اور باپ سے لپٹ گئی وہ آج بھی احمر سے ویسے ہی ملتی تھی جیسے بچپن میں ۔۔۔۔
"بابا جانی کیسے ہیں؟"
"میں ٹھیک ہوں میری جان "
" اتنے کمزور لگ رہے ہیں کھانا پینا ٹھیک سے کھاتے تھے کے نہیں" احمر ہنسا
" اففف دادی اماں اندر چلو "
دونوں اندر آئے جہاں احمر کی والدہ انکا انتظار کر رہی تھیں ۔
" آگئے بیٹا خیریت سے"
" جی ماما " احمر نے جھک کر ان سے دعائیں لیں اور صوفے پر بیٹھ گیا۔انوشے نے اسے پانی کا گلاس تھمایا اور خود اسکے ساتھ ہی بیٹھ گئی
" بابا میں نے آپ کو بہت یاد کیا اس دفعہ آپ بہت زیادہ دنوں کے لیے گئے تھے"وہ احمر کے کندھے پر سر رکھے بیٹھی تھی
"میں نے بھی اپنی جان کو بہت یاد کیا"اس نے جھک کر انوشے کے سر پر پیار کیا وہ مسکرائی
" اچھا آپ بیٹھیں میں کافی بنا کر لاتی ہوں۔"
" یہ کی نہ میرے دل کی بات وہاں سب کچھ تھا بس میری انوشے کے ہاتھ کی کافی نہیں تھی"
"میں ابھی لاتی ہوں"وہ فوراََ بھاگ گئ
" بیٹیاں بھی کتنی جلدی بڑی ہوجاتی ہیں ابھی کل ہی تو جیسے یہ میری زندگی میں آئی تھی چھوٹی سی نازک سی گڑیا جسے میری ماہم نے نام دیا تھا "صائمہ بیگم نے اپنے بیٹھے کو دیکھا
"کبھی کبھی میں بہت حیران ہوتی ہوں احمر یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہے انوشے میں ماہم کی شبیہہ دکھتی ہے اسکا اٹھنا بیٹھنا بات کرنا سب ماہم جیسا ہے حتیٰ کہ اس کی سوچ بھی "احمر مسکرایا
" ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ میرے لیے تو یہ میری زندگی ہے اگر انوشے نہ ہوتی تو میں بھی اب تک زندہ نہ ہوتا "
" یہ لیں بابا جانی آپ کی گرم گرم کافی ساتھ میں سنیکس بھی ہیں۔"ملازمہ کے ساتھ مل کر انوشے نے ٹرے سامنے رکھی
" اتنا سب کچھ بنا لیا "
" صبح سے لگی ہوئی تھی"صائمہ بیگم نے بتایا
"ارے میری جان کیا ضرورت تھی اتنی محنت کرنے کی"
"کوئی محنت نہیں ہے بابا مجھے تو بہت خوشی ہوتی ہے آپ کے لیے کچھ کر کے ۔۔۔۔میں دادا جان کو بلا کر لاتی ہوں آپ شروع کریں"وہ اٹھ گئ
************************
آسمان پر چودھویں کا چاند پوری اب وتاب سے چمک رہا تھا ارسل صوفے پر بیٹھا چائے پی رہا تھا لیکن نظریں بیڈ پر بیٹھی شزاء پر تھیں جو شاپنگ بیگ سے چیزیں نکال کر ساتھ ساتھ ارسل کو بھی دیکھا رہی تھی
"بتائیں نا ارسل صحیح ہے نا"ارسل کپ میز پر رکھ کر اس کے پاس آکر بیٹھا
"سب کچھ بہت پیارا ہے اب ریلیکس ہوجاؤ "
"کیسے ریلیکس ہوجاؤ ابھی دانی کو یہ کپڑے دکھاؤ گی پتا نہیں اسے پسند آئیں گے بھی یا نہیں پھر اس کی پیکنگ کرنی ہے انوشے کے گفٹس بھی پیک کرنے ہیں"
"شزاء "ارسل نے اس کا ہاتھ تھاما
"اداس ہو؟"شزاء نے رک کر نظریں اٹھائیں
"تھوڑی تھوڑی ہوں"
"کہتی ہو تو روک دیتا ہوں"
"نہیں نہیں اس کا شوق ہے جانے دیں اسے میں ٹھیک ہوں"ارسل مسکرایا
"ویسے بیٹے کے لیے اتنی شاپنگ اور شوہر کے لیے کچھ بھی نہیں "شزاء نے منہ بنایا
" آپ کو کیسے بھول سکتی ہوں "اس نے دو شاپنگ بیگ اٹھا کر ارسل کی طرف بڑھائے
"تھینک یو اب تم کچھ دیر آرام کرلو ڈنر کے بعد پیکنگ کرلینا "وہ اس کا ہاتھ تھپک کر اٹھ گیا
"آئمہ کی اسائنمنٹ بن گئ "
"ہانیہ مدد کررہی ہے اس کی دونوں بنا کر ہی اٹھیں گیں اب"ارسل دروازے کی جانب بڑھ گیا
"آپ کہاں جارہے ہیں"
"دانیال کے پاس "شزاء نے سر ہلادیا
**********************
وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی مسجد سے لوٹا تھا اور اب سامان پیک کرتے ثناء سے بات بھی کررہا تھا
"جی جی سب رکھ رہا ہوں اور اپنا خیال بھی رکھوں گا۔،
اففف پارٹنر آپ کا تھینکس بھی تو کرنا تھا اس لیے بھیجا ہے گفٹ ۔۔۔،ہاہاہا ہاں لیکن اظہار ضروری تو نہیں وہ میری آنکھیں بھی پڑھ سکتی ہیں۔ مجھے اتنے وقت سے جانتی ہیں آخر بیسٹ فرینڈ ہیں"
دروازے پر دستک ہوئی تو اس نے فوراً ایک بیگ کو بند کیا جس میں انوشے کے گفٹس تھے
"اچھا پاٹنر بعد میں بات کرتے ہیں"اس نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا
"بابا "ارسل سامنے کھڑا اسے دیکھنے لگا وہ یقیناً اس کی بات سن چکا تھا دانیال نے خود کو کمپوز کیا
"ہوگئ تیاریاں"
"بس کر ہی رہا ہوں "
"اپنا بہت خیال رکھنا دانیال میں کبھی تمہیں دور نہ بھیجتا وہ تو شکر ہے وہاں احمر اور انوشے ہے اس وجہ سے میں بےفکر ہوں "دانیال مسکرایا ۔ارسل نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا
"دانی بیٹا ایک مشورہ دینا چاہوں گا "دانیال نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا
"تمہیں میں نے ہمیشہ بیٹے سے زیادہ دوست کی طرح ٹریٹ کیا ہے اسلئے کہوں گا دل کی بات کہہ دینے میں ہی بھلائی ہوتی ہے"دانیال چونکا
" بابا جو دل کے قریب ہوتے ہیں کیا وہ دل کا حال نہیں جانتے؟ "
" نہیں بیٹا اظہار کرنا پڑتا ہے ہماری بہت بڑی غلط فہمی ہوتی ہے یہ کہ اگلا انسان ہمارے احساسات جان لے گا چلو فرض کرو وہ جان بھی گیا ہے پھر اس کے بعد بھی اظہار کرنا ہوتا ہے لفظوں سے ہی تو بات آگے بڑھتی ہے لفظوں سے ہی یقین دلایا جاتا ہے "ارسل نے اس کا کندھا تھپکا
"وقت رہتے جو بات کہہ دی جائے سب سے بہتر ہے پھر وقت ہاتھ سے ریت کی طرح پھسل جاتا ہے اور ہم سوچتے رہتے ہیں کہ کاش میں نے وقت پر یہ کہہ دیا ہوتا "دانیال ارسل کو دیکھ رہا تھا وہ بلکل دوست کی طرح اسے سمجھا رہا تھا
"جانتا ہوں دل کی بات کہہ دینا آسان نہیں ہے لیکن بروقت کہہ دینا بہت ضروری ہوتا ہے"ارسل نے اسے گلے لگایا
" اپنا خیال رکھنا "دانیال نے اس کے گرد گرفت مضبوط کرلی
*********************
royal painting Academy
بورڈ پر نام جگ مگا رہا تھا یہ انسٹیوٹ شہر کا مشہور آرٹ انسٹیوٹ تھا دروازے سے اندر آتے ہی دائیں جانب گراؤنڈ تھا جس میں رنگ برنگے پھول تھے اور دوسری جانب ٹائلز لگا کر پکا راستہ بنا رکھا تھا جو سیدھا بلڈنگ کی جناب جارہا تھا راہ داری سے گزر کر سیڑھیاں اوپر کی جانب جارہی تھی اوپر جاکر بائیں جانب کی کلاس میں سب اسٹوڈنٹس اپنے اپنے کینوس پر پیٹنگ کررہے تھے ایک نیلی آنکھوں والی لڑکی نے ہاتھ کھڑا کیا
"میم"
یس"انوشے آہستہ سے اس کے پاس چلی گئ فائنل اسٹوڈنٹس میں آج اس کی پہلی کلاس تھی پینٹنگ اور سکیچنگ کا انوشے کو شروع سے ہی شوق تھا پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ اپنے شوق پر بھی پوری توجہ دیتی رہی تھی اور اب صبح کالج میں لیکچر دینے کے بعد دوپہر میں وہ آرٹ اسکول میں پینٹنگ سکھاتی تھی ۔
لیکچر اوف ہوتے ہی وہ اپنے ڈائس کے پاس آئی اور اپنا سامان سمیٹنے لگی سب اسٹوڈنٹس نے اپنی پیٹنگز ایک لڑکی کو جمع کروا دی
" میم"لڑکی نے پیٹنگز ٹیبل پر رکھ دی
"تھینک یو صوفیا"انوشے بیگ ایک کندھے پر ڈال کر باہر نکلی راہ داری میں اس کی ہیل کی آواز گونج رہی تھی مہرون پاؤں تک آتی میکسی کے ساتھ مہرون اور سکن حجاب پہنے ایک نظر پیٹنگز کو دیکھتے وہ آگے بڑھ رہی تھی کہ اچانک اس کے قدم تھم گئے اس نے ایک طرف میز پر ساری پیٹنز رکھی اور تیسری والی پیٹنگ آہستہ سے نیچے سے نکال کر اپنے سامنے کی اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ہاتھ تھم گئے وہ اور کچھ نہیں اس کے ہی نام کی کیلیگرافی تھی انوشے تھم گئ تھی آج سے پہلے اس نے اتنی پیاری کیلیگرافی نہیں دیکھی تھی
"یہ کس نے بنائی ہے"وہ شاکڈ تھی اچانک اس کی نظر نیچے لکھے نام پر پڑی
"دانیال ارسل "انوشے نے منہ پر ہاتھ رکھا
"دانی "وہ فوراً کلاس کی جانب پلٹی پیچھے ہی گرل کے ساتھ سینے پر ہاتھ باندھے وہ کھڑا تھا ہاں وہ دانیال تھا انوشے کا دانی
"دانی"انوشے کی آنکھیں چمکی
"اومائے گارڈ یہ تم ہو میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہی "انوشے نے سر پر ہاتھ رکھا دوسری جانب دانیال کا دل ایسے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی باہر نکل آئے گا
حسرتِ دیدار بھی کیا چیز ہے صاحب
وہ سامنےہو تو مسلسل دیکھا بھی نہیں جاتا
دانیال اس کے سامنے آیا
"اسلام علیکم انوشے کیسی ہیں"
"وعلیکم اسلام میں بلکل ٹھیک ہوں"انوشے نے اس کا ہاتھ پکڑا
"افف دانی مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا تم میرے سامنے ہو"دانی نے اپنے ہاتھ کو دیکھا گلے میں گلٹی ڈوب کر ابھری
"میں بھی یہی شروع ہوگئ چلو کہیں باہر چل کر باتیں کرتے ہیں "انوشے پلٹ کر سامان اٹھانے لگی
"شرم کر دانی کچھ شرم کر"اس نے خود سے سرزنش کی
"چلو "وہ دونوں باہر آگئے انوشے نے سامان گاڑی میں رکھا پھر اس کی جانب پلٹی "سامنے کیفے میں چلتے ہیں آجاؤ"
کیفے میں کافی چہل پہل تھی وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ گئے
"اب بتاؤ کیا حال ہے "خوشی اس کے چہرے سے ہی جھلک رہی تھی
"بلکل ٹھیک یہ بتائیں سرپرائز کیسا لگا"
"افف مجھے کتنی خوشی ہو رہی ہے تم اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے "دانیال مسکرایا وہ واقع ہی بہت خوش تھی
"بتایا کیوں نہیں آنے کا خالہ نے بھی مجھے کچھ نہیں بتایا اکیڈمی کا ایڈریس کس نے دیا"اس نے ایک ساتھ ڈھیرو سوال کر ڈالے
"اگر بتا دیتا تو آپ کے چہرے کی یہ خوشی کیسے دیکھتا۔ پہلے میں آپ کے گھر گیا تھا آنٹی سے باتیں کی ان سے ایڈریس لیا یہاں کا پھر یہاں آکر ہیڈ سے بات کی بہت مشکلوں سے انہیں منایا کہ پلیز کلاس میں بیٹھنے دیں"
"مجھے پتا کیوں نہیں چلا کہ تم کلاس میں ہو"
"کیونکہ میں کلاس میں تھا ہی نہیں ایک لڑکے کے ہاتھ اندر بھیجوائی تھی "
"ویسے دانی آئی ایم ایمپریسڈ "
"تھینک یو"
"اچھا اور بتاؤ سب کیسے ہیں شزاء خالہ اور باقی سب کیوں نہیں آئے"
"سب ٹھیک ہیں بابا کا ارادہ ہے ہانیہ کے وکیشنز پر آنے کا میں تو سٹڈی اور جاب کے لیے یہاں آیا ہوں"
'واہ جی" ویٹر کافی اور سنیکس رکھ کر چلا گیا تو وہ دوبارہ مخاطب ہوئی
"ویسے دانی میں ایک بات کب سے تم سے کرنا چاہتی تھی "
"جی جی کہیے"
"تم بدل کیوں گئے ہو"انوشے کی بات پر دانیال الجھا
"میں سمجھا نہیں "
"میں سمجھاتی ہوں ۔پہلے ہم اتنی باتیں کرتے تھے ایک دوسرے کے بیسٹ فرینڈ تھے ایک دوسرے سے دور ہونے کے باوجود ہم دونوں کو ایک دوسرے کی روٹین کا پتا ہوتا تھا اور پچھلے دو سالوں سے تم مجھ سے صحیح سے بات نہیں کررہے"وہ اسے گھورتی بول رہی تھی
"اب میں یہاں آگیا ہوں نا دیکھنا کتنا تنگ کروں گا آپ کو"
"میں نے تمہیں بہت یاد کیا دانی شکر ہے تم آگئے اب جانا مت "دانیال نے سر جھکا دیا
**********************
آسمان بادلوں کی لپیٹ میں تھا فجر قضا ہوئے ایک گھنٹہ گزر گیا تھا ٹھنڈی ہوا جسم کو سن کرتی گزر رہی تھی ایک دو ہفتوں میں یقیناً برف باری کا امکان تھا آسمانی رنگ کا سوٹ اس پر شال کیے انوشے گھر کے پچھلے لان میں آئی لان میں ہر طرح کے پھول موجود تھے ہر رنگ کا گلاب وہاں کھِل رہا تھا وہ ہلکی سی مسکراہٹ جو کہ اس کی شخصیت کا خاسا تھی لیے آگے بڑھی پھولوں پر شبنم کے قطرے ان کی خوبصورتی کو دوبالا کررہے تھے
"اسلام علیکم فرینڈز"اس نے اونچی آواز میں کہا دانیال پیچھے کے کمرے میں ہی تھا آواز پر وہ فوراً صوفے سے اٹھا فجر پڑھنے کے بعد وہ موبائل پر قرآن پڑھ رہا تھا وہ اٹھ کر کھڑکی کے پاس آیا اور پردہ ہٹایا وہ سلائڈ ونڈو تھی اس کے لبو کو دلکش مسکراہٹ نے چھوا انوشے لال گلاب کو پیار سے چھو رہی تھی اس نے آہستہ سے ونڈو کھول دی اور قدم باہر رکھا چارو طرف پھول ہی پھول تھے شاندار مہک نے اسے گھیر لیا نظریں اس کی ہنوز انوشے پر ہی تھیں لبوں نے جنبش کی
"
YOU ARE READING
اندازِ محبت از قلم رافعہ عزیز
Short Storyیہ ہے انوکہ اندازِ محبت دانیال اور انوشے کی کہانی