قسط نمبر 2

653 69 22
                                    

آج دانیال خلاف معمول دوپہر میں گھر آگیا اس نے وقت دیکھا آدھے گھنٹے میں انوشے کی کلاس آف ہونے والی تھی وہ فریش ہو کر باہر آیا
" آنٹی انوشے کو میں لے آتا ہوں"آرٹ اکیڈمی گھر سے زیادہ دور نہیں تھی
"ابھی تو آفس سے آئے ہو آرام کرو"
" کچھ نہیں ہوتا میں لے آتا ہوں"
"اچھا چلو جاؤ " وہ جیب میں ہاتھ ڈالے چل رہا تھا ابھی تھوڑا ہی آگے آیا تھا کہ کچھ لڑکوں کا گروپ کھڑا تھا سارے انگریز تھے کانوں میں بالیاں کسی کے لمبے بال تھے کسی کے چھوٹے بال تھے کسی نے سر پر رومال باندھا ہوا تھا وہ سب آپس میں کھڑے باتیں کر رہے تھے دانیال انہیں ایک نظر دیکھ کر آگے بڑھ گیا کچھ دیر بعد ہی اسے انوشے باہر آتی دیکھی مہرون گاون پہنے سر پر اسکن رنگ کا اسکارف حجاب کی طرح باندھے وہ دانیال کو دیکھ چکی تھی
"السلام علیکم "
" وعلیکم السلام تم یہاں؟"
"آپ کو لینے آیا ہوں "
" آفس سے جلدی آگئے آج"
"جی۔۔، لائیں سامان مجھے دے دیں"اس نے انوشے سے چاٹ پیپرز پکڑنے چاہے
"نہیں کوئی بات نہیں"
"اوہو انوشے ادھر دیں"اس نے سامان اس کے ہاتھ سے پکڑ لیا وہ دونوں پینٹنگز کو ڈسکس کرتے جارہے تھے انوشے ہیل پہن کر بھی دانیال سے ایک انچ چھوٹی تھی سامنے دائیں جانب لڑکوں کا گروپ کھڑا تھا دانیال آہستہ سے انوشے کے دائیں طرف آگیا اور اس کے ساتھ چلنے لگا انوشے باتوں میں اتنی مگن تھی کہ اسے پتا ہی نہیں چلا ابھی یہ لوگ ان کے قریب سے گزرے ہی تھے جب ان میں سے ایک لڑکا جس نے لال رنگ کا رومال سر پر باندھا ہوا تھا گلے میں مختلف چینز تھی اس نے انوشے کو دیکھ کر کہا
"Hey Beautiful come join us for fun".
دانیال نے غصے سے اسکی طرف دیکھا
"Oh My God look at this kid he is gonna be hit me"
دانیال اسکی بات سن کر اسکی طرف بڑھنے لگا انوشے نے اسکا ہاتھ پکڑلیا
" لیو دیم دانی یہ روز کا معمول ہے تم  مت الجھو"
" awwh man go home and take feeder ".
وہ لوگ دانیال کا مذاق اڑاتے ہوئے ہنسنے لگے۔ انوشے نے اسے گھر چلنے کا کہا وہ دونوں آگے بڑھ گئے
"یہ روز اسی طرح کرتے ہیں؟"دانیال کو شدید غصہ آرہا تھا
" ہاں ہر لڑکی کو چھیڑتے ہیں "
" آپ لوگوں نے کمپلین نہیں کی"
"نہیں کوئی انہیں منہ بھی نہیں لگاتا تم بھی چھوڑو " گھر پہنچ کر انوشے کمرے میں فریش ہونے چلی گئی جبکہ دانیال کا غصے سے برا حال ہورہا تھا انوشے کے معاملے میں وہ پوزیسیو تھا وہ سب سے آنکھ بچاتا باہر نکلا اور اس جگہ گیا جہاں وہ گروپ تھا لیکن اس وقت وہاں صرف وہی لڑکا تھا جس نے انوشے کو چھیڑا تھا
دانیال نے آو دیکھا نا تاؤ لڑکے کو بری طرح مارنے لگا لڑکا حملے کے لئے تیار نہیں تھا اس لیے زمین بوس ہوگیا دانیال جب سارا غصہ نکال چکا تو اسے کھنچ کر اپنی طرف کیا
" Listen to me  very carefully  never ever tease my lady .If i see you ever around her, you'll be no more for sure"
جھٹکے سے اسے چھوڑتا وہ اٹھا اور اپنے کپڑے جھارتا گھر کی جانب بڑھ گیا وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوا صائمہ نیگم سامنے بیٹھی تھیں۔
"ارے دانیال بیٹا کہاں چلے گئے تھے "
" بس ایسے ہی باہر چکر لگانے گیا تھا "وہ اپنے کمرے کی طرف بھاگا اس کے ہاتھ سے خون نکل رہا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ انوشے کو کچھ پتا چلے
لیکن کچن سے کافی کا کپ لے کر نکلتی انوشے اس کا ہاتھ دیکھ چکی تھی ۔
وہ کافی  میز پر رکھتی اس کے کمرے میں آئی
دانیال جو واشروم سے ہاتھ دھو کر نکل رہا تھا انوشے کو سامنے دیکھتے ہی  اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا۔
"ارے خالی ہاتھ آگئ آپ ایک کپ کافی ہی بنا لیتی چلیں کوئی نہیں آج میں آپ کو اپنے ہاتھ کی کافی پلاتا ہوں "وہ باہر جانے لگا
" کیا چھپا رہے ہو دانی مجھ سے"
" میں بھلا آپ سے کیا چھپاسکتا ہوں"
" ہاتھ میں چوٹ کیسے لگی"وہ چلتی اس کے سامنے آئی اور ہاتھ پکڑ کر  سامنے کیا دانیال نے سر جھکا دیا
" دانیال کیوں کیا تم نے ایسا"
" اس نے آپ سے بدتمیزی کی تھی"
" اف خدایا دانی دیکھو راستے میں ہزاروں کتے ملتے ہیں جو بھونکتے ہیں تو کیا ہم ان کے بھونکنے کا نوٹس لے کر ان کو مارتے پھیرے گے " انوشے کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا
دانیال نے کچھ کہنا چاہا لیکن انوشے کا غصے سے بھرا چہرہ دیکھ کر سر جھکا دیا
" میں تم سے بات کر رہی ہوں دانی"
دانیال اب بھی چپ رہا انوشے نے دانیال کے کندھے پر ہاتھ رکھا  "جواب دو مجھے "
" کھینچ لوں گا وہ زبان جو آپ کی بے حرمتی کرے گی ۔۔۔نوچ لوں گا وہ آنکھیں جس میں آپ کے لیے عزت نہیں ۔یہ تو صرف ٹریلر دکھایا ہے اگلی بار ایسا ویسا کچھ ہوا تو جان بھی لینے سے پیچھے نہیں ہٹوں گا " انوشے حیرت سے اسے دیکھے گئ کہاں دیکھا تھا اس نے دانیال کا غصہ ۔۔۔۔
" آپ پریشان نہ ہوں انوشے اب وہ دوبارہ کبھی تنگ نہیں کریں گے آپ ڈریے مت"
" مجھے ان سے نہیں تم سے ڈر لگ رہا ہے دانیال "دانیال مسکرایا جان لیوا مسکراہٹ انوشے پلٹ گئ اس کا دماغ سن ہورہا تھا
"بات تو سنیں" دانیال نے اسے روکنا چاہا لیکن وہ بنا اسے دیکھے کمرے سے چلی گئی
***********************
صبح سے رات ہوگئ نا انوشے نے دانیال سے بات کی اور نا ہی اس کی جانب دیکھا وہ اپنے کمرے سے باہر ہی نہیں آئی تھی اب طاہر صاحب نے اسے کھانے کے لیے بلوایا تھا
وہ خاموشی سے آکر اپنی کرس پر بیٹھ گئ
"آج میری بیٹی نے کھانا نہیں بنایا"احمر نے پیار سے پوچھا
"بابا آج تھوڑا سا کام تھا"
"چلو کوئی بات نہیں "وہ کھانے میں مصروف ہوگئے دانیال کی نظریں انوشے پر ہی تھی دانیال کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ سب کچھ تہس نہس کردے انوشے کی نظر اندازی اسے بے چین کررہی تھی کھانے کے بعد سب اپنے کمرے میں چلے گئے جبکہ انوشے ملازمہ کے ساتھ کچن سمیٹنے لگی پھر دودھ گرم کرکے کپ میں نکالا
"جیاء اب آپ جائیں گھر"وہ سر ہلا کر چلی گئ انوشے جونہی پلٹی دانیال کو پیچھے کھڑا پایا کپ اور دوائی ٹرے میں رکھ کر کچن میں رکھے ڈائنگ پر رکھا اور جانے لگی تبھی دانیال اس کے سامنے آگیا
"دیکھو دانیال مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی"
"پر مجھے کرنی ہے"انوشے نے گھور کر اسے دیکھا
"میں غصے میں ہوں"
"جانتا ہوں اور غصے میں آپ بہت  کیوٹ لگتی ہیں"
"دانیال"
"سوری نا اب ناراضگی ختم کریں"
"ایک شرط پر ناراضگی ختم ہوگی"
"سب منظور ہے"وہ جھٹ سےبولا
"سنو"اس نے سختی سے کہا
"جی"
"تمہیں مجھ سے وعدہ کرنا ہوگا"
" کونسا وعدہ"
" یہی کہ  کچھ بھی ہوجائے اب کسی سے لڑو گے نہیں "
" انوشے۔۔۔۔۔۔" انوشے نے بات کاٹتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھایا
" پرامس می دانی"
" اوکے انوشے میں اب کسی پر کبھی بھی ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا لیکن اگر کوئی آپ کو کچھ کہے گا تو پھر وہ دانیال ارسل سے نہیں بچے گا " انوشے جو پرسکون ہوگئ تھی اس کے آخری جملے پر سر اٹھا کر اسے گھورا
"بہت بدتمیز ہو چلو اب دوائی کھا لو فضول میں ہاتھ زخمی کرلیا "بولتی وہ کچن سے نکل گئ  اسکا ذہن اسے کچھ اور الارم دے رہا تھا اسکا شک صحیح ثابت ہونے لگا
  **********************
برف باری نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا ہر طرف جیسے سفید چادر بچھی ہوئی تھی ٹھنڈی ہوائیں اس کے ارد گرد گھوم رہی تھی لیکن اسے کہاں پرواہ تھی وہ تو اپنی سوچوں میں گم تھی نماز اور تلاوت کے بعد وہ پارک میں آگئ تھی
"انوشے"دانیال کی آواز پر وہ پلٹی
"اتنی ٹھنڈ میں یہاں کیوں آئی ہیں"
"ٹھنڈ تو نہیں لگ رہی یہ دیکھو پوری بھالو بن کر آئی ہوں"اس نے اپنے کوٹ اور گلوز کی طرف اشارہ کیا دانیال مسکرایا
"آؤ وہاں بیٹھتے ہیں"انوشے نے سامنے بینچ کی طرف اشارہ کیا
"اتنا دور کیوں یہ والا بینچ بھی تو خالی ہے"دانیال نے قریب رکھے بینچ کی طرف اشارہ کیا
"چلو تو"وہ دونوں آگے بڑھ گئے
"بابا اور ماما جب بھی اس پارک میں آتے تھے وہ یہی بیٹھتے تھے"انوشے مسکراتے ہوئے بیٹھ گئ دانیال بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا
"اور وہ دیکھو وہ جو درخت ہے نا"انوشے نے انگلی درخت کی طرف کی "بابا نے بتایا تھا کہ نکاح کے بعد وہ ماما سے ادھر ملے تھے"دانیال مسکرا کر اسے سن رہا تھا آج وہ اداس تھی یا شاید دانیال کو لگ رہی تھی
"ماہم خالہ کو بہت یاد کرتی ہیں نا آپ"انوشے نے نم آنکھوں سے دانیال کی جانب دیکھا پھر سر اثبات میں ہلایا
"بہت زیادہ"
"آپ اداس نا ہو انوشے"دانیال بے چین ہوا
"پتا ہے دانی میں ان کی سگی بیٹھی نہیں ہوں وہ تو جانتی بھی نہیں تھی کہ میں انہیں ماما بلاؤ گی بابا نے مجھے بہت پیار دیا ہے ثناء خالہ ارقم ماموں شزاء خالہ سب نے مجھے بہت پیار دیا ہے بہت زیادہ۔۔، مجھے کبھی بھی احساس نہیں ہوا کہ میں سگی نہیں ہوں سب کہتے ہیں میں ماما سے بہت ملتی ہوں میری مسکراہٹ میرا انداز سب ماہم ماما جیسا ہے ۔دانی میں نے انہیں نہیں دیکھا میں نے اپنی سگی ماما کو بھی نہیں دیکھا جب ہوش سنبھالا بابا جانی، خالہ ،دادا جان ،دادی ان سب کو اپنے اردگرد پایا۔ تو دانی ماہم ماما سے اتنی محبت کیسے ہوگئ مجھے"آنسو رخسار بھیگوتا اس کی ہتھیلی پر گرا دانیال تڑپ کر اس کی جانب بڑھا
"انوشے آپ روئے نہیں پلیز"
"بابا کہتے ہیں جب مجھے ماہم کی بہت یاد آتی ہے جب میری روح اس کی یاد میں  تڑپتی ہے تو ماہم میرے خواب میں آکر مجھے زندگی بخش دیتی ہے ۔۔۔،دانی ماما میرے خواب میں کیوں نہیں آتی؟"آواز بھیگ گئ نظریں دانیال کی نظروں سے ملیں دانیال نے اس کا ہاتھ پکڑا
"انوشے پلیز ایسا مت کریں مت روئے پلیز "وہ کیسے بتاتا  کہ اسے روتا دیکھ کر اس کا دل کتنا تڑپ رہا ہے "خالہ آپ کے خواب میں ضرور آئیں گی ابھی وہ اس لیے نہیں آتی کہ کہی آپ اداس نا ہوجائیں جب آپ انہیں خواب میں دیکھیں گی تو ظاہری بات ہے آپ کہو گی کاش وہ آپ کے پاس ہوتیں  اور ایسے آپ کو روتا دیکھ کر انہیں کتنا دکھ ہورہا ہو گا انوشے" انوشے نے سر ہلا کر اپنے آنسو صاف کیے اس کا ناک ٹھنڈ اور رونے کے باعث لال ہورہا تھا
"آپ ٹھیک ہیں"انوشے نے مسکرا کر سر ہلایا
"اب آپ نہیں روئے گی ورنہ میں آپ سے بات نہیں کروں گا"
"اچھا اچھا چلو تمہیں آفس کے لیے لیٹ ہوجائے گا آجاؤ گھر چلتے ہیں"وہ دونوں اٹھ کر گھر کی جانب بڑھ گئے سرد ہوائیں گھومتی ہوئی خالی بینچ کو چھو کر گزر رہی تھیں
کاش کہ یوں بھی ہوجائے
میں پکاروں اور وہ لوٹ آئے
  ***********************
گھر آکر انوشے اپنے کمرے میں جانے لگی تھی کہ  کچھ یاد آنے پر رکی
"کیا ہوا"دانیال نے پوچھا
"دادی کو دوائی دینی ہے"
"آپ جا کر فریش ہوجائیں میں دے دیتا ہوں "مسکرا کر کہتا وہ صائمہ بیگم کے کمرے کی جانب بڑھ گیا
ابھی دروازے پر دستک دینے ہی لگا تھا کہ اندر سے آتی آواز نے اس کا ہاتھ روک دیا
"ماما میں نے کہا بھی ہے کہ انوشے ابھی آگے پڑھنا چاہتی ہے لیکن انکا کہنا ہے کہ شادی کے بعد پڑھ لے گی  ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے "
"پھر تم نے کیا سوچا ہے "
"میں انوشے کی رائے جانے بغیر کچھ نہیں کہہ سکتا"
" ٹھیک کہہ رہے ہو پہلے انوشے کی مرضی جان لینی چاہیے  اسکی رضامندی کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے"
"  آپ پوچھ لیں گی اس سے"
" تم پوچھو تو زیادہ اچھا ہوگا کیوں کہ وہ تمہارے زیادہ قریب ہے یا پھر ثناء سے کہو"
" ثناء کو بولوں گا۔ انوشے اسے صحیح بتا دے گی میرے سامنے تو ہچکچائے گی"احمر جانے کے لیے کھڑا ہوگیا
"اور ہاں ماما اگلے ہفتے میں نے انہیں لنچ پر بلایا ہے"
"ٹھیک ہے میں جیاء کے ساتھ مل کر تیاری کرلوں گی"
"چلیں اب میں چلتا ہوں آپ دوائی کھا لیں"
دانیال کو ایسا لگا کسی نے چھت اٹھا کر اس کے سر پر دے ماری تھی اس کا دماغ پھٹنے کو تھا اسکی انوشے کسی اور کی ۔۔یہ سوچ ہی جان لیوا تھی غصے سے آنکھیں لال ہونے لگیں وہ ضبط کرتا اپنے کمرے میں چلاگیا
  **********************
اس کی نظریں پانی پر پڑتے چاند کے عکس پر تھیں پورا شہر روشنیوں میں ڈوبا ہوا تھا چارو طرف چہل پہل ہنسی مذاق چل رہا تھا تیز رفتاری سے گاڑیاں گزر رہی تھی لیکن وہ سب سے بے خبر پُل کے نیچے بہتے پانی کو دیکھ رہا تھا ٹھنڈی ہوائیں اس کے بال بکھیرتی گزررہی تھی بلیو جینز پر کالا گرم کوٹ پہنے وہ سنجیدہ دِکھ رہا تھا مسلسل بجتے فون کو آخر اٹھا کر  کان سے لگایا
"میرا دل تو کررہا ہے دانی ایک تھپڑ لگاؤں تمہیں "
"لگا لیں"اس نے انگلی سے آنکھیں مسلیں
"کیا مسئلہ ہوگیا ہے میں صبح سے تمہیں فون کررہی ہوں فون کیوں نہیں اٹھا رہے"ثناء غصے سے بول رہی تھی
"دانی کچھ بولو بھی کہاں ہو تم"
"ٹاور بریج پر"
"وہاں کیا کررہے ہو گھر کیوں نہیں گئے ابھی تک ؟کوئی بات ہوئی ہے کیا؟"
"انوشے صرف میری ہے"وہ سخت لہجے میں بولا
"دانی کیا ہوا ہے؟ "وہ پریشان ہوئی
"احمر انکل آپ کو کال کریں گے انوشے سے شادی کی بات کرنے کا کہنے کے لیے آپ انوشے سے بات نہیں کریں گی"ثناء کو ساری بات سمجھ آگئ
"جیجو نے مجھ سے بات کرلی ہے"
"آپ نے کیا کہا ہے انہیں "
"یہ میٹر نہیں کرتا کہ میں نے انہیں کیا بولا ہے دانیال یہ تم پر ہے کہ تم انوشے سے کب بات کرو گے کسی کو الہام نہیں ہوگا کہ تم انوشے سے محبت کرتے ہو وہ لڑکی ہے ظاہری سی بات ہے رشتے آئیں گے اور عماد کی فیملی تو کافی ٹائم سے انوشے کو پسند کرتی ہے احمر بھائی کو ہنڈرڈ پرسنٹ شیور اس رشتے سے  کوئی مسئلہ نہیں ہوگا آج نہیں تو کل جب بھی انوشے کی شادی کی بات چلے گی سب سے پہلے عماد کو ہی پریفر کیا جائے گا"
"آاااا! !بس چپ کرجائیں انوشے کا نام کسی اور کے ساتھ مت لیں انوشے صرف دانیال کی ہے "اس نے زور سے ہاتھ دیوار پر مارا غصے کا وہ شروع سے ہی تیز تھا سب یہی کہتے تھے دانیال پتا نہیں کس پر چلا گیا ہے کیونکہ پورے خاندان میں کوئی بھی غصے والا نہیں تھا
"دانیال اتنے جنونی مت بنو"ثناء نے اسے سمجھانا چاہا
"مجھے کچھ کرنا ہوگا میں انوشے کو کسی دوسرے کا نہیں ہونے دوں گا"
"دانیال انوشے کو کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے وہ جوبھی فیصلہ لے گی تمہیں ماننا ہوگا"
"میں آپ سے بعد میں بات کروں گا اللہ حافظ"فون جیب میں ڈال کر اس نے دونوں ہاتھ دیوار پر رکھ کر زور لگایا سر جھکا ہوا تھا وہ جھٹکے سے سیدھا ہوا  بالوں میں ہاتھ پھیڑ کر خود کو ریلیکس کیا موبائل میں ٹائم دیکھا تو نو بج رہے تھے انوشے کا غصے والا چہرہ آنکھوں کے سامنے آتے ہی لبوں پے مسکراہٹ پھیل گئ
  ***********************
"آج یہ لڑکا مجھ سے بہت پٹے گا  دیکھیں دادی ساڑھے نو ہوگئے ہیں اب تک گھر نہیں آیا"وہ لاؤنج میں بیٹھی بول رہی تھی دانیال اپنے پاس موجود چابی سے لاک کھول کر اندر آگیا  اور اب انوشے کی آواز سن کر لاؤنج کے دروازے پر ہی رک گیا صائمہ بیگم جو خاموشی سے انوشے کو دیکھ رہی تھیں آخر بول پڑی
"بیٹا وہ کوئی چھوٹا تو ہے نہیں نا ہی لاپرواہ ہے آفس میں کام ہوگا تبھی دیر ہوگئ ہوگی آئے تو سوال جواب نا کرنا ایسے اچھا نہیں لگتا"
"اوکے دادی"انوشے نے سر ہلادیا صائمہ بیگم  کی نظر دروازے پر کھڑے دانیال پر پڑیں
"دیکھو آگیا"
"اسلام وعلیکم "انوشے نے اٹھ کر اسے دیکھا
"وعلیکم اسلام"وہ دروازے پر ہی کھڑا رہا
"اندر کیوں نہیں آرہے"جب وہ اپنی جگہ سےنا ہلا تو آخر انوشے نے پوچھ لیا
"پہلے پوچھیں کہاں تھا میں کیوں مجھے دیر ہوئی ہے کہاں کہاں آوارہ گردی کی ہے"انوشے نے حیرت سے اسے دیکھا
"تم پاگل ہو"
"پوچھیے ورنہ میں ایسے ہی دروازے پر کھڑا رہوں گا"صائمہ بیگم نے مسکراتے ہوئے دونوں کو دیکھا
"میں نہیں پوچھوں گی پاگل ہو تم تو"وہ پلٹ گئ
"ٹھیک ہے میں اندر نہیں آؤں گا"وہ چوکھٹ سے کمر ٹیکا کر کھڑا ہوگیا ایک ہاتھ پیچھے ہی تھا انوشے ہاتھ باندھ کر اس کی طرف پلٹی
"اوکے فائن "
"جیسے روز پوچھتی ہیں ویسے ہی"انوشے نے اسے گھورا
"سو مسٹر دانیال کہاں تھے آپ۔ ٹائم دیکھا ہے آپ نے۔کہاں آوارہ گردی کرکے آئے ہیں۔"
"آفس کے بعد کچھ کام تھا اس لیے دیر ہوگئ سوری"انوشے مسکرادی۔
"میں آپ کے لیے آئس کریم لایا ہوں"انوشے کی آنکھیں چمکیں
دانیال دروازہ بند کرتا اندر آیا صائمہ بیگم کمرے میں جانے کے لیے اٹھ گئیں
"میں تو چلی سونے دانیال بیٹا کھانا کھا لینا شب بخیر"ان کے جاتے ہی انوشے نے اس کے کندھے پر تھپڑ لگایا
"بہت ڈرامے باز ہو"وہ ہنسنے لگا
"اب دانت اندر کرو اور جاؤ چینج کرلو میں کھانا لگاتی ہوں"
"اچھا آپ جلدی سے کمرے میں آجائیں مل کر آئس کریم کھاتے ہیں"وہ کمرے کی جانب چلا گیا
"پہلے کھانا تو کھالو"
"جب آپ کھائیں گی تب کھالوں گا "انوشے نے سر پر ہاتھ مارا وہ احمر کے ساتھ ہی کھانا کھاتی تھی اس نے گھڑی دیکھی جو دس بجا رہی تھی احمر کے آنے میں ابھی ایک گھنٹہ تھا
   ********************
"بابا جانی یہ غلط ہے"وہ منہ پھلائے کھڑی تھی احمر نے پیار سے اسے دیکھا پھر بیگ بیڈ سے اٹھا کر نیچا رکھا
"پرنسس اس دفعہ میں زیادہ اداس ہوں"وہ انوشے کے پاس آیا اور اسے سینے سے لگایا
"کل میری پرنسس کا برتھ ڈے ہے اور آج میں جارہا ہوں"
"تو بابا جانی نا جائیں نا"
"جانا ضروری ہے لیکن پرامس میں تین دن بعد واپس آجاؤ گا"
"پکا"
"پکا"اس کے سر پر پیار کرکے وہ سیدھا ہوا
"اب میں چلتا ہوں فلائٹ کا ٹائم ہوگیا ہے گفٹ میری الماری میں پڑا ہے لیکن وہ آج نہیں کل اوپن کرنا اوکے"
"اوکے"انوشے مسکرادی احمر کو الوداع کہہ کر وہ اندر آئی دانیال فون پر بات کررہا تھا
"دادا جان اور دادی جان بھی انکل کی طرف چلے گئے یہ بھی آفس چلا جائے گا میں کیا کروں گی "آج موسم خوشگوار تھا سورج کی وجہ سی سردی کی شدت میں  کمی تھی
"کیا سوچا جارہا ہے"دانیال نے اس کے سامنے چٹکی بجائی
"سوچ رہی ہوں اکیلی گھر رہ کر کیا کروں"
"کس نے کہا ہے آپ گھر رہے گی ابھی آپ تیار ہونے جائے گی پھر ہم دونوں باہر جائے گے اور پورا دن مستی کریں گے"
"تم نے آفس نہیں جانا"
"نہیں۔آج میری چھٹی ہے"
"پہلے کیوں نہیں بتایا"
"اب بتا دیا نا جائیں تیار ہوجائے میں کام سے جارہا ہوں آدھے گھنٹے تک آجاؤ گا"
"کہا جارہے ہو؟"
"کام ہے ایک۔آپ جا کر تیار ہوجائیں"وہ باہر چلا گیا تو انوشے بھی تیار ہونے چلی گئ
پورا دن وہ دونوں ساتھ گھومتے پھرتے رہے انوشے نے دانیال کو لندن کی ساری مشہور جگہ دیکھائیں۔ میوزم سے لے کر لائبریری تک وہ ہر جگہ گئے تھے ابھی بھی وہ بریٹیش لائبریری سے باہر آرہے تھے آسمان پر سیاہی پھیل چکی تھی چاند بادلوں کی اوٹ میں چھپا بیٹھا تھا وہ دونوں سیڑھیاں اتر کر سٹریٹ پر چلنے لگے سب لوگ گرم لباس پہنے اردگرد چل رہے تھے
"اففف انوشے اتنی کتابیں دیکھ کر میرا سر ہی گھوم گیا ہے"
"ہاہاہا ابھی تو بس دیکھنے آئے تھے پتا ہے دانی جب ریسرچ کے لیے میں یہاں آتی تھی تو افف اتنا سر کھپانا پڑتا تھا پھر یہاں سے گھر جاکر تو میں سیدھا بیڈ پر گرتی تھی "
"ہمت ہے آپ کی۔ چلیں ڈنر کرتے ہیں"وہ دونوں ریسٹورنٹ کی جانب بڑھ گئے خوش گوار ماحول میں کھاناکھانے کے بعد جب وہ دونوں باہر آئے تو ہلکی ہلکی برف باری شروع ہوچکی تھی
"دانی کافی ٹائم ہوگیا ہے اب ہمیں گھر چلنا چاہیے"
"نہیں ابھی نہیں بس ایک آخری جگہ رہ گئ ہے جہاں جانا ہے"
"کہاں "
"آپ چلیں میرے ساتھ"گاڑی میں بیٹھتے ہی دانیال نے گاڑی آگے بڑھا دی
ان کا رخ لندن کے مشہور پارک ریجنٹ پارک
Regent's park
کی جانب تھا گاڑی رکتے ہی انوشے دانیال کی جانب مُڑی
"دانی یہ کون سا ٹائم ہے یہاں آنے کا"
"پلیز انوشے تھوڑی دیر والک کریں گے پلیز"
"دانی سنو فالنگ شروع ہوگئ ہے"
"اوہو انوشے آجائیں وہ دیکھیں آئس کریم سٹال آجائیں آئسکریم کھاتے ہیں"انوشے نے اسے گھورا
"مار کھاؤ  گے اب تم مجھ سے۔ آئس کریم کا نام لے کر مجھ سے باتیں منواتے ہو"
"ہاہاہا آجائیں پھر"وہ گاڑی سے اتر آئی دانیال بھاگ کر سٹال سے دو کپ آئس کریم لے آیا وہ دونوں پارک کے اندر چلے آئے دانیال نے ساتھ چلتی انوشے کو دیکھا وہ قد میں اس سے چھوٹی تھی کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ انوشے اس سے بڑی ہے دکھنے میں دانیال ہی بڑا لگتا تھا سکن لانگ کوٹ کے اوپر اس نے بھورے رنگ کا حجاب لے رکھا تھا وہ سیدھا دانیال کے دل میں اتر رہی تھی انوشے نے گردن موڑ کر ساتھ چلتے دانیال کو دیکھا
"کیا ہوا؟"
"کچھ نہیں"اس نے رخ موڑ لیا ایک درخت کے پاس رک کر دونوں نے ساتھ تصویریں لیں
"یہ خالہ کو بھیجیں گے"
ہاں"
"دانی کتنا مزا آتا اگر خالہ بھی ہمارے ساتھ ہوتی ہم تینوں پاٹنرز ایک ساتھ خوب مزا کرتے"
"ہمم"دانیال نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ دیکھا پھر زور سے آنکھیں بند کرکے کھولیں
"انوشے اس طرف چلیں"دانیال نے ایک طرف اشارہ کیا
"وہاں تو بوٹینگ لیک ہے
Boating lake(مسنوعی جھیل )
"جی وہاں چلتے ہیں"
"اوکے" ٹھنڈ بڑھتی جارہی تھی
"وہ دیکھو دانی وہ کتنا پیارا ڈیکوریٹ کیا ہے"انوشے نے انگلی سے سامنے اشارہ کیا اردگرد کوئی بھی نہیں تھا دانیال نے لمبا سانس لیا
"آئیں"وہ آگے بڑھ گئے جھیل کے سامنے چار لکڑی کے ڈنڈے آمنے سامنے کھڑے کر کے ان کے گرد سفید جالی دار پردے لگا رکھے تھے جو ہوا سے اُڑ رہے تھے  اندر ایک میز تھا جس کے ارد گرد غبارے پھیلے ہوئے تھے روشنی ارد گرد جھلملا رہی تھی دانیال انوشے سے دو قدم پیچھے ہوگیا انوشے نے آہستہ سے ہوا سے اڑتا پردا ایک طرف کیا میز پر کیک اور پھول پڑے تھے
"ہیپی برتھ ڈے انوشے"کیک کے اوپر لکھی تحریر پڑھتے ہی انوشے نے بے یقینی سے منہ پر ہاتھ رکھا
"ہیپی برتھ ڈے انوشے"دانیال کے بولنے پر اس نے رخ موڑ کر اسے دیکھا
"دانیال یہ سب تم نے"
"کیسا لگا سرپرائز"انوشے نے اس کے دونوں ہاتھ تھامے
"تھینک یو ۔۔۔تھینک یو سو مچ دانی یو آر مائے بیسٹ پاٹنر"دانیال نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا جن کو انوشے نے پکڑا ہوا تھا
"انوشے"اس کی آنکھوں میں ڈر تھا
"ہاں"
"میرا ساتھ کبھی نا چھوڑیے گا"
"کبھی بھی نہیں"دانیال مدہم سا مسکرایا
"چلیں کیک کٹ کریں"کیک کٹ کر کے دونوں نے ایک دوسرے کو کھلایا دانیال نے ساتھ رکھے پھول اٹھا کر اس کی طرف بڑھائے
"آپ کو پھول پسند ہیں نا"
"تھینک یو سومچ دانی"انوشے نے ان کی مہک کو اندر اتارا انوشے پلٹ کے ڈیکوریشن دیکھنے لگی وہ پردوں کے ساتھ جھلملاتے ستاروں کو ہاتھ لگا کر دیکھ رہی تھی دانی کے گلے میں گلٹی ڈوب کر ابھری اس نے لمبا سانس لے کر جیب سے انگوٹھی نکالی
"اللہ آج تک آپ نے مجھے سب کچھ بنا مانگے دیا ہے  ہمیشہ آپ نے میری مدد کی ہے  آج بھی مجھ پر کرم کردیجئے گا"اس نے لبوں پر زبان پھیری
"انوشے"ہاں
"میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں"
"ہاں بولو"وہ اس کی جانب پلٹی
"آپ مجھے بچپن سے جانتی ہیں"
"ہاں"انوشے نے الجھ کر اسے دیکھا
"ہم روز بات کرتے تھے اس طرح ہم بیسٹ فرینڈز بن گئے"
"ہاں"
"آپ جب پاکستان آتی تھی ہم ساتھ گھومتے تھے "
"ہاں دانی کیا ہوگیا ہے"دانیال نے آنکھیں بند کی
"میں کچھ کہنا چاہتا ہوں"
ہاں بولو"انوشے نے پہلو میں گرے ہاتھ کی مٹھی بنا لی
"میں نہیں جانتا انوشے کیسے ،کیوں، کب یہ ہوا میں سچ میں نہیں جانتا بچپن سے ہی آپ کے ساتھ اٹیچمنٹ تھی اور یہ اٹیچمنٹ کب محبت میں بدل گئ میں نہیں جانتا آپ یہی کہے گی یہ جزباتی جزبہ ہے نہیں انوشے "اس نے سر اٹھا کر انوشے کی آنکھوں میں دیکھا جو حیرت سے پھیل گئی تھیں آج پہلی بار دانیال نے اس کی نظروں سے نظریں ملائی تھیں
"آپ میرے لیے بہت خاص ہیں انوشے میں لندن صرف آپ کی وجہ سے آیا ہوں میں آپ کو اپنانا چاہتا ہوں میں آپ کو بتانا چاہتا تھا کہ آپ کا میرے دل میں بہت خاص مقام ہے اور میں آپ کو اپنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے  اپنے دل میں ہی قید رکھنا چاہتا ہوں پورے حق کے ساتھ۔ انوشے یہ وقتی جزبہ نہیں ہے دوسال پہلے جب مجھے پتا چلا کہ آپ میرے لیے کتنی اہم ہوگئیں ہیں میں نے آپ سے بات کرنی چھوڑ دی جب مجھے پتا چلا میں آپ سے محبت کرنے لگا ہوں میں آپ سے دور ہوگیا انوشے میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں"دانیال کی آنکھیں نم ہوگئیں جبکہ انوشے کی آنکھوں میں بے یقینی تھی پھول ہاتھ سے چھوٹ کر کب کے زمین پر گرچکے تھے ہوا میں تیزی کے باعث پردے زور زور سے ہل رہے تھے دانیال کے ہاتھ کانپ رہے تھے اس نے انگوٹھی اس کے سامنے کی
"پلیز انوشے میری محبت کو اپنالیں مجھے خالی ہاتھ نا لٹائیے گا میں بہت محبت کرتا ہوں آپ سے مجھے عام سے خاص کردیں انوشے میں۔۔۔"اس سے پہلے وہ بات مکمل کرتا انوشے کا ہاتھ اٹھا اور اس کی گال پر نشان چھوڑ گیا
"بسس!!!!۔۔۔بس کردو دانیال"آنسو ٹوٹ کر گال پر گرے
"تم میرے دانیال نہیں ہوسکتے "اس نے بے یقینی سے سر نفی میں ہلایا
"تم یہ کیسے کرسکتے ہو دانیال"اس نے جھٹکے سے اس کا گریبان پکڑا
"تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تمہیں اپناؤں گی دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا میں تم سے بڑی ہوں"وہ چیخی
"بڑی ہیں تو کیا ۔۔۔۔کیا محبت عمر دیکھ کر ہوتی ہے اور ویسے بھی صرف ڈھائی سال بڑی ہیں "
"بس کردو دانیال تمہاری باتیں میرا دل بند کررہی ہیں"اس نے اپنا سر تھاما
"انوشے پلیز انوشے"التجا کی گئ
"تم نے دوستی کا یہ سلا دیا ہے۔ دانی تم نے میرا مان توڑا ہے"
"نہیں پلیز ایسا مت کہیں "
"مجھے پہلے شک ہوا تھا لیکن میں نے جھٹک دیا کہ نہیں میرا دانی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا اور تم"رونے کے باعث الفاظ دم توڑ گئے
"دانیال میں اب سب سے کیسے ملوں گی ثناء خالہ، شزاخالہ ،ارقم ماموں میں سب سے کیسے نظریں ملاؤں گی"
"انوشے"
"بس اب ایک لفظ نہیں "اس نے انگلی اٹھا کر کہا
"تم نے ایک بار بھی سوچا اس سب کے بعد کیا ہوگا لوگ کیا کہیں گے"
"لوگوں کی بات مت کریں زندگی ہم نے گزارنی ہوتی ہے لوگ صرف فاتحہ پڑھنے آتے ہیں"لال آنکھیں اٹھا کر وہ چیخ پڑا انوشے نے بے بسی سے اسے دیکھا
"پلیز انوشے ایسا مت کریں میں نہیں رہ پاؤں گا "
انوشے نے اپنی گال صاف کی
"آج کے بعد میرے سامنے مت آنا دانیال آج سے تمہارا میرا ہر رشتہ ختم ہوگیا ہے"دانیال اس کے پاؤں میں ڈھے گیا
"ایسا مت کریں آپ کا دانی انوشے کے بغیر کیسے رہے گا"انوشے دو قدم پیچھے ہوئی
"انوشے کی زندگی میں کوئی دانی نہیں ہے"کہتے ہی وہ پھولوں کو پیڑوں تلے کچلتی چلی گئ دانیال نے گردن موڑ کر اس کی پشت کو دیکھا آنکھوں کے آگے دھند چھانے لگی وہ دور جارہی تھی دور بہت دور ۔۔۔۔۔اس نے زمین پر زور سے ہاتھ مارا
"آااااا !!!!"وہ چلایا
"دانی کی زندگی انوشے سے شروع ہوکر انوشے پر ہی ختم ہوتی ہے"اس نے پھولوں کو زور سے مٹھی میں جکڑا
‏آنکھیں بھی دھڑکنوں کی زباں بولنےلگیں۔۔
اوجھل ہوا وہ شخص تو کہرام مچ گیا۔۔
   ************************
Assalamo Alaikum
umeed krti hun episode pasand i hogi
to ge kesa laga jhatka hahahha
kese lag rahy daniyal anooshy???
comment or vote krna na bholiay ga
#thank u

اندازِ محبت  از قلم رافعہ عزیزWhere stories live. Discover now