آخری قسط

912 78 42
                                    

رات کی تاریکی چھا چکی تھی چاند ستاروں کے درمیان چمک رہا تھا
وہ جھٹکے سے اٹھی دل تیز تیز دھڑک رہا تھا ساتھ سویا ارسل بھی اٹھ گیا
"شزاء"اس نے اٹھ کر سائڈ لیمپ جلایا
"شزاء  کیا ہوا "
"ارسل دانیال کو کال کریں میرا دل بہت بے چین ہورہا ہے"شزاء نے ارسل کے ہاتھ تھام لیے
"کوئی برا خواب دیکھا ہے"
"پلیز ارسل دانیال کو فون کریں پلیز ارسل "
"ششش ریلیکس"ارسل نے پیار سے اس کے بال چہرے سے ہٹائے
" صبح بات کرلیں گے ابھی وہ آفس میں ہوگا"
"نہیں ارسل  مجھے بہت بےچینی ہورہی ہے"
"شزاء کچھ نہیں ہوا صبح بات کرلے گے وہاں سب ہیں اور ثناء بھی تو وہی ہے"ارسل نے پانی کا گلاس اس کے لبو سے لگایا
"اب سو جاؤ صبح دانی سے بات کرلیں گے ٹھیک ہے"شزاء نے سر ہلایا ارسل نے اس کا سر اپنے سینے پر رکھا
"اب آنکھیں بند کرو"
"مجھے نیند نہیں آرہی ارسل"
"آنکھیں بند کرو گی تو آجائے گی چلو آنکھیں بند کرو"وہ جان کر سختی سے بولا شزاء نے سر اٹھا کر اسے دیکھا
"ایسے غصے سے تو میں ہانیہ کو سلاتی تھی"ارسل ہنسا تو شزاء نے بھی مسکراتے ہوئے سر رکھ کر انکھیں موند لیں .
  *****************************
وہ کلچ تھامے جلدی جلدی انسٹیوٹ سے باہر نکلی آج اس کو دیر ہوگئ تھی۔
مغرب ہوئے پندرہ منٹ گزر گئے تھے وہ جونہی باہر نکلی سامنے عماد کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا
"ہائے انوشے"
" عماد تم یہاں"
"میں کب سے انتظار کررہا تھا اتنی دیر لگادی"
"کام بہت تھا اس لیے دیر ہوگئ تم یہاں کیا کررہے ہو"
"بات کرنی تھی "
"ہاں کہو"
"آجاؤ چلتے ہوئے کرلیں گے"انوشے مسکرا  کر اس کے ساتھ آگے بڑھ گئ اور دور کھڑے دانیال نے درخت پر زور سے ہاتھ مارا
وہ پلٹ گیا  وہ پیدل ہی آگے جارہا تھا موبائل مسلسل بج رہا تھا لیکن وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے آگے بڑھ رہا تھا دل تھا کہ بھاری ہورہا تھا ابھی دوسری گلی میں آیا ہی تھا کہ تین موٹر سائیکل سوار اس کے اردگرد گھومنے لگے اس نے رک کر سر اٹھایا ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑے وہی لڑکے تھے جو انسٹیٹیوٹ کے پاس کھڑے ہوتے تھے دانیال کی نظر لال رومال باندھے لڑکے پر پڑی جس کو دانیال نے مارا تھا دانیال نے اردگرد نظر ڈالی گلی سنسان تھی موبائل کی ٹون دوبارہ بجی اس نے آہستہ سے جیب سے موبائل نکالا تب تک لڑکے موٹرسائیکل سے اتر چکے تھے دانیال نے موبائل کی سکرین دیکھی
"ماما کالنگ"دانیال نے آنکھیں بند کرکے کھولیں پھر سر اٹھایا اب سارے اس کے قریب آرہے تھے اس سے پہلے دانیال کوئی کروائی کرتا لال رومال والے نے ڈنڈا گھما کر اس کو مارا دانیال کراہ کر جھکا لیکن وہ گرا نہیں تھا وہ کوئی مزاہمت نہیں کررہا تھا دوسرے ڈنڈے پر موبائل ہاتھ سے چھوٹ گیا
"آہ"وہ منہ کے بل زمین پر گرا اب سارے اس کو لاتوں اور گھونسوں سے مار رہے تھے
"دانیال وعدہ کرو اب تم کسی سے نہیں لڑو گے"انوشے کی آواز کانوں میں گونجی جاتے جاتے لال رومال والے  نے زور سے اس کے پیٹ پر پاؤں مارا دانیال کے منہ سے خون نکل رہا تھا سر بھی لہو لہان ہوگیا اب وہ سب جاچکے تھے اس کی آنکھوں کے آگے دھند چھارہی تھی ذہن کے پردوں پر سب کے چہرے آنے لگے شزاء، ارسل، ہانیہ ،ثناء اور پھر وہ ظالم ۔۔۔۔وہ ٹوٹ چکا تھا دل پر گہری چوٹ لگی تھی وہ سب کا لاڈلا محبت کے ہاتھوں ہار گیا تھا۔۔۔، بکھر گیا تھا۔۔۔۔۔،
*******************************
اچانک اسے اپنے پاس کسی کی موجودگی محسوس ہوئی اس نے گردن موڑ کر دیکھا  تو دیکھتی رہ گئی اتنا مکمل پیکر اس کی زندگی اسکی ماں کا ہی ہوسکتا تھا ۔ کتنی دعائیں کرتی رہی تھی وہ کہ ماہم اسکے پاس آئے اور آج جب وہ اسکے پاس تھی تو دل کی دھک دھک سنائی دے رہی تھی لب کپکپارہے تھے  وہ کانپ رہی تھی اس نے آہستہ سے ہاتھ آگے بڑھایا ماہم نے آہستہ سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا انوشے کی سسکی نکلی اس نے اس کے دونوں ہاتھ تھام کر اپنی آنکھوں سے لگائے پھر روتے ہوئے ماں کی آغوش میں سما گئی ماں نے بھی اسے خود میں سما لیا۔ کچھ دیر بعد ماہم نے اسے پکارا
"انوشے میری بیٹی"ماہم کا یہ کہنا تھا انوشے پھوٹ پھوٹ کررونے لگی ماہم نے اس کے آنسو صاف کیے
"ششش بس"
"میں آپ کو بہت یاد کرتی ہوں ماما"
"جانتی ہوں"
"آپ میرے خواب میں کیوں نہیں آتی  اب آپ آئیں گی نا ماما وعدہ کریں آپ مجھ سے ملنے آئیں گی"وہ بے قراری سے بول رہی تھی
"بیٹا کچھ چیزیں ہمارے اختیار میں نہیں ہوتیں میں جانتی ہوں میری بیٹی مجھ سے کتنا پیار کرتی ہے میرے لیے کتنی دعائیں کرتی ہے۔"
"میں ہمیشہ آپ کے لیے دعا کروں گی"
"میری بیٹی پریشان ہے نا ؟جانتی ہو انوشے انسان کنفیوز کیوں ہوتا ہے؟"
"نہیں"
" اس لیے کہ وہ اپنی زندگی کو دوسروں کے نظریے سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے وہ سوچتا ہے اگر میں نے اپنے دل کی سنی تو میرے پیارے مجھ سے روٹھ جائیں گے وہ دوسروں کہ خوشیوں کے چکر میں اپنی خوشیوں کو سمجھ نہیں پاتا ایک الجھن اسے کوئی بھی فیصلہ نہیں کرنے دیتی اور اسی الجھن میں وہ اپنی خوشیوں سے دور ہوتا جاتا ہے اتنا دور کہ خوش رہنا بھول جاتا ہے۔"
" ماما میرے دل میں بھی الجھن ہے"
" جانتی ہوں لیکن وہ الجھن تمہاری خودساختہ سوچ کی ہے تم نے خود سے سب کچھ اخذ کرلیا ہے اب سوچ ہی تو انسان کو عمل کرنے پر اکساتی ہے۔
" عمل کا دارومدار نیت پر ہے"
اب تم نے اپنی سوچ اپنی نیت کو خودساختہ کرلیا ہے اب الجھن تو ہوگی جبکہ اس الجھن کو ہٹا کر دیکھو ہر طرف پھول ہی پھول ہیں بہار کا موسم دروازے پر ہے تم خزاں رسیدہ پتوں کو رو رہی ہو ایک بار اٹھ کر دروازہ کھولو دیکھو کیسے ہر طرف پھولوں کی بارش ہوگی"
" ماما "
" انوشے دنیا میں کوئی آپ کی مدد اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک آپ خود اپنے دل میں جھانک کر یہ نہیں معلوم کرلیتے کہ آپ  چاہتے کیا ہو ایک بار دل میں جھانک کر تو دیکھو میری جان"
" کیسے جھانکوں ماما"
" ویری سمپل اپنی آنکھیں بند کرو ہر طرف اندھیرا دکھے گا تم اس اندھیرے سے خود کومانوس ہونے دینا اور جو پہلی چیز دکھے گی اس سے تمہیں فیصلہ لینےمیں آسانی ہوگی کیوں کہ وہ چیز تمہارے دل کی سب سے بڑی خوشی ہوگی چلو آنکھیں بند کرو "انوشے نے آنکھیں بند کی پھر کچھ دیر بعد جھٹکے سے آنکھیں کھولیں کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اس کا سانس پھولا ہوا تھا اتنی ٹھنڈ میں بھی اس کو پسینہ آرہا تھا
وہ اپنے دل کی آواز سے گھبرا گئی تھی اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے اس نے پانی پینے کے لیے گلاس اٹھایا لیکن پانی بھی نہ پی سکی۔شام کو گھر آکر وہ نماز پڑھ کر سو گئ تھی اس نے اٹھ کر لائٹ جلائی پھر گھڑی دیکھی جو رات کے آٹھ بجا رہی تھی
"اتنی دیر کیسے سو گئ "وہ جلدی سے فریش ہوکر نیچے آئی گھر میں خاموشی تھی وہ صائمہ بیگم کے کمرے میں آگئ
"اسلام علیکم دادی خالہ نہیں آئی ابھی تک انہوں نے کہاں تھا شام کو سب آئیں گے"صائمہ بیگم نے اسے دیکھا
"کیا ہوا دادی آپ پریشان کیوں ہیں"
"بیٹا ثناء ہاسپٹل ہے"
"ہاسپٹل کیوں دادی کیا ہوا ہے"انوشے پریشان ہوگئ
"دانیال کو کچھ لڑکوں نے مارا ہے"ان کا یہ کہنا تھا انوشے جھٹکے سے اٹھی
"بیٹا تم پریشان نا ہو"انوشے فوراً اپنے کمرے کی طرف بھاگی اور ثناء کو کال ملائی
"ہیلو"ثناء کی آواز سنتے ہی انوشے بول پڑی
"خالہ کہاں ہیں آپ دانیال کیسا ہے"
"ٹھیک ہے وہ "
"کون سا ہاسپٹل ہے مجھے بتائیں"ثناء سے نام پوچھ کر وہ فوراً ہاسپٹل کے لیے نکلی
راہ داری میں چلتے اس کے دماغ گھوم رہا تھا دانیال کی باتیں اس کے ساتھ گزارے دن سب انوشے کے سامنے آرہا تھا اس نے سر اٹھا کر دیکھا سامنے ہی ثناء اور ارقم کھڑے تھے وہ فوراً ثناء کے پاس آئی
"خالہ کہاں ہے دانیال"ثناء نے سامنے ایمرجنسی کی جانب اشارہ کیا وہ جونہی وہاں جانے لگی ارقم نے اسے روک دیا
"ابھی کوئی بھی دانیال سے نہیں مل سکتا "
"پلیز ماموں مجھے اسے دیکھنا ہے"آواز بھیگ گئ آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئ
"ادھر آؤ چندا"ثناء اسے لیے بینچ پر بیٹھ گئ
"خالہ یہ کیسے ہوا دانیال کہاں تھا"
"دانیال آفس سے جلدی آکر پیدل ہی باہر چلا گیا تھا کچھ دیر بعد مجھے شزاء آپی کی کال آئی کہ دانیال فون نہیں اٹھا رہا میں نے جب دانیال کو فون ملایا تو کسی آدمی نے مجھے ہاسپٹل کا ایڈریس بتایا اور جب یہاں آئی تو"ثناء رک گئ آواز نم ہوگئ انوشے ثناء کے گلے لگ گئ
"خالہ دانی ٹھیک ہوجائے گا نا؟ میں نے اسے بہت ہرٹ کیا ہے خالہ"وہ رونے لگی
"ضرور ٹھیک ہوگا انشااللہ"
"ڈاکٹر نے کیا کہا ہے"
"سر پر گہری چوٹ لگی ہے دعا کرو اسے ہوش آجائے "
انوشے نے آنسو صاف کیے ثناء نے ارقم کو دیکھا جو ارسل کا نمبر ملاتا ایک طرف چلا گیا
*******************************
"میں تم سے نفرت کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔چلے جاؤں یہاں سے"انوشے بینچ پر بیٹھی اپنی کہی باتیں سوچ رہی تھی آنکھیں نم تھی دل اداس تھا ہاسپٹل آئے دو گھنٹے گزر گئے تھے ثناء اور ارقم دانیال سے مل آئے تھے اسے ہوش آگیا تھا اور اب وہ دوائیوں کے زیرے اثر سو رہا تھا
"انوشے"ثناء نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو اس نے آنکھیں کھولیں
"چندا دانیال ٹھیک ہے پریشان مت ہو"انوشے چپ رہی
"آؤ "انوشے اٹھ کر ثناء کے ساتھ کمرے میں آگئ کمرے کے ایک طرف رکھے صوفے پر ارقم بیٹھا تھا اور سامنے ہی بیڈ پر دانیال سویا ہوا تھا انوشے کا دل بھاری ہونے لگا وہ ارقم کے ساتھ جاکر بیٹھ گئ ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ دانیال کے ہاتھوں میں جنبش ہوئی ارقم اٹھ کر اس کے پاس آیا دانیال نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں تیز روشنی سے آنکھیں چندھیا گئیں
"اب کیسا محسوس کررہے ہو"
"ٹھیک ہوں "وہ آہستہ سے بولا انوشے پیچھے ہی بیٹھی رہی
"ہاں دو چار ڈنڈے اور لگاؤ اسے بلکل ٹھیک ہے یہ"ثناء اسے گھورتے ہوئے بولی
"دانی تم نے تو ناک کٹوا دی میری"ثناء کی بات پر وہ مسکرایا تبھی اس کی نظر ارقم کے پیچھے صوفے پر بیٹھی انوشے پر گئ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی دانیال کے دیکھنے پر اس نے نظریں جھکا دیں ثناء نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا پھر بولی
"میں ڈاکٹر سے بات کر کے آتی ہوں"اس نے ارقم کو اشارہ کیا دونوں کمرے سے نکل گئے انوشے نے سر اٹھایا دانیال چھت کو گھور رہا تھا ماتھے پر پٹی بندھی ہوئی تھی ہونٹ بھی سوجا ہوا تھا انوشے اٹھ کر اس کے پاس آئی وہ آنکھیں بند کرچکا تھا انوشے کی گال پر آنسو ٹوٹ کر بہے اس نے آہستہ سے دانیال کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا سسکی نکلی دانیال کی آنکھیں ہنوز بند تھیں
"یہ لڑکے وہی تھے نا"دانیال چپ رہا
"تم نے مقابلہ کیوں نہیں کیا"
"کسی سے وعدہ کیا تھا "انوشے نے اسے دیکھا آنکھیں بند ہی تھیں انوشے نے اس کا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں تھاما
"دانیال مجھے سے منہ مت موڑو پلیز دانی تم میرے بیسٹ فرینڈ ہو پلیز مجھے دیکھو میں پہلے ہی اپنے آپ کو معاف نہیں کرپاہ رہی"
"ایسے ہی روتی رہیں گی تو میں ہرگز آنکھیں نہیں کھولوں گا میں آپ کو جس چیز سے منع کرتا ہوں آپ وہی کرتی ہیں میری کوئی بات نہیں مانتی"انوشے مسکرائی پھر جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے
"اب نہیں رو رہی اب تو آنکھیں کھول دو "دانیال نے آنکھیں کھول دیں
"کیسے ہو کہی درد تو نہیں ہورہا"
"اب بلکل ٹھیک ہوں"
"میری اتنی باتیں ماننے کی ضرورت نہیں ہے فضول میں اتنی تکلیف سر لے لی میں ماموں کو بتا چکی ہوں اور اب دیکھنا جیل میں کیسے ڈنڈے پریں گے انہیں"انوشے غصے سے بول رہی تھی اور دانیال مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا
"میں ٹھیک ہوں انوشے"
"ٹھیک تو آپ ہوں گے اب کیونکہ شزاء خالہ آرہی ہیں"
"ماما کو کس نے بتایا"
"میں نے"ارقم کمرے میں آتے ہوئے بولا
"چاچو وہ پریشان ہوجائیں گی"
" بھابھی کو کچھ نہیں بتایا بھائی کو بتایا ہے"
"وہ آرہے ہیں؟"
" ان کو تو آنا ہی تھا"ثناء مسکرا کر انوشے کو دیکھتے ہوئے بولی انوشے نے بھی مسکرا کر اسے دیکھا جب کہ دانیال ارسل سے ہونے والی کلاس کے بارے میں سوچنے لگا
******************************
برف باری سے سارا شہر ڈھکا ہوا تھا رات کی تاریکی کے ساتھ سردی بھی بڑھتی جارہی تھی سارے اس وقت ثناء کے گھر موجود تھے دانیال صبح ہی ڈسچارج ہوکر گھر آیا تھا اب وہ کافی بہتر تھا
سب لاونج میں بیٹھے کل کے فنکشن کے حوالے سے باتیں کررہے تھے دانیال نے اپنے دل کو سمجھالیا تھا اس کے لیے انوشے کی خوشی سب سے بڑھ کر تھی ارسل لوگ بھی شام کو لندن پہنچ گئے تھے۔
"انوشے ڈریس پسند آیا تھا"
"جی خالہ بہت پیارا ہے"
"اب کل جب پہنو گی تو اور بھی پیاری لگو گی "انوشے مسکرا دی جبکہ دانیال اٹھ کر کمرے میں چلا گیا
"میں بہت خوش ہوں انوشے بہت زیادہ اللہ آپ کے نصیب بہت اچھے کریں "
"آمین"
"تم لوگ بیٹھو میں تیار ہوجاؤ"شزاء اٹھ کر تیار ہونے چلی گئ انہوں نے احمر سے ملنے جانا تھا
******************************
سورج اپنے ساتھ ڈھیرو اداسی لیے غروب ہوا تھا ثناء تیار سی دروازہ کھول کر کمرے میں آئی
"دانی تم ابھی تک تیار نہیں ہوئے جلدی کرو"
"میرا دل نہیں کررہا "
"دانیال تم نہیں جاؤ گے تو احمر بھائی کیا سوچیں گے انہیں کتنا برا لگے گا اور انوشے وہ تو یہی سمجھ رہی ہے نا کہ تم اب ٹھیک ہو"
"نہیں ہوں ٹھیک "وہ چیخ اٹھا
"دانی"
"نکاح کیوں کررہے ہیں اتنی بھی کیا جلدی ہے ۔انوشے کو میری محبت کیوں نظر نہیں آرہی پاٹنر میں کیسے انوشے کو کسی اور کا ہونے دوں"
"دانی میری جان سنبھالو اپنے آپ کو قسمت کے کھیل بہت نرالے ہوتے ہیں میرے لیے تیار ہوجاؤ پلیز میری جان"ثناء نے پیار سے اسے کہا اور آگے بڑھ کر الماری سے اس کے لیے لی گئ نئ
سفید شلوار قمیض جس کے اوپر کالی واسکٹ تھی نکال کر اسے دی
دانیال کپڑے لے کر واش روم میں گھس گیا
  *****************************
انوشے اٹھ کر ماہم کی تصویر کے سامنے آگئ ٹی مینک اور پستے رنگ کی ہلکے کام والی میکسی پہنے وہ قیامت ڈھا رہی تھی ہاتھوں میں نفیس سی نگوں والی چوڑیاں، پاؤں میں چھوٹی ہیل والی جوتی پہنے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی سب مہمان آچکے تھے تقریب سادہ سی تھی جس میں گھر کے اور چند احمر کے دوست شامل تھے ثناء کچھ دیر پہلے ہی اس کے پاس سے اٹھ کر باہر گئ تھی۔
"ماما کیسی لگ رہی ہوں"
"بہت پیاری"احمر کی آواز پر وہ پلٹی
"بابا"وہ احمر کے گلے لگ گئ
"آپ تو بہت ہنڈسم لگ رہے ہیں ماشاءاللہ"احمر مسکرایا
"اب تومیری بیٹی اداس نہیں ہے نا"انوشے نے نفی میں سرہلایا
"آپ نے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا بھی ہونا چاہیے"
"بلکل ہوگا"
"بابا یہ دیکھیں"انوشے نے اپنے دونوں ہاتھ آگے کیے اس نے ماہم کی چوڑیاں پہنی تھی احمر نے پیار سے ان پر ہاتھ پھیرا
"بہت پیاری لگ رہی ہو ۔آجاؤ اب مولوی صاحب آگئے ہیں"
  ****************************
دانیال باہر لان میں کرسی پر بیٹھا موبائل پر گیم کھیل رہا تھا وہ جب سے آیا تھا باہر ہی بیٹھا تھا گھر کے اندر اس نے قدم ہی نہیں رکھا تھا ۔ارسل اس کو بلانے باہر آیا
"دانی اندر آجاؤ مولوی صاحب آگئے ہیں"دانیال نے زور سے آنکھیں بند کی
"بابا آپ چلیں میں آتا ہوں"
"نہیں چلو میرے ساتھ"ارسل دانیال کو لیے لاؤنج میں آیا انوشے کا چہرہ جھکا ہوا تھا وہ پیپر پر سائن کررہی تھی اس کی ایک طرف ثناء تھی اور دوسری طرف احمر
"دانی کہاں چلے گئے تھے ادھر آؤ"شزاء نے اسے صوفے پر بیٹھنے کا کہا
انوشے نے جب سائن کردیے تو احمر نے سر اٹھا کر دانیال کو دیکھا جو سر جھکائے کھڑا تھا پھر اس نے ارسل کو دیکھا۔ دانیال نے ارد گرد گردن گھمائی نا عماد تھا اور نا اس کے گھر والے پھر اس نے ڈرائنگ روم کی جانب دیکھا کہ شاید وہاں ہو وہ سر جھٹک کر باہر جانے لگا تبھی ثناء بولی
"ارے ارے کہا چلے"
" ایک کام سے جانا ہے"
"دولہے میاں  نکاح والے دن کوئی کام نہیں ہوتا جلدی بیٹھو"دانیال کو لگا اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے سبحان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا
"چلو بھئ جلدی کرو"
"میں"اس نے حیرت سے سب کو دیکھا
"دانی بھائی جلدی کریں انو آپی تھک گئ ہوں گی پھر ہم نے پکچرز بھی لینی ہیں"سمن بولی
"یہ آپ سب کیا کہہ رہے ہیں"انوشے نے سر اٹھا کر اسے دیکھا احمر اٹھ کر دانیال کے پاس آیا
"اپنی بیٹی تمہارے حوالے کررہا ہوں اس وعدے کے ساتھ کہ تم اس کا ہمیشہ ساتھ دو گے اس کو ہمیشہ خوش رکھو گے "دانیال حیرت سے احمر کو دیکھے گیا
"چلو دانیال"ارسل نے اسے صوفے پر بیٹھایا ایجاب و قبول سے لے کر دعا تک دانیال کا دماغ سن تھا اسے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہی تھی یہ کیا ہوا ہے ثناء نے اسے مٹھائی کھلائی
"بہت بہت مبارک ہو پاٹنر  چلو اب دونوں ایک ساتھ کھڑے ہوجاؤ"ثناء نے دونوں کو ایک ساتھ کھڑا کیا پھر دانیال کا ہاتھ پکڑ کر انوشے کا ہاتھ اس پر رکھا دانیال نے نظریں اٹھا کر انوشے کو دیکھا دونوں کی نظریں ملی سمن نے دونوں کی ڈھیرو تصویریں لے ڈالی دانیال سب سے ایکسکیوز کرتا اپنے کمرے میں چلا گیا
باقی مہمان بھی آہستہ آہستہ اپنے گھروں کی طرف روانہ ہورہے تھے
"انوشے"انوشے سمن کے ساتھ بیٹھی باتیں کررہی تھی جب ثناء نے اسے بلایا
"جی خالہ"
"چندا تھک گئ ہو گی ایساکرو اپنے کمرے میں جا کر آرام کرلو۔سمن جاؤ آپی کو کمرے میں لے جاؤ"
"اوکے"
"جانی آپ یہی بیٹھو مجھے دانیال سے بات کرنی ہے"وہ اٹھ کر دانیال کے کمرے کی طرف آگئ ہاتھ ہینڈل پر رکھ کر آہستہ سے دروازہ کھولا پھر اندر آکر دروازہ بند کردیا اس کی نظر دانیال پر پڑی جو جائے نماز بچھائے سجدے میں تھا انوشے آہستہ سے جاکر اس کے ساتھ بیٹھ گئ آہٹ پر دانیال نے سر اٹھایا انوشے کو دیکھتے ہی وہ چونکا
"مبارک ہو مسٹر ہسبنڈ"دانیال اسے دیکھے گیا
"مجھے مبارک نہیں دو۔ اور مجھے اکیلا باہر چھوڑ کر آگئے"وہ منہ بنا کر بولی
"شکرانے کا سجدہ فرض ہوگیا تھا"دانیال کی بات پر انوشے تھم گئ
"بہت بہت مبارک ہو مس۔۔۔۔!!!"وہ رکا آواز لڑکھڑائی"مسز دانیال"انوشے نے اس کا ہاتھ پکڑا
"اتنی محبت دانیال اتنی محبت کیسے ہوگئ"
"مجھے نہیں پتا"
"تم خوش ہو"
"خوش انوشے مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا یہ سب کیسے ہوگیا آپ کی تو عماد سے"
"میں بتاتی ہوں سب بتاتی ہوں آجاؤ"وہ اٹھ کر کھڑکی کے پاس گئ اور آہستہ سے سلائڈ ایک طرف کرکے پچھلے لان میں آگئ دانیال بھی اس کے پیچھے تھا وہ دونوں جھولے پر جا کر بیٹھ گئے
"پرسوں عماد مجھ سے ملنے آیا تھا"
"انسٹیوٹ کے باہر"دانیال بولا تو انوشے نے اسے گھورا
"تم ادھر ہی تھے"
"نہیں میں تو بس گزر رہا تھا"
"جی جی پتا ہے مجھے اچھا تو اس نے مجھے بتایا کہ
         ***********************
"ایسی بھی کیا ضروری بات ہے عماد کے تم یہی آگئے"
"دراصل انوشے تم جانتی ہی ہو بڑے ہماری شادی کرنا چاہتے ہیں"
"ہاں"
"انوشے تمہیں کالج والی آئینہ یاد ہے"
"ہاں جسے تم  پسند کرتے تھے"
'ہاں"
"اس کو میں نے پرپوز کیا تھا اور وہ مان گئ"
"ارے واہ یہ تو بہت اچھی بات ہے"
"انوشے ہمارے گھر والے ہماری شادی کرنا چاہتے ہیں"
"نہیں عماد میں نے ابھی بابا کو جواب نہیں دیا تم آئینہ سے ہی شادی کرو"
"ماما بہت غصہ کررہی ہیں کہ تمہیں برا لگے گا"
"نہیں مجھے بلکل بھی برا نہیں لگ رہا بلکہ میں تو خوش ہوں تم کالج ٹائم سے آئینہ کو پسند کرتے ہو ۔آنٹی کی بلکل فکر مت کرو انکل آنٹی کو میں منا لوں گی"
"پکا نا انوشے تمہیں برا نہیں لگا"
"اوہو عماد مجھے سچ میں برا نہیں لگا"
"تو یہ تھا عماد اور میری سٹوری کا دی اینڈ  اس کے بعد" انوشے نے نظریں اٹھائیں دانیال اسے ہی دیکھ رہا تھا
"پھر کیا ہوا "
"پھر ماما میرے خواب میں آئی اور انہوں نے میری مشکل آسان کردی انہوں نے مجھ سے فیصلہ کروادیا"دونوں مسکرا دیے
"مجھے کیوں نہیں بتایا"
"سرپرائز تو بنتا تھا نا"
"انوشے آپ خوش تو ہیں نا"انوشے نے اثبات میں سر ہلایا دانیال نے ہاتھ اٹھایا لیکن اس میں اتنی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وہ انوشے کا ہاتھ تھام لے انوشے نے مسکرا کر اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھام لیا
"تم جو بھی کہنا چاہتے ہو کہو دانی میں سن رہی ہوں"
"تھینک یو سو مچ انوشے مجھ سے میری خوشی بیان ہی نہیں ہورہی۔میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں میں آپ کو ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کروں گا۔ ہمیشہ آپ کا ساتھ دوں گا"
"جانتی ہوں دانی، لیکن اب تمہیں میری شرطیں ماننی ہوں گی"وہ کھڑی ہوگئی دانیال نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا
"کیسی شرطیں"
" ہم دونوں کو یہی رہنا ہوگا تمہارا بھی ایگریمنٹ ہے کہ ایک سال تک جاب نہیں چھوڑ سکتے اور دوسری بات میں بابا کے بغیر نہیں رہ سکتی اس لیے بابا بھی ہمارے ساتھ پاکستان آئیں گے یہاں سے سب بائنڈ اپ کرنے میں ایک سال تو لگ جائے گا تو بتاؤ منظور ہے میرے ساتھ یہی رہنا"وہ اس کی جانب پلٹی دانیال کچھ دیر سوچ کر بولا منظور ہے آپ جو کہیں گی وہی ہوگا
"تھینک یو"
"ویسے دانی اگر تم میری ہر بات مانتے رہو گے تو کام خراب ہوجائے گا تھوڑا شوہر والا روب لے کر آؤ "دانیال مسکرایا
"انوشے"
"جی"
"بہت پیاری لگ رہی ہیں ۔"
"تھینک یو "
"دانی میں نے تمہیں اتنا کچھ بولا تھا آئی ایم ریلی سوری "
"نہیں انوشے آپ سوری مت کہیں "انوشے مسکرا دی
"کہی باہر چلیں؟"وہ جھجکتے ہوئے بولا
"ضرور میں دو منٹ میں چینج کرکے آتی ہوں "وہ آگے بڑھ گئ پھر رک کر پلٹی دانیال اسے ہی دیکھ رہا تھا وہ اس کے سامنے آئی اور اس کے گلے لگ گئی
"آئی لو یو دانی"دانیال نے زور سے آنکھیں بند کی پھر آسمان کو دیکھ کر دل میں اللہ سے مخاطب ہوا
"تھینک یو سو مچ اللہ تھینک یو"اس نے انوشے کے گرد بازوں پھیلا لیے
"آئی لو یو مور"
      *************************

  *****************************وہ کلچ تھامے جلدی جلدی انسٹیوٹ سے باہر نکلی آج اس کو دیر ہوگئ تھی۔مغرب ہوئے پندرہ منٹ گزر گئے تھے وہ جونہی باہر نکلی سامنے عماد کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا "ہائے انوشے"" عماد تم یہاں""میں کب سے انتظار کررہا تھا...

Oops! This image does not follow our content guidelines. To continue publishing, please remove it or upload a different image.


******************************
آج آسمان صاف تھا اس لیے چاند کی روشنی پورے آسمان میں پھیلی ہوئی تھی شزاء ہاتھ میں ارسل کی دی ہوئی انگوٹھی کو گھماتے ہوئے آسمان کو ہی دیکھ رہی تھی جب ارسل نے اس کے گرد بازو پھیلا کر تھوڑی اس کے کندھے پر رکھی "کیا سوچا جارہا ہے"
"میں بہت خوش ہوں ارسل"
"میں بھی"
"انوشے کو دیکھتی ہوں تو ایسا لگتا ہے ماہم میرے سامنے ہے۔اور اب انوشے کو اپنی بہو بنا کر میں بہت خوش ہوں پتا ہے ارسل ماہم بھی انو جیسی تھی اس  کے نکاح پر عائزہ اور میں نے اسے تیار کیا تھا اور وہ پورا ٹائم یہی کہتی رہی تھی میک اپ ہلکا رکھنا یہ ایسے کرو ویسے کرو"شزاء نم آنکھوں سے مسکرائی
" دانیال کے لیے اس کا نکاح سرپرائز تھا اور اس وقت ماہم کو بھی نہیں پتا تھا کہ اس کا نکاح ہے احمر نے اسے سرپرائز دیا تھا "آنسو رخسار پر بہہ نکلے ارسل نے اس کا رخ اپنی جانب کرکے اس کے آنسو صاف کیے پھر آہستہ سے اس کا سر اپنے سینے پر رکھا
آج اتنے سال گزر جانے کے باوجود بھی ماہم سب کے دلوں میں تھی اس کی یادیں ہر وقت ان کے ساتھ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
   *****************************
                    ختم شد
umeed krti hun story pasand i hogi...... ye just eid surprise tha
comments zaror kijiay ga
.
.
.#thank u
#rafiaaziz

اندازِ محبت  از قلم رافعہ عزیزWhere stories live. Discover now