قسط نمبر 4 آخری قسط پہلا حصہ

640 69 25
                                    

اس ایک ہفتے میں انوشے نے دانیال کو بہت یاد کیا اسکی باتیں اسکی آنکھیں اسکا ہنسنا لاڈ اٹھوانا انوشے کی ڈانٹ سن کر مسکرانا اور دانی کہنے پر خوش ہونا یہ سب کچھ انوشے کو پریشان کر رہا تھا ۔ اس پریشانی میں احمر نے جب یہ بتایا کہ عماد کا رشتہ آیا ہے تو یہ بات اسے اور بے چین کرگئ وہ کوئی فیصلہ نہیں لے پاہ رہی تھی اس نے احمر کو تو کہہ دیا وہ سوچ کر بتائے گی لیکن سوچا ہی تو نہیں جارہا تھا سوچیں تو دانیال پر اٹکی ہوئی تھیں
اس نے کچھ سوچتے ہوئے ثناء کو کال ملائی اب وہی واحد سہارا تھی جو اسے ساری پریشانیوں سے نجات دلا سکتی تھی انوشے نے جھنجھلا کر موبائل کان سے ہٹایا ثناء کا موبائل بند جارہا تھا اس نے فون سائڈ پر رکھ دیا اور خود اٹھ کر ٹیرس پر آگئ کندھوں کے گرد شال لپیٹے وہ آسمان کو دیکھ رہی تھی جہاں سیاہی پھیلی ہوئی تھی اس وقت رات کے دو بج رہے تھے تبھی نظر اچانک نیچے لان میں گئ جہاں احمر چہل قدمی کررہا تھا وہ کچھ سوچتی اس کے پاس نیچے آگئ
"بابا جانی"احمر پلٹا اس کی آنکھوں میں نمی تھی اس نے فوراً آنسو اندر دھکیلے لیکن انوشے دیکھ چکی تھی
"انوشے سوئی نہیں ابھی تک"
"آپ کیوں نہیں سوئے"وہ اس کے پاس آگئ
"نیند نہیں آرہی تھی تو سوچا تازی ہوا لے لوں اس لیے یہاں آگیا "انوشے اس کے گلے لگ گئ
"بابا جانی آپ اداس نا ہوا کریں میرا دل بند ہونے لگتا ہے"احمر نے نم آنکھوں سے مسکرا کر آسمان کو دیکھا پھر انوشے کے سر پر ہاتھ رکھا
"میں ٹھیک ہو جانی "وہ سیدھی ہوئی اور احمر کا ہاتھ تھام کر ان پر اپنے لب رکھے
"میں آپ کو چھوڑ کر کبھی نہیں جاؤں گی"احمر ہنسا
"تو اب سمجھ آئی میری بیٹی کو یہ بات پریشان کررہی ہے"
"بابا پلیز میں شادی نہیں کرنا چاہتی میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں میں ایسے ہی خوش رہنا چاہتی ہوں"
"عماد بہت اچھا ہے انوشے "
"لیکن میں شادی نہیں کرنا چاہتی میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی"اس کی آواز بھیگ گئ
"اچھا ریلیکس ابھی سو جاؤ  ہم اس بارے میں بعد میں بات کریں گے "احمر نے اس کی گال تھپکی
"آپ بھی سوجائیں"
"ہاں بس جاتا ہوں کچھ دیر تک"وہ کمرے میں آکر لیٹ گئ دل ابھی بھی بے چین تھا کچھ دیر میں ہی نیند اس پر مہربان ہوگئ
دوسری جانب احمر نے آسمان کی جانب نظریں اٹھائیں پھر  آنکھیں بند کرکے ٹھنڈی ہوا کو محسوس کرنے لگا
بچھڑنے والے ایک عہد نبھاتے رہنا
سرشام یادوں کے دیپ جلاتے رہنا
*******************************
بالوں میں نرم لمس محسوس کرتے ہی وہ کسمسائی ثناء نے جھک کر اس کی پیشانی پر پیار کیا تو اس نے آنکھیں نیم واہ کی
"اسلام علیکم چندا"
"کیا میں خواب دیکھ رہی ہوں"
"نہیں "ثناء نے ہنستے ہوئے اس کے بال پیشانی سے ہٹائے انوشے کا ذہن بیدار ہوا وہ جھٹ سے اٹھی
"خالہ آپ واقع میں ہی ہیں "اس نے ثناء کا ہاتھ پکڑا
"اومائے گارڈ خالہ"وہ زور سے اس کے گلے لگ گئ
"پتا ہے میں کتنا پریشان ہورہی تھی کہ  پتا نہیں کیوں آپ فون نہیں اٹھا رہی رات کو بھی ٹرائے کرتی رہی فجر کے بعد بھی کیا لیکن موبائل بند جارہا تھا کیسی ہیں  آپ؟ باقی سب آئے ہیں"
"میں بلکل ٹھیک ہوں سبحان اور سمن دادی کی طرف چلے گئے سبحان کو میٹنگ کے لیے تیار ہونا تھا سعد دادؤ کے پاس ہی ہے میں ارقم کے ساتھ آئی ہوں"
"ارقم ماموں بھی آئے ہیں"
"ہاں"
"خالہ میں بہت خوش ہوں میں آپ کو بہت یاد کررہی تھی"انوشے دوبارہ اس کے گلے لگ گئ
"میں بھی اپنی جان کو بہت یاد کررہی تھی جلدی سے فریش ہوکر آجاؤ میں نیچے احمر بھائی کے پاس بیٹھتی ہوں "
"اوکے"
   ******************************
سب لاؤنج میں بیٹھے چائے پیتے باتوں میں مصروف تھے احمر بھی آج گھر ہی تھا۔تبھی ثناء بولی
"اور بتائیں آپ سب نے شاپنگ شروع کردی"
"کس لیے"انوشے نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا
"آپ کی شادی کی"انوشے کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی احمر بغور اسے ہی دیکھ رہا تھا ثناء نے احمر کی طرف رخ کیا
"یہ تو ایسے ریئکٹ کررہی جیسے اسے کچھ پتا ہی نہیں ہے"
"کیا سب عماد کے رشتے سے خوش ہیں"انوشے اپنی سوچوں میں گم ہوگئ
"انوشے اپنی خالہ کے بغیر کیسے تیاری کرتی"
"ہممم ایسا کرتے ہیں شاپنگ پر چلتے ہیں انوشے کی ڈریس وغیرہ آج فائنل کرلیتے ہیں کل دوسرے بھی کام ہیں پرسوں ایسا کریں گے عماد کی فیملی کے ساتھ مل کر چھوٹی سے اینگیجمنٹ پارٹی رکھ لیتے ہیں"انوشے نے حیرت سے ثناء کو دیکھا اور پھر احمر کو ارقم نے فوراً چائے کا کپ لبوں سے لگایا
"ٹھیک ہے تم لوگ انوشے کو لے جاؤ اور جو لینا ہو لے لینا کوئی کسر نہیں رہنی چاہئے "
"آپ فکر نہ کریں میں دیکھ لوں گی۔"
انوشے بغیر کسی کو دیکھے وہاں سے اٹھ آئی پیچھے ثناء نے احمر کو دیکھا جو انوشے کو ہی دیکھ رہا تھا۔
  ******************************
رات کی تاریکی چھائی تو پورا شہر جھلملاتی روشنیوں سے جگ مگا اٹھا
وہ کمرے سے نکل کر کچن میں پانی پی کر احمر کے پاس آگئ وہ فون پر بات کررہا تھا انوشے کو دیکھ کر مسکرایا انوشے اس کے پاس بیٹھ کر سائڈ ٹیبل پر رکھی ماہم کی تصویر کو اٹھا کر دیکھنے لگی
"کیا ہوا "احمر کی آواز پر اس نے فریم واپس رکھ دیا
"بابا"
"جی"
"میں نے آپ سے کہا تھا میں سوچ کر بتاؤ گی پھر آپ نے خالہ کو منع کیوں نہیں کیا"
"ثناء کو یقین ہے آپ ہاں ہی کرو گی"
"بابا "
"انوشے بیٹا میں کب سے دیکھ رہا ہوں آپ پریشان ہو کیا بات ہے ؟کیا بات تنگ کررہی ہے مجھے بتاؤ"احمر کا اتنا کہنا تھا انوشے کو رونا آنے لگا
"کچھ نہیں ہے بابا"وہ فوراً اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئ دروازہ بند کرتے ہی وہ پلٹی آنسوں بہنے لگے اس نے الماری کھول کر ماہم کی تصویروں کا البم نکالا اور بیڈ پر بیٹھ گئ
"ماما "
"میں کیا کروں مجھے نہیں سمجھ آرہا  مجھے کیا ہورہا ہے دل کیوں اتنا اداس ہے میں بابا کو کیا بولوں میں کس سے اپنے دل کا حال کہوں میں نے اللہ سے بھی باتیں کرلی ہیں مجھے میرے سوال کا جواب نہیں مل رہا ماما ۔دانیال کی باتیں ذہن سے نہیں نکل رہی میں نے اس کے ساتھ غلط نہیں کیا ماما میں کیسے اس سے شادی کر سکتی ہوں سب کیا سوچیں گے بابا کو کیا بولوں گی شزاء خالہ کیا سوچیں گی ماما میں دانی کا دل نہیں دکھانا چاہتی تھی"وہ روتے ہوئے ماہم کو اپنے دل کا حال سنارہی تھی یہ جانے بغیر کے دروازے کے باہر کھڑا احمر بھی سب سن رہا تھا
"ماما میں بابا کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی کوئی میری بات کیوں نہیں سمجھ رہا دانیال کو بھی میں ہی غلط لگ رہی ہوں میں غلط نہیں ہوں"وہ ہچکیوں کے ساتھ رورہی تھی
"بابا اداس ہوں گے تو انہیں کون ہنسائے گا میں بابا کے بغیر نہیں رہ سکتی"وہ ماہم کی تصویر پر ہاتھ پھیر رہی تھی
"میں کیا کروں مجھے کچھ  سمجھ نہیں آرہا آپ کیوں چلی گئیں کیوں ماما مجھے چھوڑ گئ "احمر نے اپنے آنسو صاف کیے دل تو کررہا تھا اندر جاکر انوشےکو سینے سے لگا لے لیکن ابھی وہ اسے اکیلا چھوڑنا چاہتا تھا تاکہ وہ اپنا دل ہلکا کرلے
   *****************************
احمر باہر لان میں آگیا ثناء دن میں اپنی دادی کی طرف چلی گئ تھی لیکن اس نے کہا تھا وہ رات انوشے کے پاس ہی گزارے گی ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس کی کال آئی تھی کہ وہ آدھے گھنٹے تک آئے گی احمر کرسی پر سر پیچھے ٹیکا کر بیٹھ گیا اور دن میں ہوئی ارقم اور ثناء کی باتیں یاد کرنے لگا
"میں آپ سے بہت ضروری بات کرنا چاہتی ہوں"
" ہاں کہو"
"احمر بھائی دراصل میں انوشے کے حوالے سے بات کرنا چاہتی ہوں"اس  نے ایک نظر ارقم کو دیکھا اور پھر گویا ہوئی
"احمر بھائی ہم سب جانتے ہیں انوشے میں آپ کی جان  ہے آپ یہی چاہتے ہیں وہ جہاں بھی جائے خوش رہے گرم ہوا بھی اسے چھو کر نہ گزرے جتنا پیار آپ نے اسے دیا اتنا ہی آگے والے زندگی میں اسے ملے"وہ رکی
"آپ سے زیادہ محبت کو اور کون جانے گا ماہم آپی سے آپ کتنی محبت کرتے ہیں یہ میں جانتی ہوں ایسے ہی توآپ کو مجنوں نہیں کہا"اس کی آنکھیں بھیگ گئ احمر کی آنکھیں بھی لال ہورہی تھی
"زیادہ گھماؤ گی نہیں بات کو "اس نے آنسو صاف کیے
"ہماری انوشے سے بھی کوئی بے انتہا محبت کرتا ہے بلکل مجنوں والی"
"دانیال"احمر بولا ارقم اور ثناء نے ایک دوسرے کو دیکھا
"آپ کو"
"جانتا ہوں"وہ سیدھا ہوا چہرے پر سنجیدگی تھی
"احمر بھائی مجھے غلط مت سمجھیے گا انوشے سے مجھے  بہت محبت ہے میری اپنی بچی ہے مجھے عزیز ہے اسی طرح دانیال بھی مجھے عزیز ہے اگر مجھے لگتا کہ  دانیال انوشے کے لیے صحیح نہیں ہے تو میں کبھی آپ سے بات نا کرتی بلکہ میں دانیال کو یہاں آنے ہی نا دیتی لیکن بھائی دانیال سے زیادہ انوشے کو کوئی اتنی محبت نہیں کرسکتا وہ اس کی عزت کرتا ہے بھائی اس نے انوشے کے علاوہ کسی کے بارے میں نہیں سوچا" احمر سنجیدگی سے اسے سن رہا تھا
"ثناء تم جانتی ہو کہ انوشے دانیال سے عمر میں بڑی ہے"
"بھائی عمر سے کیا فرق پڑتا ہے یہ کہاں لکھا ہے کہ لڑکے کا بڑا ہونا لازمی ہے ہمارے دین میں بھی ایسا کچھ نہیں ہے
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا آپ صلی الله عليه والہ وسلم سے پندرہ سال بڑی تھیں انہوں نے خود شادی کا پیغام بھیجوایا تھا یہ ہم ہیں جو لوگ کیا کہے گے جیسی فضول باتوں کو لے کر بیٹھ گئے ہیں بھائی دانیال انوشے سے محبت کرتا ہے اس سے بڑھ کر ہمیں کیا چاہیے۔ دانیال یہاں رہا ہے آپ نے بھی اسے دیکھ لیا ہوگا کیسا لڑکا ہے وہ"
"نہیں ایسی بات نہیں ہے یہ تو اچھی بات ہے دانیال گھر کا بچہ ہے"ثناء مسکرائی
"بھائی جہاں تک اس کے سیٹل ہونے کی بات ہے آگے بزنس اس کے ہی حوالے ہے کافی ڈیلز وہ دیکھ چکا ہے "ارقم نے بتانا چاہا
"دانیال بہت اچھا بچہ ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ثناء انوشے نہیں مانے گی"
"معلوم ہے مجھے اس لیے پہلے آپ سے بات کی ہے تاکہ آپ کی رائے جان سکوں بھائی دانیال سے بہتر کوئی انوشے کو نہیں سمجھ سکتا دانیال ہر قدم پر انوشے کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ انوشے کو الجھن سے نکالنے کے لیے ہی میں یہاں آئی ہوں "
"کیا مطلب"
"مطلب بس آپ دیکھ کر سمجھ جائیں گے "
"آپ کو تو کوئی اعتراض نہیں ہے نا"
"نہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے میں تو خوش ہوں میں جانتا ہوں ارسل، شزاء وہاں سب انوشے کا بہت خیال رکھیں گے"ثناء اٹھ کر احمر کے پاس آئی
"لیکن جیجو وہ آپ کے بغیر پھر بھی نہیں رہ پائی گی اس کی شادی سے انکار کی ایک یہی وجہ ہے"
"جانتا ہوں میرے لیے بھی بہت مشکل ہے اس کو اپنے آپ سے دور کرنا"
گاڑی کے ہارن پر احمر چونکا اس نے اردگرد دیکھا وہ سوچوں میں گم تھا اس لیے ٹائم کا پتا ہی نہیں چلا وہ اٹھ کر اندر آگیا
"اسلام علیکم جیجو"
"وعلیکم اسلام  سچ میں شاپنگ پر چلی گئ تھی "احمر نے اس کے ہاتھ میں شاپنگ بیگز دیکھتے ہوئے کہا
"آپ کو کیا لگا میں مزاق کررہی تھی ایسے اوپر اوپر سے نہیں بولتی پوری پلینگ کی ہے میں نے جیجو" احمر ہنس دیا
"اچھا یہ بتائیں انو کہاں ہے"
"اپنے کمرے میں ہے شاید سوگئ ہے"
"اوہ میں نے بھی تو آنے میں دیر لگادی چلیں میں بھی سونے جاتی ہوں آپ بھی سو جائیں شب بخیر "وہ اوپر انوشے کے کمرے کی جانب بڑھ گئ کمرے کا دروازہ آہستہ سے کھولا کمرے میں لیپ کی مدہم روشنی پھیلی ہوئی تھی ثناء نے سامان صوفے پر رکھا اور خود چینج کرنے چلی گئ واپس آکر انوشے کا کمبل ٹھیک کیا تبھی اس کی نظر انوشے کے ساتھ پڑی البم پے پڑی اس نے جھک کر البم اٹھایا ماہم اور انوشے کی ساحل سمندر پر لی گئ تصویر تھی ثناء مسکرائی آہستہ سے البم بند کرکے ایک طرف رکھا پر جھک کر انوشے کو پیار کیا اور دوسری طرف آکر لیٹ گئ کچھ دیر بعد انوشے نے اپنی آنکھیں کھولیں ایک نظر ثناء کو دیکھا وہ جاگ رہی تھی پھر کروٹ بدل لی
   ****************************
آج موسم کافی سرد تھا وہ دونوں نماز پڑھ کر لان میں آگئ اور ساتھ بیٹھ گئیں
"انوشے دانیال  کہاں ہے اتنے دن ہوگئے ہیں میری بات نہیں ہوئی  میری ملاقات بھی نہیں ہوئی ابھی تک کیا وہ آفس کے کام سے دوسرے شہر گیا ہے"انوشے کے گلے میں گلٹی ڈوب کر ابھری
"نہیں خالہ ادھر ہی ہے "
"تو پھر گھر نہیں آیا کیا رات کو "ثناء حیران ہوئی
"نہیں خالہ وہ یہاں سے چلا گیا ہے"
"کیا مطلب چلا گیا ہے وہ تو یہی نہیں رہ رہا تھا انوشے کہاں گیا ہے دانیال"
"جی لیکن پھر وہ چلا گیا آفس کی طرف سے اسے فلیٹ ملا ہے وہی شفٹ ہوگیا ہے"
"ایسے کیسے فلیٹ میں چلا گیا ہمیں کیوں نہیں بتایا تمہیں پتا ہے کہاں ہے فلیٹ "
"نہیں "انوشے نے سر جھکا دیا
"کہاں ہوگا یہ لڑکا اس کو تو یہاں کا کچھ پتا بھی نہیں ہے انوشے تم نے اس کو چھوڑ کیوں دیا"ثناء کی بات پر اس نے سر اٹھایا "میں نے نہیں چھوڑا خالہ"وہ آہستہ سے بولی
"چلو میں فون کرلوں گی پھر ساتھ چلیں گے اس کے پاس"ثناء نے کہا تو انوشے سامنے دیکھنے لگی
"انوشے"
"جی خالہ"
"جانی کوئی پریشانی ہے کیا"ثناء نے اس کے دل کا حال جاننا چاہا
"نہیں خالہ کوئی پریشانی نہیں ہے"ثناء نے اس کا چہرہ تھام کر اپنی طرف کیا
"بتاؤ مجھے کیا بات ہے جو میری انو کو تنگ کررہی ہے"انوشے کی آنکھیں نم ہوگئیں وہ جھٹکے سے ثناء کے گلے لگ گئ انسان تو چاہتا ہی ہے کہ کوئی اسے سنے اس کے دل کا حال جانے انوشے بھی اب اپنا دل ہلکا کرنا چاہتی تھی
"خالہ میں بہت پریشان ہوں بہت زیادہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا"
" آرام سے بتاؤ کیا بات ہے"
"خالہ مجھے نہیں پتا دانیال کہاں چلا گیا ہے "
"ابھی خودہی تو کہہ رہی تھی کہ فلیٹ میں شفٹ ہوگیا ہے"
"نہیں خالہ اس نے بابا سے جھوٹ بولا ہے اس نے مجھے خود بتایا تھا کہ گاڑی اور فلیٹ اسے اگلے مہینے ملے گا پتا نہیں کہاں چلا گیا ہے وہ ایک ہفتہ ہوگیا ہے اس کا کوئی اتا پتا نہیں ہے "وہ روتے ہوئے بول رہی تھی
"ہا!!! دانیال کھو گیا کیا تم نے یہ میزبانی کی ہے انوشے۔ مہمانوں کے ساتھ ایسے کرتے ہیں"انوشے پیچھے ہوئی
"ایسا کیا ہوا تھا جو وہ یہاں سے چلا گیا اچھا بھلا تو رہ رہا تھا"انوشے خاموش رہی
"بتاؤ انوشے"
"کچھ نہیں ہوا تھا خالہ"اسے سمجھ نہیں آرہی تھی وہ کیا بولے
"اب تم مجھ سے باتیں چھپاؤ گی انو"
"نہیں نہیں خالہ"
"تو بتاؤ ایسا کیا ہوا کہ دانیال گھر چھوڑ کر ہی چلا گیا"
"میری برتھ ڈے سے ایک دن پہلے ہم دونوں باہر گھومنے گئے تھے رات کو دانیال نے مجھے سرپرائز دیا تھا برتھ ڈے کا پھر اس نے"وہ روکی ثناء اسے ہی دیکھ رہی تھی
"پھر کیا؟"
"خالہ اس نے مجھے"وہ پھر رک گئ
"اس نے تمہیں کیا انوشے"
"خالہ اس نے مجھے پرپوز کیا تھا"دونوں کے درمیان خاموشی چھاگئ پھر ثناء بولی
"ارے واہ انوشے دانیال نے تمہیں پرپوز کیا یہ تو بہت اچھی بات ہے"انوشے حیرت سے ثناء کو دیکھنے لگی
"خالہ اس نے مجھے کہا ہے کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے"
"یہ تو بہت اچھی بات ہے انوشے"ثناء مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ کر بولی
"خالہ کیا ہوگیا ہے آپ کو کیا آپ کو نہیں پتا میں دانیال سے بڑی ہوں"ثناء نے ٹھہر کر انوشے کو سر سے پاؤں تک دیکھا
"کہاں سے"
"خالہ بی سیریس"
"انوشے کیا ہوگیا ہے مجھے بلکل امید نہیں تھی تم ایسی فضول بات کرو گی محبت کیا عمر دیکھ کر کی جاتی ہے  "
"آپ میری بات نہیں سمجھ رہیں"وہ اٹھ  گئی
"تو تم مجھے سمجھاؤ نا "
"سب کیا سوچیں گے خالہ "
"انوشے میری جان اپنی خوشیاں دیکھو دانیال گھر کا بچہ ہے تم سے محبت کرتا ہے اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے"
"نہیں خالہ "
"ٹھیک ہے پھر کرلو عماد سے شادی"وہ جانے لگی کہ انوشے نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لیا
"اب آپ تو مجھ سے ناراض ہو کر نا جائیں"
"کیا مطلب آپ تو کیا دانیال تم سے ناراض ہوکر گیا ہے"
"جی  میں نے اسے بہت باتیں سنائی تھی اور تھپڑ بھی مارا تھا"ثناء نے منہ پر ہاتھ رکھا
"ہا۔۔۔۔۔ تم نے دانیال کو تھپڑ مار دیا اتنے لمبے چوڑے لڑکے کو تھپڑ مارا مجھے بتاؤ کیسے مارا تھا"
"خالہ آپ کو مزاق سوج رہا ہے "انوشے چِڑھ کر بولی ثناء نے اس کو کندھوں سے تھاما
"انوشے یہ مزاق نہیں ہے تو کیا ہے ۔مزاق تو تم نے بنادیا ہے اگر وہ تم سے محبت کرتا ہے تو کیا محبت کا جواب محبت سے نہیں دیا جاسکتا تھا انوشے کیا کسے کے جذبوں کے ساتھ ایسے کیا جاتا ہے"انوشے نے سر جھکادیا
"تم تو کہتی تھی دانیال تمہارا سب سے اچھا دوست ہے کیا دوستوں کےساتھ ایسے پیش آیا جاتا ہے"انوشے کا سر ہنوز جھکا ہوا تھا
"اب کہاں ڈھونڈے دانیال کو میں ارسل بھائی کو کیا جواب دوں گی شزاء آپی کو کیا بولوں گی"
"آپ ڈھونڈے نا اسے آپ کال کریں پوچھیں اس سے کدھر ہے وہ"
"تم نے کال کی تھی اسے"ثناء کے سوال پر انوشے چپ ہوگئ اور رخ موڑ لیا
"انوشے تم نے اسے فون بھی نہیں کیا"
"خالہ "
"کیا تمہیں دانیال اتنا برا لگتا ہے کہ تم نے اس کی خیریت بھی پتا نہیں کی"
"نہیں خالہ دانیال مجھے برا نہیں لگتا"
"اچھا لگتا ہے؟ "
"ہاں وہ اچھا ہے"
"تو پھر اسے انکار کیوں کیا"
"خالہ"انوشے جھنجھلا گئی
"کیا دانیال تمہیں خوش نہیں رکھے گا"
"رکھے گا"
"تو پھر "
"اففف خالہ"
"انو تم کیا چاہتی ہو "
"میں کچھ  نہیں چاہتی،"
"لیکن دانیال کو تو چاہتی ہو نا"انوشے ثناء کے گلے لگ گئ
"پلیز خالہ دانیال کو لے آئیں پتا نہیں وہ کہاں چلا گیا ہے"
"میں کیسے لاؤں تم نے ہی تو اسے کہا تھا کہ میرے سامنے مت آنا ،اس سےنفرت کرتی ہو، اس سے رشتہ ختم کردیا "
"ہاں خالہ میں نے کہا تھا لیکن ۔۔۔۔۔"وہ  جھٹکے سے پیچھے ہوئی
"لیکن یہ سب آپ کو کیسے پتا"ثناء مسکرائی پھر ایک انداز سے بولی
"رشتے میں تو ہم آپ کی خالہ لگتے ہیں"انوشے کا منہ کھل گیا
"آپ سب جانتی تھی"
"جی بلکل"
"میں آپ سے بات نہیں کروں گی"
"میری چندا"ثناء نے اس کا چہرہ تھاما
"دانیال تم سے بہت محبت کرتا ہے۔ محبت سے کہی زیادہ وہ تمہاری عزت کرتا ہے اس کی آنکھوں میں بہت محبت دیکھی ہے میں نے"انوشے نے نظریں جھکا دیں
"خالہ میں جا کر تیار ہوتی ہوں "وہ اندر چلی گئ پیچھے ثناء نے سکون کا سانس لیا اب آگے فیصلہ انوشے کا تھا وہ اس کے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتی تھی
    ****************************
kuch readers ka kehna hai k story lambi ki jaye is liay time lag giya
In sha Allah ab next last part hoga jitni lambi kr sakti thee krli
umeed krti hun episode pasand aye ge
.
.Ab aage kia hoga.... kahan hai daniyal.???
.kia hoga Anooshy ka faisla.???
.
.kese lagi sana????
.
.
.vote or comments lazmi kryn werna my last part post nhi krun ge
..
#Thank u
#rafia

اندازِ محبت  از قلم رافعہ عزیزNơi câu chuyện tồn tại. Hãy khám phá bây giờ