#دل کی دھڑکن
#از قلم مہک یوسف
قسط نمبر تین
تم اٹھ گئ صنم میں کتنی پریشان ہوگئ تھی ۔سانیہ پیار سے اُس کا چہرہ چومتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔
آپی میں دوبارہ بچ گئ صنم کو گہرا افسوس ہوا ۔
میرا بچہ ایسے نہیں کہتے سانیہ پیار سے اپنی چھوٹی بہن کو سمجھا رہی تھی ۔
آپی میں تو مرنے کے قریب تھی وہ میری طرف آرہا تھا ۔وہ وہ. وہ کچھ اور بھی کہنے والی تھی جب سانیہ نے اُسے بیچ میں ہی ٹوک دیا اور ساتھ ہی کہنا شروع کیا تم اب کسی سے یہ بات نہیں کروگی سوائے ہادی کے سمجھی تم
تمہارے بہنوئ باہر بیٹھے ہیں اور تم کو گالیوں سے نواز رہے ہیں
لیکن آپی یہ ہادی کون ہیں؟
اور میری کیا غلطی ہے؟
ان گالیوں کی وجہ؟
وہ ایک ہی سانس میں سوال کرگئ وہ تین دن کے بعد اٹھی تھی اور اٹھتے ہی اپنی بہن کو کسی اجنبی کو تھمانے کا خیال ہی سانیہ کی جان لے رہا تھا ماں بن کر پالا تھا کیسے صبر آتا تکلیف سے دل پھٹ رہا تھا مگر ہائے یہ مجبوریاں کبھی کبھی خون کے آنسو رلاتی ہیں۔
صنم ہادی تمہارا ہونے والا شوہر ہے اُسی نے تمہیں بچایا ہے
تو بچانے کی یہ قیمت لے گا مجھ سے صنم تو جیسے تپ ہی گئ۔
اُسنے ایسی کوئ قیمت نہیں مانگی میں نے کہا تھا اُسے
ہاں اور وہ مان گیا حد ہی ہوگئ
بس اب ایک لفظ بھی نہ سنوں تم سے سمجھی تپھڑ کھاؤگی ورنہ
آپیییییی غم وغصے سے صنم کی آواز پھٹ گئ
منہ بند ایک اور لفظ نہیں
میں تم کو ایک محافظ دے کر رخصت کرنا چاہتی ہوں
مطلب اب کہ لہجےمیں حیرت تھی
مطلب حیدر(بہنوئ )نہیں چاہتے میں تم سے تعلق رکھوں.
آپی ابھی وہ کچھ کہہ ہی رہی تھی کہ کمرے میں حیدر داخل ہوا اور صنم پر حقارت بھری نظر ڈال کر سانیہ سے مخاطب ہوا جس کے ساتھ بھیجنا ہے بھیجو جلد از جلد دفعان کرو کسی کو شکل دیکھانے کے قابل نہیں چھوڑا
وہ مولوی کے ساتھ باہر کھڑا ہے دوپٹہ ڈالو اس پر
اور صنم تو سُن ہی ہو گئ اس انکشاف پر
سانیہ نے جلدی سے دوپٹہ اس کے سر پر پھیلایا پھر مولوی صاحب اندر آئے اور نکاح شروع ہوا
یہ وقت تو ہر لڑ کی کے لیے ہی مشکل ھوتا ہے اور وہ تو اپنا آخری رشتہ بھی کھونے والی تھی ۔اس کو تو ایسے شخص کے ساتھ رخصت ہونا تھا جس کو وہ جانتی بھی نہیں تھی۔
تین دفعہ قبول ہے کہنے کے بعد کانپتے ہاتھوں سے دستخط کرتے وقت اسے اپنی بےبسی پر جی بھر کر رونا آیا ۔
تھوڑی ہی دیر بعد اُسکی بہن اسکو بے اختیار چوم رہی تھی جیسے آخری بار میں اپنا سارا پیار لٹا دینا چاہتی ہو
صنم کچھ نہ بولی بس بے تاثر نگاہوں سے دیکھتی رہی کمرے کے دروازے پر ھادی کھڑا یہ منظر خاموش نظروں سے
دیکھے گیا
دس پندرہ منٹ کے بعد سانیہ اور حیدر چلے گئے
اور ہادی جو کب سے خاموش تماشائی بنا ہوا تھا اب کمرے میں داخل ہوا
اور قدم قدم چلتا اس کے پاس والی کرسی کھینچ کر بیٹھا صنم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر تحفظ کا احساس دلایا اور وہ جو کب سے رو رہی تھی اب خاموش ہوگئ تھی
صنم نکاح بہت خوبصورت رشتہ ہے یہ پتھر کو بھی محبت کرنا سیکھا دیتا ہے ۔ہم وقت دینگے اس رشتے کو
اب تم آرام کرو کل بات کرینگے ۔
یہ کہہ کر وہ اس کے ہاتھوں کو چھوڑتا اٹھ کر چلاگیا
اور وہ اس کے لہجے کی مٹھاس محسوس کرتی آنکھں موند گئ
ہمیں وہ لب ولہجہ وہ انداز نہیں ملتا
سارے شہر میں تیرے جیسا انسان نہیں ملتا 😍😇