دل کی دھڑکن از قلم مہک یوسف

18 3 0
                                    

#ناول
#دل کی دھڑکن
#از قلم مہک یوسف
#قسط نمبر دس
ہادی اپنے روم کی طرف بڑھ گیا صنم پلنگ پر ہی لیٹی تھی اور اب اسکا جائزہ لینے میں مصروف تھی جو پہلے اپنے کپڑے نکال رہا تھا پھر صنم پر ایک بھی نظر ڈالے بغیر واشروم میں گھس گیا تھوڑی دیر جب وہ نکلا تو فریش لگ رہا تھا وہ اپنے بال ٹاول سے رگڑتا ساتھ ساتھ موبائل چلاتا صنم کو اتنا پیارا لگ رہا تھا کہ وہ بس دنیا جہاں بھلائے اسے ہی دیکھے گئی ۔ ہادی جو کب سے اپنے چہرے پر کسی کی نظریں محسوس کر رہا تھا اب صنم کی طرف متوجہ ہوا جو ابھی اسے ہی دیکھنے میں مگن تھی جیسے اس سے ضروری کچھ ہے ہی نہیں جب وہ ہادی کے دیکھنے پر بھی متوجہ نہ ہوئ تو ہادی نے دل میں سوچا کہ یہ لڑکی آخر ہے کیا چیز جب بھی ملتی ہے حیران ہی کرتی ہے پہلے ایک وکٹم کے روپ میں پھر ایک تابعدار بیوی یا پھر یوں کہا جائے کہ ایک سہمی ہوئ لڑکی کے روپ میں پھر بپھری ہوئ شیرنی اور پھر سیدھا ایک شکی بیوی کے روپ میں، اور اب ایسے گھور رہی ہے جیسے مجھ پر کر ش ہوگیا ہو اللہ یہ لڑکی مجھے پاگل کر دیگی اُف صنم کی نظروں سے اکتا کر ہادی اسکے کان کے پاس جھک کر بولا اگر میرا پوسٹ مارٹم  کر لیا ہو تو یہ بتائیں کیا کھائینگی اور وہ جو ساری دنیا کی فرصت ادھار لیکر اسے گھور رہی تھی ہادی کی سرگوشی پر ہڑبڑا کر سیدھی ہوئ ۔
کیا کیا کہا آپ نے؟  صنم اپنی خفت مٹانے کو جلدی سے بولی.
اور اسکی اس حرکت پر ہادی کا زور دار قہقہ بلند ہوا وہ آج کتنے سالوں بعد ہنسا تھا زندگی سے بھرپور ہنسی
اور صنم جو پہلے والی حرکت پر پشیمان تھی اب دوبارہ وہی کام میں لگ گئ وہ لگ ہی اتنا پیارا رہا تھا ہنستے ہوئے  کوئ کیوں نہ فین ہوتا اسکی ہنسی کا جیسے ہی ہادی کی نظر صنم پر پڑی وہ دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوچکی تھی ۔
یااللہ یہ لڑکی مجھے پاگل ہی نہ کردے وہ آسمان کی طرف دیکھ کر صنم کی طرف جھک کر بلند آواز میں بولا
صنم نے چونک کر اسے دیکھا جو مکمل اس پر جھکا ہوا تھا اور دل میں سوچا یہ ایسے کریگا تو میں تو گئ سمجھو ۔صنم محترمہ اپنے کھانا کیوں نہیں کھایا؟  اب وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا
آپ نے بھی نہیں کھایا تھا؟ کیوں؟  وہ بھی مزے سے بولی
ہیں میرے کھانے سے تمہارا کیا تعلق؟  ہادی نے حیرت سے پوچھا 
تو آپکا بھی کیا تعلق  میرے کھانے سے؟  وہ بھی مزے سے بولی
تم مجھے پاگل کردوگی وہ جل کر بولا
اور آپ مجھے کر چکے ہیں وہ بڑے مزے سے بولی
کیا مطلب ؟ ہادی نے حیرت سے پوچھا
کچھ نہیں آپ نہیں سمجھینگے اس بار صنم ایسے بولی جیسے ہادی کی عقل پر ماتم کیا ہو
کیوں میں کیوں نہیں سمجھونگا ؟وہ پھر استفسار کرنے لگا
کیوں کہ آپ اونگے بونگے ہیں وہ مسکرا کر بولی
ہیں یہ کیا ہوتا ہے؟
آپ سے ایک درخواست ہے اب بھی وہ مسکرا رہی تھی
کیسی درخواست ؟ہادی نے پوچھا
مجھے شدید بھوک لگی پلیز کچھ کھالیں
تو اتنی بھوک لگی تھی تو پہلے کھا لیتی اب وہ متفکر سا کہنے لگا
مجھے آپ کے ساتھ کھانا تھا اسلیے نہیں کھایا اب وہ لب کاٹتی کہہ رہی تھی
اسوقت رات کے چار بجے میں زارا باجی کو بھی نہیں بلا سکتا
رکو میں لاتا ہوں کچھ وہ اٹھتےہوئے کہنے لگا
آپ کیا لائینگے؟ وہ حیرت سے پوچھنے لگی
محترمہ صنم صاحبہ آم کھائیں گھٹلیاں نہ گنیں یہ کہہ کر جلدی سے کمرے سے نکل گیا کہ اب یہ لڑکی کوئی اور الٹا سوال نہ کرلے
کچن میں جا کر وہ جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگا فلحال وہ بس چوکلیٹ سینڈوچ  جتنی محنت کر سکتا تھا سینڈوچ بنانے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے رویے پر بھی غور کر رہا تھا وہ کبھی شزا کے علاوہ اتنی باتیں کسی سے نہیں کرتا تھا آج کیوں وہ ایسا کرگیا یہ بات حیران کن تھی۔وہ اس لڑکی کے ساتھ کیسے اتنا فرینک ہوگیا جسکو طلاق دینے کا وہ سوچ کر نکلا تھا ۔
کچن سے نکل کر وہ دوبارہ اپنے کمرے میں گیا جہاں صنم ابھی تک اسکا انتظار کر رہی تھی۔وہ قدم قدم چلتا صنم کے پاس پہنچا اور وہ اسے دیکھ کر دلکشی سے مسکرائی۔ اور ہادی کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی کیا ہوا کر لیا انتظام؟
جی بلکل،  وہ بھی مسکرایا
کیا لائے ہیں؟ وہ ہادی کو ایک نظر  دیکھ کر پوچھنے لگی
چوکلیٹ سینڈوچ ،وہ آرام سے بولا اور کہتے ساتھ صنم کی طرف جھکا اور اسے اٹھنے میں مدد دی اور پھر ویل چئیر پر بیٹھا کر واشروم تک لے گیا وہ ہاتھ  دھو چکی تو دوبارہ واپس لا کر پلنگ پر بیٹھایا۔ اس دوران وہ دو بار صنم کو اپنی قربت کے چند منٹ میسر کرچکا تھا اور وہ جو اس پر پہلے سے فدا تھی اتنی سی قربت پر ہی صنم کا دل ساری پسلیاں توڑ کر باہر آنے والا ہوگیا ۔جب دوبارہ پلنگ پر آئی  تو ہادی نے دو سینڈوچ نکال کر دیے اور وہ کچھ سوچتی ہوئی کھانے لگی ۔اور ہادی کو فکر لاحق ہوگئ ناجانے اب کون سا الٹی کھوپڑی کا سوال آنے والا ہے ۔وہ فکر مند بھی ہورہا تھا اور کھانے کی کوشیش کر رہا تھا کیونکہ رات کے چار بجے بغیر بھوک کے صرف صنم کا مطالبہ ماننے کے لیے کھانا ایک نہایت ہی مشکل کام تھا ۔کب سے دونوں کے درمیان خاموشی چھائی ہوئ تھی اور اس خاموشی کے ٹکرے ٹکرے کرنے والی بھی صنم ہی تھی ۔
اچھا تو مسٹر ہادی،  وہ باس والے  انداز میں بولی اور وہ جو کوئ بے تکی بات کی امید کر رہا تھا اسکے اس طرح پکارنے پر صنم کو چونک کر دیکھنے لگا پھر سنبھل کر بولا ہاں بولو
اس گھر میں کوئ آئینہ کیوں نہیں ہے؟ وہ تعجب سے ہادی کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی
ہادی نے سر نفی میں ہلایا اور پھر کہا اس گھر میں تمہارا آنے سے پہلے آئینے تھے ابھی وہ بول رہا تھا کہ صنم بیچ میں بول پڑی؟ تو میں نے کیا کیا ہے جو آئینے کو ہٹانے کی زحمت کی گئ؟ وہ اب تپ کر بولی
تم نے کچھ نہیں کیا ہے وہ پھر سے بات مکمل کرنے لگا تو وہ پھر بول پڑی ۔
تو پھر؟ اب وہ غصے سے پوچھ رہی تھی
صنم محترمہ آپ مجھے میری بات مکمل تو کرنے دیں وہ دانت پیس کر بولا
اچھا بولیں پھر وہ احسان کرنے والے انداز میں بولی
تمہارے آنے سے پہلے یہ آئینے اسلیے ہٹا دیے ہیں کیونکہ تمہارا چہرہ شدید زخمی ہے تم دیکھ نہیں پاؤگی یہ جملہ ہادی نے بہت مشکل سے مکمل کیا تھا
کیا سچ میں وہ آنکھوں میں آنسو لیے پوچھنے لگی ۔
ہاں یہ سچ ہے لیکن تم ٹھیک ہوجاؤگی جلد ہی وہ اسکے آنسو دیکھ کر جلدی سے بولا
میں ٹھیک ہوجاؤنگی نا اب وہ روتے ہوئے پوچھ رہی تھی
ارے یار اس میں رونے کی کیا بات وہ اب صنم کو بہلانے کی کوشیش کر رہا تھا تم ٹھیک ہوجاؤگی بہت جلد اب وہ بےاختیاری میں صنم کے آنسو اپنے پوروں میں سمیٹ رہا تھا ۔
لیکن تم رونا بند نہیں کروگی تو زخم خراب ہوجائینگے وہ ڈرانے والے انداز میں بولا اور وہ ڈر بھی گئ

اچھا پھر تو میں بلکل نہیں رؤنگی دیکھیں میں نہیں رو رہی وہ بچوں والے انداز میں بولی
گڈ گرل وہ صنم کا گال تھپتھپا کر بولا اور وہ روئی روئی آنکھوں سے مسکرادی
چلو اب یہ سینڈوچ پورا کرو جلدی سے ہادی اسے کھانے کی طرف متوجہ کرتا کہنے لگا
آپ سے کچھ مانگوں صنم ہچکچاتے ہوئے بولی
کیا وہابرو اچکا کر پوچھنے لگا
آپ روز گھر آجاینگے؟ صنم کی اس فرمائش پر ہادی کے چہرے پر اذیت پھیلی ۔اسے بہت کچھ یاد آیا تھا اور وہ اس اذیت پر کبھی قابو نہیں پا سکتا تھا ہادی کی آنکھوں کی سرخی بڑھنے لگی اور وہ 'نہیں' کہہ کر اٹھ گیا۔

دل کی دھڑکن از قلم مہک یوسف Where stories live. Discover now