قسط نمبر 6

283 22 1
                                    

ابیر کوریڈور سے گزر رہی تھی کہ اسے اسٹڈی کا دروازہ کھلا دکھائی دیا اسے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کیونکہ بحرام صاحب تو کسی کام کے سلسلے میں شہر گئے ہوئے تھے۔ ابیر جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی تو بحرام صاحب کو سامنے بیٹھا پایا جو فون پر کسی سے بات کرنے میں مشغول تھے
"پاپا آپ کب واپس آئے؟" ابیر نے حیرانی سے سوال کیا
"اچھا میں بعد میں بات کرتا ہوں خیال رکھنا کہ کام ہوشیاری سے ہو" فون رکھ کر وہ ابیر کی طرف مڑے
"ارے ابیر بیٹا تم" وہ بولے "میں ابھی کچھ دیر پہلے ہی آیا ہوں"
"اور ابھی آپ یہ کون سے کام کی بات کر رہے تھے؟" ابیر نے ایک اور سوال کیا
"ارے کچھ نہیں جو کام چھوڑ کر آیا تھا وہی سمجھا رہا تھا" انہوں نے کہا "خیر ابیر بیٹا تم شام کو تیار ہوجانا ہمیں تقریب میں جانا ہے"
"کون سی تقریب پاپا" ابیر بولی
"سیٹھ ہشام (ملک کے بڑے سرمایہ داروں میں سے تھے) نے فایو اسٹار ہوٹل میں تقریب کا اہتمام کیا ہے جس میں ملک کے بااثر لوگوں کو مدعو کیا گیا ہے اس لئے ہمیں بھی جانا ہے تو تم تیار رہنا"
"ٹھیک ہے" ابیر نے جواب دیا اتنے میں دوبارہ فون کی گھنٹی بجی اور بحرام صاحب فون کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اور ابیر وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالآخر جہاز وادی کلثوم میں لینڈ کر چکا تھا انسپکٹر داریان اور سارجنٹ حادی اپنا اپنا سامان اٹھائے ایرپورٹ سے باہر نکل رہے تھے۔ داریان نہایت سنجیدہ تھا مگر حادی کے چہرے پر بیزاری برس رہی تھی اور اس کے لیے مزید خاموش رہنا ناقابلِ برداشت ہو رہا تھا کہ آخر وہ بول پڑا
"جلدی چلئے انسپکٹر صاحب میرا بھوک سے برا حال ہو رہا ہے" حادی برا سا منہ بنا کر بولا
"داریان اس کی بات پر چونکہ "ابھی تو جہاز میں کھانا کھایا تھا"
"آپ اسے کھانا کہتے ہیں مجھے تو وہ کسی بھجے کے ہوٹل کا مینیو لگ رہا تھا" حادی بولا
(کیونکہ کھانے میں ابلی ہوئی سبزیاں ٹھنڈے چاولوں کے ساتھ بڑے سلیقے سے پیش کی گئی تھیں جو کہ داریان نے تو کھا لی مگر حادی کے لئے پہلا نوالہ ہی حلق سے اتارنا دشوار ہو گیا تھا)
"اچھا ابھی ہوٹل چل رہے ہیں وہیں جا کر ٹھوس لینا" داریان نے جواب دیا
ہوٹل ایونیو پہنچ کر دونون نے پہلے اپنی ریجسٹریشن کروائی داریان حادی کو کھانا ختم کر کے کمرے میں آنے کا کہہ کر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا اور حادی نے ڈاءینگ حال کا رخ کیا اس نے ایک میز منتخب کی اور کھانا ختم کر کے حال میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا جائزہ لینے لگا کیونکہ اسے ایسا محسوس ہوا کہ کسی کی نگاہیں اس کا تعاقب کر رہی ہیں اتنی دیر میں ویٹر کو کھانا لاتے دیکھ کر اس کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں اور وہ کھانے پر ہاتھ صاف کرنے لگا۔
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کتنی دیر اور لگاؤ گی ابیر" بحرام صاحب ابیر کو آواز دیتے ہوئے بولے
"بس آئی پاپا"
اس نے ڈارک گرین کلر کی لونگ میکسی پہن رکھی تھی وہ اس میں بہت حسین لگ رہی تھی
"آج تو میری بیٹی بہت پیاری لگ رہی ہے" بحرام صاحب شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے "تھینک یو پاپا" ابیر نے مسکرا کر کہا اور وہ لوگ گاڑی کی طرف بڑھ گئے۔
                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارجنٹ حادی اور انسپکٹر داریان بھی تقریب میں جانے کے لیے تیار تھے دونوں نے ایوننگ سوٹ پہنے ہوئے تھے داریان تو ویسے ہی کافی ہینڈسم لگ رہا تھا مگر حادی بھی کچھ کم نہیں تھا۔
"چلیں باس تیار ہوگئے ہوں تو رخستی کا وقت ہو گیا ہے" حادی داریان کے قریب آ کر بولا
"چلو لیکن تم اپنی حرکتوں سے باز نہیں آؤ گے"  داریان مسکراتا ہوا بولا اور دونوں باہر نکل گئے۔تھوڑی دیر میں گاڑی فایو اسٹار ہوٹل کی طرف رواں دواں تھی۔
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

CONTINUE.............
GOOD READS 😊
ENJOY THE EPISODE 💜💜

مہمل (Complete)Where stories live. Discover now