یہی تو رازِ اُلفت ہے❤

215 13 25
                                    

        تُو ہے سورج تُجھے معلوم ہے رات کا دُکھ!
         تُو میرے گھر میں اُتر کسی شام کے بعد!

سورج اُفق پر نکل کر چاروں اعتراف اپنی روشنی کا بسیرا کیے ہوئے تھا۔ نیلے آسمان پر پرندے اُڑ رہے تھے۔"صدیقی ہاؤس" میں گھڑی کی سوئیاں۸ بجا رہی تھی۔ "صدّیقی ہاؤس" کے سارے مکین ناشتے کی ٹیبل پر براجمان تھے۔ یہ اصول داداجی(ظفر صاحب) نے بنایا تھا۔ بقول اُن کے وہ اپنے خاندان کے ہر فرد کو ایک ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں۔
ناشتا خاموشی میں کیا گیا۔ ناشتا سے فارغ ہوکر داداجی صدّیقی ہاؤس کے باہر دائیں اور بائیں جانب بنے باغوں میں پانی ڈالنے لگے۔
احمد اور محمد صاحب بزنس کی باتوں میں مشغول ہو گئے۔ بچے ٹیوی پر چینل سرچنگ کرنے لگے۔عورتیں ناشتے کا برتن سمیٹنے لگی۔ تبھی آمینہ بیگم انحباج سے مخاطب ہوئی۔
"انو آج دوپہر کا کھانا تُم بناؤگی"
اُنہونے سے اُسے گلاس اور بوتل پکڑاتےہوئے کہا۔

یہ فرمان سُنتےہی اُس کے چہرے کا رنگ تبدیل ہونے لگا۔عین اُسی وقت صوفے پربیٹھتے زبیر کا ہاتھ ٹیوی کے ریموٹ پر لگنے سے آواز تیز ہوئی اور سٹار پلس کے شو کی میوزک "دھوم تنانانا دھینا دھینا😂،" بجنے لگی اور سب اِس لمحے اپنی ہنسی کنٹرول کرنے لگے۔

" امّی مَیں کھانا نہیں بناؤنگی"
وہ ایک گھوری زبیر کو نواز کر آمینہ بیگم سے مخاطب ہوئی۔۔

" مَیں نے تُم سے پوچھا نہیں۔۔ ۔ تمہیں بتا رہی ہُوں ٹھیک ایک گھنٹے بعد تُم مجھے کچن میں ملو"
اُنہونے بھی انو کو گھوری سے نوازا اور برتن لے کے کچن میں چلی گئی اور انو اُن کے اِس فرمان پر اپنا سا منہ لے کر گئی۔۔۔

ایک بار پھر سب اپنی ہنسی چھپانے لگے کیونکہ انو اور کچن ناممکن سی بات تھی۔
______________________________________

وُہ دونوں آج بہت دنوں بعد ایرو کے دادو کو لے کر گھر سے قریب ہی "گرین پارک" میں آئی تھی۔ دادو پارک کا نظارہ دیکھ کر لطف اندوز ہو رہے تھے۔ قریب ہی ایرو ,دادو کے پاس بیٹھی اُن سے باتیں کر رہی تھی اور تبسّم آئسکریم لینے آئسکریم پارلر گئی تھی۔ پارلر سے نکل کر وُہ ایک نسوانی سی چیخ کے ساتھ پاس میں کھڑی گاڑی کی ڈیگی میں بیٹھ گئی۔
وُہ گاڑی میں بیٹھا موبائل میں کُچھ کر رہا تھا اور زان ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا وُہ بھی موبائل میں مشغول تھا۔ چیخ سُن کراُس نےشیشے میں دیکھا اور پھر باہر نکل کر ڈیگی کا دروازہ کھول کر اُس لڑکی کو دیکھا جو عبائے میں تھی اور سر جھکا کر رونے کا شغل منا رہی تھی۔

"چلیے باہر نکلیں، ڈیگی میں کیوں چھپی ہے اور ہے کون آپ ؟"
ڈیگی کا دروازہ پکڑ کر وُہ اُس سے مخاطب ہوا۔

" وُہ ڈوگی(کتا) "
اُس کے سوالوں کو نظرانداز کرکے وُہ باہر کی طرف اِشارہ کرکے بولی۔

ایک لمحے میں اُسے ساری بات سمجھ آئی تو وُہ اپنی مُسکراہٹ لبو میں دبانے لگا۔

"چلا گیا ڈوگی آپ باہر نکلیں"
وُہ اب ہنس نے لگا۔

یہی تو رازِ اُلفت ہے❤Unde poveștirile trăiesc. Descoperă acum