آتشِ جنون
بنتِ بابر
باب سوئم
رازِ دل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوحا طہٰ بھای آے ہیں" سوحا پوری
پلٹ گئ اور اور جوڑے میں بندھے سنہرے بال کمر پہ لہرا گۓ
"کیا مختلف تھا خواب میں سوحا؟" سوحا کا فون والا ہاتھ نیچے تھا اور اس میں سے بس کسی کہ بولنے کی آواز آرہی تھی ،،کس کی آواز آ رہی تھی یہ پتہ نہیں چلتا تھا۔
سوحا نے ہاتھ نیچے گراے ، طہٰ پہ نظریں ٹکاے رکھیں
"مجھے اپنے الفاظوں پہ شرمندگی ہے سوحا "
سوحا خاموش رہی
"میں واقعی بہت۔۔۔" اس سے پہلے وہ کچھ بولتا سوحا نے اسکی بات کاٹی
"مجھ سے معافی مت مانگیے گا طہٰ بھای،،آپکے الفاظوں اور رویہ پر اپکو جہاں شرمندگی ہے وہیں مجھے دکھ ہے،،مگر میں جوش میں بھی ہوش کو پسند کرتی ہوں" گہری سانس لے کر فون کاٹ کر سامنے صوفے پر پھینکا اور ہاتھوں سے بالوں کا جوڑا باندھنے لگی
"آپ میرے محسن ہیں میں ہر گز اپ کہ منہ سے اپنے لیے معافی نہیں سننا چاہتی،،مجھے جو دکھ ہے وہ آہستہ آہستہ ختم ہو جائیگا" پھر موبائل اٹھا کہ چلنے لگی
"سوحا۔۔۔ سوحا پلیز سمجھو میں بس تمہارے لیے فکرمند تھا "
"طہٰ بھای آپ میرے لیے فکر مند ہوتے ہیں یہ اپکا احسان ہے مگر میں آپکو جواب دہ نہیں ہوں"
"سوحا بس میں نہیں چاہتا تم تقی کہ ساتھ رہو ،،وہ اچھا لڑکا نہیں ہے"وہ جو دوبارہ جانے لگی تھی ایک دم رکی
"طہٰ بھای" وہ بس اتنا ہی کہہ پائ اسکو ان الفاظ نے دکھ دیا تھا
پھر طہٰ نے فوراً بات کو کور کیا" سوحا اس کہ ساتھ اتنا فری مت ہوا کرو اور تقی بھای کہا کرو اسے بھی،،
مجھے بھی تو کہتی ہو " طہٰ نے آخر میں پچکارتے ہوے کہا
"طہٰ بھای پلیز ،،،، پلیز،،، (ہاتھ کہ اشارے سے رک جانے کا اشارہ کیا)مجھے آپ کہ آلفاظ بلکل اچھے نہیں لگ رہے ،،آپکو بھای میں عزت احترام میں بولتی ہوں ۔۔۔میں آپکی دل سے عزت کرتی ہوں آپ میرے محسن ہیں ،،مگر تقی کہ بارے میں ایسے مت کہیں ،،،آپ اگر میرے محسن ہیں تو وہ بھی میرا دوست ہے اور میں نہیں چاہوں گی کوی میرے دوست کہ بارے میں ایسا کہے" کہہ کر رکی نہیں چلی گئ اور اس بار طہٰ کی پیچھے سے آتی آوازوں سے بھی نہیں رکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازہ بند ہوا تو ابیر نے سر لحاف سے نکال کہ دیکھا
"کیا کہہ رہے تھے وہ سوحا؟"
"وہ کیوں آے تھے ابیر؟" سوحا چلتے چلتے اپنے بیڈ تک آی
"یہ انکا جاگنگ ٹایم ہے اکثر آجاتے ہیں وہ اور شاید تم سے معافی مانگنے آے تھے آج،،رائٹ؟" ابیر بستر پر اٹھ بیٹھی
"ہاں یہی کہنے آے تھے" کہ کر لحاف منہ پہ تان لیا اور سوچتے سوچتے ہی سو گئ
تقریباً نو دس بجے تھے جب اسکی آنکھ کھلی
باہر لاونج میں تقی آج اس کہ انتظار میں کافی لیے بیٹھا تھا
تقی کو دیکھ کہ اسے طہٰ کی بات یاد آی
"صبح بخیر" تقی نے صوفے پہ بیٹھے بیٹھے کہا
"آج میں تمہارا انتظار کر رہا تھا اور کافی بھی ٹھنڈی ہو گئ ہے چلو کوی بات نہیں آج ہم کافی نیچے کیفے سے لے لیں گے "
"نہیں میں نہیں جا رہی آج،،، تقی میرے سر میں درد ہو رہا ہے" سوحا نے نا جانے کا بہانہ بنایا
تقی نے ٹانگ پہ ٹانگ چڑھای پھر غور سے اسے دیکھتے ہوے کہا
"تم جانتی ہو نا سر میں درد پاکستان میں بیماری کم بہانہ زیادہ ہے"
"کیا مطلب ہے تمہارا میں ڈرامہ کر رہی ہوں ؟ ایسا کچھ نہیں ہے واقعی میں ڈسڑرب ہوں میں" وہ منہ بنا کہ بولی
"سر میں درد اور ڈسٹرب ہونے میں فرق ہے "
"تم دادا بننا بند کرو اور جاو"
"طہٰ نے کیا کہا ہے تمہیں؟"وہ بغور اسے دیکھتا ہوا بولا
"ابیر پسے رکا نہیں گیا ناں"
سوحا نے غصے سے سر جھٹکا
"نہیں اس نے مجھے کچھ نہیں بتایا آپ نے ہی بتایا ہے،،صبح شاید آپ اپنا فون بند کرنا بھول گئ تھیں" تقی نے ایسے ہی غور سے دیکھتے ہوے کہا
"تقی رہنے دو ہماری آپس کی بات ہے ،،،بس میں آج کچھ بھی کرنا نہیں چاہتی" تقی اسے اسی طرح غور سے دیکھتا رہا پھر اٹھ کہ نیچے چلا گیا
YOU ARE READING
آتشِ جنون
RomanceA story of love And a story of revenge Read that and support ,,as I need it Lots of love بنتِ بابر